بُک شیلف
مطالعہ کیجئے دلچسپ کتابوں کا۔
محبت کم نہ ہونے دو
شاعر: احفاظ الرحمٰن
ناشر: اکادمی بازیافت، کراچی
صفحات:196
قیمت:500 روپے
سچا اور کھرا لفظ، نثر میں جلوہ گر ہو یا شاعری میں جوت جگائے، وہ زندگی کی زمین پر اُگتا ہے اور دھرتی پر بسنے والوں کی خوشیاں، خواب، آرزوئیں اور دکھ درد اپنے اندر سموئے پروان چڑھتا ہے۔ احفاظ اؒلرحمٰن کی شاعری ایسے ہی لفظوں سے ترتیب پائی ہے۔ ''محبت کم نہ ہونے دو'' ان کی نظموں کا مجموعہ ہے۔ اس سے پہلیان کی برسوں کی شاعری کا حاصل ''زندہ ہے زندگی '' کے نام سے شایع ہوچکا ہے۔
احفاظ الرحمٰن اس نظریاتی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جس نے آنکھوں میں سماجی بدلاؤ کا اجلا سپنا سجایا، طبقاتی نظام کو ملیامیٹ کرنے کی ٹھانی اور ظلم واستحصال کے خلاف سینہ سپر ہوگیا۔ خواب کو شکست ہوئی، اور ایسی شکست کہ طبقاتی نظام، مزدور اتحاد اور معاشی مساوات کے نعرے بھی لسانیت، علاقائیت، فرقہ واریت کی گھن گھرج میں دم توڑ گئے۔ اپنی لڑائی کے لیے احفاظ الرحمٰن نے صحافت کا میدان چُنا تھا۔ انھوں نیبہ طور راہ نما مالکان کے مقابلے میں صحافیوں کے حقوقہی کا پرچم نہیں تھاما، آزادیٔ صحافت کی جنگ بھی لڑتے رہیاور اس سے بھی بڑھ کر صحافیوں کو ان کے فرائض یاد دلانیمیں منہمک رہے۔ مگر یہاں بھی حالات نے مایوسی کا اندھیرا پھیلا دیا۔ اس سب کے باوجود ان کی شاعری میں ''زندہ ہے زندگی'' کی نوید دیتی امید لہریں مارتی ہے اور ''محبت کم نہ ہونے دو'' کا پیغام خوشبو بکھیرتا ہے۔
احفاظ الرحمٰن اہل سخن کے اس گروہ سے تعلق نہیں رکھتے جو سانحوں کی آگ کی راکھ سے ''شاہ کار'' تخلیق کرنے پر ایمان رکھتا ہے۔ وہ ہوتے المیے کے شور میں، مظلوموں کی آہ وبکا اور ظالموں کے قہقہوں کے عین درمیان آواز اٹھاتے ہیں اور پوری جرأت کے ساتھ جو کہنا ہو کہہ جاتے ہیں۔ سو ان کی شاعری حال سے اور ہمارے آپ کے احوال سے جُڑی ہوئی ہے۔ اس میں بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کے جرم میں لڑکیوں کی جان لینے کا وحشیانہ عمل، بھوک سے بلکتے تھر کے بچے،سماجی کارکن سبین محمود کا قتل،کوٹ رادھاکشن کے عیسائی جوڑے کو زندہ جلادینے کا واقعہ،برسلز میں ہونے والی دہشت گردی اورآرمی پبلک اسکول پشاور کے سانحے سمیت ہمارے اردگرد ہونے والے کتنے ہی المیے نوحہ کناں ہیں۔ انھوں نے صرف افراد کی اموات کے مرثیے ہی نہیں لکھے، اقدار کے خون پر کہیں زیادہ شدت کے ساتھ آواز اٹھائی ہے، جہاں درد طنز میں ڈھل کر خنجر سا کاٹ دار ہوجاتا ہے اور غم کے لُہو میں شگفتگی کے گلاب کھل اٹھتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل میڈیا کی دنیا میں ہونے والے ایک تماشے پر تحریر کردہ ''میڈان پاکستان'' ایک ایسی ہی نظم ہے۔
اس کے علاوہ ''ڈبل مرڈر''، ''بوجھو کون'' اور ''بندربازار اور پانامہ لیکس'' بھی ہماری صحافت، سیاست اور معاشرے کی سیاہ کاریوں اور مکاریوں کے منہہ پر لفظوں کے طمانچے ہیں۔ اس مجموعے میں ایسی لاتعداد نظمیں بھی شامل ہیں جن میں شاعر کی خالصتاً ذات کے کرب کا اظہار ہوتا ہے اور ایسے شعری اظہار بھی جن میں زندگی کے بارے میں چبھتے ہوئے سوال اٹھائے گئے ہیں۔
چناںچہ اس مجموعے کے ذریعے ہم احفاظ الرحمٰن میں چھپے اس فرد سے متعارف ہوتے ہیں جو معاشرے کے غموں میں ایسا کھویا کہ خود کو بھول ہی بیٹھا تھا۔ ذات کا یہ کرب جب فلسفیانہ رنگ اختیار کرتا ہے تو''پَل پَل ساتھ رہنے والی نارسائی''،''چکر سوالوں کے'' اور ''میرے گونگے کیا ہوا؟'' جیسی نظمیں سامنے آتی ہیں۔کتاب میں شاملممتاز اہل قلم مبین مرزا کا مضمون صاحب کتاب کی شخصیت اور شاعری کے بہت سے گوشے سامنے لاتا ہے۔ نہایت معیاری طباعت کی حامل اس کتاب کا سرورق شہزادمسعود کی تخلیق ہے جب کہ سینیرصحافی اور خطاط غلام محی الدین نے اس کے لیے خطاطی کے جوہر دکھائے ہیں۔
مولانا ابوالکلام آزاد، سید ابوالاعلیٰ
مودودی اور مستری صاحب
مولف : رحمان صدیقی
صفحات: 176،قیمت: 300/ روپے
ناشر: الحمد پبلی کیشنز، لاہور
مستری محمد صدیق تاریخ ِ پاک و ہند کا ایک بھولا بسرا اور فراموش کردہ کردار ہے جس نے ایک درویش صفت، ایک زیرک، ایک انقلابی سوچ کے حامل مدبر اور مصلح کی حیثیت سے بھرپور زندگی بسر کی اور جس کے اوصاف کے معترف برصغیر کے عظیم عبقری اور دانش ور ابوالکلام آزاد،انشاپرداز اور مذہبی سکالر مولانا ابوالاعلیٰ مودودی جیسی شخصیات بھی ہیں۔
ان کی ہمہ جہت شخصیت کا تعارف ان الفاظ میں کروایا گیا ہے'' خودداری میں ابوالکلام آزاد، سادگی میں حسرت موہانی، معاشی افکار میں پرتو ِ ابوذر غفاری ؒ، انقلابی ذہن میں سبھاش چندر بوس، قناعت و بے نیازی کے حامل، تفسیر میں بحر مواج، گفتگو میں بیشتر رموز کا سا انداز، نڈر، صاف گو، بے ریا مخلص، مدلل اور معقول بات کو فوراً تسلیم کر لینے والے ''۔ ان تعارفی کلمات اور ان کی سیرت کا نقشہ کھینچنے کے بعد مزید کچھ لکھنے کی گنجائش محسوس نہیں ہوتی
۔ تاہم جس قسم کی شخصیت اور فعالیت کے حامل یہ بزرگ تھے ضروری تھا کہ ان کے شایان ِ شان ایک مبسوط کتاب لکھی جاتی جس میں ان کی زندگی، ان کی دینی اور فلاحی سرگرمیاں اور ان کے فلسفہ ء فکر کا تفصیلات سے احاطہ کیا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ نئی نسل ہی نہیں برصغیر کی تاریخ میں دلچسپی رکھنے والوں کو بھی ان کے بارے میں کماحقہ علم نہیں جو افسوس نا ک امر ہے۔کتاب کا عنوان بھی اگر '' مستری محمد صدیق، برصغیر کی تاریخ کا اہم کردار '' رکھا جاتا تو بہتر ہوتا۔ تاہم موجودہ کاوش بھی انتہائی شاندار ہے۔
یاد کرے گی دنیا
مشاہیر ادب اور مصطفٰے زیدی
تدوین و ترتیب: سید نصرت زیدی
قیمت:500 روپے،صفحات:235
ناشر:الحمد پبلی کیشنز، پرانی انارکلی، لیک روڈ،لاہور
'' اس کے کلام میں آئمہ ادب کی سی شان پائی جاتی ہے، اس کی شاعری اس قدر بلند تخیل اور اس درجہ نرالے طرز بیان کی حامل ہے کہ بسا اوقات سر دھننے اور اس کا منہ چوم لینے کو جی چاہتا ہے اور کبھی کبھی تو یہ تمنا پیدا ہو جاتی ہے کہ کاش میں بھی ایسا کہہ سکتا۔'' یہ کہنا ہے جوش ملیح آبادی کا مصطفٰے زیدی کے بارے میں۔ اسی سے زیدی صاحب کے علمی و ادبی مرتبے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب میں مصطفٰے زیدی صاحب کی شخصیت اور فن کے بارے میں مضامین اور تاثرات جمع کئے گئے ہیں۔
مضامین لکھنے والی شخصیات خود علم و ادب کے مقام میں اعلٰی مقام رکھتی ہیں ۔ جن میں فراق گورکھپوری،احسان دانش، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، مجید امجد، میرزا ادیب ، سبط حسن، ابن انشاء، اسلم کمال، رئیس امروہوی، مسعود اشعر، محسن بھوپالی اور دیگر ایسی ہی نامور شخصیات شامل ہیں۔ فیض احمد فیض کہتے ہیں'' مصطفٰے زیدی اور ان کا کلام دونوں اتنے زمانے سے میرے اتنے قریب ہیں کہ قلم اٹھاتا ہوں تو ہر جملہ پر غالب کی طرفداری کا گمان ہوتا ہے اگرچہ فی الواقع یہ صحیح نہیں۔ مثلاً اس بات سے کون انکار کرے گاکہ نوجوان شعراء میں مصطفٰے زیدی کے علاوہ بہت کم ایسے ہوں گے جنھیں صحیح معنوں میں صاحب طرز کہا جا سکے ''۔ نصرت زیدی صاحب نے اس کتاب میں گویا ادب کے عظیم فن پارے اکٹھے کر دیئے ہیں۔ مصطفٰے زیدی کے چاہنے والوں کے لئے یہ کتاب ایک نادر تحفہ ہے۔
حضوری کی تمنا
شاعر: مرتضٰی ساجد
قیمت:300 روپے،صفحات: 128
ناشر:فریدیہ پریس، ساہیوال
حضور پاکﷺ کی مدح سرائی کے لئے نعت کہنا بڑی سعادت کی بات ہے۔ خوش نصیب ہیں ایسی ہستیاں جن پر نعت اترتی ہے اور جو اسے پڑھتے ہیں کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات خود حضور اعلٰی ﷺ کی صفات کھول کھول کر بیان کرتی ہے اور بنی نوع کو حکم ہے وہ اللہ کے محبوبﷺ سے محبت و عقیدت کا اظہار کرے۔ نعت کہنا بہت مشکل فن ہے کیونکہ حضور ﷺ کی شان بیان کرتے ہوئے عقیدت و محبت کے اظہار کے ساتھ شاعری کے اصول و ضوابط اور مذہبی نقطہ نظر کو مدنظر رکھنا بھی بہت ضروری ہے۔
مرتضیٰ ساجد نے حرمت نعت کے تمام تقاضوں کو پورا کیا ہے۔ پروفیسر سید ریاض حسین زیدی لکھتے ہیں''معلوم ہوتا ہے کہ رب کریم نے مرتضیٰ ساجد کو نعت گوئی کے فروغ کے لئے پیدا کیا۔ اور انھوں نے بھی اپنی پیدائش کے اس وصف کی لاج رکھی۔ مرتضیٰ ساجد کی نعت فنی اعتبار سے جامع ہے۔ کوئی بھی شعر خدانخواستہ کسی بھی طرح غیر متوازن اور عروضی اعتبار سے قابل گرفت نہیں ہے۔ ان کی نعت گوئی کی ان گنت خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ ہے کہ ان کا لب و لہجہ باقاعدہ شناخت رکھتا ہے یعنی ان کی یہی انفرادیت اسے وقیع، دل آویز اور دل پذیر بناتی ہے۔'' مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔
قلعہ
مصنف:فرانز کافکا،ترجمہ:طارق عزیز سندھو
قیمت:700روپے،صفحات:248
ناشر: بک ہوم، مزنگ روڈ، لاہور
جرمن ناول نگار فرانز کافکا کا شمار جدید دور کے عظیم فکشن نگاروں میں ہوتا ہے۔ اس کا تعلق متوسط گھرانے سے تھا۔ ابتدا میں اس کی دلچسپی تاریخ، یونانی اور لاطینی زبان تک تھی مگر پھر اس نے قانون میں دلچسپی لی اور ڈگری حاصل کی۔ سکول کے دنوں میں اس کی دوستی میکس براڈ سے ہوئی جو بنیادی طور پر لکھاری تھا، جہاں سے وہ ادب کی طرف مائل ہوا اور اس نے میٹا مارفاسس، دی ٹرائل، امریکہ اور دی کیسل جیسی شاہکار فکشن تخلیق کی۔ اس کی فکشن ہر اعتبار سے ایک جداگانہ حیثیت رکھتی ہے۔
عام طور پر کہانی میں کردار، ماحول اور پلاٹ قاری کے سامنے حقائق کی بساط بچھاتے ہیں مگر کافکا کا انداز اس سے ہٹ کر ہے، وہ ناول نگاری کی ہر تکنیک میں انوکھے اور منفرد تجربے کرتا ہے۔ اس کے نزدیک زندگی کا احساس ان غیر اہم اور معمولی جزئیات میں بھی موجود ہے جو کہ کسی صورتحال کا حصہ ہوتی ہیں ۔ یوں کافکا نے حقیقت نگاری کے انداز کو ایک نئے رخ سے متعارف کرایا ہے۔ اس کے کردار حقیقت سے دور ہوتے ہوئے بھی حقیقی لگتے ہیں، کہانی کا ماحول روز مرہ زندگی سے ہٹ کر بھی معاشرتی زندگی کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔
قلعہ کافکا کا آخری ناول ہے، اس ناول کی کہانی ایک زمینی معائنہ کار کے گرد گھومتی ہے جو حصول روزگار کے لئے ایک بڑے قلعے سے ملحقہ گاؤں میں آتا ہے، قلعہ وہاں پر حکومت اور انتظامیہ کا مرکز ہے، اسے وہاں قیام کے دوران افسر شاہی نظام کی وجہ سے کن مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے وہ بڑی خوبصورتی سے بیان کئے گئے ہیں۔ بالآخر وہ بیماری کا شکار ہو کر مر جاتا ہے، تب جاکر اسے وہاں کام کرنے کا اجازت نامہ جاری ہوتا ہے۔ فرد کی مجبوریاں اور بے چارگی بڑے جذباتی انداز میں بیان کی گئی ہے، ترجمہ نگار نے بھی ترجمہ کا حق ادا کر دیا ہے۔
درِ مکنون (المعروف الہامی الفاظ توانائی کے یونٹس)
مصنف: صاحبزادہ سید فہیم رضا کاظمی
صفحات: 96، قیمت :250/ روپے
ناشر: سلطان الہند خواجہ غریب نواز ؒ فاونڈیشن ، پاکستان
مسائل و مشکلات انسانی زندگی کا لازمہ ہیں۔ دنیا میں کوئی شخص بھی ایسا نہیں ہے جسے کوئی غم، پریشانی اور تکلیف نہ ہو ۔ بے پایاں وسائل اور دولت رکھنے والے بھی '' ٹینشن فری لائف '' کا دعویٰ نہیں کرسکتے۔ ان پریشانیوں، مشکلات اور مسائل کی وجہ کچھ بھی ہو سکتی ہے ۔ تاہم ان سے محفوظ رہنے یا ان سے نجات پانے کی خواہش ہر ایک کو یکساں طور پر ہوتی ہے۔ حضرت خواجہ غریب نوازؒ کے خانوادے سے تعلق رکھنے والے سید فہیم رضا کاظمی الچشتی نے انہی مسائل ومشکلات اور پریشانیوں کے حل کے لیے روحانی نسخے تجویز کیے ہیں اور انہیں کتابی صورت میں مرتب کرکے شائع کیا ہے۔کتاب میں احادیث اور اقوال ِ اولیاء کی روشنی میں مختلف جسمانی اور روحانی عوارض کے علاج کے لیے وظائف و اوراد درج کیے گئے ہیں۔ یہ موضوع ایسا ہے کہ جس پر پہلے بھی مارکیٹ میں بہت سی کتابیں دستیاب ہیں۔ یہ کتاب بھی ایسی ہی کتابوں میں ایک اچھا اضافہ تصور کی جا سکتی ہے۔
شاعرات ِ ارض ِ پاکستان ( حصہ پنجم)
( تنقیدی مضامین و منتخب کلام)
مصنف: شبیر ناقدؔ
صفحات: 160، قیمت : 500/ روپے
ناشر : رنگ ِ ادب پبلی کیشنز ، کراچی
شبیر ناقد نے اس سے پہلے ملک کی خواتین شاعرات، ان کی شاعری اور ادبی قد کاٹھ کے حوالے سے اب تک چار مجموعے شائع کیے ہیں اور زیر نظر ان کا پانچواں مجموعہ ہے۔ اس مجموعے میں جن شاعرات کے کلام اور ان کے فن کے بارے میں مضامین تحریر کیے گئے ہیں ان میں ادا جعفری، ارم زہرا، الویرا، بلقیس قمر، تسنیم کوثر، ثمینہ راجہ، حمیدہ سحر، دردانہ جلیل، دعاعلی، رضیہ فصیح احمد، ریحانہ سلیم، زہرا نگاہ، سعدیہ حریم، شاہین زیدی، پروفیسر شاہدہ حسن، شائستہ سحر، شمیم نسرین، صائمہ خیری، عمرانہ جبیں، فاخرہ بتول، ڈاکٹر فاطمہ حسن، کنیز فاطمہ کرن، گلنار آفریں، ڈاکٹرنجمہ شاہین کھوسہ، نسیم سید، نورجہاں نوری اور نوشی گیلانی شامل ہیں۔کم وبیش یہ تمام نام خواتین شاعرات میں جانے پہچانے ہیں۔ جب کہ بعض تو غیر معمولی شہرت کی حامل بھی ہیں۔ جنہیں مشاعروں میںپوری توجہ اور ذوق کے ساتھ سنا جاتا رہا ہے۔ شبیر ناقد نے ان شاعرات کے کلام اور فن کے محاسن بیان کرتے ہوئے ان کے بعض اشعار بھی بطورمشتے ازخروارے پیش کیے ہیں جب کہ ان کی دو دو منتخب غزلیں بھی شامل اشاعت کی ہیں۔ اس طرح ان شاعرات کے بارے میں کماحقہ واقفیت اور جانکاری بھی ہو جاتی ہے۔
کتاب ِ وفا ( مجموعہ غزل )
شاعر: شبیر ناقدؔ
صفحات: 192، قیمت: 400/ روپے
ناشر: رنگ ِ ادب پبلی کیشنز، کراچی
شبیر ناقد جانے پہچانے شاعر اور ادیب ہیں ۔گزشتہ چند برسوں سے ان کی متعدد نثری اور شعری کتب اشاعت پذیر ہو کر مارکیٹ میںآئی ہیں۔ وہ اردو اور سرائیکی زبان میں لکھتے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ان کی شاعری کا ساتواں مجموعہ ہے جس میں ان کی ایک سو سے زائد غزلیں شامل ہیں ۔ جنہیں ابجد کے اعتبار سے ردیف وار مرتب کیا گیا ہے۔ شبیر ناقد اردو شاعری کی کلاسیکی روایت میں رہتے ہیں شعر کہتے ہیں ۔ وہ اپنے خارج کو باطن سے الگ نہیں کرتے ۔ ان کی شاعری میں جہاں عشق و محبت کی واردات ملتی ہے وہیں پر غمِ زمانہ بھی نمایاں ہے۔
وہ بڑی مہارت کے ساتھ عصری مسائل کو موضوع سخن بناتے ہیں ۔ سلاست و روانی ان کی غزل کا بنیادی وصف ہے۔ وہ ادق مضامین کو بھی بڑے سادہ انداز میں بیان کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ان کی کتابوں کا پیش لفظ لکھنے والے ان کے ممدوح ابوالبیان ظہور احمد فاتح ان کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں '' شبیر ناقدؔ نظم ونثر دونوں میدانوں میں مستقل مزاجی کے ساتھ پیش رفت کر رہا ہے، یہ وہ فرہاد ِ ادب ہے جو گرمی سردی کا خیال کیے بغیر تندی حالات کے تھپیڑے کھاتا ہوا جوئے شیر لانے کی دھن میں ہے، خدا کرے ادب کی شیریں اسے مطلوبہ پذیرائی سے ہم کنا ر کردے ''۔
شاعر: احفاظ الرحمٰن
ناشر: اکادمی بازیافت، کراچی
صفحات:196
قیمت:500 روپے
سچا اور کھرا لفظ، نثر میں جلوہ گر ہو یا شاعری میں جوت جگائے، وہ زندگی کی زمین پر اُگتا ہے اور دھرتی پر بسنے والوں کی خوشیاں، خواب، آرزوئیں اور دکھ درد اپنے اندر سموئے پروان چڑھتا ہے۔ احفاظ اؒلرحمٰن کی شاعری ایسے ہی لفظوں سے ترتیب پائی ہے۔ ''محبت کم نہ ہونے دو'' ان کی نظموں کا مجموعہ ہے۔ اس سے پہلیان کی برسوں کی شاعری کا حاصل ''زندہ ہے زندگی '' کے نام سے شایع ہوچکا ہے۔
احفاظ الرحمٰن اس نظریاتی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جس نے آنکھوں میں سماجی بدلاؤ کا اجلا سپنا سجایا، طبقاتی نظام کو ملیامیٹ کرنے کی ٹھانی اور ظلم واستحصال کے خلاف سینہ سپر ہوگیا۔ خواب کو شکست ہوئی، اور ایسی شکست کہ طبقاتی نظام، مزدور اتحاد اور معاشی مساوات کے نعرے بھی لسانیت، علاقائیت، فرقہ واریت کی گھن گھرج میں دم توڑ گئے۔ اپنی لڑائی کے لیے احفاظ الرحمٰن نے صحافت کا میدان چُنا تھا۔ انھوں نیبہ طور راہ نما مالکان کے مقابلے میں صحافیوں کے حقوقہی کا پرچم نہیں تھاما، آزادیٔ صحافت کی جنگ بھی لڑتے رہیاور اس سے بھی بڑھ کر صحافیوں کو ان کے فرائض یاد دلانیمیں منہمک رہے۔ مگر یہاں بھی حالات نے مایوسی کا اندھیرا پھیلا دیا۔ اس سب کے باوجود ان کی شاعری میں ''زندہ ہے زندگی'' کی نوید دیتی امید لہریں مارتی ہے اور ''محبت کم نہ ہونے دو'' کا پیغام خوشبو بکھیرتا ہے۔
احفاظ الرحمٰن اہل سخن کے اس گروہ سے تعلق نہیں رکھتے جو سانحوں کی آگ کی راکھ سے ''شاہ کار'' تخلیق کرنے پر ایمان رکھتا ہے۔ وہ ہوتے المیے کے شور میں، مظلوموں کی آہ وبکا اور ظالموں کے قہقہوں کے عین درمیان آواز اٹھاتے ہیں اور پوری جرأت کے ساتھ جو کہنا ہو کہہ جاتے ہیں۔ سو ان کی شاعری حال سے اور ہمارے آپ کے احوال سے جُڑی ہوئی ہے۔ اس میں بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے کے جرم میں لڑکیوں کی جان لینے کا وحشیانہ عمل، بھوک سے بلکتے تھر کے بچے،سماجی کارکن سبین محمود کا قتل،کوٹ رادھاکشن کے عیسائی جوڑے کو زندہ جلادینے کا واقعہ،برسلز میں ہونے والی دہشت گردی اورآرمی پبلک اسکول پشاور کے سانحے سمیت ہمارے اردگرد ہونے والے کتنے ہی المیے نوحہ کناں ہیں۔ انھوں نے صرف افراد کی اموات کے مرثیے ہی نہیں لکھے، اقدار کے خون پر کہیں زیادہ شدت کے ساتھ آواز اٹھائی ہے، جہاں درد طنز میں ڈھل کر خنجر سا کاٹ دار ہوجاتا ہے اور غم کے لُہو میں شگفتگی کے گلاب کھل اٹھتے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل میڈیا کی دنیا میں ہونے والے ایک تماشے پر تحریر کردہ ''میڈان پاکستان'' ایک ایسی ہی نظم ہے۔
اس کے علاوہ ''ڈبل مرڈر''، ''بوجھو کون'' اور ''بندربازار اور پانامہ لیکس'' بھی ہماری صحافت، سیاست اور معاشرے کی سیاہ کاریوں اور مکاریوں کے منہہ پر لفظوں کے طمانچے ہیں۔ اس مجموعے میں ایسی لاتعداد نظمیں بھی شامل ہیں جن میں شاعر کی خالصتاً ذات کے کرب کا اظہار ہوتا ہے اور ایسے شعری اظہار بھی جن میں زندگی کے بارے میں چبھتے ہوئے سوال اٹھائے گئے ہیں۔
چناںچہ اس مجموعے کے ذریعے ہم احفاظ الرحمٰن میں چھپے اس فرد سے متعارف ہوتے ہیں جو معاشرے کے غموں میں ایسا کھویا کہ خود کو بھول ہی بیٹھا تھا۔ ذات کا یہ کرب جب فلسفیانہ رنگ اختیار کرتا ہے تو''پَل پَل ساتھ رہنے والی نارسائی''،''چکر سوالوں کے'' اور ''میرے گونگے کیا ہوا؟'' جیسی نظمیں سامنے آتی ہیں۔کتاب میں شاملممتاز اہل قلم مبین مرزا کا مضمون صاحب کتاب کی شخصیت اور شاعری کے بہت سے گوشے سامنے لاتا ہے۔ نہایت معیاری طباعت کی حامل اس کتاب کا سرورق شہزادمسعود کی تخلیق ہے جب کہ سینیرصحافی اور خطاط غلام محی الدین نے اس کے لیے خطاطی کے جوہر دکھائے ہیں۔
مولانا ابوالکلام آزاد، سید ابوالاعلیٰ
مودودی اور مستری صاحب
مولف : رحمان صدیقی
صفحات: 176،قیمت: 300/ روپے
ناشر: الحمد پبلی کیشنز، لاہور
مستری محمد صدیق تاریخ ِ پاک و ہند کا ایک بھولا بسرا اور فراموش کردہ کردار ہے جس نے ایک درویش صفت، ایک زیرک، ایک انقلابی سوچ کے حامل مدبر اور مصلح کی حیثیت سے بھرپور زندگی بسر کی اور جس کے اوصاف کے معترف برصغیر کے عظیم عبقری اور دانش ور ابوالکلام آزاد،انشاپرداز اور مذہبی سکالر مولانا ابوالاعلیٰ مودودی جیسی شخصیات بھی ہیں۔
ان کی ہمہ جہت شخصیت کا تعارف ان الفاظ میں کروایا گیا ہے'' خودداری میں ابوالکلام آزاد، سادگی میں حسرت موہانی، معاشی افکار میں پرتو ِ ابوذر غفاری ؒ، انقلابی ذہن میں سبھاش چندر بوس، قناعت و بے نیازی کے حامل، تفسیر میں بحر مواج، گفتگو میں بیشتر رموز کا سا انداز، نڈر، صاف گو، بے ریا مخلص، مدلل اور معقول بات کو فوراً تسلیم کر لینے والے ''۔ ان تعارفی کلمات اور ان کی سیرت کا نقشہ کھینچنے کے بعد مزید کچھ لکھنے کی گنجائش محسوس نہیں ہوتی
۔ تاہم جس قسم کی شخصیت اور فعالیت کے حامل یہ بزرگ تھے ضروری تھا کہ ان کے شایان ِ شان ایک مبسوط کتاب لکھی جاتی جس میں ان کی زندگی، ان کی دینی اور فلاحی سرگرمیاں اور ان کے فلسفہ ء فکر کا تفصیلات سے احاطہ کیا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ نئی نسل ہی نہیں برصغیر کی تاریخ میں دلچسپی رکھنے والوں کو بھی ان کے بارے میں کماحقہ علم نہیں جو افسوس نا ک امر ہے۔کتاب کا عنوان بھی اگر '' مستری محمد صدیق، برصغیر کی تاریخ کا اہم کردار '' رکھا جاتا تو بہتر ہوتا۔ تاہم موجودہ کاوش بھی انتہائی شاندار ہے۔
یاد کرے گی دنیا
مشاہیر ادب اور مصطفٰے زیدی
تدوین و ترتیب: سید نصرت زیدی
قیمت:500 روپے،صفحات:235
ناشر:الحمد پبلی کیشنز، پرانی انارکلی، لیک روڈ،لاہور
'' اس کے کلام میں آئمہ ادب کی سی شان پائی جاتی ہے، اس کی شاعری اس قدر بلند تخیل اور اس درجہ نرالے طرز بیان کی حامل ہے کہ بسا اوقات سر دھننے اور اس کا منہ چوم لینے کو جی چاہتا ہے اور کبھی کبھی تو یہ تمنا پیدا ہو جاتی ہے کہ کاش میں بھی ایسا کہہ سکتا۔'' یہ کہنا ہے جوش ملیح آبادی کا مصطفٰے زیدی کے بارے میں۔ اسی سے زیدی صاحب کے علمی و ادبی مرتبے کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب میں مصطفٰے زیدی صاحب کی شخصیت اور فن کے بارے میں مضامین اور تاثرات جمع کئے گئے ہیں۔
مضامین لکھنے والی شخصیات خود علم و ادب کے مقام میں اعلٰی مقام رکھتی ہیں ۔ جن میں فراق گورکھپوری،احسان دانش، فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، مجید امجد، میرزا ادیب ، سبط حسن، ابن انشاء، اسلم کمال، رئیس امروہوی، مسعود اشعر، محسن بھوپالی اور دیگر ایسی ہی نامور شخصیات شامل ہیں۔ فیض احمد فیض کہتے ہیں'' مصطفٰے زیدی اور ان کا کلام دونوں اتنے زمانے سے میرے اتنے قریب ہیں کہ قلم اٹھاتا ہوں تو ہر جملہ پر غالب کی طرفداری کا گمان ہوتا ہے اگرچہ فی الواقع یہ صحیح نہیں۔ مثلاً اس بات سے کون انکار کرے گاکہ نوجوان شعراء میں مصطفٰے زیدی کے علاوہ بہت کم ایسے ہوں گے جنھیں صحیح معنوں میں صاحب طرز کہا جا سکے ''۔ نصرت زیدی صاحب نے اس کتاب میں گویا ادب کے عظیم فن پارے اکٹھے کر دیئے ہیں۔ مصطفٰے زیدی کے چاہنے والوں کے لئے یہ کتاب ایک نادر تحفہ ہے۔
حضوری کی تمنا
شاعر: مرتضٰی ساجد
قیمت:300 روپے،صفحات: 128
ناشر:فریدیہ پریس، ساہیوال
حضور پاکﷺ کی مدح سرائی کے لئے نعت کہنا بڑی سعادت کی بات ہے۔ خوش نصیب ہیں ایسی ہستیاں جن پر نعت اترتی ہے اور جو اسے پڑھتے ہیں کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات خود حضور اعلٰی ﷺ کی صفات کھول کھول کر بیان کرتی ہے اور بنی نوع کو حکم ہے وہ اللہ کے محبوبﷺ سے محبت و عقیدت کا اظہار کرے۔ نعت کہنا بہت مشکل فن ہے کیونکہ حضور ﷺ کی شان بیان کرتے ہوئے عقیدت و محبت کے اظہار کے ساتھ شاعری کے اصول و ضوابط اور مذہبی نقطہ نظر کو مدنظر رکھنا بھی بہت ضروری ہے۔
مرتضیٰ ساجد نے حرمت نعت کے تمام تقاضوں کو پورا کیا ہے۔ پروفیسر سید ریاض حسین زیدی لکھتے ہیں''معلوم ہوتا ہے کہ رب کریم نے مرتضیٰ ساجد کو نعت گوئی کے فروغ کے لئے پیدا کیا۔ اور انھوں نے بھی اپنی پیدائش کے اس وصف کی لاج رکھی۔ مرتضیٰ ساجد کی نعت فنی اعتبار سے جامع ہے۔ کوئی بھی شعر خدانخواستہ کسی بھی طرح غیر متوازن اور عروضی اعتبار سے قابل گرفت نہیں ہے۔ ان کی نعت گوئی کی ان گنت خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ ہے کہ ان کا لب و لہجہ باقاعدہ شناخت رکھتا ہے یعنی ان کی یہی انفرادیت اسے وقیع، دل آویز اور دل پذیر بناتی ہے۔'' مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔
قلعہ
مصنف:فرانز کافکا،ترجمہ:طارق عزیز سندھو
قیمت:700روپے،صفحات:248
ناشر: بک ہوم، مزنگ روڈ، لاہور
جرمن ناول نگار فرانز کافکا کا شمار جدید دور کے عظیم فکشن نگاروں میں ہوتا ہے۔ اس کا تعلق متوسط گھرانے سے تھا۔ ابتدا میں اس کی دلچسپی تاریخ، یونانی اور لاطینی زبان تک تھی مگر پھر اس نے قانون میں دلچسپی لی اور ڈگری حاصل کی۔ سکول کے دنوں میں اس کی دوستی میکس براڈ سے ہوئی جو بنیادی طور پر لکھاری تھا، جہاں سے وہ ادب کی طرف مائل ہوا اور اس نے میٹا مارفاسس، دی ٹرائل، امریکہ اور دی کیسل جیسی شاہکار فکشن تخلیق کی۔ اس کی فکشن ہر اعتبار سے ایک جداگانہ حیثیت رکھتی ہے۔
عام طور پر کہانی میں کردار، ماحول اور پلاٹ قاری کے سامنے حقائق کی بساط بچھاتے ہیں مگر کافکا کا انداز اس سے ہٹ کر ہے، وہ ناول نگاری کی ہر تکنیک میں انوکھے اور منفرد تجربے کرتا ہے۔ اس کے نزدیک زندگی کا احساس ان غیر اہم اور معمولی جزئیات میں بھی موجود ہے جو کہ کسی صورتحال کا حصہ ہوتی ہیں ۔ یوں کافکا نے حقیقت نگاری کے انداز کو ایک نئے رخ سے متعارف کرایا ہے۔ اس کے کردار حقیقت سے دور ہوتے ہوئے بھی حقیقی لگتے ہیں، کہانی کا ماحول روز مرہ زندگی سے ہٹ کر بھی معاشرتی زندگی کی بھرپور عکاسی کرتا ہے۔
قلعہ کافکا کا آخری ناول ہے، اس ناول کی کہانی ایک زمینی معائنہ کار کے گرد گھومتی ہے جو حصول روزگار کے لئے ایک بڑے قلعے سے ملحقہ گاؤں میں آتا ہے، قلعہ وہاں پر حکومت اور انتظامیہ کا مرکز ہے، اسے وہاں قیام کے دوران افسر شاہی نظام کی وجہ سے کن مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے وہ بڑی خوبصورتی سے بیان کئے گئے ہیں۔ بالآخر وہ بیماری کا شکار ہو کر مر جاتا ہے، تب جاکر اسے وہاں کام کرنے کا اجازت نامہ جاری ہوتا ہے۔ فرد کی مجبوریاں اور بے چارگی بڑے جذباتی انداز میں بیان کی گئی ہے، ترجمہ نگار نے بھی ترجمہ کا حق ادا کر دیا ہے۔
درِ مکنون (المعروف الہامی الفاظ توانائی کے یونٹس)
مصنف: صاحبزادہ سید فہیم رضا کاظمی
صفحات: 96، قیمت :250/ روپے
ناشر: سلطان الہند خواجہ غریب نواز ؒ فاونڈیشن ، پاکستان
مسائل و مشکلات انسانی زندگی کا لازمہ ہیں۔ دنیا میں کوئی شخص بھی ایسا نہیں ہے جسے کوئی غم، پریشانی اور تکلیف نہ ہو ۔ بے پایاں وسائل اور دولت رکھنے والے بھی '' ٹینشن فری لائف '' کا دعویٰ نہیں کرسکتے۔ ان پریشانیوں، مشکلات اور مسائل کی وجہ کچھ بھی ہو سکتی ہے ۔ تاہم ان سے محفوظ رہنے یا ان سے نجات پانے کی خواہش ہر ایک کو یکساں طور پر ہوتی ہے۔ حضرت خواجہ غریب نوازؒ کے خانوادے سے تعلق رکھنے والے سید فہیم رضا کاظمی الچشتی نے انہی مسائل ومشکلات اور پریشانیوں کے حل کے لیے روحانی نسخے تجویز کیے ہیں اور انہیں کتابی صورت میں مرتب کرکے شائع کیا ہے۔کتاب میں احادیث اور اقوال ِ اولیاء کی روشنی میں مختلف جسمانی اور روحانی عوارض کے علاج کے لیے وظائف و اوراد درج کیے گئے ہیں۔ یہ موضوع ایسا ہے کہ جس پر پہلے بھی مارکیٹ میں بہت سی کتابیں دستیاب ہیں۔ یہ کتاب بھی ایسی ہی کتابوں میں ایک اچھا اضافہ تصور کی جا سکتی ہے۔
شاعرات ِ ارض ِ پاکستان ( حصہ پنجم)
( تنقیدی مضامین و منتخب کلام)
مصنف: شبیر ناقدؔ
صفحات: 160، قیمت : 500/ روپے
ناشر : رنگ ِ ادب پبلی کیشنز ، کراچی
شبیر ناقد نے اس سے پہلے ملک کی خواتین شاعرات، ان کی شاعری اور ادبی قد کاٹھ کے حوالے سے اب تک چار مجموعے شائع کیے ہیں اور زیر نظر ان کا پانچواں مجموعہ ہے۔ اس مجموعے میں جن شاعرات کے کلام اور ان کے فن کے بارے میں مضامین تحریر کیے گئے ہیں ان میں ادا جعفری، ارم زہرا، الویرا، بلقیس قمر، تسنیم کوثر، ثمینہ راجہ، حمیدہ سحر، دردانہ جلیل، دعاعلی، رضیہ فصیح احمد، ریحانہ سلیم، زہرا نگاہ، سعدیہ حریم، شاہین زیدی، پروفیسر شاہدہ حسن، شائستہ سحر، شمیم نسرین، صائمہ خیری، عمرانہ جبیں، فاخرہ بتول، ڈاکٹر فاطمہ حسن، کنیز فاطمہ کرن، گلنار آفریں، ڈاکٹرنجمہ شاہین کھوسہ، نسیم سید، نورجہاں نوری اور نوشی گیلانی شامل ہیں۔کم وبیش یہ تمام نام خواتین شاعرات میں جانے پہچانے ہیں۔ جب کہ بعض تو غیر معمولی شہرت کی حامل بھی ہیں۔ جنہیں مشاعروں میںپوری توجہ اور ذوق کے ساتھ سنا جاتا رہا ہے۔ شبیر ناقد نے ان شاعرات کے کلام اور فن کے محاسن بیان کرتے ہوئے ان کے بعض اشعار بھی بطورمشتے ازخروارے پیش کیے ہیں جب کہ ان کی دو دو منتخب غزلیں بھی شامل اشاعت کی ہیں۔ اس طرح ان شاعرات کے بارے میں کماحقہ واقفیت اور جانکاری بھی ہو جاتی ہے۔
کتاب ِ وفا ( مجموعہ غزل )
شاعر: شبیر ناقدؔ
صفحات: 192، قیمت: 400/ روپے
ناشر: رنگ ِ ادب پبلی کیشنز، کراچی
شبیر ناقد جانے پہچانے شاعر اور ادیب ہیں ۔گزشتہ چند برسوں سے ان کی متعدد نثری اور شعری کتب اشاعت پذیر ہو کر مارکیٹ میںآئی ہیں۔ وہ اردو اور سرائیکی زبان میں لکھتے ہیں۔ زیر تبصرہ کتاب ان کی شاعری کا ساتواں مجموعہ ہے جس میں ان کی ایک سو سے زائد غزلیں شامل ہیں ۔ جنہیں ابجد کے اعتبار سے ردیف وار مرتب کیا گیا ہے۔ شبیر ناقد اردو شاعری کی کلاسیکی روایت میں رہتے ہیں شعر کہتے ہیں ۔ وہ اپنے خارج کو باطن سے الگ نہیں کرتے ۔ ان کی شاعری میں جہاں عشق و محبت کی واردات ملتی ہے وہیں پر غمِ زمانہ بھی نمایاں ہے۔
وہ بڑی مہارت کے ساتھ عصری مسائل کو موضوع سخن بناتے ہیں ۔ سلاست و روانی ان کی غزل کا بنیادی وصف ہے۔ وہ ادق مضامین کو بھی بڑے سادہ انداز میں بیان کرنے کی قدرت رکھتے ہیں۔ان کی کتابوں کا پیش لفظ لکھنے والے ان کے ممدوح ابوالبیان ظہور احمد فاتح ان کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں '' شبیر ناقدؔ نظم ونثر دونوں میدانوں میں مستقل مزاجی کے ساتھ پیش رفت کر رہا ہے، یہ وہ فرہاد ِ ادب ہے جو گرمی سردی کا خیال کیے بغیر تندی حالات کے تھپیڑے کھاتا ہوا جوئے شیر لانے کی دھن میں ہے، خدا کرے ادب کی شیریں اسے مطلوبہ پذیرائی سے ہم کنا ر کردے ''۔