الطاف حسین نے کہا آپ کو ایم کیو ایم میں کس نے پلانٹ کیا ہے
کارکنوں نے ’سیلف ڈیفنس‘ کے اختیار کا ناجائز استعمال کیا، مسائل مکافات عمل کا نتیجہ بھی ہیں، کشور زہرا
تھانے میں تشدد کے نتیجے میں ہونے والی آہ وبکا سنی، تو تھانے کے مقابل ملبوسات کی دکان چلانے والی خاتون مجبور ہوئیں کہ معلوم کریں، آخر ماجرا ہے کیا؟ حوالات تک رسائی حاصل کی، تو دیکھا کہ مختلف کالجوں اور یونیورسٹی کے بے شمار طلبا بھیڑ بکریوں کی طرح ٹھنسے ہوئے ہیں، تھانے کے باہر ان کی مائیں پریشان کھڑی ہیں، پتا چلا کہ ان کا تعلق 'مہاجر قومی موومنٹ' سے ہے۔
یہ 1984ء تھا۔ بڑی مشکل سے کسی نے روپوش چیئرمین عظیم احمد طارق سے ملاقات کرائی، جس میں لفظ 'مہاجر' کے برتاؤ کو اچھا نہ سمجھنے والی یہ خاتون ان کی ہم نوا ہوگئیں اور کراچی پریس کلب میں دو، ڈھائی سو خواتین کے ساتھ پریس کانفرنس میں مطالبہ کیا کہ گرفتار کارکنان پر کوئی الزام ہے، تو انہیں عدالت میں پیش کریں، تشدد نہ کریں، جس پر اُس وقت کے وزیراعلیٰ سندھ غوث علی شاہ نے اِن سے رابطہ کیا اور گفت وشنید کے بعد کچھ کارکنان رہا ہوئے۔ یہ خاتون کشور زہرا تھیں۔
اس پریس کانفرنس کے بعد کشور زہرا باقاعدہ 'ایم کیو ایم' کا حصہ بنیں، شعبۂ خواتین قائم کیا، کہتی ہیں کہ خواتین نے صحیح معنوں میں ووٹ ڈالنے کا حق ایم کیو ایم کی آمد کے بعد استعمال کیا۔ 1987ء کے بلدیاتی انتخابات میں قیادت روپوش تھی، انہوں نے گلی، گلی جا کر خواتین کو ووٹ کی اہمیت سے آگاہ کیا کہ یہی ہمارا ہتھیار ہے، جس کے نتیجے میں خواتین نکلیں، اور واشنگٹن پوسٹ نے لکھا کہ پاکستان میں پہلے کبھی خواتین نے اتنی بڑی تعداد میں ووٹ نہیں ڈالا۔ بلدیاتی چناؤ سے ان کی بلند توقعات پر الطاف حسین نے انہیں خوش فہمی کا شکار قرار دیا، لیکن جب نتائج آئے، تو بھاری اکثریت ملی۔ اسیر اراکین کو امیدوار نام زَد کرنے سے بھی لوگوں کا جذبہ دوچند ہوا۔
کشور زہرا کہتی ہیں کہ جب ایم کیو ایم بنی، تو الطاف حسین امریکا میں تھے۔ اُن کی ایم کیو ایم میں شمولیت کے بعد الطاف حسین وطن لوٹے اور گرفتار ہوگئے۔ پہلی ملاقات میں الطاف حسین نے ازراہ مذاق یا شاید کسی شک کی بنیاد پر مجھ سے پوچھا تھا کہ 'آپ کو کس نے پلانٹ کیا ہے؟' تو میں نے کہا کہ آپ کے بارے میں بھی لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں کہ آپ کو ضیاالحق لائے ہیں، لیکن مجھے لگا کہ آپ کے لڑکے پریشان ہیں۔ آپ کسی کی بھی پیداوار ہوں، اگر آ پ کراچی کے لیے کام کر رہے ہیں ، تو میں اس شہر کی بہتری کے لیے آپ کے ساتھ کام کروں گی۔ پھر جب 1991ء میں کشور زہرا ایم کیو ایم سے مستعفی ہوئیں، تو الطاف حسین نے یہ بات دُہرائی کہ میں تو پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ یہ پلانٹڈ ہیں۔
کشور زہرا کے آبا واجداد کا تعلق اتر پردیش کے شہر 'جھانسی' سے ہے، لیکن اُن کی پیدائش آگرے کی ہے۔ اُن کے پردادا جج تھے۔ دادا کی کم عمری میں وفات ہوگئی، تو پردادا نے دادی کی تعلیم وتربیت کے لیے ایک انگریز خاتون مقرر کیں۔ یہی نہیں انہوں نے ایک پہاڑ بھی دادی کے نام کیا، جس سے قیمتی پتھر نکلتا تھا، یوں اُن کی دادی لکھ پتی ہوگئیں۔ یہ پہاڑ اب بھی وہاں موجود ہے۔
کشور زہرا کی والدہ نانی کی اکلوتی اولاد تھیں، لہٰذا اُن کی شادی کے بعد سمدھن نے اصرار کر کے انہیں اپنے ہاں بلوا لیا۔ پاکستان بنا، تو دو ہزار گز کا گھر اور سارے مال اسباب وفادار ملازمین کے سپرد کیا اور براستہ ممبئی، کراچی آگئے اور چھے بہن بھائی، نانی، دادی دو چچا اور والدین پیر الٰہی بخش کالونی میں ایک کمرے اور ایک برآمدے کے مکان میں ٹھیرے، والد سی آئی ڈی میں ملازم ہوگئے۔ گھریلو حالات ایسے تھے کہ تمام بہن بھائیوں کو اسکول کے زمانے سے ہی ملازمت کرنا پڑی، انہوں نے بھی اسکول کے ساتھ ٹیوشن پڑھانا شروع کر دیا۔ سرکاری اسکول سے میٹرک کے بعد انٹر اور گریجویشن پرائیوٹ طالبہ کے طور پر کیا۔
کوچۂ سیاست میں وارد ہونے سے پہلے کشور زہرا سماجی خدمت کے میدان میں فعال ہو چکی تھیں، اس کا پس منظر انہوں نے یوں بتایا کہ بچپن میں دادی نے مرغیاں پالی ہوئی تھیں، جس کے انڈوں کی فروخت سے کچھ آمدنی بھی ہو جاتی اور کچھ شکم پری بھی، ایک انڈا دو یا تین افراد کھاتے تھے، کچھ انڈوں سے چوزے نکلتے تو دادی وہ تمام بہن بھائیوں میں بانٹ دیتیں، کہ سب اپنے چوزے کی دیکھ بھال کریں۔ ایک دفعہ ان کے حصے میں جو چوزہ آیا، اس کی چونچ کی ساخت ایسی تھی کہ وہ ٹھیک سے دانہ ہی نہ چگ پاتا تھا، اسے خصوصی طور پر کٹوری میں باجرہ بھر کر دینا پڑتا تھا۔
اس واقعے نے انہیں معذور افراد کے مسائل حل کرنے کی طرف متوجہ کیا۔ گزشتہ 42 سال سے ایس آئی یو ٹی (سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن) میں فعال ہیں۔ سماجی خدمت کو اطمینان قلب کا ذریعہ اور مایوس مریض کے اندر زندگی کی امید جگانے کو بڑی خوشی قرار دیتی ہیں۔
کشور زہرا کہتی ہیں کہ بشریٰ زیدی حادثے کا شدید ردعمل اس لیے آیا کہ اُس وقت مسافر بسوں میں خواتین سے بہت بدتمیزی کی جاتی تھی، ہم اپنی مرضی کے اسٹاپ پر بس نہیں رکوا سکتے تھے، مگر پھر ہوا یہ کہ لڑکوں کو 'سیلف ڈیفنس' کے جو اختیار دیے گئے، اس کا بہت ناجائز استعمال کیا گیا۔ جب انہیں لگا کہ مہاجر قوم کا شائستہ تشخص خراب ہو رہا ہے، تو وہ ایم کیوایم سے مستعفی ہوگئیں، یہ 1991ء میں الطاف حسین کی جلاوطنی سے پہلے کی بات ہے۔ وہ ''حقیقی'' کے قیام اور اپنے استعفے میں کسی بھی سمبندھ کی تردید کرتی ہیں کہ 'میں پارٹی کو کوئی نقصان نہیں پہچانا چاہتی تھی۔ آفاق احمد اور عامر خان کا مسئلہ ہوا تو انہیں بھی یہی تاکید کی تھی۔' وہ کبھی ایم کیو ایم (حقیقی) میں شامل نہیں ہوئیں، لیکن آفاق اور عامر سے روابط رہے۔
متحدہ میں واپسی کا ذکر ہوا تو کشور زہرا نے بتایا کہ ان کی والدہ کو الطاف حسین والدہ کا درجہ دیتے تھے اور اِن کے چھوٹے بھائی کی بانی متحدہ سے کافی دوستی تھی، 2008ء میں اُن کے بھائی اور والدہ لندن گئے، تو وہاں اِن کا تذکرہ ہوا، اور یوں کشور زہرا بھی لندن ملنے چلی گئیں۔ الطاف حسین بہت تپاک سے ملے اور وہاں تعارف کرایا کہ یہ واحد خاتون تھیں، جو استعفا دے کر چلی گئی تھیں۔
الطاف حسین سے رو برو ملاقات میں انہوں نے 'حقیقی' کے بارے میں بات کی تو وہ چونک گئے۔ انہوں نے الطاف حسین سے کہا کہ عامر خان کے والد کا انتقال ہوا تو لوگ جنازے تک میں شریک ہوتے ہوئے خوف زدہ تھے۔ آفاق احمد کے گھر کا سامان اٹھا کر باہر پھینکا گیا۔ یہ بے حد تکلیف دہ بات ہے۔ کشور زہرا کے بقول انہوں نے بہت توجہ سے سنا اور کہا کہ آپ بہت خطرناک موضوع پر بات کر رہی ہیں، آپ نے مجھ سے تو یہ بات کرلی، لیکن کسی اور سے نہ کیجیے گا۔ میں نے کہا بس میرے اند ایک خلش تھی جو آپ سے کہہ دی کہ آپ سب کھیل کی لپیٹ میں آگئے۔
کشور زہرا کہتی ہیں کہ ایم کیوایم پھیلی تو اسے توڑنے کی کوششیں شروع ہو گئیں، وزیراعلیٰ جام صادق علی کے دور میں ملزمان کی ایک فہرست نکلی، جس میں آفاق احمد اور عامر خان سمیت 60 لڑکوں کے نام تھے۔ آفاق احمد جام صادق کے پاس پہنچے، تو جام صادق نے الطاف حسین کی تصویر جیب سے نکالی اور کہا میں انہیں تو اپنی جیب میں رکھتا ہوں، یہ نام انہوں نے ہی دیے ہیں۔ کشور زہرا کہتی ہیں کہ ایسا تھا یا نہیں تھا، لیکن جام صادق انتہائی ذہین تھے، وہ اپنا کھیل کھیل گئے۔
آفاق احمد نائن زیرو آکر برہم ہوئے، عظیم طارق نے انہیں سنبھالا اور کہا کہ یہ خود ان کی بنائی ہوئی فہرست ہے، انہوں نے حالات بہتر ہونے تک باہر جانے کا مشورہ دیا، یوں ایک دن میں ویزے لگوا کر انہیں روانہ کر دیا گیا۔ رات میں گئے ہی تھے کہ اگلی صبح شہر میں بینر لگے ہوئے تھے کہ 'جو قائد کا غدار ہے، وہ موت کا حق دار ہے۔' کہتی ہیں کہ یہ انہی کی طرف اشارہ تھا، جس کے بعد ان کے رابطے بالکل منقطع ہو گئے۔ کشور زہرا اسے نادیدہ قوتوں کی ایم کیو ایم توڑنے کی کوشش قرار دیتی ہیں کہ آج تک پتا نہیں کہ وہ بینر کس نے لگوائے تھے۔
'حقیقی' کے بعد ایک اہم موڑ 22 اگست 2016ء کو آیا، جب الطاف حسین کے ریاست مخالف نعروں کے بعد ایم کیو ایم (پاکستان) نے اُن سے لاتعلقی کا اعلان کیا۔ اس حوالے سے کشورزہرا کہتی ہیں کہ کارکنوں کی گرفتاریوں اور قتل کی وجہ سے الطاف حسین بہت زیادہ پریشان تھے، وہ الطاف حسین کو سمجھاتی رہتیں، کہ ہمارے اتنے لڑکے پہلے ہی گرفتار ہیں، پھر مسائل کا شکار خواتین کو بھی اس میں جھونک دینا بہت زیادہ پریشانیوں کا باعث بنے گا۔
کشور زہرا کہتی ہیں کہ ہم نے اپنی تحریک کو بچانا تھا، ہم پاکستان کے خلاف نہیں، صرف اپنا حق مانگ رہے ہیں۔ ہم ہندوستان واپس جا سکتے ہیں، اور نہ بحیرۂ عرب میں۔ کشور زہرا سمجھتی ہیں کہ الطاف حسین کے اردگرد جمع لوگ اس سے کچھ بے پروا ہیں۔ ہم پاکستان کو برا کہنے پر سمجھوتا نہیں کریں گے۔ الطاف حسین اگر مقتدر اداروں کے خلاف سخت الفاظ استعمال کرتے ہیں، تو ساتھ بیٹھنے والوں کو انہیں سمجھانا چاہیے، گالی دے کر کسی سے اپنا حق کیسے لے سکتے ہیں؟
کشور زہرا بھی پریس کلب کے اُس بھوک ہڑتالی کیمپ میں شریک تھیں، 18 اگست کو اپنی بہن کے چہلم میں شرکت کے لیے ملک سے باہر گئیں، جہاں انہیں دل کی تکلیف ہوئی اور انجیوپلاسٹی کرانا پڑی۔ 22 اگست کے واقعے سے بہت دل گرفتہ ہوئیں، کہتی ہیں کہ انہوں نے بغور ویڈیو دیکھی ہے، اُس روز نجی چینل میں توڑ پھوڑ کرنے والی کوئی ایک عورت بھی ہماری نہ تھی۔ ہو سکتا ہے کہ ایم کیوایم توڑنے والوں نے ایسی عورتیں شامل کی ہوں۔ میں نے اپنے شعبۂ خواتین کی بھرپور تربیت کی ہے، کہ کوئی ایسی صورت حال پیدا بھی ہو جائے، تو آپ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر اپنی بسوں میں سوار ہو جائیں۔ جن خواتین کو توڑ پھوڑ کے الزام میں گرفتار کیا گیا، وہ اُس وقت وہاں موجود ہی نہیں تھیں۔
ایم کیو ایم توڑنے کی اس 'کوشش' کو کشور زہرا کاری وار قرار دیتی ہیں کہ اندر سے بھی ایم کیو ایم میں خرابیاں تھیں، باہر سے بھی توڑنے کی کوشش تھی، پھر برتن چٹخا ہوا ہو تو توڑنا آسان ہوتا ہے۔ تاہم انہیں امید ہے کہ اب ایم کیو ایم فاروق ستار کی قیادت میں آگے بڑھے گی۔ بانی متحدہ کے حوالے سے سخت بات نہ کرنے کی حکمت عملی کو اچھا سمجھتی ہیں کہ وہ ہمارے بانی تو ہیں، اب انہوں نے کچھ غلط لوگوں پر اعتماد کیا، جس کی وجہ سے پارٹی کو نقصان ہوا۔
ایم کیو ایم کے مسائل کو کشور زہرا جہاں مخالفین کی زور آزمائی کا نتیجہ قرار دیتی ہیں، وہاں وہ اِسے مکافات عمل بھی سمجھتی ہیں کہ 'مہاجر قوم نے ہم پر دامے، درمے، سخنے اعتماد کیا، تھانے کے بہ جائے 'سیکٹر' میں اپنے مسائل حل کرانے لگے، لیکن ہر آدمی اسے سہار نہ سکا، رویے بگڑے اور وہی 'سیکٹر' خوف کی علامت بن گیا۔ سیکٹر انچارج اراکین اسمبلی پر حاوی ہوا، اس سے اگر چندہ لانے کو کہا، تو وہ اس سے آگے بڑھ گیا۔ انتخابات ہم جیتتے رہے، مگر مقبولیت گرتی رہی۔ ہم وہ کارکردگی نہ دکھا پائے، جو ہمیں دکھانی چاہیے تھی، ہمیں چین سے کام بھی نہیں کرنے دیا گیا۔ شہری حکومت کی کارکردگی کا سہرا مصطفیٰ کمال کے سر تو ہے، مگر سہرے کی لڑیاں بھی ہوتی ہیں، وہ اس کا ذکر نہیں کرتے، الطاف حسین نے انہیں بہت سراہا تھا۔
کشور زہرا چاہتی ہیں کہ جو اس سرزمین پر پیدا ہوا، اسے فراخ دلی سے 'دھرتی کا بیٹا' تسلیم کیا جائے۔ ہم نے اپنی پوری ایک نسل کی قربانی دی ہے۔ سب قومیتوں کی اپنی شناخت ہے، لفظ مہاجر جسے گالی بنا دیا گیا تھا، اب ہم نے اپنی پہچان بنالی ہے تو اس کا احترام کیا جائے۔ اس کے علاوہ کشور زہرا ہندوستان، پاکستان کے اچھے تعلقات کی خواہاں ہیں کہ 'عوام امن چاہتے ہیں، اب جوہری ہتھیاروں کی باتیں کی جاتی ہیں، سمجھانے والے کم اور اکسانے والے زیادہ ہیں۔ سرحد پر مرنے والا انسان ہوتا ہے، چرواہے جانور چراتے ہوئے اور بچے کھیلتے ہوئے سرحد پار کر جاتے ہیں، سمندری حدود نہ پہچاننے والے غریب ماہی گیر پھنس جاتے ہیں۔ یہ مسائل حل ہونے چاہئیں۔'
''پڑھو اور بڑھو''
کشور زہرا کہتی ہیںکہ سیاست میں خواتین کو منظم کرنے پر الطاف حسین اُن سے بہت خوش تھے۔ جب دوبارہ متحدہ میں شامل ہوئیں، تو انہوں نے تعلیم ادھوری چھوڑنے والی خواتین کے لیے کا کام شروع کرنا چاہا، بانی متحدہ نے ان کی تائید کی اور یوں ''پڑھو اور بڑھو'' کے زیر عنوان اس منصوبے کو عملی جامہ پہنایا۔ خواتین کو تین زمروں میں بانٹا گیا۔ پہلے زمرے میں وہ خواتین جو دستخط بھی نہیں کر سکتی تھیں، دوسرے زمرے میں چھٹی، ساتویں تک پڑھی ہوئی، جب کہ تیسرے میں وہ جو گریجویشن کے بعد اب گھر داری تک محدود تھیں۔
120 گریجویٹ خواتین کو دس ماہ کا کورس کرایا، جس کے بعد انہوں نے اپنے اپنے علاقوں میں رضاکارانہ طور پر تدریس کا ذمہ اٹھایا، پرائمری اور مڈل تک تعلیم حاصل کرنے والی خواتین کو میٹرک کرایا، جس میں رنچھوڑ لائن کی 58 سالہ خاتون قابل ذکر ہیں۔ ناخواندہ خواتین کو دستخط کرنا اور اخبار پڑھنا سکھایا۔ ابتداً ہفتے میں ایک کلاس تھی، جو ان کے اصرار پر ہفتے میں دو اور پھر تین کلاسیں کیں۔
کہتی ہیں کہ یہ خواتین کے لیے ایک خوش گوار تجربہ تھا، بہت سی خواتین زندگی کی یک سانیت اور ڈپریشن سے باہر نکلیں۔ یہ سلسلہ 2009ء تا 2014ء رہا، یوں 1200 خواتین کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا گیا، پھر مالی بحران کا شکار ہو گیا۔ خواتین کی تعلیم کے لیے 'سیکٹر' دفاتر میں کمرے لیے ہوئے تھے، جب چھاپے پڑے، تو سب تتر بتر ہوگیا، کہتی ہیں کہ چھاپے مارنے والے پانی کے مٹکے تک توڑ دیتے کہ نہیں معلوم اس میں کیا چھپا رکھا ہے۔
بچے بڑے ہوئے تو ایم اے کیا
کشور زہرا ناظم آباد سے سٹی کونسلر رہیں۔ متحدہ میں واپس آئیں، تو الطاف حسین کی خواہش پر شعبۂ خواتین دوبارہ اُن کے سپرد ہوا، 2008ء کے بعد 2013ء میں بھی خواتین کی مخصوص نشست پر رکن قومی اسمبلی ہیں، جہاں وہ چار قائمہ کمیٹیوں کی بھی رکن ہیں۔ 1973ء میں ناظم آباد میں ایک کثیر القومی کمپنی کی اجازت سے اس کے نام پر ملبوسات کی دکان کھولی اور یہاں ان کی مصنوعات بنانا شروع کیں، اب اسپتالوں کی وردیاں، عروسی اور فیشن شوز کے ملبوسات تیار کرتی ہیں، جو برآمد کیے جاتے ہیں۔ اب شاعری سے زیادہ سیاسی موضوعات مطالعے میں رہتے ہیں۔ زندگی میں کسی کام یابی کو قابل ذکر نہیں سمجھتیں۔ 1970ء میں شادی ہوئی، لیکن شوہر سے علیحدگی ہے۔ دو بیٹے ہیں، جب کہ بھتیجی کو بیٹی بنایا ہوا ہے۔ تینوں کی شادیاں ہو چکیں۔ ایک بیٹا سرجن ہے، خراب حالات کی بنا پر اسے امریکا بھیج دیا، جب کہ دوسرا بیٹا ملبوسات کے کاروبار میں اِن کا معاون ہے۔ چھے پوتے پوتیوں کی دادی ہیں، بڑا پوتا 13 سال کا ہے۔ بچے بڑے ہوگئے تو چند برس قبل جامعہ کراچی سے ہیومن ڈیولپمنٹ میں ایم اے کیا، اب ایم فل کر رہی ہیں۔
ایک صحافی کے تذکرے نے بنیادی رکنیت ختم کرادی
بانی ایم کیوایم کی جانب سے باقاعدہ جن پانچ مرکزی راہ نماؤں کی بنیادی رکنیت ختم کی گئی ہے، ان میں کشور زہرا کا نام بھی شامل ہے۔ اس حوالے سے وہ بتاتی ہیں کہ میں بیمار تھی، جب ندیم نصرت نے مجھ سے اسمبلی رکنیت سے مستعفی ہونے کو کہا، میں نے بتایا کہ ابھی میرے پاس لیٹر ہیڈ نہیں ہے، لیکن آپ سوچ لیجیے کہ استعفے دے دیں گے، تو پارلیمان میں بھی آواز بلند نہ کر سکیں گے، ساتھ یہ بھی زور دیا کہ جو بھی عمل ہو وہ اجتماعی ہو، ایسا نہ ہو کچھ استعفا نہ دیں اور پھر تماشا بنے۔ اس دوران فاروق ستار اور عامر خان سے رابطہ ہوا، تو انہوں نے کہا کہ کسی بھی قیمت پر پارٹی کو بچانا ہے۔ 'پاک سرزمین پارٹی' کو پہلے ہی مقتدر قوتوں کی مدد حاصل ہے، ہمیں کم ازکم سانس لینے کا موقع تو رہے۔ اس حوالے سے کراچی کے ایک معروف تجزیہ کار سے 'آف دی ریکارڈ' فون پر بات ہوئی، انہوں نے نجی چینل کے ایک مذاکرے میں کہہ دیا کہ 'کشور زہرا چاہتی ہیں کہ استعفے نہ دیے جائیں۔' جس کے ایک گھنٹے بعد ہی ان کی بنیادی رکنیت ختم کرنے کا اعلان کردیا گیا۔
کچھ لوگ کھانے کمانے ہی متحدہ میں آئے!
کشور زہرا کہتی ہیں کہ جب کسی سیاسی جماعت دائرہ وسیع ہوتا ہے تو اس میں صرف کالی نہیں، بلکہ طرح طرح کے رنگوں کی بھیڑیں شامل ہو جاتی ہیں۔ متحدہ میں بھی ایسے لوگ آئے، جن کی کوئی نظریاتی وابستگی تھی اور نہ کوئی خدمات، وہ آئے، کھایا کمایا اور نکل گئے۔ یہ لوگ متحدہ میں شاید کھانے کمانے کے لیے ہی آئے تھے، آج باہر اپنے کاروبار لیے بیٹھے ہیں اور ہمارے عام کارکنان وہیں کے وہیں ہیں۔ شہدا کے گھروں کا برا حال ہے، چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان کے پاس کوئی وسائل نہیں، اس وقت تقریباً 35 خواتین کی وہ خود دیکھ بھال کر رہی ہیں۔ کارکنان پر ایسے ایسے مقدمات ڈال دیے گئے ہیں، جو ان کے فرشتوں کو بھی نہیں پتا۔ گرفتار کارکنوں کو حیدرآباد منتقل کر دیا گیا ہے، ان کے بچے باپ کی صورت دیکھنے کو ترس رہے ہیں جب پیشی ہوتی ہے تو ایک کارکن کی بیوی اپنے معذور بچے کو پیٹھ پر لاد کر صبح سویرے حیدرآباد جاتی ہے، اور شوہر سے مل کر رات کو واپس لوٹتی ہے۔ جس کے پاس کھانے کو روٹی نہ ہو، اس پر ایسی افتاد کوئی معمولی بات نہیں۔
الطاف حسین کے باہر جانے کی مخالفت
باہر رہ کر قیادت کرنے اور متحد رکھنے کا سہرا کشور زہرا، الطاف حسین کے سر باندھتی ہیں، لیکن ان کے نزدیک الطاف حسین کے خلاف پہلی سازش یہ ہوئی کہ ان کے گرد جمع ہونے والوں نے انہیں تحفظ کے لیے جلاوطن ہونے کا مشورہ دیا۔ ایسے لوگ جب راہ نما کو اٹھا کر آسمان کی طرف لے جانا شروع کریں، تو پھر زمین سے اور انسانوں سے رشتہ منقطع ہونے لگتا ہے۔ اگر الطاف حسین کی جان کو خطرہ تھا، تو اس سے یہیں رہ کر نمٹنا چاہیے تھا۔ بعد میں بھی اگر الطاف حسین واپس آجاتے، تو معاملات اتنے خراب نہ ہوتے۔ کہتی ہیں کہ جب بھی وہ واپسی کا اعلان کرتے، تو واحد میں کہتی کہ سارے مسائل کا حل یہی ہے کہ آج ہی واپس آجائیں، وہ آج بھی یہی موقف رکھتے ہوئے کہتی ہیں کہ یہاں آج بھی ان کے چاہنے والے موجود ہیں، چاہے جو بھی صورت حال درپیش ہو الطاف حسین واپس آجائیں۔
یہ 1984ء تھا۔ بڑی مشکل سے کسی نے روپوش چیئرمین عظیم احمد طارق سے ملاقات کرائی، جس میں لفظ 'مہاجر' کے برتاؤ کو اچھا نہ سمجھنے والی یہ خاتون ان کی ہم نوا ہوگئیں اور کراچی پریس کلب میں دو، ڈھائی سو خواتین کے ساتھ پریس کانفرنس میں مطالبہ کیا کہ گرفتار کارکنان پر کوئی الزام ہے، تو انہیں عدالت میں پیش کریں، تشدد نہ کریں، جس پر اُس وقت کے وزیراعلیٰ سندھ غوث علی شاہ نے اِن سے رابطہ کیا اور گفت وشنید کے بعد کچھ کارکنان رہا ہوئے۔ یہ خاتون کشور زہرا تھیں۔
اس پریس کانفرنس کے بعد کشور زہرا باقاعدہ 'ایم کیو ایم' کا حصہ بنیں، شعبۂ خواتین قائم کیا، کہتی ہیں کہ خواتین نے صحیح معنوں میں ووٹ ڈالنے کا حق ایم کیو ایم کی آمد کے بعد استعمال کیا۔ 1987ء کے بلدیاتی انتخابات میں قیادت روپوش تھی، انہوں نے گلی، گلی جا کر خواتین کو ووٹ کی اہمیت سے آگاہ کیا کہ یہی ہمارا ہتھیار ہے، جس کے نتیجے میں خواتین نکلیں، اور واشنگٹن پوسٹ نے لکھا کہ پاکستان میں پہلے کبھی خواتین نے اتنی بڑی تعداد میں ووٹ نہیں ڈالا۔ بلدیاتی چناؤ سے ان کی بلند توقعات پر الطاف حسین نے انہیں خوش فہمی کا شکار قرار دیا، لیکن جب نتائج آئے، تو بھاری اکثریت ملی۔ اسیر اراکین کو امیدوار نام زَد کرنے سے بھی لوگوں کا جذبہ دوچند ہوا۔
کشور زہرا کہتی ہیں کہ جب ایم کیو ایم بنی، تو الطاف حسین امریکا میں تھے۔ اُن کی ایم کیو ایم میں شمولیت کے بعد الطاف حسین وطن لوٹے اور گرفتار ہوگئے۔ پہلی ملاقات میں الطاف حسین نے ازراہ مذاق یا شاید کسی شک کی بنیاد پر مجھ سے پوچھا تھا کہ 'آپ کو کس نے پلانٹ کیا ہے؟' تو میں نے کہا کہ آپ کے بارے میں بھی لوگ ایسی باتیں کرتے ہیں کہ آپ کو ضیاالحق لائے ہیں، لیکن مجھے لگا کہ آپ کے لڑکے پریشان ہیں۔ آپ کسی کی بھی پیداوار ہوں، اگر آ پ کراچی کے لیے کام کر رہے ہیں ، تو میں اس شہر کی بہتری کے لیے آپ کے ساتھ کام کروں گی۔ پھر جب 1991ء میں کشور زہرا ایم کیو ایم سے مستعفی ہوئیں، تو الطاف حسین نے یہ بات دُہرائی کہ میں تو پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ یہ پلانٹڈ ہیں۔
کشور زہرا کے آبا واجداد کا تعلق اتر پردیش کے شہر 'جھانسی' سے ہے، لیکن اُن کی پیدائش آگرے کی ہے۔ اُن کے پردادا جج تھے۔ دادا کی کم عمری میں وفات ہوگئی، تو پردادا نے دادی کی تعلیم وتربیت کے لیے ایک انگریز خاتون مقرر کیں۔ یہی نہیں انہوں نے ایک پہاڑ بھی دادی کے نام کیا، جس سے قیمتی پتھر نکلتا تھا، یوں اُن کی دادی لکھ پتی ہوگئیں۔ یہ پہاڑ اب بھی وہاں موجود ہے۔
کشور زہرا کی والدہ نانی کی اکلوتی اولاد تھیں، لہٰذا اُن کی شادی کے بعد سمدھن نے اصرار کر کے انہیں اپنے ہاں بلوا لیا۔ پاکستان بنا، تو دو ہزار گز کا گھر اور سارے مال اسباب وفادار ملازمین کے سپرد کیا اور براستہ ممبئی، کراچی آگئے اور چھے بہن بھائی، نانی، دادی دو چچا اور والدین پیر الٰہی بخش کالونی میں ایک کمرے اور ایک برآمدے کے مکان میں ٹھیرے، والد سی آئی ڈی میں ملازم ہوگئے۔ گھریلو حالات ایسے تھے کہ تمام بہن بھائیوں کو اسکول کے زمانے سے ہی ملازمت کرنا پڑی، انہوں نے بھی اسکول کے ساتھ ٹیوشن پڑھانا شروع کر دیا۔ سرکاری اسکول سے میٹرک کے بعد انٹر اور گریجویشن پرائیوٹ طالبہ کے طور پر کیا۔
کوچۂ سیاست میں وارد ہونے سے پہلے کشور زہرا سماجی خدمت کے میدان میں فعال ہو چکی تھیں، اس کا پس منظر انہوں نے یوں بتایا کہ بچپن میں دادی نے مرغیاں پالی ہوئی تھیں، جس کے انڈوں کی فروخت سے کچھ آمدنی بھی ہو جاتی اور کچھ شکم پری بھی، ایک انڈا دو یا تین افراد کھاتے تھے، کچھ انڈوں سے چوزے نکلتے تو دادی وہ تمام بہن بھائیوں میں بانٹ دیتیں، کہ سب اپنے چوزے کی دیکھ بھال کریں۔ ایک دفعہ ان کے حصے میں جو چوزہ آیا، اس کی چونچ کی ساخت ایسی تھی کہ وہ ٹھیک سے دانہ ہی نہ چگ پاتا تھا، اسے خصوصی طور پر کٹوری میں باجرہ بھر کر دینا پڑتا تھا۔
اس واقعے نے انہیں معذور افراد کے مسائل حل کرنے کی طرف متوجہ کیا۔ گزشتہ 42 سال سے ایس آئی یو ٹی (سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن) میں فعال ہیں۔ سماجی خدمت کو اطمینان قلب کا ذریعہ اور مایوس مریض کے اندر زندگی کی امید جگانے کو بڑی خوشی قرار دیتی ہیں۔
کشور زہرا کہتی ہیں کہ بشریٰ زیدی حادثے کا شدید ردعمل اس لیے آیا کہ اُس وقت مسافر بسوں میں خواتین سے بہت بدتمیزی کی جاتی تھی، ہم اپنی مرضی کے اسٹاپ پر بس نہیں رکوا سکتے تھے، مگر پھر ہوا یہ کہ لڑکوں کو 'سیلف ڈیفنس' کے جو اختیار دیے گئے، اس کا بہت ناجائز استعمال کیا گیا۔ جب انہیں لگا کہ مہاجر قوم کا شائستہ تشخص خراب ہو رہا ہے، تو وہ ایم کیوایم سے مستعفی ہوگئیں، یہ 1991ء میں الطاف حسین کی جلاوطنی سے پہلے کی بات ہے۔ وہ ''حقیقی'' کے قیام اور اپنے استعفے میں کسی بھی سمبندھ کی تردید کرتی ہیں کہ 'میں پارٹی کو کوئی نقصان نہیں پہچانا چاہتی تھی۔ آفاق احمد اور عامر خان کا مسئلہ ہوا تو انہیں بھی یہی تاکید کی تھی۔' وہ کبھی ایم کیو ایم (حقیقی) میں شامل نہیں ہوئیں، لیکن آفاق اور عامر سے روابط رہے۔
متحدہ میں واپسی کا ذکر ہوا تو کشور زہرا نے بتایا کہ ان کی والدہ کو الطاف حسین والدہ کا درجہ دیتے تھے اور اِن کے چھوٹے بھائی کی بانی متحدہ سے کافی دوستی تھی، 2008ء میں اُن کے بھائی اور والدہ لندن گئے، تو وہاں اِن کا تذکرہ ہوا، اور یوں کشور زہرا بھی لندن ملنے چلی گئیں۔ الطاف حسین بہت تپاک سے ملے اور وہاں تعارف کرایا کہ یہ واحد خاتون تھیں، جو استعفا دے کر چلی گئی تھیں۔
الطاف حسین سے رو برو ملاقات میں انہوں نے 'حقیقی' کے بارے میں بات کی تو وہ چونک گئے۔ انہوں نے الطاف حسین سے کہا کہ عامر خان کے والد کا انتقال ہوا تو لوگ جنازے تک میں شریک ہوتے ہوئے خوف زدہ تھے۔ آفاق احمد کے گھر کا سامان اٹھا کر باہر پھینکا گیا۔ یہ بے حد تکلیف دہ بات ہے۔ کشور زہرا کے بقول انہوں نے بہت توجہ سے سنا اور کہا کہ آپ بہت خطرناک موضوع پر بات کر رہی ہیں، آپ نے مجھ سے تو یہ بات کرلی، لیکن کسی اور سے نہ کیجیے گا۔ میں نے کہا بس میرے اند ایک خلش تھی جو آپ سے کہہ دی کہ آپ سب کھیل کی لپیٹ میں آگئے۔
کشور زہرا کہتی ہیں کہ ایم کیوایم پھیلی تو اسے توڑنے کی کوششیں شروع ہو گئیں، وزیراعلیٰ جام صادق علی کے دور میں ملزمان کی ایک فہرست نکلی، جس میں آفاق احمد اور عامر خان سمیت 60 لڑکوں کے نام تھے۔ آفاق احمد جام صادق کے پاس پہنچے، تو جام صادق نے الطاف حسین کی تصویر جیب سے نکالی اور کہا میں انہیں تو اپنی جیب میں رکھتا ہوں، یہ نام انہوں نے ہی دیے ہیں۔ کشور زہرا کہتی ہیں کہ ایسا تھا یا نہیں تھا، لیکن جام صادق انتہائی ذہین تھے، وہ اپنا کھیل کھیل گئے۔
آفاق احمد نائن زیرو آکر برہم ہوئے، عظیم طارق نے انہیں سنبھالا اور کہا کہ یہ خود ان کی بنائی ہوئی فہرست ہے، انہوں نے حالات بہتر ہونے تک باہر جانے کا مشورہ دیا، یوں ایک دن میں ویزے لگوا کر انہیں روانہ کر دیا گیا۔ رات میں گئے ہی تھے کہ اگلی صبح شہر میں بینر لگے ہوئے تھے کہ 'جو قائد کا غدار ہے، وہ موت کا حق دار ہے۔' کہتی ہیں کہ یہ انہی کی طرف اشارہ تھا، جس کے بعد ان کے رابطے بالکل منقطع ہو گئے۔ کشور زہرا اسے نادیدہ قوتوں کی ایم کیو ایم توڑنے کی کوشش قرار دیتی ہیں کہ آج تک پتا نہیں کہ وہ بینر کس نے لگوائے تھے۔
'حقیقی' کے بعد ایک اہم موڑ 22 اگست 2016ء کو آیا، جب الطاف حسین کے ریاست مخالف نعروں کے بعد ایم کیو ایم (پاکستان) نے اُن سے لاتعلقی کا اعلان کیا۔ اس حوالے سے کشورزہرا کہتی ہیں کہ کارکنوں کی گرفتاریوں اور قتل کی وجہ سے الطاف حسین بہت زیادہ پریشان تھے، وہ الطاف حسین کو سمجھاتی رہتیں، کہ ہمارے اتنے لڑکے پہلے ہی گرفتار ہیں، پھر مسائل کا شکار خواتین کو بھی اس میں جھونک دینا بہت زیادہ پریشانیوں کا باعث بنے گا۔
کشور زہرا کہتی ہیں کہ ہم نے اپنی تحریک کو بچانا تھا، ہم پاکستان کے خلاف نہیں، صرف اپنا حق مانگ رہے ہیں۔ ہم ہندوستان واپس جا سکتے ہیں، اور نہ بحیرۂ عرب میں۔ کشور زہرا سمجھتی ہیں کہ الطاف حسین کے اردگرد جمع لوگ اس سے کچھ بے پروا ہیں۔ ہم پاکستان کو برا کہنے پر سمجھوتا نہیں کریں گے۔ الطاف حسین اگر مقتدر اداروں کے خلاف سخت الفاظ استعمال کرتے ہیں، تو ساتھ بیٹھنے والوں کو انہیں سمجھانا چاہیے، گالی دے کر کسی سے اپنا حق کیسے لے سکتے ہیں؟
کشور زہرا بھی پریس کلب کے اُس بھوک ہڑتالی کیمپ میں شریک تھیں، 18 اگست کو اپنی بہن کے چہلم میں شرکت کے لیے ملک سے باہر گئیں، جہاں انہیں دل کی تکلیف ہوئی اور انجیوپلاسٹی کرانا پڑی۔ 22 اگست کے واقعے سے بہت دل گرفتہ ہوئیں، کہتی ہیں کہ انہوں نے بغور ویڈیو دیکھی ہے، اُس روز نجی چینل میں توڑ پھوڑ کرنے والی کوئی ایک عورت بھی ہماری نہ تھی۔ ہو سکتا ہے کہ ایم کیوایم توڑنے والوں نے ایسی عورتیں شامل کی ہوں۔ میں نے اپنے شعبۂ خواتین کی بھرپور تربیت کی ہے، کہ کوئی ایسی صورت حال پیدا بھی ہو جائے، تو آپ ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر اپنی بسوں میں سوار ہو جائیں۔ جن خواتین کو توڑ پھوڑ کے الزام میں گرفتار کیا گیا، وہ اُس وقت وہاں موجود ہی نہیں تھیں۔
ایم کیو ایم توڑنے کی اس 'کوشش' کو کشور زہرا کاری وار قرار دیتی ہیں کہ اندر سے بھی ایم کیو ایم میں خرابیاں تھیں، باہر سے بھی توڑنے کی کوشش تھی، پھر برتن چٹخا ہوا ہو تو توڑنا آسان ہوتا ہے۔ تاہم انہیں امید ہے کہ اب ایم کیو ایم فاروق ستار کی قیادت میں آگے بڑھے گی۔ بانی متحدہ کے حوالے سے سخت بات نہ کرنے کی حکمت عملی کو اچھا سمجھتی ہیں کہ وہ ہمارے بانی تو ہیں، اب انہوں نے کچھ غلط لوگوں پر اعتماد کیا، جس کی وجہ سے پارٹی کو نقصان ہوا۔
ایم کیو ایم کے مسائل کو کشور زہرا جہاں مخالفین کی زور آزمائی کا نتیجہ قرار دیتی ہیں، وہاں وہ اِسے مکافات عمل بھی سمجھتی ہیں کہ 'مہاجر قوم نے ہم پر دامے، درمے، سخنے اعتماد کیا، تھانے کے بہ جائے 'سیکٹر' میں اپنے مسائل حل کرانے لگے، لیکن ہر آدمی اسے سہار نہ سکا، رویے بگڑے اور وہی 'سیکٹر' خوف کی علامت بن گیا۔ سیکٹر انچارج اراکین اسمبلی پر حاوی ہوا، اس سے اگر چندہ لانے کو کہا، تو وہ اس سے آگے بڑھ گیا۔ انتخابات ہم جیتتے رہے، مگر مقبولیت گرتی رہی۔ ہم وہ کارکردگی نہ دکھا پائے، جو ہمیں دکھانی چاہیے تھی، ہمیں چین سے کام بھی نہیں کرنے دیا گیا۔ شہری حکومت کی کارکردگی کا سہرا مصطفیٰ کمال کے سر تو ہے، مگر سہرے کی لڑیاں بھی ہوتی ہیں، وہ اس کا ذکر نہیں کرتے، الطاف حسین نے انہیں بہت سراہا تھا۔
کشور زہرا چاہتی ہیں کہ جو اس سرزمین پر پیدا ہوا، اسے فراخ دلی سے 'دھرتی کا بیٹا' تسلیم کیا جائے۔ ہم نے اپنی پوری ایک نسل کی قربانی دی ہے۔ سب قومیتوں کی اپنی شناخت ہے، لفظ مہاجر جسے گالی بنا دیا گیا تھا، اب ہم نے اپنی پہچان بنالی ہے تو اس کا احترام کیا جائے۔ اس کے علاوہ کشور زہرا ہندوستان، پاکستان کے اچھے تعلقات کی خواہاں ہیں کہ 'عوام امن چاہتے ہیں، اب جوہری ہتھیاروں کی باتیں کی جاتی ہیں، سمجھانے والے کم اور اکسانے والے زیادہ ہیں۔ سرحد پر مرنے والا انسان ہوتا ہے، چرواہے جانور چراتے ہوئے اور بچے کھیلتے ہوئے سرحد پار کر جاتے ہیں، سمندری حدود نہ پہچاننے والے غریب ماہی گیر پھنس جاتے ہیں۔ یہ مسائل حل ہونے چاہئیں۔'
''پڑھو اور بڑھو''
کشور زہرا کہتی ہیںکہ سیاست میں خواتین کو منظم کرنے پر الطاف حسین اُن سے بہت خوش تھے۔ جب دوبارہ متحدہ میں شامل ہوئیں، تو انہوں نے تعلیم ادھوری چھوڑنے والی خواتین کے لیے کا کام شروع کرنا چاہا، بانی متحدہ نے ان کی تائید کی اور یوں ''پڑھو اور بڑھو'' کے زیر عنوان اس منصوبے کو عملی جامہ پہنایا۔ خواتین کو تین زمروں میں بانٹا گیا۔ پہلے زمرے میں وہ خواتین جو دستخط بھی نہیں کر سکتی تھیں، دوسرے زمرے میں چھٹی، ساتویں تک پڑھی ہوئی، جب کہ تیسرے میں وہ جو گریجویشن کے بعد اب گھر داری تک محدود تھیں۔
120 گریجویٹ خواتین کو دس ماہ کا کورس کرایا، جس کے بعد انہوں نے اپنے اپنے علاقوں میں رضاکارانہ طور پر تدریس کا ذمہ اٹھایا، پرائمری اور مڈل تک تعلیم حاصل کرنے والی خواتین کو میٹرک کرایا، جس میں رنچھوڑ لائن کی 58 سالہ خاتون قابل ذکر ہیں۔ ناخواندہ خواتین کو دستخط کرنا اور اخبار پڑھنا سکھایا۔ ابتداً ہفتے میں ایک کلاس تھی، جو ان کے اصرار پر ہفتے میں دو اور پھر تین کلاسیں کیں۔
کہتی ہیں کہ یہ خواتین کے لیے ایک خوش گوار تجربہ تھا، بہت سی خواتین زندگی کی یک سانیت اور ڈپریشن سے باہر نکلیں۔ یہ سلسلہ 2009ء تا 2014ء رہا، یوں 1200 خواتین کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا گیا، پھر مالی بحران کا شکار ہو گیا۔ خواتین کی تعلیم کے لیے 'سیکٹر' دفاتر میں کمرے لیے ہوئے تھے، جب چھاپے پڑے، تو سب تتر بتر ہوگیا، کہتی ہیں کہ چھاپے مارنے والے پانی کے مٹکے تک توڑ دیتے کہ نہیں معلوم اس میں کیا چھپا رکھا ہے۔
بچے بڑے ہوئے تو ایم اے کیا
کشور زہرا ناظم آباد سے سٹی کونسلر رہیں۔ متحدہ میں واپس آئیں، تو الطاف حسین کی خواہش پر شعبۂ خواتین دوبارہ اُن کے سپرد ہوا، 2008ء کے بعد 2013ء میں بھی خواتین کی مخصوص نشست پر رکن قومی اسمبلی ہیں، جہاں وہ چار قائمہ کمیٹیوں کی بھی رکن ہیں۔ 1973ء میں ناظم آباد میں ایک کثیر القومی کمپنی کی اجازت سے اس کے نام پر ملبوسات کی دکان کھولی اور یہاں ان کی مصنوعات بنانا شروع کیں، اب اسپتالوں کی وردیاں، عروسی اور فیشن شوز کے ملبوسات تیار کرتی ہیں، جو برآمد کیے جاتے ہیں۔ اب شاعری سے زیادہ سیاسی موضوعات مطالعے میں رہتے ہیں۔ زندگی میں کسی کام یابی کو قابل ذکر نہیں سمجھتیں۔ 1970ء میں شادی ہوئی، لیکن شوہر سے علیحدگی ہے۔ دو بیٹے ہیں، جب کہ بھتیجی کو بیٹی بنایا ہوا ہے۔ تینوں کی شادیاں ہو چکیں۔ ایک بیٹا سرجن ہے، خراب حالات کی بنا پر اسے امریکا بھیج دیا، جب کہ دوسرا بیٹا ملبوسات کے کاروبار میں اِن کا معاون ہے۔ چھے پوتے پوتیوں کی دادی ہیں، بڑا پوتا 13 سال کا ہے۔ بچے بڑے ہوگئے تو چند برس قبل جامعہ کراچی سے ہیومن ڈیولپمنٹ میں ایم اے کیا، اب ایم فل کر رہی ہیں۔
ایک صحافی کے تذکرے نے بنیادی رکنیت ختم کرادی
بانی ایم کیوایم کی جانب سے باقاعدہ جن پانچ مرکزی راہ نماؤں کی بنیادی رکنیت ختم کی گئی ہے، ان میں کشور زہرا کا نام بھی شامل ہے۔ اس حوالے سے وہ بتاتی ہیں کہ میں بیمار تھی، جب ندیم نصرت نے مجھ سے اسمبلی رکنیت سے مستعفی ہونے کو کہا، میں نے بتایا کہ ابھی میرے پاس لیٹر ہیڈ نہیں ہے، لیکن آپ سوچ لیجیے کہ استعفے دے دیں گے، تو پارلیمان میں بھی آواز بلند نہ کر سکیں گے، ساتھ یہ بھی زور دیا کہ جو بھی عمل ہو وہ اجتماعی ہو، ایسا نہ ہو کچھ استعفا نہ دیں اور پھر تماشا بنے۔ اس دوران فاروق ستار اور عامر خان سے رابطہ ہوا، تو انہوں نے کہا کہ کسی بھی قیمت پر پارٹی کو بچانا ہے۔ 'پاک سرزمین پارٹی' کو پہلے ہی مقتدر قوتوں کی مدد حاصل ہے، ہمیں کم ازکم سانس لینے کا موقع تو رہے۔ اس حوالے سے کراچی کے ایک معروف تجزیہ کار سے 'آف دی ریکارڈ' فون پر بات ہوئی، انہوں نے نجی چینل کے ایک مذاکرے میں کہہ دیا کہ 'کشور زہرا چاہتی ہیں کہ استعفے نہ دیے جائیں۔' جس کے ایک گھنٹے بعد ہی ان کی بنیادی رکنیت ختم کرنے کا اعلان کردیا گیا۔
کچھ لوگ کھانے کمانے ہی متحدہ میں آئے!
کشور زہرا کہتی ہیں کہ جب کسی سیاسی جماعت دائرہ وسیع ہوتا ہے تو اس میں صرف کالی نہیں، بلکہ طرح طرح کے رنگوں کی بھیڑیں شامل ہو جاتی ہیں۔ متحدہ میں بھی ایسے لوگ آئے، جن کی کوئی نظریاتی وابستگی تھی اور نہ کوئی خدمات، وہ آئے، کھایا کمایا اور نکل گئے۔ یہ لوگ متحدہ میں شاید کھانے کمانے کے لیے ہی آئے تھے، آج باہر اپنے کاروبار لیے بیٹھے ہیں اور ہمارے عام کارکنان وہیں کے وہیں ہیں۔ شہدا کے گھروں کا برا حال ہے، چھوٹے چھوٹے بچے ہیں۔ ایم کیو ایم پاکستان کے پاس کوئی وسائل نہیں، اس وقت تقریباً 35 خواتین کی وہ خود دیکھ بھال کر رہی ہیں۔ کارکنان پر ایسے ایسے مقدمات ڈال دیے گئے ہیں، جو ان کے فرشتوں کو بھی نہیں پتا۔ گرفتار کارکنوں کو حیدرآباد منتقل کر دیا گیا ہے، ان کے بچے باپ کی صورت دیکھنے کو ترس رہے ہیں جب پیشی ہوتی ہے تو ایک کارکن کی بیوی اپنے معذور بچے کو پیٹھ پر لاد کر صبح سویرے حیدرآباد جاتی ہے، اور شوہر سے مل کر رات کو واپس لوٹتی ہے۔ جس کے پاس کھانے کو روٹی نہ ہو، اس پر ایسی افتاد کوئی معمولی بات نہیں۔
الطاف حسین کے باہر جانے کی مخالفت
باہر رہ کر قیادت کرنے اور متحد رکھنے کا سہرا کشور زہرا، الطاف حسین کے سر باندھتی ہیں، لیکن ان کے نزدیک الطاف حسین کے خلاف پہلی سازش یہ ہوئی کہ ان کے گرد جمع ہونے والوں نے انہیں تحفظ کے لیے جلاوطن ہونے کا مشورہ دیا۔ ایسے لوگ جب راہ نما کو اٹھا کر آسمان کی طرف لے جانا شروع کریں، تو پھر زمین سے اور انسانوں سے رشتہ منقطع ہونے لگتا ہے۔ اگر الطاف حسین کی جان کو خطرہ تھا، تو اس سے یہیں رہ کر نمٹنا چاہیے تھا۔ بعد میں بھی اگر الطاف حسین واپس آجاتے، تو معاملات اتنے خراب نہ ہوتے۔ کہتی ہیں کہ جب بھی وہ واپسی کا اعلان کرتے، تو واحد میں کہتی کہ سارے مسائل کا حل یہی ہے کہ آج ہی واپس آجائیں، وہ آج بھی یہی موقف رکھتے ہوئے کہتی ہیں کہ یہاں آج بھی ان کے چاہنے والے موجود ہیں، چاہے جو بھی صورت حال درپیش ہو الطاف حسین واپس آجائیں۔