منفی ہتھکنڈے
پاکستان میں انتشار، خون خرابے اور بغاوت جیسے معاملات میں بھارت کی ’’را‘‘ کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں۔
کشمیر کو قائد اعظم نے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا اور بھارت اسے اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا ہے۔کشمیر کا ایک حصہ تو مجاہدین نے آزاد کرالیا تھا اور قریب تھا کہ پورے کشمیر کو آزادی میسر آجاتی لیکن بھارت کے یو این او میں چلے جانے کی وجہ سے اس مسئلے کو کشمیر کے استصواب رائے سے مشروط کردیا گیا، اس تجویز کو تسلیم تو کرلیا گیا لیکن 5 جنوری 1949کو منظورکردہ اس قرارداد پر آج تک عمل درآمد نہیں کیا گیا، بھارت نے غاصبانہ قبضے کو مستحکم کرنے کے لیے سات لاکھ فوج بھی لگا رکھی ہے ،گزشتہ 64 برسوں میں ایک لاکھ کشمیری شہید کیے گئے چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال اور بنیادی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں جاری ہیں خواتین کی بے حرمتی کے واقعات اور اجتماعی قبروں کے انکشافات بھی سامنے آتے رہتے ہیں، اس سلسلے میں بھارتی حکومت ایک حکمت عملی کے تحت ہر قسم کا منفی پروپیگنڈا اور دروغ گوئی مبالغہ آرائی کے ہتھکنڈے استعمال کرتی چلی آئی ہے جب کہ ہماری حکومتیں اپنا موثر کردار ادا کرنے سے غافل رہی ہیں۔
خاص طور پر پرویز مشرف اور موجودہ دور حکومت میں کشمیر کے مسئلے کو پس پشت ڈال کر بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھانے کا سلسلہ جاری ہے۔ امن کی آشا آزادانہ تجارت و آمدورفت اور بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دیے جانے کے عمل میں شریک کچھ سرگرم افراد طبقات اور تنظیمیں اور ہمارے حکمراں قومی مفادات، مستقبل، نظریات اور ملکی دفاع کو نظرانداز کر بیٹھے ہیں۔ محافل و فنکاروں کے تبادلے انڈین ڈراموں، فلموں، کلچر شوز، گائیکی کے مقابلوں اور فنکاروں کی ایک دوسرے کے ملک میں آمد و رفت اور پروگراموں نے عوام اور خواص دونوں کی نظریں خیرہ اور عقل ماؤف کردی ہے، پاکستانی سینما گھروں میں بھارتی فلموں کا راج ہے۔
ٹی وی ڈراموں اور بھارتی فلموں سے نوجوان نسل اپنے تشخص اور کلچر کو بھول کر انڈین کلچر کے رنگ میں رنگتی جارہی ہے، فنکاروں کے تبادلے بھاری معاوضے، انعام و اکرام اور نوازشات اور سرتال کے مقابلوں میں پاکستانی فنکاروں کی فتح بھی شاید اسی حکمت عملی کا حصہ ہے، ہندوستان جانے والے بعض فنکاروں کا رویہ بھی ملک وقوم کے لیے مناسب نہیں ہے، جن کے اسکینڈل اور دولت کی ہوس پر مبنی واقعات سامنے آتے رہتے ہیں جو نوٹوں سے بھرے بریف کیس ادھر سے ادھر کرتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ ٹیکس دینا بھی ضروری ہوتا ہے۔ سابقہ بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی دو قومی نظریے کو گنگا جمنا میں ڈبو دینے اور ان کی بہو سونیا گاندھی پاکستان کو ثقافتی جنگ میں شکست دینے کا برملا دعویٰ کرچکی ہیں، ان کے دعوؤں کو یکسر مسترد کرنے کے لیے ہمارے پاس کوئی جواز و جواب بھی نہیں ہے۔
گزشتہ دنوں وزیر اعظم کے زیرصدارت کابینہ کے اجلاس میں وزارت تجارت نے بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کے فیصلے پر فوری طور پر عملدرآمد کی ہدایت کی ، آج سے پہلے ہندوستان کے ساتھ تجارتی اشیاء کی مثبت لسٹ ہوا کرتی تھی اب اس کو ختم کرکے اس کی جگہ منفی لسٹ بنادی گئی ہے، ان کے سوا تمام اشیاء بھارت سے درآمد کی جاسکتی ہیں، اس اقدام کے قومی معیشت پر برے اثرات مرتب ہوں گے ، عوامی اور تجارتی حلقوں نے اس اقدام کی شدید مخالفت کی ہے جب کہ وزارت صنعت کی طرف سے بھی اس پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔
بھارتی حکومت اور میڈیا کی جانب سے ایک طرف تو پاکستان کے ساتھ دوستی، محبت اور تجارت کا ڈھونگ رچایا جارہا ہے، دوسری جانب مکر و فریب، دھونس اور دھمکیوں سے کشمیر پر اپنے قبضے کو مستحکم کرنے کے لیے عالمی سطح پر پاکستان کو بدنام اور رسوا کرکے عالمی ہمدردی حاصل کرنے کی تگ و دو میں لگا ہوا ہے۔ پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کرکے سیاسی، عسکری اور تجارتی فوائد بھی حاصل کر رہا ہے، بھارتی حکومت اور میڈیا نے پاکستانی فوج پر آزاد کشمیر کی کنٹرول لائن کو پار کرکے جموں کشمیر کے علاقے میں داخل ہونے اور دو بھارتی فوجیوں کے قتل کرکے پاکستان لے جانے کا پروپیگنڈا کرکے زمین آسمان ایک کردیا اور دنیا بھر کے ممالک اور سفیروں کو پاکستان کے خلاف گمراہ کرنے کا بھرپور عمل شروع کررکھا ہے۔
حالانکہ خود بھارتی کمانڈر اس قسم کے کسی واقعے کے رونما ہونے کی تردید کر چکا ہے، بھارت نے پاکستانی فوج پر الزام لگایا ہے کہ 6 جنوری کو پاکستان کے فوجی بھارتی حدود میں گھس کر دو بھارتی فوجیوں کا سر قلم کرکے پاکستان لے گئے اور دو فوجیوں کو زخمی کرکے اور لاشوں کی بے حرمتی کی گئی۔ بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید نے اس کارروائی کو ناقابل اور جنگ بندی کے خلاف قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان فوجیوں کے وحشیانہ قتل کا جواب نئی دہلی دے گا اور یہ کہ ہم چاہتے ہیں کہ کچھ کیا جائے اور کریں گے تاہم وزارت دفاع کے مشورے کے بعد کچھ کیا جائے گا، بھارتی آرمی اور ایئر چیف نے بھی پاکستان کو دھمکیاں دی ہیں اور بھارتی فوج کو فری ہینڈ دے دیا ہے کہ وہ پاکستانی فوج کے خلاف کسی بھی کارروائی میں آزاد ہیں، اس سلسلے میں دونوں ممالک کے ڈی جی آپریشن کے رابطے اور فلیگ میٹنگز بھی بے سود رہیں اور اس کے بعد کے بھارتی حملوں میں کئی پاکستانی فوجی اور شہری جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔
بھارت کے الزامات پر پاکستان نے یو این او کے ملٹری آبزرور گروپ سے تحقیقات کرانے کی پیشکش کی تھی جب کہ بھارتی وزیر خارجہ نے سرحدی جھڑپوںکے معاملے کو اقوام متحدہ سے تفتیش کرانے کے معاملے کو یکسر مسترد کردیا ہے جس سے بھارتی حکومت کے عزائم اور جھوٹ کا پول کھل جاتا ہے۔ بالفرض اگریہ الزامات صحیح بھی ہیں تو کیا ایک ایٹمی قوت کے حامل ملک کی طرف سے دوسرے ایٹمی ملک پر دو فوجیوں کے قتل کا الزام لگاکر خطے کے دو ارب انسانوں کی جانیں، امن کی آشا، آزادانہ تجارت، ویزے، تیل، گیس اور کوئلے جیسے باہمی منصوبوں کو خطرے میں ڈال دینا کہاں کی دانشمندی ہوسکتی ہے، ماسوائے دباؤ اور بلیک میلنگ کے؟بھارت پاکستان کی مخاصمت میں بسااوقات ڈپلومیسی اور منافقت کے فرق کو ختم کردیتا ہے۔
پاکستان میں انتشار، خون خرابے اور بغاوت جیسے معاملات میں بھارت کی ''را'' کے ملوث ہونے کے شواہد ملے ہیں،امن کی بات کرنے والوں کو کھیل کے میدان میں پاکستانی ٹیم کی فتح تک برداشت نہیں ہوتی، انڈین پریمیئر لیگ سے پاکستانی کھلاڑیوں کو باہر کردیا گیا ہے پاکستان کرکٹ بورڈ کے ڈی جی جاوید میانداد کو انتہا پسند بھارتی تنظیموں اور سیاستدانوں کے طرز عمل کی وجہ سے بھارت کا دورہ منسوخ کرنا پڑا، حد تو یہ ہے کہ اس واقعے کو جواز بناکر کنٹرول لائن پر بسیں روک دی گئیں، بھارتی کانفرنس میں مدعو کراچی چیمبر آف کامرس کے تاجروں کو اجلاس میں شرکت سے روک کر ہوٹلوں میں محبوس رہنے پر مجبور کردیا، یہ واقعات ہماری آنکھیں کھول دینے اور آشا و نراشا کے فرق کو محسوس کرنے کے لیے کافی ہیں، دوستی کی جس ڈگر پر ہم چل رہے ہیں یا ہمیں چلایا جارہا ہے اس کا نتیجہ بھارتی ثقافت کا غلبہ، قومی مفادات سے دوری، دستبرداری اور عالمی سیاسی تنہائی کی صورت میں نکلے گا۔
جیساکہ خیال کیا جارہا ہے کہ افغانستان سے نیٹو اور امریکیوں کے انخلاء کے مرحلے پر بھارت افغانستان میں پاکستان کے خلاف اسٹریٹجک پوزیشن اور افغان حکومت اور افواج میں اپنا عمل دخل ختم ہونے کے امکانات کے پیش نظر پاکستان کے خلاف کئی اطراف سے دباؤ بڑھانے کے لیے منفی ہتھکنڈے استعمال کرنے جارہا ہے۔ سرحدی جھڑپوں اور خلاف ورزیوں کا واویلا بھی اسی حکمت عملی کا حصہ نظر آتا ہے۔ یو این او کی قرارداد جو مسئلہ کشمیر کا قانونی حل ہے پر عملدرآمد کے بغیر بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینا اور امن کی آشا رکھنا، خود فریبی اور سعی لاحاصل کے سوا کچھ ثابت نہ ہوگا اور اس یک طرفہ اور غیر مشروط دوستی پر کشمیر کے مسئلے پر عالمی برادری مزید سردمہری، خاموشی اور پھر لاتعلقی اختیار کرلے گی اور غیرحقیقی و یکطرفہ دوستی تماشہ اور تجارت کا کسی بھی وقت دھڑن تختہ ہوسکتا ہے۔ امن کی آشا نراشا میں تبدیل ہوسکتی ۔