پوتن ٹرمپ رابطہ شام میں جنگ بندی پر اتفاق

دونوں عالمی طاقتوں کو سمجھنا ہوگا کہ دنیا اب مزید کسی تیسری عالمی جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی


Editorial May 04, 2017
۔ فوٹو: فائل

KARACHI: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادی میر پوتن نے شام میں جاری لڑائی کو روکنے کے لیے جنگ بندی پر اتفاق کرلیا ہے۔ شام میں جاری کشیدگی کے تناظر میں دونوں عالمی طاقتوں کے سربراہوں کے درمیان رابطہ خوش آیند ہے کیونکہ شام میں ایک ماہ قبل امریکی فضائی حملے کے بعد امریکا اور روس کے درمیان حالات میں کشیدگی کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ دونوں صدور نے ٹیلی فون کے ذریعے بات کی۔ ذرایع کے مطابق روس اور امریکا کی جانب سے جاری ہونے والے بیانات کے مطابق دونوں قائدین کے درمیان معنی خیز گفتگو ہوئی ہے، دونوں ممالک کے صدور کے درمیان شام کے علاوہ جن دیگر موضوعات پر بات چیت ہوئی ان میں شمالی کوریا اور مستقبل میں ملاقات کے اوقات شامل ہیں۔

شام میں جاری کشیدگی کے دوران جہاں ایران اور روس بشار الاسد کی شامی حکومت کی حمایت کررہے ہیں وہیں امریکا مخالفانہ جذبات رکھتا ہے، دنیا کو گزشتہ ماہ امریکا کی جانب سے شام پر حملوں کے بعد دونوں عالمی طاقتوں کے درمیان پیدا ہونے والے کشیدہ رویے نے سخت متوشش کر رکھا تھا۔ شام کے مسئلے میں سنگینی دونوں عالمی طاقتوں کے باہمی مفادات کے ٹکراؤ کے باعث ہی پیدا ہوئی تھی، ایسے میں اگر یہ کشیدگی بڑھتی تو کئی دیگر ممالک بھی اس کی لپیٹ میں آسکتے تھے، اس تناظر میں وائٹ ہاؤس اور روس کی جانب سے جاری ہونے والے بیانات خوش آیند ہیں جس میں دونوں ممالک اپنے موقف سے پیچھے ہٹتے دکھائی دیتے ہیں۔

وائٹ ہاؤس نے بیان جاری کیا ہے کہ صدر ٹرمپ اور صدر پوتن اس بات پر متفق ہیں کہ شام میں تمام فریقین کو اب وہ سب کرنا چاہیے جس سے تشدد کو ختم کیا جاسکے۔ جب کہ روس کے موقف کے مطابق بھی دونوں صدور اس بات پر متفق ہیں کہ انھیں آگے بڑھ کر جنگ بندی کو مضبوط بنانے کے لیے کوششیں کرنی چاہئیں۔ دونوں عالمی طاقتوں کو سمجھنا ہوگا کہ دنیا اب مزید کسی تیسری عالمی جنگ کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ بڑی طاقتیں اپنے مفادات کی خاطر چھوٹی ریاستوں کو مہرہ نہ بنائیں۔ شام اور دیگر ممالک میں جاری کشیدگی کو ہر حال میں ختم کرنے کی کوشش کی جانی چاہیے، انسانیت امن کی متلاشی ہے، جنگوں کا زمانہ لد چکا ہے، عالمی طاقتوں کو اپنے مفادات پس پشت ڈال کر دنیا میں قیام امن کے لیے کوششیں کرنی چاہئیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔