شائقین کرکٹ کو ترس گئے غیر ملکی ٹیمیں پاکستان کا دورہ کریں مصباح الحق
سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے نہیں جانا چاہتیں مگرہمارا ملک دنیاکے کسی بھی خطے جتنا ہی محفوظ ہے۔
نمبر ون ٹیم کو پچھاڑنے کا عزم لیے پاکستانی ٹیم جنوبی افریقہ پہنچ گئی۔ طویل القامت عرفان اور سعید اجمل مقامی میڈیا کی توجہ کا مرکز بھی بن گئے۔
ماہرین نے 7 فٹ ایک انچ قد کے حامل پیسر کو مورن مورکل سے بھی خطرناک قرار دینا شروع کردیا، جنید خان کی بولنگ کا بھی تجزیہ شروع ہوگیا، کپتان مصباح الحق نے اپنی پہلی پریس کانفرنس کے دوران پاکستان کو محفوظ ملک قرار دیتے ہوئے غیرملکی ٹیموں سے دورے کی درخواست کر دی، انھوں نے پروٹیز سائیڈ کو بھی خبردار کیاکہ ان کی ٹیم ٹور میں ہر چیلنج کا ڈٹ کر سامنا کرنے کے لیے تیار ہے۔
مصباح نے کہا کہ ہمارے پیسرزاور اسپنرز یہاں کی کنڈیشنز سے لطف اندوز ہوں گے، بیٹسمینوں کو البتہ پروٹیز پیس بیٹری کا سنبھل کر سامنا کرنا ہوگا، ٹیسٹ میچز کی کمی ہماری تیاریوں پر اثرانداز نہیں ہوگی، ہم پروفیشنل اور ہر قسم کی صورتحال میں ڈھلنا جانتے ہیں، کوچ ڈیو واٹمور نے کہا کہ وکٹیں فاسٹ اور بائونسی ہونے کے باوجود ثابت قدم رہنے والے بیٹسمینوں کو بھرپور صلہ ملے گا۔ تفصیلات کے مطابق پاکستانی کرکٹ ٹیم جنوبی افریقہ پہنچ گئی جہاں وہ میزبان کیخلاف یکم فروری سے تین ٹیسٹ کی سیریز کھیلے گی۔
ٹور کا باقاعدہ آغاز جمعے سے ایسٹ لندن میں جنوبی افریقی انوی ٹیشن الیون کے خلاف سہ روزہ وارم اپ میچ سے ہوگا۔ ایسٹ لندن کی وکٹ روایتی طور پر سلو ہے، یہاں پر بھی جنوبی افریقہ اپنے بیٹسمینوں کو پریکٹس کراتا جبکہ ایشیائی ٹیموں کیلیے سیمرز کیلیے موزوں وکٹیں تیار کی جاتی ہیں، مگر پاکستانی اٹیک کی وجہ سے اس بار یہ حکمت عملی خود جنوبی افریقہ کیلیے بھی الٹی پڑسکتی ہے۔ ٹیم کی آمد سے پہلے ہی پاکستانی اٹیک خاص طور پر طویل القامت عرفان اور سعید اجمل کے قصے جنوبی افریقہ پہنچ چکے تھے، میڈیا میں دونوں کے بارے میں تجزیے کیے جارہے ہیں، ماہرین کا کہنا کہ مورن مورکل اپنے بائونس کی وجہ سے کافی مشہور ہیں مگر ان سے بھی 8 انچ طویل بولر کا بائونس زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔
جوہانسبرگ آمد کے بعد کپتان مصباح الحق نے جنوبی افریقہ میڈیا کے سامنے بھی پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کا کیس پیش کر دیا، انھوں نے عالمی کرکٹ برادری سے ٹور کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ حال ہی میں پاکستان میں ٹوئنٹی20 ٹورنامنٹ کے دورن اسٹیڈیم مکمل طور پر بھرا ہوا تھا لیکن سیکیورٹی کا کوئی مسئلہ نہیں ہوا، سب نے کرکٹ سے لطف اٹھایا، پاکستان ایک بڑی کرکٹ قوم ہے، دنیا کو لازمی طور پر وہاں کرکٹ کی واپسی کے بارے میں سوچنا چاہیے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ہمارے لوگ انٹرنیشنل میچزکو ترس رہے ہیں، حقیقت اور تصور میں کافی فرق ہوتا ہے، ٹیمیں سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے پاکستان نہیں آنا چاہتیں مگر میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ پاکستان بھی دنیا کے کسی اور ملک جتنا ہی محفوظ ہے۔ دریں اثنا مصباح الحق نے کہا کہ ہماری موجودہ ٹیم گذشتہ ڈھائی برس سے اچھی کارکردگی پیش کررہی ہے، دنیا کی نمبر ون سائیڈکا ان کی اپنی کنڈیشنز میں سامنا کرنا بہت بڑا اور مشکل چیلنج ہے مگر ہم اس کے لیے پوری طرح تیار ہیں، ہم جنوبی افریقہ میں اچھا پرفارم کرنے کیلیے بے چین ہیں، پروٹیز کی بیٹنگ گریم اسمتھ، جیک کیلس اور ہاشم آملا کی موجودگی میں کافی مضبوط ہے۔
ہمیں ڈیل اسٹین، مورن مورکل اور ورنون فلینڈر پر مشتمل پیس اٹیک کے سامنے بھی بہتر کھیل پیش کرنا ہوگا، اگرچہ ہماری ٹیم میں زیادہ تر نوجوان کھلاڑی شامل اور عمر گل کے علاوہ کوئی بولر یہاں پر نہیں کھیلا مگر اس کے باوجود وہ ان کنڈیشنز پراپنی مہارت ثابت کرنے کے لیے بے چین ہیں، فاسٹ بولرز یہاں پر ایکسٹرا بائونس اور پیس سے لطف اندوز ہوں گے، جنید خان، عرفان اور سعید اجمل حریف بیٹسمینوں پر دبائو ڈال سکتے ہیں، سعید دنیا کے ٹاپ اسپنر ہیں یہاں پر وہ خاص طور پر چوتھے اور پانچویں روز کافی اہم ثابت ہوں گے۔
مصباح الحق نے مزید کہا کہ ہمیں بہتر بیٹنگ کی بھی ضرورت ہے، جب بھی ہم کسی ٹور پر جاتے ہیں تو خاص طور پر بائونس اور پیس کے سامنے پریکٹس کرتے اور اس سے نمٹنے کیلیے مختلف طریقے استعمال کرتے ہیں، ہم یہاں پر بھی ٹیسٹ میچز کھیلنے کیلیے مکمل طور پر تیار ہیں، انھوں نے کہا کہ جب آپ باقاعدگی سے کسی فارمیٹ کے میچز نہیں کھیلتے تو مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اگرچہ ہم نے زیادہ ٹیسٹ میچز میں حصہ نہیں لیا مگر اس کے باوجود پروفیشنل ہونے کی وجہ سے خود کو پانچ روزہ کرکٹ میں ڈھال لیں گے۔
کوچ ڈیو واٹمور نے کہا کہ جنوبی افریقی پچز پر بائونس زیادہ اونچا اور پیس معمول سے زیادہ ہوتی ہے مگر یہاں بھی جو بیٹسمین ثابت قدمی کا مظاہرہ کرے بڑا اسکور بنانے میں کامیاب رہتا ہے، اگر ہمارے نوجوان کھلاڑیوں نے اس پر عمل کیا توان کا وکٹ پر وقت کافی اچھا گزرے گا۔
ماہرین نے 7 فٹ ایک انچ قد کے حامل پیسر کو مورن مورکل سے بھی خطرناک قرار دینا شروع کردیا، جنید خان کی بولنگ کا بھی تجزیہ شروع ہوگیا، کپتان مصباح الحق نے اپنی پہلی پریس کانفرنس کے دوران پاکستان کو محفوظ ملک قرار دیتے ہوئے غیرملکی ٹیموں سے دورے کی درخواست کر دی، انھوں نے پروٹیز سائیڈ کو بھی خبردار کیاکہ ان کی ٹیم ٹور میں ہر چیلنج کا ڈٹ کر سامنا کرنے کے لیے تیار ہے۔
مصباح نے کہا کہ ہمارے پیسرزاور اسپنرز یہاں کی کنڈیشنز سے لطف اندوز ہوں گے، بیٹسمینوں کو البتہ پروٹیز پیس بیٹری کا سنبھل کر سامنا کرنا ہوگا، ٹیسٹ میچز کی کمی ہماری تیاریوں پر اثرانداز نہیں ہوگی، ہم پروفیشنل اور ہر قسم کی صورتحال میں ڈھلنا جانتے ہیں، کوچ ڈیو واٹمور نے کہا کہ وکٹیں فاسٹ اور بائونسی ہونے کے باوجود ثابت قدم رہنے والے بیٹسمینوں کو بھرپور صلہ ملے گا۔ تفصیلات کے مطابق پاکستانی کرکٹ ٹیم جنوبی افریقہ پہنچ گئی جہاں وہ میزبان کیخلاف یکم فروری سے تین ٹیسٹ کی سیریز کھیلے گی۔
ٹور کا باقاعدہ آغاز جمعے سے ایسٹ لندن میں جنوبی افریقی انوی ٹیشن الیون کے خلاف سہ روزہ وارم اپ میچ سے ہوگا۔ ایسٹ لندن کی وکٹ روایتی طور پر سلو ہے، یہاں پر بھی جنوبی افریقہ اپنے بیٹسمینوں کو پریکٹس کراتا جبکہ ایشیائی ٹیموں کیلیے سیمرز کیلیے موزوں وکٹیں تیار کی جاتی ہیں، مگر پاکستانی اٹیک کی وجہ سے اس بار یہ حکمت عملی خود جنوبی افریقہ کیلیے بھی الٹی پڑسکتی ہے۔ ٹیم کی آمد سے پہلے ہی پاکستانی اٹیک خاص طور پر طویل القامت عرفان اور سعید اجمل کے قصے جنوبی افریقہ پہنچ چکے تھے، میڈیا میں دونوں کے بارے میں تجزیے کیے جارہے ہیں، ماہرین کا کہنا کہ مورن مورکل اپنے بائونس کی وجہ سے کافی مشہور ہیں مگر ان سے بھی 8 انچ طویل بولر کا بائونس زیادہ خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔
جوہانسبرگ آمد کے بعد کپتان مصباح الحق نے جنوبی افریقہ میڈیا کے سامنے بھی پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی واپسی کا کیس پیش کر دیا، انھوں نے عالمی کرکٹ برادری سے ٹور کی درخواست کرتے ہوئے کہا کہ حال ہی میں پاکستان میں ٹوئنٹی20 ٹورنامنٹ کے دورن اسٹیڈیم مکمل طور پر بھرا ہوا تھا لیکن سیکیورٹی کا کوئی مسئلہ نہیں ہوا، سب نے کرکٹ سے لطف اٹھایا، پاکستان ایک بڑی کرکٹ قوم ہے، دنیا کو لازمی طور پر وہاں کرکٹ کی واپسی کے بارے میں سوچنا چاہیے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ہمارے لوگ انٹرنیشنل میچزکو ترس رہے ہیں، حقیقت اور تصور میں کافی فرق ہوتا ہے، ٹیمیں سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے پاکستان نہیں آنا چاہتیں مگر میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ پاکستان بھی دنیا کے کسی اور ملک جتنا ہی محفوظ ہے۔ دریں اثنا مصباح الحق نے کہا کہ ہماری موجودہ ٹیم گذشتہ ڈھائی برس سے اچھی کارکردگی پیش کررہی ہے، دنیا کی نمبر ون سائیڈکا ان کی اپنی کنڈیشنز میں سامنا کرنا بہت بڑا اور مشکل چیلنج ہے مگر ہم اس کے لیے پوری طرح تیار ہیں، ہم جنوبی افریقہ میں اچھا پرفارم کرنے کیلیے بے چین ہیں، پروٹیز کی بیٹنگ گریم اسمتھ، جیک کیلس اور ہاشم آملا کی موجودگی میں کافی مضبوط ہے۔
ہمیں ڈیل اسٹین، مورن مورکل اور ورنون فلینڈر پر مشتمل پیس اٹیک کے سامنے بھی بہتر کھیل پیش کرنا ہوگا، اگرچہ ہماری ٹیم میں زیادہ تر نوجوان کھلاڑی شامل اور عمر گل کے علاوہ کوئی بولر یہاں پر نہیں کھیلا مگر اس کے باوجود وہ ان کنڈیشنز پراپنی مہارت ثابت کرنے کے لیے بے چین ہیں، فاسٹ بولرز یہاں پر ایکسٹرا بائونس اور پیس سے لطف اندوز ہوں گے، جنید خان، عرفان اور سعید اجمل حریف بیٹسمینوں پر دبائو ڈال سکتے ہیں، سعید دنیا کے ٹاپ اسپنر ہیں یہاں پر وہ خاص طور پر چوتھے اور پانچویں روز کافی اہم ثابت ہوں گے۔
مصباح الحق نے مزید کہا کہ ہمیں بہتر بیٹنگ کی بھی ضرورت ہے، جب بھی ہم کسی ٹور پر جاتے ہیں تو خاص طور پر بائونس اور پیس کے سامنے پریکٹس کرتے اور اس سے نمٹنے کیلیے مختلف طریقے استعمال کرتے ہیں، ہم یہاں پر بھی ٹیسٹ میچز کھیلنے کیلیے مکمل طور پر تیار ہیں، انھوں نے کہا کہ جب آپ باقاعدگی سے کسی فارمیٹ کے میچز نہیں کھیلتے تو مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اگرچہ ہم نے زیادہ ٹیسٹ میچز میں حصہ نہیں لیا مگر اس کے باوجود پروفیشنل ہونے کی وجہ سے خود کو پانچ روزہ کرکٹ میں ڈھال لیں گے۔
کوچ ڈیو واٹمور نے کہا کہ جنوبی افریقی پچز پر بائونس زیادہ اونچا اور پیس معمول سے زیادہ ہوتی ہے مگر یہاں بھی جو بیٹسمین ثابت قدمی کا مظاہرہ کرے بڑا اسکور بنانے میں کامیاب رہتا ہے، اگر ہمارے نوجوان کھلاڑیوں نے اس پر عمل کیا توان کا وکٹ پر وقت کافی اچھا گزرے گا۔