’کمّی‘ حکومتوں میں بھی ہوتے ہیں

جب تک حکومتوں میں کمی موجود ہیں، سائیں گناہ کرتے رہیں گے۔

کمی صرف دیہاتوں اور گوٹھوں میں ہی نہیں بلکہ حکومتوں میں بھی ہوتے ہیں۔

رب نواز سائیں شیر محمد کا کمّی تھا۔ یہ اندرونِ سندھ کا رہائشی تھا۔ اِس کی دس نسلیں حویلی میں کمّی کے عہدے پر تعینات رہی تھیں، مزید لکھنے سے پہلے میں کمّی کے بارے میں مختصر تعارف پیش کرنا چاہتا ہوں۔ کمّی اندرون سندھ اور پنجاب کا ایک دلچسپ کردار ہے۔ یہ نسل در نسل وڈیروں اور سائیں کے غلام رہتے ہیں اور کمّی ہونے پر باقاعدہ فخر بھی محسوس کرتے ہیں، اور اِن کی سب سے بڑی خوبی یہ ہوتی ہے کہ یہ چوہدریوں اور وڈیروں کے گناہوں کی سزا اپنے سر لینے کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں، کیونکہ اِس کے عوض اُنہیں بھاری معاوضہ بھی ملتا ہے، اُس کے بیوی بچوں کو خصوصی مراعات بھی دی جاتی ہیں اور جب تک کمّی جیل میں سزا بھگتا ہے اُس کے خاندان کو کسی بھی چیز کی قلت نہیں ہونے دی جاتی۔ گوٹھ اور گاؤں کے لوگ کمّی کی عزت بھی کرتے ہیں، کیونکہ سائیں اور چوہدری کے علاوہ کوئی بھی شخص اُس کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا۔

 

 

 

اب میں کہانی کی طرف واپس آتا ہوں۔ سائیں شیر محمد نے گوٹھ کے دس خاندانوں کی زمین پر ناجائز قبضہ کر رکھا تھا۔ مظلوموں نے سائیں کے خلاف علمِ بغاوت بلند کردیا۔ سائیں نے بغاوت کو کچلنے کے لئے اُن دس خاندانوں کو سرِعام قتل کردیا۔ کیس تھانے چلا گیا اور انکوائری شروع ہوگئی۔ ایس ایچ او سمیت پورا گاؤں بھی جانتا تھا کہ قاتل گوٹھ کا سائیں ہے، لیکن رب نواز کمّی کے عہدے کا حق ادا کرنے کے لئے تھانے پیش ہوگیا اور قتل کی ساری ذمہ داری قبول کرلی۔ رب نواز جیل چلا گیا اور سائیں نے اُس کے خاندان کی ذمہ داری اُٹھا لی۔ اُس کے گھر کی چھت پکی کروا دی اور جیل میں بھی وی آئی پی کمرہ دلوایا دیا۔

رب نواز 6 ماہ بعد جیل سے رہا ہوگیا اور اب پھر سے سائیں کے کردہ گناہ کے لئے جیل جانے کو تیار ہے۔ آپ کمّی رب نواز کے کردار کو سامنے رکھیں اور اُس کا موازنہ ڈان لیکس میں طارق فاطمی اور راؤ تحسین کے کردار سے کریں تو آپ یقیناً ایک دلچسپ صورتحال کا مشاہدہ کرسکیں گے، کیونکہ انہیں بھی حکومت کے گناہوں کے بدلے سزا کے لئے پیش کردیا گیا ہے اور اب وہ یہ سزا بھگت بھی رہے ہیں۔ کیونکہ کمّی صرف دیہاتوں اور گوٹھوں میں ہی نہیں بلکہ حکومتوں میں بھی ہوتے ہیں۔

اب میں تصویر کے دوسرے رخ کی جانب آتا ہوں، وہ یہ ہے کہ اگر ڈان لیکس میں مریم نواز یا دیگر نواز شریف کے قریبی سینئر حکومتی ارکان مجرم ثابت کردیے جاتے تو یہ کیس اُن کی سیاست کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوتا۔ پورے ملک میں انہیں غدارِ وطن، بھارتی ایجنٹ، سیاسی دہشت گرد قرار دے دیا جاتا۔ اُن کے خلاف جلوس نکالے جاتے، ہر گلی اور چوراہے پر اُن کے پتلے جلائے جاتے، اُن کے پتلوں کو جوتوں کے ہار پہنائے جاتے، اُن کے خلاف ملک کو نقصان پہنچانے پر سزا دینے کے لیے ملکی عدالتوں میں کیس چلانے کے لیے تحریک زور پکڑ جاتی۔


دیکھتے ہی دیکھتے عمران خان اور دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے اُن کے خلاف غداری کا مقدمہ فوجی عدالتوں میں چلانے کا مطالبہ بھی کردیا جاتا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سوشل میڈیا انہیں بھاری پڑجاتا۔ ملک کے خلاف سازش کرنے والوں کے خلاف نئے فیس بک پیجز بن جاتے اور یہ افراد ہر طرف اپنی صفائیاں پیش کرتے رہتے۔

لیکن مریم نواز اور دیگر سینئر ن لیگی رہنماوں کی یہ سب کوششیں رائیگاں ہی جانی تھیں کیونکہ ملک پاکستان کی عوام فوج سے دل و جان سے محبت کرتی ہے اور پاک فوج کے خلاف سازش کرنے والے کو کبھی بھی معاف نہیں کرسکتی۔ مزید براں اگر آپ ڈان لیکس فیصلے اور پانامہ فیصلے میں فرق تلاش کریں تو دلچسپ حقائق بھی سامنے آئیں گے۔ ڈان لیکس فیصلہ اور پانامہ کے فیصلے میں پہلا فرق یہ ہے کہ ڈان لیکس کو صدیوں یاد رکھنے کا کوئی دعویٰ نہیں کیا گیا، اِس لئے عوام اضطراب اور ہیجان کی کیفیت سے بچ گئے۔

دوسرا فرق یہ ہے کہ پانامہ کے فیصلہ کو سمجھنے کے لئے قانونی ماہرین کی ضرورت تھی۔ فیصلہ اِس قدر الجھن آمیز تھا کہ پہلے نواز شریف نے خوشی کا اظہار کرنے کیلئے قوم سے خطاب کرنے کا فیصلہ کیا لیکن جب وکلاء نے آکر فیصلہ سمجھایا تو نواز شریف نے قوم سے خطاب کا فیصلہ 2018ء کے متوقع الیکشن تک ملتوی کردیا، جبکہ ڈان لیکس کا فیصلہ آتے ہی سمجھ آگیا کہ یہ کس کے خلاف آیا ہے اور کس کے حق میں لکھا گیا ہے۔

اکثریت کو 2 کے پہاڑے کی طرح یاد بھی ہوگیا ہے۔ پانامہ کے فیصلے نے قوم کو تقسیم کردیا ہے جبکہ ڈان لیکس کے فیصلے نے قوم کو ایک مرتبہ پھر متحد کردیا ہے اور حکومت کو پیغام دیا ہے کہ پاک فوج کے خلاف کوئی بھی سازش کامیاب نہیں ہونے دی جائے گی۔

پانامہ کیس میں وزیراعظم، چیئرمین نیب، ڈی جی ایف آئی اے سمیت کئی اداروں کو قصور وار ٹھہرایا گیا، لیکن اِن میں سے کسی ایک کو بھی سزا نہیں دی گئی۔ ڈان لیکس میں طارق فاطمی اور راؤ تحسین کو قصوروار قرار دیا گیا اور عہدے سے بھی ہٹا دیا گیا۔ ڈان لیکس میں پرویز رشید پر الزام لگا تو انہیں فوراً عہدے سے ہٹادیا گیا، تاکہ صاف و شفاف تحقیقات کی جاسکیں لیکن پانامہ کیس میں وزیراعظم پر الزامات کے بعد اُن کوعہدے سے نہیں ہٹایا گیا تاکہ وہ اپنے ماتحت اداروں پر دل کھول کر اثر انداز ہوسکیں۔

اِن تمام تر فرق کے باوجود صرف ایک فیصلہ ایسا ہے کہ جو دونوں فیصلوں میں مشترک ہے اور وہ ہے مریم نواز کا مکھن میں سے بال کی طرح نکل آنا۔ ہمیں یہ بات بھی ماننا ہوگی کہ مریم نواز بھی باپ جیسی قسمت لے کر پیدا ہوئی ہیں۔ پانامہ ہو یا ڈان لیکس وہ دونوں میں بے گناہ اور معصوم قرار پائی ہیں۔ مریم نواز کو کلین چِٹ، پرویز رشید، طارق فاطمی اور راؤ تحسین کی برطرفی اِس بات کا واضح ثبوت ہے کہ جب تک حکومتوں میں کمّی موجود ہیں، سائیں گناہ کرتے رہیں گے۔ مریم نواز جیسے نااہل لوگ مستقبل کے وزیراعظم بنتے رہیں گے اور ہماری آنے والی نسلیں غلام ابن غلام جیسی زندگی گزارتی رہیں گیں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔
Load Next Story