محنت کش عوام اور غیر جمہوری قوتیں 1

سول حکومت کو زیادہ مضبوط بنانے کے لیے حزب اختلاف کی باہمی رضامندی سے غیر جانبدار الیکشن کمیشن کا تقرر کرلیا ہے۔


محمد رمضان میمن January 21, 2013

کیا پاکستان میں جاگیردار،سیاستدان اور بعض طاقتور گروہ اپنے مفادات سے آسانی کے ساتھ دست بردار ہو جائیں گے؟ان مفاد پرست طبقات اور گروہ کے راستے میں سب سے بڑی رُکاوٹ محنت کش عوام،قومی حقوق کی تحریکیں اور عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونیوالے جمہوری ادارے ہیں۔ پاکستان میں اب تک غیر جمہوری عوام دشمن قوتوں نے محنت کشوں، قومی حقوق اور جمہوری تحریکوں کو ریاستی اداروں کے جبر اور فوج کشی کے ذریعے کچلا ہے یا ان کے موقع پرست، انتہا پسند رہنماؤں کے ذریعے کنٹرول کیا ہے۔

ہر بار اپنی ہی مسلط کردہ سیاسی پارٹیوں اور ان کے بے اختیار رہنمائوں کی کمزوریوں کو جواز بنا کر سادہ لوح، غریب عوام کو ان کے حقوق، مذہبی اور ملکی مفادات کے جذباتی خوشنما نعرے لگوا کر جمہوری نظام کو قائم رکھنے والے سیاسی عمل کو رُکوانے کے لیے عوام کو سڑکوں پر لاکر مارشل لا کے ذریعے آمریتیں قائم کرنے میں کامیاب ہوتے رہے ہیں، ماضی میں آمریت قائم کرنیوالوں میں میڈیا کا کردار بھی بہت اہم رہا ہے، اس کے علاوہ غیر جمہوری طرز حکومت کو قانونی جواز فراہم کرنے کے لیے پچھلی عدالتوں نے اپنا کردار ادا کیا۔ میں زیادہ ماضی میں نہیں جارہا صرف اپنے ذاتی زندگی کا تجربہ بتاتا ہوں۔

ایوب خان کی فوجی آمریت کے خلاف پورے پاکستان کے محنت کش عوام نے اپنے حقوق کے مطالبات کے لیے محکوم قوموں، بنگالی، بلوچ، پختون اور سندھیوں نے ون یونٹ کے خاتمے اپنے قدرتی وسائل پر حق ملکیت اور دیگر حقوق کے لیے جمہوریت پسند عوام میں ایک آدمی ایک ووٹ کامطالبہ منوانا چاہا ،جب کہ سامراج دشمن،جاگیردار مخالف قوتوں کا اتحاد بناکر جدوجہد کی تو امریکا اور اس کے اتحادیوں کے مفادات کے خلاف سویت یونین کے ذریعے ہندوستان کے ساتھ ہونیوالے امن کے معاہدے تاشقند کو ختم کرنے کے لیے ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ سے ذوالفقار علی بھٹو کو نکال کر ایوب آمریت کے خاتمے کے لیے عوام کی اکثریت کے مطالبات روٹی کپڑا اور مکان کے مطالبوں، اسلامی سوشلزم اور انقلاب کے جذباتی نعروں کے ذریعے اس وقت کے اہم سیاسی تضاد بنگالیوں اور دیگر قوموں کی حقوق کی جدوجہد کے خلاف مغربی پاکستان خاص طور پر پنجاب اور سندھ کے عوام کو کھڑا کیا گیا۔

جب مشرقی پاکستان کے بنگالی عوام نے 1970 کے انتخابات میں اپنی سیاسی پارٹی عوامی لیگ کے حق میں فیصلہ دیا تو اکثریت کے فیصلے کو ماننے،منتخب اسمبلی کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کرنیوالی اکثریت کو غدار قرار دیا گیا ،پاکستان کے سادہ لوگوں کو یہ سمجھایا گیا کہ بنگالیوں کی اکثریت کو نہ مانا جائے، وہ غدار ہیں اور ان کی حمایت میں بات کرنیوالے سندھ بلوچستان ،پختون خواہ اور پنجاب کے ترقی پسند بھی غدار ہیں ۔عوام کا یہ ذہن بنانے میں میڈیا کا عوام دشمن کردار بہت اہم اور واضح تھا۔ مغربی پاکستان میں بھی ہمیشہ عوام دوست ترقی پسندوں اور قوم پرستوں کو سزائیں دیکر عوام دشمن آمریت پسندوں کے غلط موقف اور عمل کو تقویت پہنچائی گئی۔ اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے ذریعے پاکستان کی ترقی پسند قوم پرست پارٹی ،نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی لگا کر بلوچستان اور پختون خواہ میں نیشنل عوامی پارٹی اور جمیعت علماء السلام کی جمہوری طور پر منتخب قوم پرست حکومتوں کو غیر جمہوری طریقے سے برطرف کرایا گیا ،بلوچستان پر فوج کشی کی گئی اور عدالت سے نیشنل عوامی پارٹی پر پابندی کو جائز قرار دلوایاگیا۔

1977 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی سویلین حکومت نے جب ملک دشمن،غیر جمہوری ملکی اور بین الاقوامی قوتوں کے بے لگام مفادات پر کسی حد تک روک لگانی شروع کی،خود ذوالفقار علی بھٹو نے معاہدہ تاشقند کی طرح ہندوستان سے شملہ معاہد ہ کر لیا تو انتخابات میں دہاندلیاں کرانے کے الزامات کے تحت ان کے خلاف تحریک شروع کرائی گئی جو اسلامی انقلاب،نظام مصطفی کے قیام کے خو شنما نعروں کے ذریعے عوام کو اپنے ساتھ سڑکوں پر لے آئی،ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا خاتمہ کرنے کی تحریک میں بلوچستان،پختون خواہ اور سندھ کے قوم پرستوں کے ساتھ تمام مذہبی پارٹیوں کو متحد کر دیا گیا،محکوم جمہوریت ملک میں بہتر جمہوریت کی بجائے فوجی آمریت لے آئے۔ قانونی طور پر آئین توڑنیوالے فوجی آمر جنرل ضیا ء الحق کو مکمل تحفظ دیا گیا ،ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت دی گئی۔ ماضی میں سوویت یونین، سوشلسٹ بلاک اس سے وابستہ غیر ممالک کی تحریکیں خاص طور پر ہندوستان سے دشمنی پاکستان کی نظریاتی اساس بن گئیں، ہندوستان دشمنی کے بغیر پاکستان کی نوکرشاہی اور رجعت پسند مذہبی جماعتیں اپنا مذہبی انتہا پسندی کا جواز کھو دیتی ہیں ۔

اب جب کہ بہت ہی مشکل اور کٹھن جدوجہدکے بعد 1988 سے اب تک آمروں اور سول حکومتوں کی باہمی کشمکش کھلے عام جاری رہی، بے جا مداخلت کر کے سویلین حکومتوں کو بار بار توڑاگیا ، طاقتور اداروں نے فوجی آمریتوں کا ساتھ دیا، محترمہ بینظیر کی شہادت کے بعد موجودہ بر سراقتدار پیپلز پارٹی اور اس کے اتحادیوں کی حکومت اور مسلم لیگ نواز اوراس کے اتحادیوں کی حزب اختلاف جب اپنے داخلی اختلافات کے باوجود پارلیمنٹ کی بالادستی قائم کرنے میں کسی حد تک کامیاب ہوگئیں۔انھوں نے پاکستان کی قومی اسمبلی اور سینیٹ سے اٹھارویں ترمیم منظور کر کے پاکستان کو مصنوعی پاکستانی قومیت والی مرکزی ریاست بنانے کے بجائے کثیرالقومی وفاقی ریاست بنانے کے طرف پیش رفت شروع کر دی ہے پھر پڑوسی ملک ہندوستان سے دوستانہ تعلقات قائم کرنے کے لیے تجارت کے میدان میں ہندوستان کو پسندیدہ ملک قرار دیدیا ہے، ملک میں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی سویلین حکومت کو زیادہ مضبوط اور قابل قبول بنانے کے لیے حزب اختلاف کی باہمی رضامندی سے غیر جانبدار الیکشن کمیشن کا تقرر کرلیا ہے، درمیانی مدت کے لیے غیر جانبدار وفاقی اور صوبائی حکومتیں بنانے کا پیچیدہ کام کر رہی تھی کہ ملک میں غیر جمہوری مطالبات منوانے کے لیے تحریک شروع کردی گئی۔

(جاری ہے)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں