خود رو قوم

ہم دراصل ایک ایسی قوم ہیں جہاں لوگ پیدا ہوتے ہیں اور کسی تربیت کے بغیر ہی بڑے ہوجاتے ہیں

moazzamhai@hotmail.com

ISLAMABAD:
اس سال 28 مارچ رات کے سوا بارہ بجے کے آس پاس کا کوئی وقت تھا اور یونس اس فکر میں تھا کہ وہ ریلوے کراسنگ کے گیٹ بند کر دے۔ ہرن مینار ریلوے اسٹیشن کے پاس واقع اس ریلوے کراسنگ سے کراچی کو جانے والی شالیمار ایکسپریس بس اب گزرنے کو تھی۔ یونس کی یہ کوشش مگر ایک آئل ٹینکر کے ڈرائیور نے ناکام بنا دی جب اس نے بند ہوتے ہوئے ریلوے پھاٹک سے پہلے رکنے کے بجائے جلدی سے اپنا آئل ٹینکر ریلوے کراسنگ سے گزارنے کی کوشش کی۔ اس کوشش میں ٹرک کا ایکسل جواب دیا گیا اور تیل سے لبالب بھرا ٹینکر عین ریلوے لائن پہ جام ہو گیا۔

یونس اور آس پاس کے لوگوں نے زور لگایا مگر تیل سے بھرے اس ٹینکر کو دھکا دینا تو دور کی بات ہلانا جلانا بھی ممکن نہ تھا۔ گیٹ کیپر یونس نے شیخوپورہ اسٹیشن ماسٹر اور لاہور سینٹرل کنٹرول آفس سے رابطہ کرنے کی کوشش کی مگر ناکام رہا۔ یونس پھر اپنی سرخ رنگ کی قمیض لہراتا آتی ہوئی ٹرین کی طرف دوڑا مگر بدقسمتی کہ ٹرین ڈرائیور اور اس کا اسسٹنٹ دونوں ہی یونس کو نہ دیکھ پائے اور ٹرین ایک تباہ کن قوت کے ساتھ مین ریلوے لائن پہ جمے آئل ٹینکر سے جا ٹکرائی۔

ٹرین اور آئل ٹینکر کے اس ہلاکت خیز تصادم کے نتیجے میں ایک خوفناک آگ بھڑک اٹھی۔ شالیمار ایکسپریس کی چھ بوگیوں کے ساتھ ساتھ ریلوے لائن کے نزدیک ایک گھر بھی آگ بگولا شعلوں کی لپیٹ میں آ گیا۔ مسافروں نے ڈبوں کی کھڑکیاں توڑیں اور باہر کود کر اپنی جانیں بچائیں تاہم ٹرین ڈرائیور عبداللطیف، اس کا اسسٹنٹ عبدالحمید اور نزدیکی گھر کا رہائشی بشیر موقعے پر ہی اپنی زندگیوں سے محروم ہو گئے۔ دس افراد زخمی بھی ہوئے، اس حادثے کے بعد وہی ہوا جو یہاں ہمیشہ ہوتا ہے۔ وزیر صاحب نے تحقیقات کرانے والا گھسا پٹا بیان داغ دیا تو دوسری طرف حکومت کے جملہ مخالفوں اور حاسدوں نے بیانات کافی البدیہہ تبرا بھیجا، ٹی وی اینکروں نے ریلوے کے فرسودہ مواصلاتی نظام کو کوسا کاٹا اور یوں یہ قصہ تمام ہوا، کسی اور بریکنگ نیوز کا شور شرابا پھر شروع ہوا۔


آخرکو تین آدمیوں کا جل مرنا، دس کا زخمی ہو جانا اور ریل کے چھ ڈبوں کا ملیا میٹ ہو جانا پاکستان میں کوئی ایسی بڑی بات تو نہیں کہ جس کا رونا ایک آدھ دن سے زیادہ رویا جائے مگر اس ایک آدھ دن کے پورے آدھے ہنگامے میں مجال ہے جو کسی بڑبولے بقراط نے یا کسی تنتناتے طرم خان نے جو غلطی سے بھی اصل مسئلے پہ بات کی ہو یعنی آئل ٹینکر ڈرائیور کی بے صبری۔ آخر آئل ٹینکر کے ڈرائیور پہ خدا کی ایسی کیا مار پڑی تھی کہ وہ ریلوے پھاٹک پہ ایک دو منٹ رک نہیں سکتا تھا؟

آخر اس شخص پہ ایسی کیا آفت ٹوٹ پڑتی جو وہ پھاٹک کھلنے کا ایک آدھ منٹ انتظارکر لیتا؟ آخر اس شخص کو ایسی بھی کیا جلدی تھی کہ اس نے اپنی اور دوسروں کی جان، جان بوجھ کے خطرے میں ڈالی؟ کیا اس آدمی کو معلوم نہیں تھا کہ ریلوے پھاٹک اسی وقت بند کیا جاتا ہے جب کوئی ٹرین گزرنے والی ہو؟ کیا اس آدمی کو معلوم نہیں تھا کہ جلدی اور زبردستی میں بند ہوتے پھاٹک سے آئل ٹینکر گزارنے میں ریل سے ٹکرا جانے کا جان لیوا خطرہ بھی موجود ہے؟ یہ شخص حقیقتاً ان تین انسانوں کا قاتل، دس افراد کے زخموں کا مجرم اور سرکاری و عوامی املاک کو بھاری نقصان پہنچانے کا مکمل ذمے دار ہے۔ اس شخص نے اپنی بے صبری سے وہ کام کیا جو دہشتگرد اپنی دہشتگردی سے کرتا ہے یعنی انسانی جانیں لینا اور سرکاری اور عوامی اثاثوں کو نقصان پہنچانا۔

مگر ذرا ٹھہریے اور سوچیے کہ یہ باقی قوم اس بے صبرے ٹینکر ڈرائیور سے ذرا بھی مختلف ہے کیا؟ کیا ہم تقریباً سب ہی اتنے ہی بے صبرے نہیں؟ ہم بیس تیس سیکنڈ ایک آدھ منٹ ٹریفک سگنل پہ نہیں رک سکتے جو مجبوری میں کبھی رک بھی جائیں تو اپنی طرف کا سگنل کھلنے سے پہلے ہی کس بے صبری سے رینگتے رینگتے سڑک کے بیچوں بیچ نہیں پہنچ جاتے؟ ٹریفک سگنل سبز ہوتے ہی تازہ تازہ جنگل سے چھٹے وحشیوں کی طرح ہارن بجا بجا کے آسمان سر پہ نہیں اٹھا لیتے کیا؟ آخر چند سیکنڈ کا وقت اور چند فٹ کے فاصلے کا بھی صبر نہ کرنے سے ہم کیا حاصل کر لیتے ہیں؟ کیا ہم ہر روز نجانے کتنی ہی بار اس آئل ٹینکر ڈرائیور کی طرح اپنی اور دوسروں کی جانیں خطرے میں نہیں ڈالتے؟ ہمیں دراصل ہوس یہ ہوتی ہے کہ ہم دوسروں سے آگے نکل جائیں، ہماری لالچ اور خودغرضی اب پستی کے اس نچلے مقام پہ جا پہنچی ہے کہ جہاں ہم چند سیکنڈ اورچند فٹ بھی اپنا حق نہ ہونے کے باوجود چھوڑنے پہ تیار نہیں، ہم انھیں بھی ہتھیا لینا چاہتے ہیں۔

دوسرے جائیں بھاڑ میں۔ ہم دراصل ایک ایسی قوم ہیں جہاں لوگ پیدا ہوتے ہیں اور کسی تربیت کے بغیر ہی بڑے ہوجاتے ہیں۔ بنیادی سماجی شعور، اخلاقی کردار اور شہری آداب کی تربیت کے بغیر پلتی بڑھتی قوم تراش خراش سے محروم خودرو جھاڑی کی سی ہو جاتی ہے۔ تواس خودرو قوم کو جو اپنا حق نہ ہوتے ہوئے بھی چند سیکنڈ اور چند فٹ کے ایثار کے لیے تیار نہیں کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ توقع کرے کہ اس کے سیاستدان اور افسران اربوں کھربوں کے بجٹ، فنڈز اور قرضوں پہ ہاتھ صاف نہ کریں، کہ وڈیرے کراچی کا مال اڑانے کے بجائے کراچی پہ خرچ کریں، کہ زمین، پلاٹ اور ریٹائرمنٹ کے بعد بڑی بڑی منافع بخش پوسٹیں دینے والے اسٹیٹس کو کے اس نظام کو جج اور جنرل بدل ڈالیں، کہ اپنے اپنے سیاسی آقاؤں کے سیاہ کو سفید نہ کرکے صحافی وی آئی پی دوروں، لفافوں، پلاٹوں اور آف شور اکاؤنٹوں کو لات دے ماریں۔ ایسی قوم جو ٹریفک سگنل اور ریلوے پھاٹک پہ چند سیکنڈ اور چند فٹ کی چھوٹی چھوٹی قربانیاں نہیں دے سکتی ایسی خود رو قوم کو دوسروں سے ایسی بڑی بڑی قربانیاں مانگنے کا کوئی حق نہیں۔
Load Next Story