اسلام اور اخلاق
زمین ایک سمندر اور زندگی اس سمندر میں تیرتے ہوئے جہاز کی مانند ہے
اخلاق کی تعریف: کسی ارادہ کا ایسا غلبہ، کسی رجحان یا میلان کی ایسی مقناطیسی کشش کہ وہ انسان کی پختہ عادت یعنی فطرت ثانیہ بن جائے اور اس میں حفظ و ثبات ور صبر و استقامت کے رنگ بھی پائے جائیں، اخلاق کہلاتا ہے۔ ایسی عادت جو اصولی نہ ہو بلکہ وقتی عارضی، ہیجانی اور جذباتی رو میں بہہ جانے کا نتیجہ ہو، اخلاق کا گمان ہوتا ہے اصل میں اخلاق نہیں ہوتا۔ اخلاق تو یہ ہے کہ حالات کتنے ہی ناسازگار ہوں راستہ کتنا ہی کٹھن ہو اس مخصوص اور مضبوط عادت کا بلا خوف و خطر بغیر کسی خاص محنت اور مشقت کے تواتر کے ساتھ مظاہرہ ہوتا رہے، اخلاق کا اطلاق انسان کے صرف ایسے اعمال پر ہوتا ہے جو ارادی، شعوری اور اختیاری ہوں اور جن سے وہ بخوبی واقف بھی ہو۔ اﷲ کی نظر میں جو عمل خیر ہے، اس کا نام اخلاق حسنہ ہے اور جو عمل شر ہے، اس کا نام اخلاق سیاہ ہے۔
معاشرہ کی اساس: زمین ایک سمندر اور زندگی اس سمندر میں تیرتے ہوئے جہاز کی مانند ہے۔ جب تک جہاز میں کوئی بگاڑ پیدا نہ ہو وہ سمندر کے سینے پر چلتا رہتا ہے لیکن اگر اس میں کوئی خرابی پیدا ہوجائے اور بروقت اس خرابی کو درست نہ کیا جائے تو وہی جہاز جو کبھی سمندر کے سینے پر تیر رہا ہوتا ہے۔ ڈوبنے لگتا ہے اور سمندر کے سینے میں دفن ہوجاتا ہے۔ صرف یہی نہیں کہ وہی حصہ ڈوبتا ہے جو ناکارہ یا خراب ہوگیا ہو بلکہ اس کے ساتھ کل جہاز ڈوب جاتا ہے۔
اسی طرح زمین کے سینے پر وہی قومیں چلتی پھرتی نظر آتی ہیں جن کی اخلاقی حس زندہ ہو جو اخلاقی اعتبار سے صحت مند ہوں، اخلاقی صحت کی خرابی ان کی تیراکی کو غرقابی میں بدل دیتی ہے۔ اخلاق معاشرہ کی اساس ہے اس اساس کے کمزور ہوتے ہی معاشرہ میں ضعف آجاتا ہے، اس کے شہتیر ہلنے لگتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ زمین کے سینے میں دفن ہوجاتا ہے۔ قرآن کے ذریعے ایسی اقوام سابقہ کا پتہ چلتا ہے جن کے لوح مزار پر یہ کتبہ لکھا ہے۔ ''بد اخلاقی ہم کو لے ڈوبی۔ آنکھوں والو عبرت پکڑو''
فضائل اخلاق: عدم سے وجود میں لانا اﷲ کا کام ہے لیکن وجود کو اخلاق کے ذریعے سے برقرار رکھنا انسان کا کام ہے۔ اخلاق کا عدم وجود کا عدم ہے۔ اچھا خلق نیکی اور حکمت ہے، آبِ حیات اور جیون رس ہے دل کی آواز اور روح کا ساز ہے۔ ہر دلعزیزی کا نسخہ کیمیا ہے جو ہر آدمیت ہے۔ زندگی کی شب تاریک کے لیے پیغام سحر ہے۔ فرد کی عزت اور قوم کی عظمت کی ضمانت ہے۔ رضائے الٰہی ہے۔ فطرت انسانی کا تقاضا ہے۔ موجب صلاح و فلاح ہے۔ قیامت کے روز سب سے زیادہ قیمتی اور وزن دار چیز ہے۔ مثلِ جہات ہے گناہ کبیرہ کا کفارہ ہے۔ مادی وسائل میں توازن برقرار رکھنے کا خود کار آلہ ہے سنت انبیا ہے اﷲ سے دوستی اور قربتِ رسولؐ کا وسیلہ ہے۔ علم اخلاق باعث ثواب اس کا سمجھنا باعث ہدایت اور اس پر عمل کرنا باعث نجات ہے۔
معروف عالمی زبان: خاکی فطرتاً نہ نوری نہ ناری بلکہ اخلاقی ہے خالق نے انسان کی خلق میں خلق کی فطری حس ودیعت کی ہے ارشاد الٰہی ہے ''نفس انسان کو خدا نے برائی اور بھلائی کی واقفیت الہامی طور پر عطا کی ہے'' یہی وجہ ہے کہ اخلاق بحیثیت ایک مقبول و معروف عالمی زبان کے ہر جگہ بولی، جانی پہچانی اور سمجھی جاتی ہے یہ اور بات ہے کہ کوئی اس آواز پر لبیک کہتا ہے، کوئی تجاہل عارفانہ سے کام لیتاہے اور سنی ان سنی کردیتا ہے اور کوئی مادر زاد بہرہ بن جاتا ہے یہ اپنی اپنی ظرف اور احساس کی بات ہے۔
اخلاق کی اہمیت: اخلاق دردِ دل اور انسان کا انسان کے کام آنے کا نام ہے۔ اخلاق انسانی حقوق و فرائض کا دوسرا نام ہے، اسلام میں اخلاق کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بعض عبادات (حقوق اﷲ) کی ادائیگی اس وقت تک بندوں پر فرض قرار نہیں پاتیں جب تک کہ اخلاق (حقوق العباد) کو کما حقہ ادا نہیں کردیا جاتا مثلاً زکوٰۃ و حج وغیرہ یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ اسلام احترامِ انسانیت کے معاملے میں حساس ہے کہ بعض موقع پر ''اول خدمتِ انسان بعد خدمتِ رحمان فرض اور واجب ہوجاتی ہے''۔
شدید بھوک کی حالت میں نماز جیسی عظیم عبادت (اﷲ کا حق) موخر اور اخلاق (حق نفس) مقدم ہوجاتا ہے۔ قرآن کی رو سے جہاں اﷲ یعنی اصل نیکی، ایمان اور عبادات ہیں وہاں اخلاق بھی اصل نیکی کا جزو لاینفک ہے۔ تینوں رضائے الٰہی کے حصول کے اہم ذرایع ہیں۔ تینوں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اپنے حق کے بعد سلسلہ کلام منقطع کیے بغیر اخلاق (بندوں کے حقوق) ادا کرنے کی تلقین اور تاکید کی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے ''اﷲ تعالیٰ ہمیں حکم دیتا ہے کہ تم سوائے اس کے کسی کی بندگی نہ کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ'' جس طرح عبادات سے رشتہ توڑنے والا جنت میں داخل نہیں ہو گا اسی طرح اخلاق سے تعلق توڑنے والا بھی جنت میں داخل نہ ہوگا، ایمان دعویٰ ہے تو اخلاق دلیل دعویٰ ہے۔
اخلاق کی اہمیت کا مقام اور مرتبہ اندازۂ رسول مقبول صلی اﷲ علیہ وسلم کی اس حدیث سے با آسانی لگایا جا سکتا ہے ''میں تمہیں بتاؤں کہ روزے اور خیرات اور نماز سے بھی افضل کیا چیز ہے؟ وہ ہے بگاڑ میں صلح کرانا اور لوگوں کے باہمی تعلقات میں فساد ڈالنا وہ فعل ہے جو آدمی کی ساری نیکیوں پر پانی پھیر دیتا ہے'' رسولِ خدا صلی اﷲ علیہ وسلم کی نظر میں اصل مفلس وہ ہے جو قیامت کے روز خدا کے حضور اس حال میں حاضر ہو کہ اس کے دامن میں نماز، روزہ، زکوٰۃ سب ہی کچھ ہو لیکن اس کے دامن میں جواہر اخلاق نہ ہو۔
کسی کو گالی دے کر آیا ہو، کسی پر بہتان لگا کر آیا ہو، کسی کا مال کھاکر آیا ہو، کسی کا گھر جلا کر آیا ہو، کسی کو خون کے آنسو رلا کر آیا ہو، کسی کی غیبت کر کے آیا ہو، کسی کے دل کو ٹھیس ہی نہیں ضرب پر ضرب لگاکر آیا ہو، قیامت کے روز جس طرح ایمان اور عبادات سے محروم اﷲ کی رحمت سے محروم رہے گا اسی طرح اخلاق سے محروم انسان بھی اﷲ کی رحمت اور جنت کی خوشبو سے محروم رہے گا۔ حسن خلق شریعت محمدیؐ کی بنیادی تعلیمات سے ہے، جسے امت نے بھلادیا ہے، ہمارے معاشرے میں جو بہت سی برائیاں تناور درخت کی صورت اختیار کر بیٹھی ہیں ان میں سے بہت سی اخلاقی بے حسی کی وجہ سے ہیں۔ خوف خدا، اندیشۂ آخرت اور ایمان کشیدہ اخلاقی حس بیدار ہوجائے تو بہت سی معاشرتی الجھنیں اپنے آپ سلجھتی چلی جائیں۔ اس سے پہلے کہ اﷲ ہماری ساری نیکیوں کو ناکام کوشش قرار دے دیں اور ہمیں خبر بھی نہ ہو ہمیں اپنے اعمال اخلاص پیدا کرنا چاہیے۔
معاشرہ کی اساس: زمین ایک سمندر اور زندگی اس سمندر میں تیرتے ہوئے جہاز کی مانند ہے۔ جب تک جہاز میں کوئی بگاڑ پیدا نہ ہو وہ سمندر کے سینے پر چلتا رہتا ہے لیکن اگر اس میں کوئی خرابی پیدا ہوجائے اور بروقت اس خرابی کو درست نہ کیا جائے تو وہی جہاز جو کبھی سمندر کے سینے پر تیر رہا ہوتا ہے۔ ڈوبنے لگتا ہے اور سمندر کے سینے میں دفن ہوجاتا ہے۔ صرف یہی نہیں کہ وہی حصہ ڈوبتا ہے جو ناکارہ یا خراب ہوگیا ہو بلکہ اس کے ساتھ کل جہاز ڈوب جاتا ہے۔
اسی طرح زمین کے سینے پر وہی قومیں چلتی پھرتی نظر آتی ہیں جن کی اخلاقی حس زندہ ہو جو اخلاقی اعتبار سے صحت مند ہوں، اخلاقی صحت کی خرابی ان کی تیراکی کو غرقابی میں بدل دیتی ہے۔ اخلاق معاشرہ کی اساس ہے اس اساس کے کمزور ہوتے ہی معاشرہ میں ضعف آجاتا ہے، اس کے شہتیر ہلنے لگتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ زمین کے سینے میں دفن ہوجاتا ہے۔ قرآن کے ذریعے ایسی اقوام سابقہ کا پتہ چلتا ہے جن کے لوح مزار پر یہ کتبہ لکھا ہے۔ ''بد اخلاقی ہم کو لے ڈوبی۔ آنکھوں والو عبرت پکڑو''
فضائل اخلاق: عدم سے وجود میں لانا اﷲ کا کام ہے لیکن وجود کو اخلاق کے ذریعے سے برقرار رکھنا انسان کا کام ہے۔ اخلاق کا عدم وجود کا عدم ہے۔ اچھا خلق نیکی اور حکمت ہے، آبِ حیات اور جیون رس ہے دل کی آواز اور روح کا ساز ہے۔ ہر دلعزیزی کا نسخہ کیمیا ہے جو ہر آدمیت ہے۔ زندگی کی شب تاریک کے لیے پیغام سحر ہے۔ فرد کی عزت اور قوم کی عظمت کی ضمانت ہے۔ رضائے الٰہی ہے۔ فطرت انسانی کا تقاضا ہے۔ موجب صلاح و فلاح ہے۔ قیامت کے روز سب سے زیادہ قیمتی اور وزن دار چیز ہے۔ مثلِ جہات ہے گناہ کبیرہ کا کفارہ ہے۔ مادی وسائل میں توازن برقرار رکھنے کا خود کار آلہ ہے سنت انبیا ہے اﷲ سے دوستی اور قربتِ رسولؐ کا وسیلہ ہے۔ علم اخلاق باعث ثواب اس کا سمجھنا باعث ہدایت اور اس پر عمل کرنا باعث نجات ہے۔
معروف عالمی زبان: خاکی فطرتاً نہ نوری نہ ناری بلکہ اخلاقی ہے خالق نے انسان کی خلق میں خلق کی فطری حس ودیعت کی ہے ارشاد الٰہی ہے ''نفس انسان کو خدا نے برائی اور بھلائی کی واقفیت الہامی طور پر عطا کی ہے'' یہی وجہ ہے کہ اخلاق بحیثیت ایک مقبول و معروف عالمی زبان کے ہر جگہ بولی، جانی پہچانی اور سمجھی جاتی ہے یہ اور بات ہے کہ کوئی اس آواز پر لبیک کہتا ہے، کوئی تجاہل عارفانہ سے کام لیتاہے اور سنی ان سنی کردیتا ہے اور کوئی مادر زاد بہرہ بن جاتا ہے یہ اپنی اپنی ظرف اور احساس کی بات ہے۔
اخلاق کی اہمیت: اخلاق دردِ دل اور انسان کا انسان کے کام آنے کا نام ہے۔ اخلاق انسانی حقوق و فرائض کا دوسرا نام ہے، اسلام میں اخلاق کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ بعض عبادات (حقوق اﷲ) کی ادائیگی اس وقت تک بندوں پر فرض قرار نہیں پاتیں جب تک کہ اخلاق (حقوق العباد) کو کما حقہ ادا نہیں کردیا جاتا مثلاً زکوٰۃ و حج وغیرہ یا یوں کہہ سکتے ہیں کہ اسلام احترامِ انسانیت کے معاملے میں حساس ہے کہ بعض موقع پر ''اول خدمتِ انسان بعد خدمتِ رحمان فرض اور واجب ہوجاتی ہے''۔
شدید بھوک کی حالت میں نماز جیسی عظیم عبادت (اﷲ کا حق) موخر اور اخلاق (حق نفس) مقدم ہوجاتا ہے۔ قرآن کی رو سے جہاں اﷲ یعنی اصل نیکی، ایمان اور عبادات ہیں وہاں اخلاق بھی اصل نیکی کا جزو لاینفک ہے۔ تینوں رضائے الٰہی کے حصول کے اہم ذرایع ہیں۔ تینوں کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کیا جا سکتا۔ اﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر اپنے حق کے بعد سلسلہ کلام منقطع کیے بغیر اخلاق (بندوں کے حقوق) ادا کرنے کی تلقین اور تاکید کی ہے۔ ارشاد ہوتا ہے ''اﷲ تعالیٰ ہمیں حکم دیتا ہے کہ تم سوائے اس کے کسی کی بندگی نہ کرو اور والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ'' جس طرح عبادات سے رشتہ توڑنے والا جنت میں داخل نہیں ہو گا اسی طرح اخلاق سے تعلق توڑنے والا بھی جنت میں داخل نہ ہوگا، ایمان دعویٰ ہے تو اخلاق دلیل دعویٰ ہے۔
اخلاق کی اہمیت کا مقام اور مرتبہ اندازۂ رسول مقبول صلی اﷲ علیہ وسلم کی اس حدیث سے با آسانی لگایا جا سکتا ہے ''میں تمہیں بتاؤں کہ روزے اور خیرات اور نماز سے بھی افضل کیا چیز ہے؟ وہ ہے بگاڑ میں صلح کرانا اور لوگوں کے باہمی تعلقات میں فساد ڈالنا وہ فعل ہے جو آدمی کی ساری نیکیوں پر پانی پھیر دیتا ہے'' رسولِ خدا صلی اﷲ علیہ وسلم کی نظر میں اصل مفلس وہ ہے جو قیامت کے روز خدا کے حضور اس حال میں حاضر ہو کہ اس کے دامن میں نماز، روزہ، زکوٰۃ سب ہی کچھ ہو لیکن اس کے دامن میں جواہر اخلاق نہ ہو۔
کسی کو گالی دے کر آیا ہو، کسی پر بہتان لگا کر آیا ہو، کسی کا مال کھاکر آیا ہو، کسی کا گھر جلا کر آیا ہو، کسی کو خون کے آنسو رلا کر آیا ہو، کسی کی غیبت کر کے آیا ہو، کسی کے دل کو ٹھیس ہی نہیں ضرب پر ضرب لگاکر آیا ہو، قیامت کے روز جس طرح ایمان اور عبادات سے محروم اﷲ کی رحمت سے محروم رہے گا اسی طرح اخلاق سے محروم انسان بھی اﷲ کی رحمت اور جنت کی خوشبو سے محروم رہے گا۔ حسن خلق شریعت محمدیؐ کی بنیادی تعلیمات سے ہے، جسے امت نے بھلادیا ہے، ہمارے معاشرے میں جو بہت سی برائیاں تناور درخت کی صورت اختیار کر بیٹھی ہیں ان میں سے بہت سی اخلاقی بے حسی کی وجہ سے ہیں۔ خوف خدا، اندیشۂ آخرت اور ایمان کشیدہ اخلاقی حس بیدار ہوجائے تو بہت سی معاشرتی الجھنیں اپنے آپ سلجھتی چلی جائیں۔ اس سے پہلے کہ اﷲ ہماری ساری نیکیوں کو ناکام کوشش قرار دے دیں اور ہمیں خبر بھی نہ ہو ہمیں اپنے اعمال اخلاص پیدا کرنا چاہیے۔