اماں انقلابی سے چاچا انقلابی کے چور پنکچرتک
عمران خان چور پنکچرکو صحیح کرنے کی بات کرتا ہے،یہ بھی انقلاب نہیں،انقلاب یہ ہے کہ مصیبت کی جڑ اس ٹائر کو ہی بدل دو۔
آپ اسے شکیل درزی کی ماں کے نام سے پکار سکتے ہیں، یہ اسلام آباد کے ایک اسپتال میں سردی لگنے کی وجہ سے سخت بیمار پڑی ہے، شکیل درزی کی ماں کے چہرے کو پاکستان کی ہر ماں میں ڈھونڈا جاسکتا ہے،آپ اسے اماں انقلابی بھی کہہ سکتے ہیں،اس ماں کو دراصل انقلاب کی سردی لگ گئی ہے، شکیل درزی لاہور سے انقلاب لانے کے لیے اپنی 80 سالہ بوڑھی ماں کو لے کرنکلا تھا،انقلاب تو نہیں آیا،شکیل درزی کی ماں سردی سے ٹھٹھر کر سخت بیمار ہوگئی۔
شکیل درزی انقلاب کے ارمان دل میں سجائے، بہت جوش کے ساتھ گھر سے لانگ مارچ میں شرکت کے لیے آیا تھا، اس نے دھرنے میں شرکت کے لیے 10ہزار روپے رکھے تھے، یہ اس کے لیے بہت بڑی رقم تھی ،اب شکیل کے پاس اپنی ماں کے علاج کے لیے پیسے بھی کم پڑگئے ہیں، مقام افسوس یہ نہیں ہے کہ اماں انقلابی کی بوڑھی ہڈیاں سردی کی شدت برداشت نہ کرسکیں، المیہ تو یہ ہے کہ شکیل اوراس کی ماں کے نزدیک ان کا قائد ڈاکٹر طاہرالقادری ملک میں انقلاب لاچکا ہے، سیاہ بادل چھٹ چکے ہیں، تبدیلی کا آغازہوگیاہے۔اس انقلابی دھرنے کا سب سے دل دوزمنظراس وقت سامنے آیا جب لانگ مارچ کے آخری دن بارش ہورہی تھی اور پرجوش انقلابی بھیگے کپڑوں اور کپکپاتے بدن کے ساتھ گرم کنٹینرکی جانب دیکھ رہے تھے ،نوجوان لڑکے لڑکیاں،بوڑھے اور بچے سب اس بے کسی کے عالم میں بھی شہادت پروف کنٹینرمیں اپنے ڈبہ پیک قائد کی صلاحیتوں کے معترف تھے،جیسے ان کو یقین تھا کہ ایک چھناکا ہوگا اور ان کا قائد زمین آسمان ایک کردے گا۔
مگرکچھ ایسا نہ ہوا اور اس پر بھی ان سادہ لوح لوگوں نے جشن منایا۔رحمان ملک نے جب انقلابی دھرنے کو ختم کرنے کے لیے آپریشن کا عندیہ دیا تو ایک بچہ کوریج میں مصروف رپورٹرکے پاس آیا اور کہنے لگا کہ انکل آپریشن کب ہوگا؟ ہم نے بھی لال مسجد والوں کی طرح شہید ہونا ہے، ایک نوجوان اپنے پانچ دوستوں کے ہمراہ لندن سے پاکستان میں انقلاب لانے کے لیے پہنچا ہوا تھا، ایک خاتون نے اپنا سارا زیور اس انقلاب کے لیے بیچ دیا تھا، اس لانگ مارچ کے لیے انقلاب اور قوم کے جذبات سمیت سب بک گیا۔طاہرالقادری کا لانگ مارچ اپنی نوع کا واحد احتجاج تھا جو ایسی حکومت کے خلاف ہوا جو خود رضا بخوشی جا رہی ہے اور ایسے الیکشن کمیشن کے خلاف تھا جس پر پورے پاکستان کا اجماع ہے مگرایک بات اس سے بھی عجیب تر تھی کہ لوگ پھر بھی ان بے تکے مطالبات کو انقلاب سمجھتے رہے۔
انقلاب پاکستان کے لوگوں کی ضرورت ہے ،لوگ دل سے تبدیلی کے خواہاں ہیں مگراب شاید یہ خواہش کوئی نہ کرے کیوں کہ ان پانچ دنوں میں انقلاب کو قتل کیاجا چکا ہے،پاکستان کے لوگوں کے دلوں میں انقلاب مرگیا، اس لانگ مارچ میں جتنی بے حرمتی انقلاب کی ہوئی ہے، دنیا کی تاریخ میں اس کی نظیر نہیں ملتی،اہل پاکستان بہت سادہ لوح ہیں،کوئی بھی شخص ان کو انقلاب کا لالی پاپ دے کر کچھ بھی کروا سکتا ہے،اس لانگ مارچ کے بعد پاکستان میں انقلاب ایک گالی اور تہمت بن چکا ہے،اب حقیقی انقلاب کا نعرہ بھی لگا تو پاکستان کے لوگ اس کو شک کی نگاہ سے دیکھیں گے۔پاکستان کے لوگوں کی انقلاب سے انسیت کی معقول وجہ ہے، ملک کے حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ اب انقلاب ہی واحد راستہ رہ گیا ہے تاہم دانش وروں کا یہ فرض ہے کہ لوگوں کو یہ بتائیں کہ انقلاب دراصل کیا ہوتا ہے،اہل قلم اس موضوع پر بھی قلم اٹھائیں کہ انقلاب کس چڑیاکا نام ہے تاکہ اب کوئی پاکستان کے معصوم عوام کو انقلاب کے نام پر بے وقوف نہ بناسکے۔
طاہرالقادری کے انقلاب پردھرنے کے شرکا کے پرجوش جشن نے مجھے چاچا انقلابی کے پاس پہنچادیا، چاچا انقلابی تحریک پاکستان میں شامل تھے،ہجرت کے وقت اپنے خاندان سے بچھڑگئے ،کراچی میں موٹر سائیکل میں پنکچرلگانے کی دکان کھول لی،تحریک پاکستان کے وقت یہ مسلم اسٹوڈنٹس میں سالار ہوا کرتے تھے، میں نے ان سے پوچھاکہ انقلاب کیا ہوتاہے؟انھوں نے مجھے ایک ٹائر دکھایا، کہنے لگے کہ اس ٹائر میں چورپنکچر ہو چکا ہے،ہوابھروا کر یہ تھوڑی دیرچل تو سکتا ہے مگر پھر اس کی ہوا نکل جاتی ہے،یہ پاکستان کا موجودہ نظام ہے،جس میں جگہ جگہ چورپنکچر ہیں،عمران خان اس چور پنکچرکو صحیح کرنے کی بات کرتا ہے،مگر یہ بھی انقلاب نہیں ہے،یہ تو اسی ٹائر کو چلانے والی بات ہے،انقلاب تو یہ ہے کہ مصیبت کی جڑ اس ٹائر کو ہی بدل دو۔