وقت کا طلسماتی دائرہ

وقت کا ہر لمحہ قیمتی ہے، مگر جس طرح ہم وقت کو ضایع کر رہے ہیں، اس کی مثال دنیا میں کہیں اور نہیں ملتی


Shabnam Gul May 05, 2017
[email protected]

وقت کا ہر لمحہ قیمتی ہے، مگر جس طرح ہم وقت کو ضایع کر رہے ہیں، اس کی مثال دنیا میں کہیں اور نہیں ملتی۔ وقت ماضی، حال اور مستقبل میں تقسیم کردیا گیا ہے۔ وہ لوگ جو ماضی میں رہتے ہیں ان کی عادات، حال (موجودہ وقت) میں رہنے والوں سے مختلف ہوتی ہیں۔ اکثر لوگ مستقبل میں رہتے ہیں۔ ان میں اکثریت نوجوانوں کی ہے۔ ان کے رویے، عادات اور رہن سہن مستقبل کے تابع رہتا ہے۔

آئن اسٹائن کے نظریے اضافت نے کسی حد تک وقت کی وضاحت کی ہے تاہم یہ سائنسدان بھی قدرت کے نظام کے آگے خود کو بے بس محسوس کرتا رہا۔ وقت کے بارہ ڈائی مینشن بتائے گئے ہیں۔ جو انسان کے طبعی، ذہنی و روحانی زندگی پر اثرانداز ہوتے ہیں۔

ہم اس وقت تھرڈ ڈائی مینشن میں موجود ہیں۔ وجود، زندگی اور کائنات کو محسوس کر رہے ہیں یہ الگ بات کہ ہم اس تکون کو کتنا سمجھ پائے ہیں۔ کیونکہ جب تک ہم وقت کو نہیں سمجھ پاتے یا وقت کے ساتھ چلنا نہیں سیکھتے ہم وجود یا زندگی کو بھی نہیں سمجھ پاتے۔

تھرڈ ڈائی مینشن یا یہ تیسرا وقت کی پیمائش کا دور ہمارے لیے مشاہدے اور تجربے کی اندیکھی دنیا لیے حاضر ہوتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارا ذہن کس قدر فعال ہے۔ اور وہ دور حاضر میں کس قدر موجود ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم فقط ماضی میں جی رہے ہیں۔ یا فقط مستقبل کی سمت نظر رکھے ہوئے ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ہم فقط ماضی اور مستقبل میں زندہ ہیں اور حال (لمحہ موجود) سے غافل زندگی گزار رہے ہیں۔

یہ حقیقت ہے کہ اگر ہم حال سے غافل ہیں تو پھر وجود اور زندگی کی سمجھ کا خانہ خالی ملے گا۔ لہٰذا انسان فقط سانس لیتی ہوئی مشین بن چکا ہے۔ مشینیں احساس سے عاری ہوتی ہیں۔

اب آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آپ کا وجود، زندگی اور کائنات کے کس قدر ہے۔

آپ خود اپنی ذات کے کس قدر نزدیک ہیں۔ خود کو کتنا سمجھ پائے ہیں۔ اور خود آگہی سے کس قدر بہرہ ور ہیں۔ یہ جو لمحہ موجود ہے یہی ہماری کل کائنات ہے۔ ماضی اب ایک پرفریب خیال بن چکا ہے۔ ماضی فقط نفرت، تعصب اور واہموں کو فروغ دیتا ہے۔ جہاں تک مستقبل کا تعلق ہے تو وہ ہماری نگاہوں کی دسترس سے دور ہے۔

حال، (عہد حاضر) کی سمجھ سے، روشن مستقبل کے تانے بنے جاتے ہیں۔ سمجھ، فہم و فراست، ادراک یا وجدان کا محور فقط حال ہے۔ ہمیں جو کچھ بھی ملتا ہے، اس کا تعلق حال کے مرکز سے جڑا ہوا ہے۔

آپ نے موجودہ زندگی کو اچھی طرح سمجھ لیا اور اپنے مشاہدے و تجربے سے مثبت نتائج حاصل کرلیے۔ اپنی ذات کو بھی سمجھ لیا کہ آپ کیا چاہتے ہیں۔ ذہن کے تمام تر ابہام پر قابو پاچکے ہیں۔ ذہن و شخصی خامیوں کا بھی ازالہ کرچکے ہیں۔ لہٰذا اب آپ فورتھ ڈائی مینشن میں پہنچ چکے ہیں۔ یہ ایک طلسماتی دنیا ہے۔ اب ہم وجود سے بلند ہو کے سوچتے ہیں۔ اب خیال وحدت بن چکا ہے۔ اب ہم کسی حد تک لاشعور کو سمجھنے لگے ہیں۔ تھرڈ ڈائی مینشن میں ہم شعوری طور پر حالات و واقعات کا مشاہدہ کرتے ہیں۔ مگر فورتھ ڈائی مینشن میں ان مشاہدات و تجربات کی روشنی میں، باطن کی تیسری آنکھ متحرک ہوجاتی ہے۔ اس موڑ پر سوچ، زماں و مکاں سے ماورا ہوجاتی ہے۔ اور ہم زندگی کے سچ کے قریب ہو جاتے ہیں۔ چہرے آئینہ بن جاتے ہیں اور لہجوں کا پس منظر سمجھ میں آنے لگتا ہے۔ ہمارے وجود کی توانائی کا، کائنات کی لہروں سے رابطہ فعال ہوجاتا ہے۔

ایک لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ ایک بہت بڑی کمی ہوتی ہے ہماری زندگی میں، کہ ہم فطرت کو سمجھ نہیں پاتے اور نا ہی اس کی توانائی کے قریب جاتے ہیں۔ ہمارا رابطہ جب تک وجود، زندگی اور فطرت سے فعال نہیں ہوگا، ہماری سمجھ بھی غفلت کے اندھیروں میں بھٹکتی رہتی ہے۔

پانچواں اور چھٹا وقت کا دائرہ، انتہائی اہم ہے۔ پانچواں ڈائی مینشن محبت کا وہ اثر ہے، جس سے جدید دور کوسوں دور کھڑا ہے۔ جب تک آپ محبت نہیں کرتے لہٰذا ذات اور روح میں مضبوط نہیں ہو پاتے۔ آج کے دور کا انسان مادی اشیا سے محبت کرنے لگا ہے۔ انفرادی سوچ بڑھی ہے جس کی وجہ سے ذات پرستی اور ذات کی محبت میں اضافہ ہوا ہے۔

جب آپ ففتھ ڈائی مینشن میں پہنچ جاتے ہیں، تو دنیا کے تمام تر منفی رویے آپ سے دور بھاگنے لگتے ہیں۔ اور ذہن روشنی کا مینار بن جاتا ہے۔ وقت آپ کا تابع بن جاتا ہے، کیونکہ ہم لمحہ موجود میں جینے کا ہنر جان جاتے ہیں۔ لمحہ موجود میں جینے والوں کا وقت ٹھہر کے گزرتا ہے۔ انسان کے اندر کی قوت جب کائنات کی Vibrational Force (لہروں کی توانائی سے) ہم آہنگ ہوتی ہے تو سوچ یقین میں بدلنے لگتی ہے۔ خیال حقیقت کا روپ دھارنے لگتا ہے۔ ناممکن، ممکن میں بدل جاتا ہے۔

ففتھ ڈائی مینشن میں زیادہ تر صوفی، یوگی یا وجدانی تخلیق کار رہتے ہیں۔ ہر وہ شخص جو نفرت اور منفی رویوں سے دور ہے۔ فقط محبت کرنا جانتا ہے۔ انسانیت سے غیر مشروط محبت، اس کا وطیرہ ہے۔ وہ شخص پانچویں موسم کا باسی ہے۔ یہ لوگ ماضی اور مستقبل کو سمجھتے ہوئے، موجودہ وقت میں پوری توانائی کے ساتھ زندہ ہیں۔ اگر ایسے لوگ آپ کے اردگرد ہیں تو ان سے فائدہ اٹھائیے۔ ان کی قدر کیجیے۔ اور جتنا زیادہ وقت ان کی قربت میں گزار سکتے ہیں، گزارنے کی کوش کیجیے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ماں بھی پانچویں ڈائی مینشن کی باسی ہے۔ ماں کی محبت میں ایک روحانی طاقت پوشیدہ ہے۔ جو معاشرے ماؤں کو سکھی رکھتے ہیں۔ وہ ہمیشہ سرخرو رہتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔