سندھ کے دو آئی جی پولیس

آئی جی نے خود کو کراچی تک محدود نہ رکھا اور تواتر سے اندرون سندھ کے دورے کیے

سندھ پولیس کے ملک بھر میں اچھی شہرت کے حامل انسپکٹر جنرل پولیس اے ڈی خواجہ آج کل ملک بھر میں اور خصوصاً سندھ ہائی کورٹ میں زیر سماعت مقدمے کے باعث ہر جگہ زیر بحث ہیں، جنھیں سندھ کی موجودہ حکومت اپنی شدید خواہش اور اپنے اصل حکمرانوں کے دباؤ کی وجہ سے تقریباً ایک ماہ کی کوششوں کے باوجود ہٹا نہیں پائی اور 27 اپریل کو سندھ ہائی کورٹ میں آئی جی سندھ کو ہٹانے کی سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے حیرت انگیز انکشافات کے سندھ حکومت انھیں غیر فعال، غیر موثر اور آئی جی پولیس کو کام نہیں کرنے دے رہی، کے ریمارکس سے ایک نیا موڑ سامنے آگیا، جس پر سندھ حکومت کے وکیل کو بھی کہنا پڑا کہ یہ الزام سنگین ہے، جس کا جواب دینے کے لیے وقت دیا جائے۔ وفاقی حکومت کے وکیل کی جانب سے الزام لگایا گیا کہ سندھ حکومت اپنے ہی آئی جی پولیس کو کام کرنے نہیں دے رہی۔ انھیں کسی اہم اجلاس میں نہیں بلایا جاتا اور انھیں ناکام بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے جس سے صوبے کا امن و امان متاثر ہونے کا امکان ہے۔

وفاقی وکیل کا موقف ہے کہ آئی جی پولیس کے تقرر کا حتمی فیصلہ وفاق نے کرنا ہے، جب کہ سندھ کے وکیل کا کہنا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبے کو اپنی مرضی کا آئی جی مقرر کرانے کا اختیار ہے۔ سندھ کے آئی جی پولیس کے تبادلے اور عدالتی حکم امتناعی کے باعث موجودہ آئی جی پولیس اپنے اعلیٰ عہدے پر موجود تو ہیں لیکن عدالتی فیصلے کے منتظر ہیں اور سندھ کی حکومت کی ناپسندیدگی کی نذر ہوچکے ہیں۔ سندھ حکومت انھیں ہٹانے کی کوششوں میں ناکامی کے بعد انھیں سی پی او میں کھڈے لائن لگائے بیٹھی ہے اور آئی جی پی کو صوبائی حکومت کا اعتماد اور تعاون حاصل نہیں ہے اور سندھ حکومت اپنی مرضی کے خلاف اور عدالتی حکم پر تعینات آئی جی پی کے معاملے پر مجبور ہے اور انھیں ہٹانے میں پہلی بار ناکام رہی ہے اور ماضی میں ملک میں کہیں ایسا نہیں ہوا کہ صوبے کی پولیس کا سربراہ اپنے عہدے پر حکومت کی مرضی کے خلاف موجود ہے اور حکومت انھیں کام کرنے نہیں دے رہی اور انھیں اعلیٰ سطح کے اجلاسوں میں بلایا بھی نہیں جا رہا۔

آج سے 20 سال پہلے جب وزیراعظم نواز شریف دوسری بار اقتدار میں آئے تھے تو سندھ میں مسلم لیگی وزیراعلیٰ تو تھا، جس کی حلیف ایم کیو ایم تھی مگر سندھ میں قتل و غارت گری، دہشتگردی، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری اور سنگین جرائم عام تھے۔ آئے دن پولیس اہلکاروں کا مارا جانا معمول تھا، جس کی ایک وجہ کراچی آپریشن میں ماورائے عدالت قتل بھی بتائے جاتے تھے اور کراچی آپریشن کے اہم کردار مارے گئے یا چھپ گئے۔ پولیس مورال تباہ ہوچکا تھا۔ پولیس اہلکاروں نے کھلے عام وردی پہننی چھوڑ کر خود کو تھانوں میں محصور کر رکھا تھا اور عوام عدم تحفظ کا شکار تھے۔

وزیراعظم نے سندھ، خصوصاً کراچی میں شدید بدامنی پر کنٹرول کے لیے اپنے اعتماد کے پنجاب پولیس کے اعلیٰ افسر رانا مقبول احمد کو آئی جی سندھ تعینات کر کے انھیں سندھ کی صورتحال بہتر بنانے کا ٹاسک دیا تھا، جنھیں سندھ حکومت کے ساتھ وفاق کا بھی مکمل تعاون حاصل تھا اور آئی جی رانا مقبول کو سیاست سے بالاتر ہوکر صوبے میں بدامنی ختم کرنے کا چیلنج درپیش تھا۔ شروع میں آئی جی کو مشکلات پیش آئیں۔ ایک جماعت کی سیاسی مداخلت کو بھی روکا گیا اور کچھ عرصے میں کراچی اور سندھ کی پولیس میں بہتری آنا شروع ہوگئی تھی اور پولیس کا مورال بلند ہونے لگا تھا، کیونکہ ان کا آئی جی مکمل طور پر بااختیار تھا جو ہر معاملے پر موقع پر پہنچ جاتا تھا۔


آئی جی نے خود کو کراچی تک محدود نہ رکھا اور تواتر سے اندرون سندھ کے دورے کیے۔ پولیس افسروں اور اہلکاروں سے ان کی شکایات سنیں۔ ان کے ترقی و دیگر معاملات ذاتی دلچسپی لے کر حل کرائے جس سے پولیس کا مورال بلند ہوا۔ عوام سے دور رہنے والی پولیس اور عوام کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے لیے دونوں کے درمیان حائل خلیج ختم کرانے کے اقدامات ہوئے اور پولیس پبلک کمیونٹی سروس شروع کرائی گئی۔ پولیس موبائلوں پر پولیس مدد کے فون نمبر لکھوائے گئے اور پولیس کو سختی سے ہدایت کی گئی تھی کہ وہ اسنیپ چیکنگ کے وقت سب سے پہلے روکے جانے والوں کو سلام کرے اور عزت و احترام سے تلاشی لینے کی ذمے داری پوری کرے اور خاص طور پر ضرورت پڑنے پر ان کے کام آئے۔ بیمار کو اسپتال پہنچانے میں مدد دینے کے علاوہ شہریوں کو رات کے وقت ایمرجنسی کی صورت میں دوائیں اور دودھ بھی لاکر دیں۔

ان ہدایات پر سختی سے عمل کرایا گیا، جس کا ذکر ایک خاتون نے انگریزی اخبار میں اپنے مراسلے میں کیا جسے پڑھ کر آئی جی سندھ نے مذکورہ دو سپاہیوں کو اپنے دفتر بلاکر خاتون کی گاڑی خراب ہونے پر مدد کرنے پر انعام اور ترقی بھی دی تھی اور لاڑکانہ کے کسی پولیس اہلکار کا ایک عرصے سے رکا ہوا مسئلہ اپنی موجودگی میں ایئرپورٹ پر خود رک کر حل کرایا تھا۔ آئی جی رانا مقبول کے اقدامات کو عوام میں پذیرائی ملی تھی کیونکہ وہ پولیس کے دکھاوے کے نہیں بلکہ عملی اقدامات تھے۔

اٹھارہ سال بعد جب سندھ پولیس کی سربراہی اے ڈی خواجہ جیسے عوام دوست اعلیٰ پولیس افسر کو ملی تو انھوں نے سندھ کی سیاست زدہ پولیس کی اصلاح کی کوشش کی تو سیاسی مداخلتیں ان کی راہ میں رکاوٹ بنا دی گئیں۔ جن بااثر حلقوں نے خود انھیں آئی جی سندھ بنایا تھا وہی بااثر حلقے اپنے ہی مقرر کردہ آئی جی سے چند ماہ میں کیوں تنگ آگئے یہ سوال سول سوسائٹی اور لوگوں کی زبان پر آگیا اور دو ماہ قبل آئی جی پولیس کو جبری رخصت پر جانے پر مجبور کردیا گیا مگر عوامی مداخلت پر سندھ ہائی کورٹ نے آئی جی کے تبادلے پر حکم امتناعی دے کر انھیں دوبارہ اپنے عہدے پر کام کرنے کو کہا تو حکمرانوں کو یہ عدالتی مداخلت گراں گزری اور آئی جی کی خدمات بغیر کوئی وجہ بتائے وفاق کے حوالے کرنے کا حکم جاری کرکے من پسند قائم مقام آئی جی بھی تعینات کردیا جو عدالتی حکم کی خلاف ورزی تھی جس پر عدالت نے عمل رکوا رکھا ہے۔

اے ڈی خواجہ نے مختلف اضلاع میں اپنے عوامی اقدامات اور لوگوں کو پولیس مظالم سے بچانے کے واقعات سے عوام کے دلوں میں جگہ بنائی۔ پولیس کے بجائے عوام کی سونی راتوں کو بھیس بدل کر حالات کا خود جائزہ لیا اور عوام کو جرائم پیشہ عناصر اور غیر قانونی اقدامات کے عادی پولیس اہلکاروں سے نجات دلائی جو عوام کے نام نہاد ہمدردوں کو پسند نہیں آرہی۔

پنجاب کے رانا مقبول نے سندھ پولیس کا مورال بلند اور ان کی اصلاح کی تھی اور سندھ کے اے ڈی خواجہ نے اپنے صوبے میں میرٹ پر عمل ، سیاسی مداخلت سے پولیس کا تحفظ اور عوام کے لیے کچھ کرنے کی کوشش کی تو وہ، وہ کچھ نہ کرسکے جو ایس ایس پی بن کر کر لیتے تھے مگر وہ آئی جی بن کر وہ کچھ نہ کرسکے جو کرنا چاہتے تھے کیونکہ غلط احکامات کی تعمیل نہ کرنا رکاوٹ بنا دی گئی ہے اور وہ ناپسندیدہ ہوگئے۔
Load Next Story