مریخ پر انسانی آبادکاری کا خواب
طویل خلائی سفر کے دوران تازہ سبزیاں اور پھل اُگانے کے تجربات۔
ISLAMABAD:
تسخیر آفتاب کے بعد تسخیر مریخ امریکی خلائی ایجنسی ناسا کا اگلا ہدف ہے، اس ہدف کا انتخاب خلائی ادارے نے بہت پہلے کرلیا تھا۔ اسی وقت سے اس دیرینہ خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے مختلف سمتوں میں تحقیقی کام جاری ہے۔
طویل ترین فاصلوں تک خلابازوں کو لے جانے کی صلاحیت کے حامل خلائی جہاز کی تیاری کے علاوہ دوران سفر انسانی ضروریات کی تکمیل ممکن بنانے پر تحقیق کی جارہی ہے۔ شکم سیری انسان کی فطری ضرورت ہے۔ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن جانے والے خلانورد ڈبّا بند خوراک سے پیٹ کی آگ بجھاتے ہیں۔ چند ماہ قبل ناسا نے خلا میں سبزیاں اُگانے کا کام یاب تجربہ کیا تھا۔ اس تجربے کے بعد خلابازوں کو بھی ارضی مدار میں تازہ پھلوں اور سبزیوں کی دستیابی کی امید پیدا ہوگئی تھی۔
اب ناسا کے محققین ایسا نظام تیار کرنے پر کام کررہے ہیں جو خلا میں طویل ترین سفر کے دوران خلانوردوں کو تازہ پھل اور سبزیاں فراہم کرتا رہے۔ اس منصوبے کا مقصد چاند اور مریخ کے سفر کے دوران خلابازوں کی شکم سیری کے لیے تازہ خوراک کا بندوبست کرنا ہے۔ اس منصوبے کو لُونر؍ مارس گرین ہائوس کا نام دیا گیا ہے۔
اس منصوبے کے تحت آزمائشی طور پر ایک گرین ہائوس تیار کیا گیا ہے جو نمکیات کو ایک حلقے ( loop) میں ری سائیکل کرتے ہوئے وہی ماحول پیدا کرتا ہے جو زمین پر پودوں کی نموکے لیے درکار ہوتا ہے۔ اس منصوبے پر ناسا کے سائنس داں ایریزونا یونی ورسٹی کے انجنیئروں اور دوسرے ماہرین کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں۔ گرین ہائوس کی لمبائی اٹھارہ فٹ اور چوڑائی آٹھ فٹ ہے۔
ڈاکٹر رے وھیلر کے مطابق گرین ہائوس کا ماحول کچھ اس طرح بنایا گیا ہے کہ پودے آکسیجن اور پھل یا سبزیاں فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو صاف بھی کریں گے۔ یہ وہ کاربن ڈائی آکسائیڈ ہوگی جو خلانورد عمل تنفس کے نتیجے میں خارج کریں گے۔ پودے آکسیجن پیدا کرنے کے لیے ضیائی تالیف ( فوٹو سنتھیسس) کا سہارا لیں گے۔ پودوں کو زمین کا پانی فراہم نہیں کیا جائے گا بلکہ ان کے لیے پانی چاند اور مریخ ہی سے حاصل ہوگا۔ چوں کہ سائنس دانوں کو قوی امید ہے کہ مستقبل قریب میں چاند اور مریخ پر پانی کے ذخائر دریافت ہوجائیں گے۔
گرین ہاؤس میں پووں کو پانی اور نمکیات کی فراہمی کے ساتھ پانی اور فاضل مادّوں کی ری سائیکلنگ کے بھی انتظامات کیے گئے ہیں۔ یہ پورا نظام سائنسی اصطلاح میں ' بایوجنریٹیو لائف سپورٹ سسٹم' کہلاتا ہے۔
سائنس داں اس سلسلے میں بھی تحقیق کررہے ہیں کہ چاند یا مریخ پر اس سسٹم سے فائدہ اٹھانے کے لیے کون سے بیج اور پودے لے جائے جائیں۔ ظاہر ہے کہ یہ نظام تمام اقسام کے پودوں کو سپورٹ نہیں کرے گا، کیوں کہ مختلف اقسام کے پودوں کی نشوونما کے لیے جُدا جُدا ماحول درکار ہوتا ہے۔
سائنس دانوں کو قوی امید ہے کہ گرین ہائوس کی کام یاب آزمائش چاند اور مریخ پر انسانوں کے طویل قیام کی بنیاد بنے گی۔ علاوہ ازیں مستقبل میں اسی طرز پر بنائے گئے وسیع وعریض فارم ہائوس چاند، مریخ اور دوسرے سیاروں پر انسانی آبادکاری میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔
تسخیر آفتاب کے بعد تسخیر مریخ امریکی خلائی ایجنسی ناسا کا اگلا ہدف ہے، اس ہدف کا انتخاب خلائی ادارے نے بہت پہلے کرلیا تھا۔ اسی وقت سے اس دیرینہ خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کے لیے مختلف سمتوں میں تحقیقی کام جاری ہے۔
طویل ترین فاصلوں تک خلابازوں کو لے جانے کی صلاحیت کے حامل خلائی جہاز کی تیاری کے علاوہ دوران سفر انسانی ضروریات کی تکمیل ممکن بنانے پر تحقیق کی جارہی ہے۔ شکم سیری انسان کی فطری ضرورت ہے۔ بین الاقوامی خلائی اسٹیشن جانے والے خلانورد ڈبّا بند خوراک سے پیٹ کی آگ بجھاتے ہیں۔ چند ماہ قبل ناسا نے خلا میں سبزیاں اُگانے کا کام یاب تجربہ کیا تھا۔ اس تجربے کے بعد خلابازوں کو بھی ارضی مدار میں تازہ پھلوں اور سبزیوں کی دستیابی کی امید پیدا ہوگئی تھی۔
اب ناسا کے محققین ایسا نظام تیار کرنے پر کام کررہے ہیں جو خلا میں طویل ترین سفر کے دوران خلانوردوں کو تازہ پھل اور سبزیاں فراہم کرتا رہے۔ اس منصوبے کا مقصد چاند اور مریخ کے سفر کے دوران خلابازوں کی شکم سیری کے لیے تازہ خوراک کا بندوبست کرنا ہے۔ اس منصوبے کو لُونر؍ مارس گرین ہائوس کا نام دیا گیا ہے۔
اس منصوبے کے تحت آزمائشی طور پر ایک گرین ہائوس تیار کیا گیا ہے جو نمکیات کو ایک حلقے ( loop) میں ری سائیکل کرتے ہوئے وہی ماحول پیدا کرتا ہے جو زمین پر پودوں کی نموکے لیے درکار ہوتا ہے۔ اس منصوبے پر ناسا کے سائنس داں ایریزونا یونی ورسٹی کے انجنیئروں اور دوسرے ماہرین کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں۔ گرین ہائوس کی لمبائی اٹھارہ فٹ اور چوڑائی آٹھ فٹ ہے۔
ڈاکٹر رے وھیلر کے مطابق گرین ہائوس کا ماحول کچھ اس طرح بنایا گیا ہے کہ پودے آکسیجن اور پھل یا سبزیاں فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ کاربن ڈائی آکسائیڈ کو صاف بھی کریں گے۔ یہ وہ کاربن ڈائی آکسائیڈ ہوگی جو خلانورد عمل تنفس کے نتیجے میں خارج کریں گے۔ پودے آکسیجن پیدا کرنے کے لیے ضیائی تالیف ( فوٹو سنتھیسس) کا سہارا لیں گے۔ پودوں کو زمین کا پانی فراہم نہیں کیا جائے گا بلکہ ان کے لیے پانی چاند اور مریخ ہی سے حاصل ہوگا۔ چوں کہ سائنس دانوں کو قوی امید ہے کہ مستقبل قریب میں چاند اور مریخ پر پانی کے ذخائر دریافت ہوجائیں گے۔
گرین ہاؤس میں پووں کو پانی اور نمکیات کی فراہمی کے ساتھ پانی اور فاضل مادّوں کی ری سائیکلنگ کے بھی انتظامات کیے گئے ہیں۔ یہ پورا نظام سائنسی اصطلاح میں ' بایوجنریٹیو لائف سپورٹ سسٹم' کہلاتا ہے۔
سائنس داں اس سلسلے میں بھی تحقیق کررہے ہیں کہ چاند یا مریخ پر اس سسٹم سے فائدہ اٹھانے کے لیے کون سے بیج اور پودے لے جائے جائیں۔ ظاہر ہے کہ یہ نظام تمام اقسام کے پودوں کو سپورٹ نہیں کرے گا، کیوں کہ مختلف اقسام کے پودوں کی نشوونما کے لیے جُدا جُدا ماحول درکار ہوتا ہے۔
سائنس دانوں کو قوی امید ہے کہ گرین ہائوس کی کام یاب آزمائش چاند اور مریخ پر انسانوں کے طویل قیام کی بنیاد بنے گی۔ علاوہ ازیں مستقبل میں اسی طرز پر بنائے گئے وسیع وعریض فارم ہائوس چاند، مریخ اور دوسرے سیاروں پر انسانی آبادکاری میں کلیدی کردار ادا کریں گے۔