کئی چاند تھے سر آسمان
شروعات چودہ پندرہ سال کی لڑکی وزیر بیگم سے ہوتی جو یوسف ساھوکار کی تین بیٹیوں میں سب سے چھوٹی ہے
زیر ِنظر کتاب میں مشہور معروف شاعر نواب مرزا داغ دہلوی کی والدہ ماجدہ وزیر بیگم کی ذاتی زندگی اورگردو پیش میں رونما ہونے والے حالات و واقعات کا تاریخی پس منظر میں جائزہ لیا گیا ہے۔ ایک عام سی لڑکی زندگی کے منجدھار میں بالکل اکیلی سی کیسے اپنے اوپر یکے بعد دیگرے مصیبتوں کا سامنا کرتی ہے اور اپنی ذہانت اور خوش اخلاقی سے سب کا دل موہ لیتی ہے۔
شروعات چودہ پندرہ سال کی لڑکی وزیر بیگم سے ہوتی جو یوسف ساھوکار کی تین بیٹیوں میں سب سے چھوٹی ہے۔اس کا سامنا زیارت کرتے ہوئے ایک انگریز آفیسر مارکسٹن بلیک سے ہو جاتا ہے یہ وہ زمانہ ہے جب انگریز پوری قوت کے ساتھ ہندستان میں نہیں تھے پر اثر رسوخ رکھتے تھے۔ ایک دن وزیر بیگم زیارت کی غرض سے اپنے باپ کے ساتھ درگاہ پہ جاتی ہے اور راستے میں انھیں شدید طوفان کا سامنا کرنا پڑتا جب ہر طرف آندھی ہی آندھی نظر آتی ہے تب دھندلا سا سایہ نمودار ہوتا ہے یہ انگریز آفیسر مارکسٹن بلیک ہوتا ہے جو انھیں صحیح سلامت گھر پہنچاتا ہے۔ ایسے یہ ملاقاتیں بڑھتی ہیں اور مارکسٹن بلیک وزیر بیگم کو اپنے گھر لے آتا ہے تاہم وہ اس سے شادی نہیں کرتا پر خوش بہت رکھتا ہے۔
وزیر بیگم وہاں دو بچوں کو جنم دیتی ایک بیٹی سونیہ اور بیٹا مارٹن بلیک۔ وزیر بیگم کا باپ اس سے ناراض رہتا ہے کہ وہ کیوں بغیر نکاح انگریز کے گھر میں رہتی ہے تاہم یہ خوشی بھی پل بھر کی مہمان ہوتی ہے اور وزیر اس وقت بالکل بے یارومددگار ہوجاتی ہے جب مارکسٹن بلیک ایک بلوے میں قتل ہوجاتا ہے اس دورکی رشتے کے ٹنڈل بھائی بہن وزیر بیگم کے بچے یہ کہہ کر لے لیتے ہیں کہ وہ اب اس قابل نہیں ہے کہ بچے پال سکے۔ چھوٹی سی عمر میں بیوہ ہو گئی اور بچوں کی جدائی وزیر بیگم کو مایوس کردیتی ہے۔ وہ کرائے کا گھر لے کر اکیلی رہتی ہے تاہم منجھلی بہن اور بہنوئی کا ساتھ اسے ہر وقت رہتا ہے یہیں سے وہ شعور سخن میں دلچسپی لیتے، اس خوبصورت انداز بیان ہر کسی کو متاثر کرتا ہے کچھ لوگ انھیں بری نظر سے بھی دیکھتے ہیں وہ مایوس ہوجاتی ہے۔
اس نے مارکسٹن بلیک کو آخری بار اس وقت دیکھا تھا، جب وہ اس سے یہ وعدہ کرکے گیا تھا کہ میں جلد اسے اپنی قانونی بیوی بناؤں گا لیکن وہ واپس نہیں آیا۔ وزیر بیگم نے سخت حالات میں اپنے آپ کو سنبھالا اور طرح طرح کی افواہیں پھیلنے لگیں کوئی کہتا ناچ گانے والی ہے، تو کوئی جسم فروشی کے الزام لگاتا۔ پھر ایک مشاعرے میں وہ اپنے بہنوئی یوسف علی خان کی مدد سے گئی تو وہاں لوہارو جمروکہ کا نواب شمس الدین الملک، ملک مرزا غالبؔ دو انگریز ولیم فریزر اور رفیسی پارک وغیرہ موجود تھے۔
مرزا غالبؔ کی شاعری اور وزیر بیگم کا حسن نواب شمس الدین ملک پر چھاگیا اور وہ دن رات اس جستجو میں ڈٹے رہے کہ وزیر بیگم سے شناسائی ہو۔ ادھر وزیر بیگم کا بھی یہی حال تھا۔ پھر مشاعرے کے بعد ایک ملاقات طے ہوتی ہے۔ ایک دن جب نواب وزیر بیگم کے گھر تشریف لاتے ہیں تو جو منظر نگاری کی گئی وہ کچھ اس طرح سے تھی کہ، وزیر کے گھر کی ہر چیز میں نفاست اور صاف ستھرائی تھی۔ ایک خاموش خاموش سی آرائش جو دکھاوے اور پھوہڑ پن سے کوسوں دور تھی، اس سے بڑھ کر یہ جو چیز جہاں رکھ دی گئی چاہے آئینہ ہو یا تصویر یا کوئی گلدستہ ایسا لگتا تھا بس وہیں کے لیے بنے ہیں، خیر نواب شمس الدین وزیر خانم کو اپنے لیے رکھتا ہے۔ اور جیسا کہ ان کی دو شادیاں پہلے ہی ہوچکی ہیں تو وہ وزیر خانم سے شادی نہیں کرتا بلکہ اسے اپنی جائیداد کا اتنا حصہ دے دیتا ہے جس میں وہ عمر بھر عیش عشرت سے زندگی بسر کرسکے۔
نواب کو بیٹے کی بڑی خواہش ہوتے ہے اور یہ خواہش بھی وزیر بیگم کے توسط سے پوری ہوجاتی ہے جب نواب میرزا کا جنم ہوتا ہے تو نواب شمس الدین وزیر بیگم کا ہی ہوکر رہتا ہے لیکن نکاح پھر بھی نہیں کرتا۔ ایک دن ولیم فریزر وزیر خانم کے گھر آتا ہے اور وزیر بیگم کو نہ پاکر غصے سے چلا جاتا ہے اور اس کے بدلے وہ نواب شمس الدین کی بہن کو گالی دیکر غصہ پورا کرتا ہے۔ نواب شمس الدین اپنی بہن کی جلد شادی کراکر اپنے اعتماد کے بندوں کو بھیج کر ولیم فریزر کا قتل کروا کر اپنی بے عزتی کا بدلہ چکا لیتا ہے۔ اس قتل کا مقدمہ انگریز آفیسر سنجیدگی سے لڑتے ہیں اور اپنے آفیسر کی ناگہانی موت کے عوض نواب شمس الدین کو پھانسی چڑھا دیتے ہیں۔
وزیر بیگم کا گھر ایک بار پھر بس کر اجڑ جاتا ہے لیکن وہ نواب مرزا کے سہارے اور شمس الدین کے محبت کی یادیں لیے جیتی رہتی ہیں،لیکن تقدیر اس کے ساتھ کھیل کھیلتی رہی ہے۔ پھر ایک دن اس کے باپ یوسف ساھوکار کی وفات ہوجاتی ہے۔ اب نواب کے سوتیلے بھائی نواب کے اکلوتے بیٹے نواب مرزا کی تاک میں رہتے ہیں۔ آخر کار وزیر بیگم نے اپنی منجھلی بہن کو نواب مرزا کی ذمے داری سونپ دی۔ زندگی خزاں کی مانند رواں دواں تھی کہ تقدیر نے رخ بدلا اور نواب شمس الدین کی بہن جہانگیرہ وزیرکے لیے اپنے دیورکا رشتہ لائی جس کا نام آغا نواب علی تھا۔ یہ پہلا شخص تھا جس نے وزیر بیگم سے باقاعدہ نکاح کیا اور اسے اپنے گھر لے گئے۔
زندگی کی بہاریں لوٹ آئیں اور وزیر بیگم نے ایک اور بیٹے کو جنم دیا۔ گھرانہ شعور و سخن کا دلدادہ تھا زندگی منور ہونے لگی۔ تقدیر تو جیسے وزیر سے کوئی خاص بیر رکھتی تھی کوئی اگلے جنم کا حساب باقی تھا جو وزیر قسطوں میں چکا رہی تھی۔ اس زمانے میں ٹھگوں کا ایک علاقہ گست گج تھا، جہاں سے ایک دن آغا نواب کاروبارکے سلسلے میں گزر رہے تھے کہ ٹھگوں نے انھیں آ لیا اور قتل کرکے سامان لوٹ کر لاشیں بڑے گڑھے میں دفن کردیں۔ خیرکوشش در کوشش آغا نواب اور ان کے ساتھیوں کی لاشیں مل گئیں جنھیں باعزت دفنایا گیا۔ وزیر بیگم پھر اجڑ گئی۔ اب کے بار ان کی ہمت جواب دے گئی اور اس نے مرحوم شوہر کی جائیداد ان کے لالچی رشتے دارکو سونپ کر دونوں بیٹوں کے ساتھ چاندنی چوک دہلی والے مکان میں واپس آجاتی ہے۔
اتنے میں نواب مرزا سمجھ دار ہوچکا تھا ۔ وزیر بیگم خوشی خوشی زندگی گزار رہی تھی کہ نواب ضیا الدین جو نواب شمس الدین کے چھوٹے بھائی تھے، ان کا آنا جانا اچانک شروع ہوا۔ وزیر بیگم زندگی کی تلخیاں سہتے سہتے اب تھک جاتی ہیں اور جب وہ ضیا الدین کو اپنی جانب زیادہ متوجہ پاتی ہے تو وہ اسے وہیں پر روک دیتی ہے۔ نواب مرزا اور ان کے چھوٹے بھائی شاہ محمدآغا کی پرورش میں محو ہوجاتی ہے۔ اس وقت وہ عمر کے قریب ہوتی ہے جب مرزا فتح الملک ولی عہد سوئم دولت ہندوستان سے اس کا رشتہ طے ہوا۔
یہ پہلی شادی تھی جس میں وزیر بیگم زیادہ خوش نہ تھی پر شادی کے بعد جس طرح اس کے حالات بدلے اور ایک اور ولی عہد کا جنم ہوا تو انھیں شوکت خانم کا لقب عطا ہوا۔ پھر مرزا خسرو فتح ملک کی بے انتہا محبت نے انھیں قائل کردیا، اوپر سے نواب مرزا داغ کی محل کے اندر رفاقت اثرو رسوخ دیکھ کر وہ اپنی قسمت پہ رشک کرنے لگی۔ جتنا عرصہ انھوں نے محل میں گرارا، اس دوران نواب مرزا کی شادی ہوگئی اور دیکھتے ہی دیکھتے نواب مرزا فخرو ولی عہد مقرر ہوئے۔ قسمت کی اپنے اوپر اتنی مہربانیاں وزیر بیگم کو کہاں راس آنی تھیں۔ جولائی کے دوران مرزا فتح الملک دنیائے فانی سے رہا ہوگئے اور دیکھتے ہی دیکھتے بادشاہ کی بیگم زینت محل صاحبہ نے وزیر بیگم کو ہر چیز سے بے دخل کردیا۔ آخر میں وزیر بیگم پالکی میں کسی انجانے سفر کو روانہ ہوگئی۔
اس کتاب کی بہت بڑی خاصیت اس کی لغت ہے، جس دورکی یہ داستان ہے اس دورکی زبان معاشرہ رسم رواج کو اتنے منفرد انداز سے پیش کیا گیا ہے کہ پڑھنے والا متاثر ہوئے بغیر رہ نہیں سکتا۔ خاص کر منظرنگاری توکمال کی کی گئی ہے۔ مجموعی طور پر یہ کتاب اور انیسویں صدی کی مکمل تاریخی، سیاسی، سماجی حالات و واقعات کی ترجمان ہے۔ یہ ناول اردو ادب کا وہ بیش قیمت سرمایہ ہے جس کی زبان شیرینی اور ہزارہا محاوروں سے بھری ہوئی ہے۔ جس میں ناول کے پورے لوازمات، کردار، پلاٹ، منظرنگاری، مکالمے ہر چیز شامل کی گئی ہے۔ فارسی اور اردو زبان کا یکسر امتزاج مصنف کی قابلیت اور کمال و ذوق کی اعلیٰ مثال فراہم کرتا ہے۔