ایک اور سنگ میل عبور
چین میں تیار پہلا طیارہ بردار جہاز سمندر میں اتاردیا گیا۔
سیانے کہتے ہیں کہ
''زندگی میں جو لوگ کوشش نہیں کرتے وہ کام یاب نہیں ہوتے''
''محنت اتنی خاموشی سے کرو کہ تمہاری کام یابی شور مچادے''
ایسا لگتا ہے کہ یہ باتیں پاکستان کے سب سے بااعتماد دوست، برادر پڑوسی ملک چین کے لیے ہی کہی گئی ہیں، جس نے عالمی چیلینجوں کا مقابلہ بھرپور عوامی طاقت، شب و روز کی انتھک محنت، دوستوں کی دوستی کو مزید مستحکم کرنے اور مخالفین کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر چلنے کے عزم کے ساتھ عالمی سطح پر اپنا مقام بنایا ہے۔
ہمارے ملک کے لیے بھی چین کی محبت، خلوص اور بے غرض دوستی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ عالمی برادری میں بھی بے پناہ مخالفتوں اور پسند و ناپسند کے باوجود چین کو بہت باعزت مقام حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر میں چینی مصنوعات کا بڑا چرچا ہے۔ چھوٹے بڑے تمام ممالک کے بازاروں میں چینی مصنوعات کی بڑے پیمانے پر خرید و فروخت ہوتی ہے جو چینی حکومت اور عوام کے خود پر اعتماد کا بھرپور اعتراف ہے۔
یکم اکتوبر 1949 کو ایک آزاد ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے میں ابھرنے والے چین نے روز اول سے ہی محنت کے ذریعے ترقی کو اپنا ہدف بنایا ہوا ہے اور تقریباً زندگی کے تمام شعبوں میں اُسے ترقی حاصل ہورہی ہے۔ اپریل 2017 میں چین نے ایک اور سنگ میل عبور کیا جب چین میں تیار کردہ پہلا طیارہ بردار جہاز چینی پانیوں میں اتارا گیا۔
یہ موقع چینی حکومت، عوام اور چین کے دوست ممالک بالخصوص پاکستان کے لیے بھی بہت خوشی، فخر اور اہمیت کا حامل تھا، کیوںکہ چین نے وہ کردکھایا جس کی خواہش اور تمنا بہت سے ممالک کرتے ہیں لیکن کر نہیں پاتے۔ مختلف ملکوں میں ہتھیاروں کی دوڑ لگی رہتی ہے، وہ اگر خود کچھ نہیں کرسکتے تو وہ عالمی مارکیٹ سے اپنی مرضی کے ہتھیار اور چیزیں خرید کر ہمسایوں پر رعب جمانے کی کوشش کرتے ہیں۔
عالمی سطح پر خود کو منوانے اور اپنی بالادستی ثابت کرنے کے لیے دوسرے ممالک سے ہتھیار اور دیگر اشیا خریدنا الگ بات ہے، لیکن طیارہ بردار جہاز اپنے ملک میں بنانے کی بات ہی کچھ اور ہے جس پر پوری چینی قوم اور حکومت یقینی طور پر لائق تحسین اور قابل مبارکباد ہیں۔ طیارہ بردار جہاز کی تیاری آسان کام نہیں، یہ ایک چھوٹا گاؤں یا قصبہ بسانے جیسا ہے جس میں کئی ہزار لوگوں کو رہائش، طعام اور زندگی کی وہ تمام سہولتیں میسر ہوں کہ جن کے ذریعے وہ گہرے سمندروں میں بھی دنیا بھر سے رابطہ رکھیں اور انھیں مشکل صورت حال میں بھی کسی قسم کی کوئی پریشانی نہ ہو۔
آئیے زیرنظر مضمون میں مختصر جائزہ لیتے ہیں کہ چینی ساختہ طیارہ بردار جہاز کیسا ہے اور چینی ماہرین نے اسے کس طرح عالمی سطح پر مقابلہ کرنے کے قابل بنایا ہے، امید ہے کہ یہ معلومات قارئین کے دل چسپی کا باعث ہوں گی ۔
چینی شہر ڈالیان (Dalian)میں اپریل کا آخری عشرہ بھرپور تیاریوں والا تھا، ایسا لگتا تھا کہ سارے علاقے میں جشن کا سماں ہے اور کیوں نہ ہوتا، ساری چینی قوم کی نظریں ساحلی شہر کی طرف مرکوز تھیں، جہاں ملک میں تیار کیے گئے پہلے طیارہ بردار بحری جہاز کا افتتاح ہورہا تھا۔ اس تقریب میں حکومتی اور عسکری حکام کی بڑی تعداد نے شرکت کی جب کہ کروڑوں چینیوں نے اس یادگار موقع کو ٹی وی اسکرینوں کے ذریعے دیکھا۔
چین بھر کے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا نے اس کام یابی کی خبریں بھرپور انداز میں پیش کیں، چین کے علاوہ بھی دنیا بھر کے میڈیا نے چینی طیارہ بردار جہاز کے پانیوں میں اتارنے کی خبریں نمایاں شائع کرکے چینی صلاحیتوں کا اعتراف کیا۔ چینی پرچموں سے سجا طیارہ بردار جہاز اپنی رُونمائی کے وقت بھرپور شان و شوکت کا مظاہرہ کررہا تھا۔
چینی حکومت، فوجی ماہرین اور سرکاری خبررساں ایجنسی شہنوا کے مطابق تقریباً 50 ہزار ٹن وزنی اس جہاز کا ڈیزائن مکمل طور پر چینی ماہرین کے ہاتھوں سے بنا ہے۔ یہ (ٹائپ 001A) ایئرکرافٹ کیریئر مکمل طور پر تیار ہے اور اسے ضروری آلات، مختلف سسٹمز اور دیگر مشینری سے لیس کردیا گیا ہے۔ تاہم ابھی اسے مکمل طور پر آپریشنل ہونے کے لیے 2020ء تک کا وقت لگے گا، کیوںکہ ابھی اس کو جدید ہتھیاروں، میزائلوں اور دیگر اہم چیزوں سے لیس کرنے کا کام باقی ہے۔
یہ بات بھی قارئین کے لیے اہم ہوگی کہ مذکورہ جہاز چین کا دوسرا طیارہ بردار جہاز ہے لیکن اسے اس لیے خاص اہمیت حاصل ہے، کیوںکہ یہ مکمل طور پر چین میں ہی تیار کیا گیا ہے۔ اس کا ڈیزائن روسی بحری جہاز (Kuznetsov) سے ملتا جلتا ہے، لیکن یہ چینی ماہرین کی اپنی صلاحیتوں اور مہارتوں کا نمونہ ہے۔ چین کا پہلا طیارہ بردار جہاز ''لیاؤننگ'' ہے جو چین نے 1998 ء میں یوکرین سے خریدا تھا، یہ پہلے سے استعمال شدہ بحری جہاز تھا لیکن اب بھی چینی بحری بیڑے میں فعال ہے۔
چین میں تیار کردہ طیارہ بردار جہاز کی فوج میں شمولیت ایک ایسے موقع پر کی گئی جب چین نے کچھ دن قبل ہی اپنی بحری افواج کے قیام کی سال گرہ منائی ہے۔ اس کے علاوہ شمالی کوریا سے شدید کشیدگی کے بعد امریکی بحری بیڑا یو ایس ایس ونسن (USS Vinson)بھی علاقے میں موجود ہے، اس صورت حال میں بھی چینی طیارہ بردار جہاز کا پانی میں اتاردیا جانا ایک اہم پیش رفت سمجھی جارہی ہے۔ چین نے اپنے اس بحری بیڑے کے حوالے سے زیادہ معلومات شروع سے ہی نہیں دی تھیں۔
2015 میں بیجنگ نے یہ اعتراف ضرور کیا تھا کہ وہ بحری بیڑا تیار کررہا ہے لیکن وہ کیسا ہوگا؟ اس حوالے سے زیادہ تفصیلات کسی کو پتا نہیں تھیں، اب چینی ساختہ طیارہ بردار جہاز کے افتتاح نے چین کے دوستوں کو خوشی جب کہ مخالفین کو پریشانی میں مبتلا کردیا ہے۔ چینی حکومت نے یہ بھی بتایا ہے کہ اس طیارہ بردار جہاز کو جوہری توانائی کے بجائے توانائی کے روایتی ذرائع سے آپریٹ کیا جائے گا۔ عالمی ماہرین کا اندازہ ہے کہ چین نے اس طیارہ بردار جہاز کی تیاری کا آغاز 2012 میں کیا ہوگا۔
315 میٹر طویل اور 75 میٹر چوڑے اس چینی طیارہ بردار بحری جہاز پر 24 چینی شینیانگ (Shenyang) جے 15 فائٹر طیارے اور 12 ہیلی کاپٹر اتارے جانے اور کھڑے رہنے کی گنجائش ہے۔ یہ چین کے پہلے ایئرکرافٹ کیریئر لیاؤننگ کے مقابلے میں کچھ بڑا ہے ۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ چین میں تیار کردہ اس جہاز کو ابھی کوئی نام نہیں دیا گیا، لیکن اس نے دنیا بھر میں دھوم ضرور مچادی ہے۔
کچھ رپورٹس بتاتی ہیں کہ شاید اس جہاز کا نام شین ڈونگ (Shandong) ہوگا، کیوںکہ یہ بحری بیڑا کچھ دن شین ڈونگ صوبے میں بھی رہا ہے۔ تاہم ابھی اس کے نام کا حتمی اعلان ہونا باقی ہے۔ عالمی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طیارہ بردار جہاز کی چینی فوج میں شمولیت سے خطے میں چینی عسکری استعدادکار میں بے حد اضافہ ہوگا،گوکہ یہ چین بحری بیڑا چین نے اپنے دفاع کے لیے بنایا ہے، لیکن کسی بھی قسم کی جارحیت کے سدباب کے لیے بھی اس کی موجودگی اہم ہے۔
پاکستان کے لیے بھی چین کا یہ سنگ میل انتہائی خوشی اور فخر کی بات ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری (CPEC) کے تناظر میں چینی فوجی صلاحیت میں اتنا بیش قیمت اضافہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس سے نہ صرف سی پیک سے جُڑے بحری منصوبوں کی حفاظت میں مدد ملے گی، بل کہ اس کے ذریعے منصوبوں کی بروقت تکمیل کا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہوسکے گا۔ چینی طیارہ بردار جہاز کو کوئی بھی نام دیا جائے لیکن یہ دوستوں کے لیے خوشی و اطمینان اور مخالفین کے لیے دہشت کا نام ضرور ہوگا۔
طیارہ بردار جہازوں کے بارے میں کچھ دل چسپ معلومات
٭دنیا بھر میں سب سے زیادہ 19 طیارہ بردار بحری جہاز امریکا کے پاس ہیں، جو مکمل طور پر فعال ہیں اور یہ بھی رپورٹس ہیں کہ امریکی فوج مزید ایئرکرافٹ کیریئر کی تیاری کررہی ہے۔
٭امریکی جہاز نمٹز(Nimitz) کلاس کو دنیا کا بہترین طیارہ بردار جہاز کہا جاتا ہے، جو گنجائش، وزن، خصوصیات، لمبائی اور چوڑائی کے حوالے سے سب سے آگے ہے۔ دیگر امریکی ایئرکرافٹ کیریئرز میں انٹرپرائز، وسکانسن، واسپ کلاس (Wasp) شامل ہیں۔ فرانسیسی چارلس ڈیگال، روسی کزنیٹسوو(Kuznetsov) اور اسپین کا جان کارلوس بھی بحری بیڑوں کی صف میں شامل ہیں۔
٭ ایک طیارہ بردار جہاز پر کم از کم دو ڈھائی ہزار ایک وقت میں آرام سے رہ سکتے ہیں لیکن دنیا کے بعض بڑے ایئر کرافٹ کیریئرز میں لوگوں کی گنجائش 6 ہزار سے بھی زیادہ ہے۔
٭کہا جاتا ہے کہ دنیا کا سب سے پہلا طیارہ بردار جہاز بنانے کیلیے 1910 میں فرانسیسی ماہرین نے قدم اٹھایا تھا اور 1911 میں پہلا ایئر کرافٹ کیریئر متعارف کرایا گیا۔
''زندگی میں جو لوگ کوشش نہیں کرتے وہ کام یاب نہیں ہوتے''
''محنت اتنی خاموشی سے کرو کہ تمہاری کام یابی شور مچادے''
ایسا لگتا ہے کہ یہ باتیں پاکستان کے سب سے بااعتماد دوست، برادر پڑوسی ملک چین کے لیے ہی کہی گئی ہیں، جس نے عالمی چیلینجوں کا مقابلہ بھرپور عوامی طاقت، شب و روز کی انتھک محنت، دوستوں کی دوستی کو مزید مستحکم کرنے اور مخالفین کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر چلنے کے عزم کے ساتھ عالمی سطح پر اپنا مقام بنایا ہے۔
ہمارے ملک کے لیے بھی چین کی محبت، خلوص اور بے غرض دوستی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ عالمی برادری میں بھی بے پناہ مخالفتوں اور پسند و ناپسند کے باوجود چین کو بہت باعزت مقام حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر میں چینی مصنوعات کا بڑا چرچا ہے۔ چھوٹے بڑے تمام ممالک کے بازاروں میں چینی مصنوعات کی بڑے پیمانے پر خرید و فروخت ہوتی ہے جو چینی حکومت اور عوام کے خود پر اعتماد کا بھرپور اعتراف ہے۔
یکم اکتوبر 1949 کو ایک آزاد ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے میں ابھرنے والے چین نے روز اول سے ہی محنت کے ذریعے ترقی کو اپنا ہدف بنایا ہوا ہے اور تقریباً زندگی کے تمام شعبوں میں اُسے ترقی حاصل ہورہی ہے۔ اپریل 2017 میں چین نے ایک اور سنگ میل عبور کیا جب چین میں تیار کردہ پہلا طیارہ بردار جہاز چینی پانیوں میں اتارا گیا۔
یہ موقع چینی حکومت، عوام اور چین کے دوست ممالک بالخصوص پاکستان کے لیے بھی بہت خوشی، فخر اور اہمیت کا حامل تھا، کیوںکہ چین نے وہ کردکھایا جس کی خواہش اور تمنا بہت سے ممالک کرتے ہیں لیکن کر نہیں پاتے۔ مختلف ملکوں میں ہتھیاروں کی دوڑ لگی رہتی ہے، وہ اگر خود کچھ نہیں کرسکتے تو وہ عالمی مارکیٹ سے اپنی مرضی کے ہتھیار اور چیزیں خرید کر ہمسایوں پر رعب جمانے کی کوشش کرتے ہیں۔
عالمی سطح پر خود کو منوانے اور اپنی بالادستی ثابت کرنے کے لیے دوسرے ممالک سے ہتھیار اور دیگر اشیا خریدنا الگ بات ہے، لیکن طیارہ بردار جہاز اپنے ملک میں بنانے کی بات ہی کچھ اور ہے جس پر پوری چینی قوم اور حکومت یقینی طور پر لائق تحسین اور قابل مبارکباد ہیں۔ طیارہ بردار جہاز کی تیاری آسان کام نہیں، یہ ایک چھوٹا گاؤں یا قصبہ بسانے جیسا ہے جس میں کئی ہزار لوگوں کو رہائش، طعام اور زندگی کی وہ تمام سہولتیں میسر ہوں کہ جن کے ذریعے وہ گہرے سمندروں میں بھی دنیا بھر سے رابطہ رکھیں اور انھیں مشکل صورت حال میں بھی کسی قسم کی کوئی پریشانی نہ ہو۔
آئیے زیرنظر مضمون میں مختصر جائزہ لیتے ہیں کہ چینی ساختہ طیارہ بردار جہاز کیسا ہے اور چینی ماہرین نے اسے کس طرح عالمی سطح پر مقابلہ کرنے کے قابل بنایا ہے، امید ہے کہ یہ معلومات قارئین کے دل چسپی کا باعث ہوں گی ۔
چینی شہر ڈالیان (Dalian)میں اپریل کا آخری عشرہ بھرپور تیاریوں والا تھا، ایسا لگتا تھا کہ سارے علاقے میں جشن کا سماں ہے اور کیوں نہ ہوتا، ساری چینی قوم کی نظریں ساحلی شہر کی طرف مرکوز تھیں، جہاں ملک میں تیار کیے گئے پہلے طیارہ بردار بحری جہاز کا افتتاح ہورہا تھا۔ اس تقریب میں حکومتی اور عسکری حکام کی بڑی تعداد نے شرکت کی جب کہ کروڑوں چینیوں نے اس یادگار موقع کو ٹی وی اسکرینوں کے ذریعے دیکھا۔
چین بھر کے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا نے اس کام یابی کی خبریں بھرپور انداز میں پیش کیں، چین کے علاوہ بھی دنیا بھر کے میڈیا نے چینی طیارہ بردار جہاز کے پانیوں میں اتارنے کی خبریں نمایاں شائع کرکے چینی صلاحیتوں کا اعتراف کیا۔ چینی پرچموں سے سجا طیارہ بردار جہاز اپنی رُونمائی کے وقت بھرپور شان و شوکت کا مظاہرہ کررہا تھا۔
چینی حکومت، فوجی ماہرین اور سرکاری خبررساں ایجنسی شہنوا کے مطابق تقریباً 50 ہزار ٹن وزنی اس جہاز کا ڈیزائن مکمل طور پر چینی ماہرین کے ہاتھوں سے بنا ہے۔ یہ (ٹائپ 001A) ایئرکرافٹ کیریئر مکمل طور پر تیار ہے اور اسے ضروری آلات، مختلف سسٹمز اور دیگر مشینری سے لیس کردیا گیا ہے۔ تاہم ابھی اسے مکمل طور پر آپریشنل ہونے کے لیے 2020ء تک کا وقت لگے گا، کیوںکہ ابھی اس کو جدید ہتھیاروں، میزائلوں اور دیگر اہم چیزوں سے لیس کرنے کا کام باقی ہے۔
یہ بات بھی قارئین کے لیے اہم ہوگی کہ مذکورہ جہاز چین کا دوسرا طیارہ بردار جہاز ہے لیکن اسے اس لیے خاص اہمیت حاصل ہے، کیوںکہ یہ مکمل طور پر چین میں ہی تیار کیا گیا ہے۔ اس کا ڈیزائن روسی بحری جہاز (Kuznetsov) سے ملتا جلتا ہے، لیکن یہ چینی ماہرین کی اپنی صلاحیتوں اور مہارتوں کا نمونہ ہے۔ چین کا پہلا طیارہ بردار جہاز ''لیاؤننگ'' ہے جو چین نے 1998 ء میں یوکرین سے خریدا تھا، یہ پہلے سے استعمال شدہ بحری جہاز تھا لیکن اب بھی چینی بحری بیڑے میں فعال ہے۔
چین میں تیار کردہ طیارہ بردار جہاز کی فوج میں شمولیت ایک ایسے موقع پر کی گئی جب چین نے کچھ دن قبل ہی اپنی بحری افواج کے قیام کی سال گرہ منائی ہے۔ اس کے علاوہ شمالی کوریا سے شدید کشیدگی کے بعد امریکی بحری بیڑا یو ایس ایس ونسن (USS Vinson)بھی علاقے میں موجود ہے، اس صورت حال میں بھی چینی طیارہ بردار جہاز کا پانی میں اتاردیا جانا ایک اہم پیش رفت سمجھی جارہی ہے۔ چین نے اپنے اس بحری بیڑے کے حوالے سے زیادہ معلومات شروع سے ہی نہیں دی تھیں۔
2015 میں بیجنگ نے یہ اعتراف ضرور کیا تھا کہ وہ بحری بیڑا تیار کررہا ہے لیکن وہ کیسا ہوگا؟ اس حوالے سے زیادہ تفصیلات کسی کو پتا نہیں تھیں، اب چینی ساختہ طیارہ بردار جہاز کے افتتاح نے چین کے دوستوں کو خوشی جب کہ مخالفین کو پریشانی میں مبتلا کردیا ہے۔ چینی حکومت نے یہ بھی بتایا ہے کہ اس طیارہ بردار جہاز کو جوہری توانائی کے بجائے توانائی کے روایتی ذرائع سے آپریٹ کیا جائے گا۔ عالمی ماہرین کا اندازہ ہے کہ چین نے اس طیارہ بردار جہاز کی تیاری کا آغاز 2012 میں کیا ہوگا۔
315 میٹر طویل اور 75 میٹر چوڑے اس چینی طیارہ بردار بحری جہاز پر 24 چینی شینیانگ (Shenyang) جے 15 فائٹر طیارے اور 12 ہیلی کاپٹر اتارے جانے اور کھڑے رہنے کی گنجائش ہے۔ یہ چین کے پہلے ایئرکرافٹ کیریئر لیاؤننگ کے مقابلے میں کچھ بڑا ہے ۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ چین میں تیار کردہ اس جہاز کو ابھی کوئی نام نہیں دیا گیا، لیکن اس نے دنیا بھر میں دھوم ضرور مچادی ہے۔
کچھ رپورٹس بتاتی ہیں کہ شاید اس جہاز کا نام شین ڈونگ (Shandong) ہوگا، کیوںکہ یہ بحری بیڑا کچھ دن شین ڈونگ صوبے میں بھی رہا ہے۔ تاہم ابھی اس کے نام کا حتمی اعلان ہونا باقی ہے۔ عالمی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طیارہ بردار جہاز کی چینی فوج میں شمولیت سے خطے میں چینی عسکری استعدادکار میں بے حد اضافہ ہوگا،گوکہ یہ چین بحری بیڑا چین نے اپنے دفاع کے لیے بنایا ہے، لیکن کسی بھی قسم کی جارحیت کے سدباب کے لیے بھی اس کی موجودگی اہم ہے۔
پاکستان کے لیے بھی چین کا یہ سنگ میل انتہائی خوشی اور فخر کی بات ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری (CPEC) کے تناظر میں چینی فوجی صلاحیت میں اتنا بیش قیمت اضافہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس سے نہ صرف سی پیک سے جُڑے بحری منصوبوں کی حفاظت میں مدد ملے گی، بل کہ اس کے ذریعے منصوبوں کی بروقت تکمیل کا خواب بھی شرمندہ تعبیر ہوسکے گا۔ چینی طیارہ بردار جہاز کو کوئی بھی نام دیا جائے لیکن یہ دوستوں کے لیے خوشی و اطمینان اور مخالفین کے لیے دہشت کا نام ضرور ہوگا۔
طیارہ بردار جہازوں کے بارے میں کچھ دل چسپ معلومات
٭دنیا بھر میں سب سے زیادہ 19 طیارہ بردار بحری جہاز امریکا کے پاس ہیں، جو مکمل طور پر فعال ہیں اور یہ بھی رپورٹس ہیں کہ امریکی فوج مزید ایئرکرافٹ کیریئر کی تیاری کررہی ہے۔
٭امریکی جہاز نمٹز(Nimitz) کلاس کو دنیا کا بہترین طیارہ بردار جہاز کہا جاتا ہے، جو گنجائش، وزن، خصوصیات، لمبائی اور چوڑائی کے حوالے سے سب سے آگے ہے۔ دیگر امریکی ایئرکرافٹ کیریئرز میں انٹرپرائز، وسکانسن، واسپ کلاس (Wasp) شامل ہیں۔ فرانسیسی چارلس ڈیگال، روسی کزنیٹسوو(Kuznetsov) اور اسپین کا جان کارلوس بھی بحری بیڑوں کی صف میں شامل ہیں۔
٭ ایک طیارہ بردار جہاز پر کم از کم دو ڈھائی ہزار ایک وقت میں آرام سے رہ سکتے ہیں لیکن دنیا کے بعض بڑے ایئر کرافٹ کیریئرز میں لوگوں کی گنجائش 6 ہزار سے بھی زیادہ ہے۔
٭کہا جاتا ہے کہ دنیا کا سب سے پہلا طیارہ بردار جہاز بنانے کیلیے 1910 میں فرانسیسی ماہرین نے قدم اٹھایا تھا اور 1911 میں پہلا ایئر کرافٹ کیریئر متعارف کرایا گیا۔