سیاسی اکھاڑے کی نئی گرما گرمی
آج کا سیاسی تناظر تو اس قدر دگرگوں ہے کہ اُسے دیکھ کر وحشت نہ ہو، یہ ممکن نہیں۔
کہا جاتا ہے کہ ماضی آدمی کے لیے ہمیشہ پُرکشش ہوتا ہے۔ وہ بار بار اسے یاد کرتا اور اُس کی طرف پلٹ کر دیکھتا ہے۔ اُس کی دُھند میں لپٹے ہوئے چہرے، باتیں اور لمحے رہ رہ کر اسے اپنی طرف کھینچتے اور اس کے دل کو لبھاتے ہیں۔ یہ بات غلط بھی نہیں۔
ادب و شعر کی کتابیں اٹھاکر دیکھی جائیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ماضی کی کشش واقعی کتنی طاقت رکھتی ہے۔ البتہ تاریخ کا معاملہ مختلف ہے۔ ضروری نہیں کہ وہ ہر بار گزرے ہوئے وقت کا تذکرہ لطف و انبساط کے ساتھ ہی کرے۔ بسااوقات اس کے برعکس وہ ماضی کی قہر سامانی کو بھی نمایاں کرتی ہے۔ مثال کے طور پر ہم اپنی سیاسی صورتِ حال کا جائزہ لیں تو ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ اس کا حال ابتدائی برسوں سے ہی ابتر ہے۔ کہنے والوں نے تو یہاں تک کہا ہے کہ قائدِاعظم کے آخری ایام سے ہی ابتری کا نقشہ سامنے آگیا تھا۔
تاہم لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد پیش آنے والے واقعات تو اتنے واضح ہیں کہ خواص ہی نہیں عوام بھی اہلِ سیاست کو اکھاڑے بازوں کا روپ دھارتے دیکھ لیتے ہیں۔ آج وقت کے اتنے فاصلے پر کھڑے ہوکر جب ہم نگاہ اٹھاتے ہیں تو بہت پیچھے ہی سے ملک کے سیاسی منظرنامے میں تاریکی گھلتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آج سیاست ہوس و ہوا کا دوسرا نام ہے۔ ایسا صرف ہمارے یہاں نہیں ہے، بلکہ یہ عالمی منظرنامے کی سچائی ہے۔ تاہم جن ملکوں میں نظامِ اقدار مضبوط ہے، وہاں سیاست دانوں کو اس طرح کھل کھیلنے کا موقع اوّل تو ملتا نہیں اور اگر مل بھی جائے تو اتنا نہیں ملتا جتنا ہمارے یہاں ملتا ہے۔ مثال کے طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ امریکا میں ٹرمپ کے اقدامات کے نتیجے میں عدلیہ کے احکامات اور عوامی ردِعمل نے سپرپاور کے صدر کو آپے سے باہر ہونے کا موقع فراہم نہیں کیا۔
دوسری طرف معکوس صورتِ حال ہمارے سامنے آتی ہے، جب ہم دیکھتے ہیں کہ ترکی میں منتخب عوامی حکومت پر شب خون مارنے کی کوشش اس وقت ناکام ہوجاتی ہے جب صدر اپنے عوام کو پکارتا ہے اور وہ اس پکار کے جواب میں ٹینکوں کے سامنے لیٹ جاتے ہیں۔ یوں بغاوت کا منصوبہ خاک میں مل جاتا ہے۔ حالیہ دنوں کی اِن دونوں مثالوں پر غور کیجیے تو بات واضح ہوجاتی ہے کہ اگر ملک میں سیاسی اور سماجی نظام قائم ہو تو افراد کو من مانی کرنے کا موقع نہیں ملتا، خواہ وہ کسی بڑے منصب پر فائز ہوں یا کسی بڑی طاقت کی پشت پناہی کا فائدہ اٹھا کر اقتدار کو حصولِ زر کا ذریعہ بنانا چاہیں۔ یہ دراصل نظام کی جیت ہے، نظام جو ملک و قوم کی فلاح کے لیے بنایا جاتا ہے اور جو مفادِ عامہ کے تحفظ کا ضامن ہوتا ہے۔
کیا ہمارے یہاں ایسا کوئی نظام ہے؟ نظام تو بے شک ہے، لیکن وہ مؤثر نہیں ہے۔ ہمارے یہاں اقتدارِ اعلیٰ سے وابستہ ہونے والے افراد اسے اپنے مفادات کے لیے یرغمال بناتے آئے ہیں۔ انھوں نے حسبِ منشا اختیارات کے حصول کے لیے اس نظام میں ایسی تبدیلیاں کی ہیں کہ جن سے ادارے کم زور ہوئے اور افراد کی حرص و ہوس کا دائرہ وسیع تر ہوتا چلا گیا۔
ظاہر ہے، اس کا نتیجہ تو پھر یہی نکلنا تھا جو آج ہم دیکھ رہے ہیں۔ آئین اور ادارے بے شک افراد ہی کے ہاتھوں تشکیل پاتے ہیں، لیکن پھر یہ ادارے آگے چل کر قوم کو تعمیر کرتے ہیں، اس کے افراد کی ذہن سازی کرتے ہیں۔ آنے والی نسلوں کی آبیاری کرتے ہیں۔ اُن کے لیے وہ فضا اور وہ ماحول بناتے ہیں کہ جس میں ان کی بہترین صلاحیتوں کو اظہار کا موقع ملتا ہے۔ یوں ہر شخص نہ صرف ترقی کی راہ پر سفر کرتا ہے، بلکہ قومی سلامتی اور ملکی استحکام میں اپنا کردار بھی ادا کرتا ہے۔ اسی صورتِ حال میں کہا جاتا ہے:
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
افسوس کا مقام سہی، لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہمارے یہاں کتنے ہی ستاروں کو ملت کا مقدر چمکانے کے لیے افق میسر نہیں آتا اور جنھیں ملتا ہے، ان میں سے اکثریت پوری ملت کا نہیں صرف اپنا مقدر چمکانے میں مصروف ہوجاتی ہے۔ اب مثال کے طور پر آج کی سیاسی صورتِ حال کو سامنے رکھ لیجیے۔ نوازشریف، شہبازشریف، زرداری، عمران خان، شیخ رشید اور سراج الحق کے مابین جو محاذ آرائی ہے، وہ کیا کہہ رہی ہے۔ پاناما لیکس، عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ اور اس پر ہمارے سیاست کے مرکزی دھارے کے ان نمائندہ افراد کا ردِّعمل بتا رہا ہے کہ نوازشریف کا صرف ایک ہی منشا ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہو، اُن کی حکومت قائم رہے۔
دوسری طرف عمران خان اور ان کے سیاسی اتحادی شیخ رشید کا ایک لائن ایجنڈا ہے کہ نوازشریف کا تختہ الٹ دیا جائے۔ اس کے لیے پہلے انھوں نے جلسے جلوس اور نعروں کا سہارا لیا، اس کے بعد دارالحکومت میں دھرنا دے کر بیٹھ رہے۔ اس وقت مولانا طاہر القادری اپنی ساری جذباتی خطابت (جو قطعی طور پر عالمانہ منصب کے منافی تھی) کے ساتھ ان کے ہم قدم اور ہم گام تھے۔ اُس وقت کچھ ایسا ہی نقشہ کھنچا ہوا تھا:
اے جذبۂ دل گر میں چاہوں
ہر چیز مقابل آجائے
منزل کے لیے دوگام چلوں
اور سامنے منزل آجائے
ہر صبح کو لگتا تھا کہ شام کو منزل سامنے ہوگی اور ہر شام یہ لوگ سادہ دل عوام کو حوصلہ بڑھانے کا کیپسول دیتے تھے۔ امپائر کے انگلی اٹھانے کا انتظار تھا اور کچھ اس طرح کہ اب اٹھی اور تب اٹھی، لیکن وہ اٹھنا تھی اور نہ اٹھی۔ یہاں تک کہ ایک قومی سانحے نے دھرنے والوں کو عزت بچاتے ہوئے واپس پہلے اپنے کابکوں اور بعد میں اسمبلی میں جانے کا موقع فراہم کردیا۔
اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس تجربے سے کم سے کم عمران خان کے لیے سیاست کے میدان کے کچھ قاعدے اور اصول سیکھنے کا موقع فراہم ہوجاتا، لیکن وہی کہ شکر خورے کو شکر مل ہی جاتی ہے۔ اب ان کے ہاتھ پاناما لیکس کا معاملہ آگیا۔ کھیل پھر شروع ہوگیا۔ کیا کیا نہ دھماچوکڑی مچی۔ وہی پاناما لیکس جس کے قرطاسِ ابیض پر عمران خان اور اُن کے کچھ رفقا کا نام بھی درج ہے، اسے بنیاد بنا کر وہ عدالتِ عظمی جاپہنچے۔ خواہش اور مقصد صرف یہ کہ نوازشریف وزارتِ عظمیٰ سے الگ کردیے جائیں۔ دلائل و براہین اور بحث و مباحثہ کو کس درجہ ہیجان خیز بنایا گیا، اس کا اندازہ کرنا ہو تو صرف ان کے وکیل نعیم بخاری کے بیانات پر نگاہ ڈالنا کافی ہوگا۔
حد یہ ہے کہ عدالت کا فیصلہ آنے سے پہلے ہی ایک جج صاحب سے منسوب یہ فقرہ گردش کر رہا تھا کہ فیصلہ ایسا آئے گا کہ صدیاں یاد رکھیں گی۔ کم و بیش دو ماہ فیصلہ محفوظ رہا۔ اب جو آیا تو عجب تماشا ہوا۔ حکومت نے اسے اپنے حق میں گردانا۔ دلیل یہ کہ دیکھیے حکومت ختم نہیں ہوئی، نوازشریف کو معزول نہیں کیا گیا۔ اپوزیشن نے جشن منایا، مٹھائی کھائی کھلائی گئی کہ عدالت نے شریف خاندان کی دولت کے آگے سوالیہ نشان لگا دیا۔ جے آئی ٹی بنے گی کہ اس کہانی کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔
جیوری کے دو اراکین نے جو اختلافی نوٹ لکھا تھا، مدعا علیہان کی طرف سے اس کی تعبیر یہ کی گئی کہ پہلے عوام اور میڈیا ہمارے ساتھ تھے اور اب دو ججوں کا وزن بھی ہمارے پلڑے میں ہے۔ ملاحظہ فرمائیے، یہ ہے ہمارا سیاسی اکھاڑا اور اس میں ہونے والی اٹھا پٹخ۔
اب اس کھیل میں پیپلزپارٹی بھی شامل ہو رہی ہے اور ایک متحدہ اپوزیشن بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، جس کی منزل میاں نوازشریف کو ایوانِ اقتدار سے نکال باہر کرنا ہے۔ اس کے لیے حکمتِ عملی تیار کی جارہی ہے۔ عوام کو تحریک بنانے پر اکسایا جارہا ہے۔ گویا ایک بار پھر اکھاڑا سجایا جارہا ہے، جس میں ان حریفوں سے زیادہ عوام کے اعصابی نظام کی آزمائش ہوگی۔
بعض قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ جو مقدمہ عدالتِ عظمیٰ میں لے جایا گیا اور جس نے کئی ماہ عدالت کے فاضل ججوں کا نہایت قیمتی وقت لیا اور عوام کو اعصابی دباؤ میں رکھا، وہ دراصل ملک کی اس اعلیٰ عدالت کے دائرۂ کار سے تعلق ہی نہیں رکھتا۔ اس کیس کا فیصلہ تو نیب اور الیکشن کمیشن کو کرنا چاہیے تھا۔ چلیے، ایک لمحے کو مانے لیتے ہیں کہ یہ رائے درست ہے، لیکن ایسا تو اُس وقت ممکن ہے، جب مدعا علیہان کو ان اداروں پر اعتماد ہو کہ وہ اپنا کردار اُسی طرح ادا کریں گے، جیسے کہ انھیں کرنا چاہیے۔ ظاہر ہے، ایسا نہیں ہے۔ اس لیے ایسے مسائل بھی ملک کی اعلیٰ عدالت کو نمٹانے پڑتے ہیں۔
اس وقت ہم جس ٹی وی چینل کو سنتے ہیں، وہاں یہی بحث چھڑی ہوئی ہے۔ اپوزیشن پارٹی کا نمائندہ حکومت کی عیب جوئی میں منہمک اور حکومتی پارٹی کے افراد ہر ممکن اپنی حکومت کی اعلیٰ کارکردگی اور نوازشریف کو دودھ کا دھلا ثابت کرنے میں مصروف ہیں۔ ٹھیک ہے، انھیں تو ایسے ہی کرنا ہے کہ یہ اُن کی بقا کی جنگ ہے۔ اگر یہ دھماچوکڑی نہ ہو تو اُن کے وجود کا احساس عوام کو بھلا کیوںکر ہوگا؟ سوال مگر یہ ہے کہ ہمارے ذرائعِ ابلاغ اس ماحول میں کیا کردار ادا کررہے ہیں؟
سچ پوچھیے تو اُن کا کردار غیرمتوقع اور افسوس ناک حد تک غیرذمے دارانہ ہے۔ ان میں سے بیشتر اینکر اور چینل دونوں ہی کسی سیاسی جماعت کے نمائندے نظر آتے ہیں۔ چناںچہ انھیں ملک اور قوم کے مفاد سے زیادہ اس جماعت کے مفاد سے دل چسپی ہے اور وہ اس کی نگہ داری کرتے ہوئے اس حقیقت کو بھلا دیتے ہیں کہ وہ جس بات کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں، اس سے حقائق مسخ اور عوام ذہنی پراگندگی کا شکار ہوں گے۔
واقعہ یہ ہے کہ سیاست دانوں اور الیکٹرونک میڈیا کے نام نہاد تجزیہ کاروں نے عام آدمی کو اختلاجِ قلب، کوفت، مایوسی اور وحشت کا شکار کیا ہوا ہے۔ سیاست اور اہلِ سیاست کی صفائی کا عمل تو ہمارے یہاں ابھی شروع نہیں ہوا ہے، لیکن یہ طے ہے کہ اب شروع ضرور ہوگا۔ حالات کا دھارا اور عوامی شعور اس امر کی غمازی کررہے ہیں۔ حرص و ہوا کی یہ سیاست اب زیادہ دن تک نہیں چلے گی۔
اِس وقت الیکٹرونک میڈیا نے جو غدر مچایا ہوا ہے، ہر مسئلے کو جس طرح وہ خبر کی دوڑ کا ہدف اور عوام کے اعصاب کی آزمائش کا ذریعہ بنا دیتا ہے، وہ سب سے زیادہ قابلِ مذمت ہے۔ اس رویے میں فوری تبدیلی کی ضرورت ہے۔ یہ تبدیلی کسی خارجی عمل سے نہیں آئے گی، اسی فضا کے اندر سے آئے گی۔ اس میں عوام کا کردار یہ ہے کہ وہ جعلی تجزیہ کاروں اور ان کے پروگرام سے لاتعلق ہوجائیں۔ انھیں سننا اور دیکھنا بالکل بند کردیں۔ جہاں ضرورت ہو اور موقع میسر آئے، ان کے لیے ناپسندیدگی کا اظہار کریں۔
اب رہی بات سیاست دانوں کے اس کھیل کی تو یہ نئی گرما گرمی جو ہم دیکھ رہے ہیں، کسی بھی طرف یہ کسی اصول، فلسفے، اخلاقی پہلو یا قومی مطالبے کے تحت نہیں ہے۔ یہ تماشا نئے انتخابات کی وقت سے پہلے بنتی ہوئی صورتِ حال کی وجہ سے ہے۔ حالاںکہ تجربہ کار لوگ کہہ رہے ہیں کہ انتخابات اپنے وقت پر ہی ہوں گے۔ بہرحال، سیاست کے ہر گٹر پر سے ڈھکن ہٹ رہا ہے اور تعفن پھیل رہا ہے۔ زرداری اور شرجیل میمن ملک میں واپس آچکے ہیں۔
ڈاکٹر عاصم حسین، حامد سعید کاظمی اور ایان علی جیسے ان کے قریبی لوگوں کی ضمانتیں ہوچکی ہیں۔ گویا مقدمات کا زور ٹوٹ چکا ہے۔ زرداری اب شریف برادران کو للکار رہے ہیں۔ ان کی کرپشن اور زمانۂ اقتدار میں عوامی محرومی اور ملک کو پہنچنے والے نقصان پر بات کررہے ہیں۔ یہ سب باتیں کرتے ہوئے انھیں اپنا دورِ اقتدار بالکل یاد نہیں اور وہ یقین رکھتے ہیں کہ عوام کو بھی ایسی کوئی بات یاد نہیں ہوگی۔ دوسری طرف شریف برادران کم اور اُن کے حواری زیادہ زرداری اور ان کے ساتھیوں کے زبانی خرچ کا حساب انھیں سکوں میں پوری طرح چکاتے رہتے ہیں۔ یہ سب لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ حمام میں ہیں۔
دھرنا دیتے ہوئے عمران خان نے مولانا طاہر القادری اور شیخ رشید کو اپنی ٹیم کا حصہ بنایا تھا، لیکن طاہر القادری اور اُن کے درمیان دیرپا اتحاد ممکن نہیں۔ یہ بات دونوں جانتے ہیں۔ شیخ رشید وہ شخص ہے، جسے عمران خان اپنا چپڑاسی بنانے پر تیار نہیں تھے، مگر پھر مجمعے بازی کی ضرورت نے انھیں شیخ رشید کو ساتھی بنانے پر مجبور کردیا۔ اب وہ زرداری کے ساتھ مل کر مضبوط اپوزیشن بنانے کے خواہاں ہیں۔ حالاںکہ دونوں جانتے ہیں کہ ان میں کوئی قدر مشترک نہیں ہے۔ پھر اس اتحاد کے کیا معنی؟
کل نواز شریف کی حکومت ختم ہوجائے تو یہی اتحادی ایک دوسرے کے بدترین دشمن ہوں گے۔ اس لیے کہ یہ گٹھ جوڑ وقتی ضرورت کا شاخسانہ ہے۔ اس کی بنیاد کسی اصول یا قومی تقاضے پر نہیں ہے۔ عمران خان کو یہ بات ضرور سوچنی چاہیے کہ انگریزی کا یہ محاورہ وزن رکھتا ہے کہ انسان اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے۔
جس طرح زرداری اور نواز شریف یا ان کے ساتھیوں پر انگلی اٹھائی جاتی ہے، اس طرح عمران خان پر ان کی ذاتی حیثیت میں نہیں اٹھائی جاسکتی، لیکن ان کے ساتھیوں میں کتنے ایسے ہیں جو پیشہ ور سیاست داں ہیں اور اسی طرح حمام میں بھی۔ عمران خان کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ ان کی سیاسی ناتجربہ کاری، ناپختہ کاری کا بھی ہے اور پھر ان کی متلون مزاج طبیعت۔ وہ ایک دن عدلیہ کے فیصلے پر خوش ہوکر مٹھائی کھاتے ہیں اور دوسرے دن احتجاج کرتے ہیں۔ اچانک شوشہ چھوڑ دیتے ہیں کہ انھیں پاناما لیکس پر خاموش رہنے کے لیے دس ارب روپے رشوت کی آفر ہوئی ہے، لیکن اس طرح کی باتوں پر ان کا رویہ غیرسنجیدگی یا شوشہ بازی کا تأثر دیتا رہتا ہے۔
وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار اور قومی سطح کے راہ نما کو یہ انداز قطعاً زیب نہیں دیتا۔ اتنے برس سیاسی اکھاڑے میں ڈنٹر بیٹھک کرنے کے باوجود ان کی طبیعت میں ٹھہراؤ نہیں آیا ہے۔ وہ ذرا سی بات پر مشتعل ہوجاتے ہیں اور پھر پنجابی فلموں کے ہیرو کی طرح بڑکیں لگاتے سنائی دیتے ہیں۔
ایسے میں عوام کے لیے یہ سوال الجھن کا باعث ہے کہ نوازشریف اور زرداری کو مسترد کرنے کے بعد اُن کے پاس کیا چوائس ہے۔ اب انھیں یہ سوچنا چاہیے کہ کیا پاکستان میں سیاسی جماعتوں کو آنکھیں بند کرکے ووٹ دینے کے بجائے آنکھیں کھول کر اور خوب دیکھ بھال کر آئندہ الیکشن میں سیاسی جماعتوں کو نہیں، بلکہ افراد کو ووٹ دیا جائے، تاکہ ہمارے یہاں اب سیاسی نظام کی صفائی کا عمل شروع ہوسکے۔
صفائی کا عمل ایک بار شروع ہوجائے گا تو پھر اپنے منطقی انجام تک ضرور پہنچے گا۔ یورپ کی تبدیلی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ رینے ساں سے پہلے کا یورپ کچھ ایسے ہی مسائل سے دوچار تھا، اس وقت جو ہمیں درپیش ہیں۔ پھر وہاں تبدیلی شروع ہوئی۔ عوامی ردِعمل نے اس میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ ہمارے یہاں بھی اب ایسا ہی ہوگا، اور وہ وقت بہت زیادہ دور بھی نہیں ہے۔
ادب و شعر کی کتابیں اٹھاکر دیکھی جائیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ماضی کی کشش واقعی کتنی طاقت رکھتی ہے۔ البتہ تاریخ کا معاملہ مختلف ہے۔ ضروری نہیں کہ وہ ہر بار گزرے ہوئے وقت کا تذکرہ لطف و انبساط کے ساتھ ہی کرے۔ بسااوقات اس کے برعکس وہ ماضی کی قہر سامانی کو بھی نمایاں کرتی ہے۔ مثال کے طور پر ہم اپنی سیاسی صورتِ حال کا جائزہ لیں تو ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ اس کا حال ابتدائی برسوں سے ہی ابتر ہے۔ کہنے والوں نے تو یہاں تک کہا ہے کہ قائدِاعظم کے آخری ایام سے ہی ابتری کا نقشہ سامنے آگیا تھا۔
تاہم لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد پیش آنے والے واقعات تو اتنے واضح ہیں کہ خواص ہی نہیں عوام بھی اہلِ سیاست کو اکھاڑے بازوں کا روپ دھارتے دیکھ لیتے ہیں۔ آج وقت کے اتنے فاصلے پر کھڑے ہوکر جب ہم نگاہ اٹھاتے ہیں تو بہت پیچھے ہی سے ملک کے سیاسی منظرنامے میں تاریکی گھلتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ آج سیاست ہوس و ہوا کا دوسرا نام ہے۔ ایسا صرف ہمارے یہاں نہیں ہے، بلکہ یہ عالمی منظرنامے کی سچائی ہے۔ تاہم جن ملکوں میں نظامِ اقدار مضبوط ہے، وہاں سیاست دانوں کو اس طرح کھل کھیلنے کا موقع اوّل تو ملتا نہیں اور اگر مل بھی جائے تو اتنا نہیں ملتا جتنا ہمارے یہاں ملتا ہے۔ مثال کے طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ امریکا میں ٹرمپ کے اقدامات کے نتیجے میں عدلیہ کے احکامات اور عوامی ردِعمل نے سپرپاور کے صدر کو آپے سے باہر ہونے کا موقع فراہم نہیں کیا۔
دوسری طرف معکوس صورتِ حال ہمارے سامنے آتی ہے، جب ہم دیکھتے ہیں کہ ترکی میں منتخب عوامی حکومت پر شب خون مارنے کی کوشش اس وقت ناکام ہوجاتی ہے جب صدر اپنے عوام کو پکارتا ہے اور وہ اس پکار کے جواب میں ٹینکوں کے سامنے لیٹ جاتے ہیں۔ یوں بغاوت کا منصوبہ خاک میں مل جاتا ہے۔ حالیہ دنوں کی اِن دونوں مثالوں پر غور کیجیے تو بات واضح ہوجاتی ہے کہ اگر ملک میں سیاسی اور سماجی نظام قائم ہو تو افراد کو من مانی کرنے کا موقع نہیں ملتا، خواہ وہ کسی بڑے منصب پر فائز ہوں یا کسی بڑی طاقت کی پشت پناہی کا فائدہ اٹھا کر اقتدار کو حصولِ زر کا ذریعہ بنانا چاہیں۔ یہ دراصل نظام کی جیت ہے، نظام جو ملک و قوم کی فلاح کے لیے بنایا جاتا ہے اور جو مفادِ عامہ کے تحفظ کا ضامن ہوتا ہے۔
کیا ہمارے یہاں ایسا کوئی نظام ہے؟ نظام تو بے شک ہے، لیکن وہ مؤثر نہیں ہے۔ ہمارے یہاں اقتدارِ اعلیٰ سے وابستہ ہونے والے افراد اسے اپنے مفادات کے لیے یرغمال بناتے آئے ہیں۔ انھوں نے حسبِ منشا اختیارات کے حصول کے لیے اس نظام میں ایسی تبدیلیاں کی ہیں کہ جن سے ادارے کم زور ہوئے اور افراد کی حرص و ہوس کا دائرہ وسیع تر ہوتا چلا گیا۔
ظاہر ہے، اس کا نتیجہ تو پھر یہی نکلنا تھا جو آج ہم دیکھ رہے ہیں۔ آئین اور ادارے بے شک افراد ہی کے ہاتھوں تشکیل پاتے ہیں، لیکن پھر یہ ادارے آگے چل کر قوم کو تعمیر کرتے ہیں، اس کے افراد کی ذہن سازی کرتے ہیں۔ آنے والی نسلوں کی آبیاری کرتے ہیں۔ اُن کے لیے وہ فضا اور وہ ماحول بناتے ہیں کہ جس میں ان کی بہترین صلاحیتوں کو اظہار کا موقع ملتا ہے۔ یوں ہر شخص نہ صرف ترقی کی راہ پر سفر کرتا ہے، بلکہ قومی سلامتی اور ملکی استحکام میں اپنا کردار بھی ادا کرتا ہے۔ اسی صورتِ حال میں کہا جاتا ہے:
ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ
افسوس کا مقام سہی، لیکن اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہمارے یہاں کتنے ہی ستاروں کو ملت کا مقدر چمکانے کے لیے افق میسر نہیں آتا اور جنھیں ملتا ہے، ان میں سے اکثریت پوری ملت کا نہیں صرف اپنا مقدر چمکانے میں مصروف ہوجاتی ہے۔ اب مثال کے طور پر آج کی سیاسی صورتِ حال کو سامنے رکھ لیجیے۔ نوازشریف، شہبازشریف، زرداری، عمران خان، شیخ رشید اور سراج الحق کے مابین جو محاذ آرائی ہے، وہ کیا کہہ رہی ہے۔ پاناما لیکس، عدالتِ عظمیٰ کا فیصلہ اور اس پر ہمارے سیاست کے مرکزی دھارے کے ان نمائندہ افراد کا ردِّعمل بتا رہا ہے کہ نوازشریف کا صرف ایک ہی منشا ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہو، اُن کی حکومت قائم رہے۔
دوسری طرف عمران خان اور ان کے سیاسی اتحادی شیخ رشید کا ایک لائن ایجنڈا ہے کہ نوازشریف کا تختہ الٹ دیا جائے۔ اس کے لیے پہلے انھوں نے جلسے جلوس اور نعروں کا سہارا لیا، اس کے بعد دارالحکومت میں دھرنا دے کر بیٹھ رہے۔ اس وقت مولانا طاہر القادری اپنی ساری جذباتی خطابت (جو قطعی طور پر عالمانہ منصب کے منافی تھی) کے ساتھ ان کے ہم قدم اور ہم گام تھے۔ اُس وقت کچھ ایسا ہی نقشہ کھنچا ہوا تھا:
اے جذبۂ دل گر میں چاہوں
ہر چیز مقابل آجائے
منزل کے لیے دوگام چلوں
اور سامنے منزل آجائے
ہر صبح کو لگتا تھا کہ شام کو منزل سامنے ہوگی اور ہر شام یہ لوگ سادہ دل عوام کو حوصلہ بڑھانے کا کیپسول دیتے تھے۔ امپائر کے انگلی اٹھانے کا انتظار تھا اور کچھ اس طرح کہ اب اٹھی اور تب اٹھی، لیکن وہ اٹھنا تھی اور نہ اٹھی۔ یہاں تک کہ ایک قومی سانحے نے دھرنے والوں کو عزت بچاتے ہوئے واپس پہلے اپنے کابکوں اور بعد میں اسمبلی میں جانے کا موقع فراہم کردیا۔
اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس تجربے سے کم سے کم عمران خان کے لیے سیاست کے میدان کے کچھ قاعدے اور اصول سیکھنے کا موقع فراہم ہوجاتا، لیکن وہی کہ شکر خورے کو شکر مل ہی جاتی ہے۔ اب ان کے ہاتھ پاناما لیکس کا معاملہ آگیا۔ کھیل پھر شروع ہوگیا۔ کیا کیا نہ دھماچوکڑی مچی۔ وہی پاناما لیکس جس کے قرطاسِ ابیض پر عمران خان اور اُن کے کچھ رفقا کا نام بھی درج ہے، اسے بنیاد بنا کر وہ عدالتِ عظمی جاپہنچے۔ خواہش اور مقصد صرف یہ کہ نوازشریف وزارتِ عظمیٰ سے الگ کردیے جائیں۔ دلائل و براہین اور بحث و مباحثہ کو کس درجہ ہیجان خیز بنایا گیا، اس کا اندازہ کرنا ہو تو صرف ان کے وکیل نعیم بخاری کے بیانات پر نگاہ ڈالنا کافی ہوگا۔
حد یہ ہے کہ عدالت کا فیصلہ آنے سے پہلے ہی ایک جج صاحب سے منسوب یہ فقرہ گردش کر رہا تھا کہ فیصلہ ایسا آئے گا کہ صدیاں یاد رکھیں گی۔ کم و بیش دو ماہ فیصلہ محفوظ رہا۔ اب جو آیا تو عجب تماشا ہوا۔ حکومت نے اسے اپنے حق میں گردانا۔ دلیل یہ کہ دیکھیے حکومت ختم نہیں ہوئی، نوازشریف کو معزول نہیں کیا گیا۔ اپوزیشن نے جشن منایا، مٹھائی کھائی کھلائی گئی کہ عدالت نے شریف خاندان کی دولت کے آگے سوالیہ نشان لگا دیا۔ جے آئی ٹی بنے گی کہ اس کہانی کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔
جیوری کے دو اراکین نے جو اختلافی نوٹ لکھا تھا، مدعا علیہان کی طرف سے اس کی تعبیر یہ کی گئی کہ پہلے عوام اور میڈیا ہمارے ساتھ تھے اور اب دو ججوں کا وزن بھی ہمارے پلڑے میں ہے۔ ملاحظہ فرمائیے، یہ ہے ہمارا سیاسی اکھاڑا اور اس میں ہونے والی اٹھا پٹخ۔
اب اس کھیل میں پیپلزپارٹی بھی شامل ہو رہی ہے اور ایک متحدہ اپوزیشن بنانے کی کوشش کی جارہی ہے، جس کی منزل میاں نوازشریف کو ایوانِ اقتدار سے نکال باہر کرنا ہے۔ اس کے لیے حکمتِ عملی تیار کی جارہی ہے۔ عوام کو تحریک بنانے پر اکسایا جارہا ہے۔ گویا ایک بار پھر اکھاڑا سجایا جارہا ہے، جس میں ان حریفوں سے زیادہ عوام کے اعصابی نظام کی آزمائش ہوگی۔
بعض قانونی ماہرین کا خیال ہے کہ جو مقدمہ عدالتِ عظمیٰ میں لے جایا گیا اور جس نے کئی ماہ عدالت کے فاضل ججوں کا نہایت قیمتی وقت لیا اور عوام کو اعصابی دباؤ میں رکھا، وہ دراصل ملک کی اس اعلیٰ عدالت کے دائرۂ کار سے تعلق ہی نہیں رکھتا۔ اس کیس کا فیصلہ تو نیب اور الیکشن کمیشن کو کرنا چاہیے تھا۔ چلیے، ایک لمحے کو مانے لیتے ہیں کہ یہ رائے درست ہے، لیکن ایسا تو اُس وقت ممکن ہے، جب مدعا علیہان کو ان اداروں پر اعتماد ہو کہ وہ اپنا کردار اُسی طرح ادا کریں گے، جیسے کہ انھیں کرنا چاہیے۔ ظاہر ہے، ایسا نہیں ہے۔ اس لیے ایسے مسائل بھی ملک کی اعلیٰ عدالت کو نمٹانے پڑتے ہیں۔
اس وقت ہم جس ٹی وی چینل کو سنتے ہیں، وہاں یہی بحث چھڑی ہوئی ہے۔ اپوزیشن پارٹی کا نمائندہ حکومت کی عیب جوئی میں منہمک اور حکومتی پارٹی کے افراد ہر ممکن اپنی حکومت کی اعلیٰ کارکردگی اور نوازشریف کو دودھ کا دھلا ثابت کرنے میں مصروف ہیں۔ ٹھیک ہے، انھیں تو ایسے ہی کرنا ہے کہ یہ اُن کی بقا کی جنگ ہے۔ اگر یہ دھماچوکڑی نہ ہو تو اُن کے وجود کا احساس عوام کو بھلا کیوںکر ہوگا؟ سوال مگر یہ ہے کہ ہمارے ذرائعِ ابلاغ اس ماحول میں کیا کردار ادا کررہے ہیں؟
سچ پوچھیے تو اُن کا کردار غیرمتوقع اور افسوس ناک حد تک غیرذمے دارانہ ہے۔ ان میں سے بیشتر اینکر اور چینل دونوں ہی کسی سیاسی جماعت کے نمائندے نظر آتے ہیں۔ چناںچہ انھیں ملک اور قوم کے مفاد سے زیادہ اس جماعت کے مفاد سے دل چسپی ہے اور وہ اس کی نگہ داری کرتے ہوئے اس حقیقت کو بھلا دیتے ہیں کہ وہ جس بات کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں، اس سے حقائق مسخ اور عوام ذہنی پراگندگی کا شکار ہوں گے۔
واقعہ یہ ہے کہ سیاست دانوں اور الیکٹرونک میڈیا کے نام نہاد تجزیہ کاروں نے عام آدمی کو اختلاجِ قلب، کوفت، مایوسی اور وحشت کا شکار کیا ہوا ہے۔ سیاست اور اہلِ سیاست کی صفائی کا عمل تو ہمارے یہاں ابھی شروع نہیں ہوا ہے، لیکن یہ طے ہے کہ اب شروع ضرور ہوگا۔ حالات کا دھارا اور عوامی شعور اس امر کی غمازی کررہے ہیں۔ حرص و ہوا کی یہ سیاست اب زیادہ دن تک نہیں چلے گی۔
اِس وقت الیکٹرونک میڈیا نے جو غدر مچایا ہوا ہے، ہر مسئلے کو جس طرح وہ خبر کی دوڑ کا ہدف اور عوام کے اعصاب کی آزمائش کا ذریعہ بنا دیتا ہے، وہ سب سے زیادہ قابلِ مذمت ہے۔ اس رویے میں فوری تبدیلی کی ضرورت ہے۔ یہ تبدیلی کسی خارجی عمل سے نہیں آئے گی، اسی فضا کے اندر سے آئے گی۔ اس میں عوام کا کردار یہ ہے کہ وہ جعلی تجزیہ کاروں اور ان کے پروگرام سے لاتعلق ہوجائیں۔ انھیں سننا اور دیکھنا بالکل بند کردیں۔ جہاں ضرورت ہو اور موقع میسر آئے، ان کے لیے ناپسندیدگی کا اظہار کریں۔
اب رہی بات سیاست دانوں کے اس کھیل کی تو یہ نئی گرما گرمی جو ہم دیکھ رہے ہیں، کسی بھی طرف یہ کسی اصول، فلسفے، اخلاقی پہلو یا قومی مطالبے کے تحت نہیں ہے۔ یہ تماشا نئے انتخابات کی وقت سے پہلے بنتی ہوئی صورتِ حال کی وجہ سے ہے۔ حالاںکہ تجربہ کار لوگ کہہ رہے ہیں کہ انتخابات اپنے وقت پر ہی ہوں گے۔ بہرحال، سیاست کے ہر گٹر پر سے ڈھکن ہٹ رہا ہے اور تعفن پھیل رہا ہے۔ زرداری اور شرجیل میمن ملک میں واپس آچکے ہیں۔
ڈاکٹر عاصم حسین، حامد سعید کاظمی اور ایان علی جیسے ان کے قریبی لوگوں کی ضمانتیں ہوچکی ہیں۔ گویا مقدمات کا زور ٹوٹ چکا ہے۔ زرداری اب شریف برادران کو للکار رہے ہیں۔ ان کی کرپشن اور زمانۂ اقتدار میں عوامی محرومی اور ملک کو پہنچنے والے نقصان پر بات کررہے ہیں۔ یہ سب باتیں کرتے ہوئے انھیں اپنا دورِ اقتدار بالکل یاد نہیں اور وہ یقین رکھتے ہیں کہ عوام کو بھی ایسی کوئی بات یاد نہیں ہوگی۔ دوسری طرف شریف برادران کم اور اُن کے حواری زیادہ زرداری اور ان کے ساتھیوں کے زبانی خرچ کا حساب انھیں سکوں میں پوری طرح چکاتے رہتے ہیں۔ یہ سب لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ حمام میں ہیں۔
دھرنا دیتے ہوئے عمران خان نے مولانا طاہر القادری اور شیخ رشید کو اپنی ٹیم کا حصہ بنایا تھا، لیکن طاہر القادری اور اُن کے درمیان دیرپا اتحاد ممکن نہیں۔ یہ بات دونوں جانتے ہیں۔ شیخ رشید وہ شخص ہے، جسے عمران خان اپنا چپڑاسی بنانے پر تیار نہیں تھے، مگر پھر مجمعے بازی کی ضرورت نے انھیں شیخ رشید کو ساتھی بنانے پر مجبور کردیا۔ اب وہ زرداری کے ساتھ مل کر مضبوط اپوزیشن بنانے کے خواہاں ہیں۔ حالاںکہ دونوں جانتے ہیں کہ ان میں کوئی قدر مشترک نہیں ہے۔ پھر اس اتحاد کے کیا معنی؟
کل نواز شریف کی حکومت ختم ہوجائے تو یہی اتحادی ایک دوسرے کے بدترین دشمن ہوں گے۔ اس لیے کہ یہ گٹھ جوڑ وقتی ضرورت کا شاخسانہ ہے۔ اس کی بنیاد کسی اصول یا قومی تقاضے پر نہیں ہے۔ عمران خان کو یہ بات ضرور سوچنی چاہیے کہ انگریزی کا یہ محاورہ وزن رکھتا ہے کہ انسان اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے۔
جس طرح زرداری اور نواز شریف یا ان کے ساتھیوں پر انگلی اٹھائی جاتی ہے، اس طرح عمران خان پر ان کی ذاتی حیثیت میں نہیں اٹھائی جاسکتی، لیکن ان کے ساتھیوں میں کتنے ایسے ہیں جو پیشہ ور سیاست داں ہیں اور اسی طرح حمام میں بھی۔ عمران خان کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ ان کی سیاسی ناتجربہ کاری، ناپختہ کاری کا بھی ہے اور پھر ان کی متلون مزاج طبیعت۔ وہ ایک دن عدلیہ کے فیصلے پر خوش ہوکر مٹھائی کھاتے ہیں اور دوسرے دن احتجاج کرتے ہیں۔ اچانک شوشہ چھوڑ دیتے ہیں کہ انھیں پاناما لیکس پر خاموش رہنے کے لیے دس ارب روپے رشوت کی آفر ہوئی ہے، لیکن اس طرح کی باتوں پر ان کا رویہ غیرسنجیدگی یا شوشہ بازی کا تأثر دیتا رہتا ہے۔
وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار اور قومی سطح کے راہ نما کو یہ انداز قطعاً زیب نہیں دیتا۔ اتنے برس سیاسی اکھاڑے میں ڈنٹر بیٹھک کرنے کے باوجود ان کی طبیعت میں ٹھہراؤ نہیں آیا ہے۔ وہ ذرا سی بات پر مشتعل ہوجاتے ہیں اور پھر پنجابی فلموں کے ہیرو کی طرح بڑکیں لگاتے سنائی دیتے ہیں۔
ایسے میں عوام کے لیے یہ سوال الجھن کا باعث ہے کہ نوازشریف اور زرداری کو مسترد کرنے کے بعد اُن کے پاس کیا چوائس ہے۔ اب انھیں یہ سوچنا چاہیے کہ کیا پاکستان میں سیاسی جماعتوں کو آنکھیں بند کرکے ووٹ دینے کے بجائے آنکھیں کھول کر اور خوب دیکھ بھال کر آئندہ الیکشن میں سیاسی جماعتوں کو نہیں، بلکہ افراد کو ووٹ دیا جائے، تاکہ ہمارے یہاں اب سیاسی نظام کی صفائی کا عمل شروع ہوسکے۔
صفائی کا عمل ایک بار شروع ہوجائے گا تو پھر اپنے منطقی انجام تک ضرور پہنچے گا۔ یورپ کی تبدیلی کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ رینے ساں سے پہلے کا یورپ کچھ ایسے ہی مسائل سے دوچار تھا، اس وقت جو ہمیں درپیش ہیں۔ پھر وہاں تبدیلی شروع ہوئی۔ عوامی ردِعمل نے اس میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ ہمارے یہاں بھی اب ایسا ہی ہوگا، اور وہ وقت بہت زیادہ دور بھی نہیں ہے۔