چمن میں افغان فورسز کی فائرنگ سے 2 اہلکاروں سمیت 11 افراد شہید اور 46 زخمی
افغان جارحیت کا نشانہ بننے والے ایف سی جوان مردم شماری ٹیم کی سیکیورٹی پر مامور تھے، آئی ایس پی آر
WASHINGTON:
بلوچستان کے شہر چمن کے سرحدی دیہات پر افغان بارڈر فورسز کی بلااشتعال گولہ باری اور فائرنگ سے سیکیورٹی فورسز کے 2 اہلکاروں اور 3 خواتین سمیت 11 پاکستانی شہری شہید جبکہ 4 ایف سی اہلکاروں سمیت 46 افراد زخمی ہوگئے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق بلوچستان کے شہر چمن کے سرحدی دیہات پر افغان بارڈر فورسز نے بلااشتعال گولہ باری اور فائرنگ کی جس کے نتیجے میں سیکیورٹی فورسز کے 2 اہلکاروں، 3 خواتین اور 2 بچوں سمیت 11 پاکستانی شہری شہید جبکہ 4 ایف سی اہلکاروں سمیت 46 افراد زخمی ہوگئے۔ پاک فورسز نے افغان فائرنگ کا بھرپور جواب دیا جس کے بعد افغان فوسز کی جانب سے فائرنگ اور گولہ باری رک گئی، جوابی فائرنگ کے نتیجے میں افغان فورسز کی 3 چوکیاں اور 2 گاڑیاں تباہ ہوگئیں جبکہ متعدد افغان اہلکاروں کی ہلاکت کی بھی اطلاعات ہیں، پاک فوج کے تازہ دم دستے چمن بھیج دیے گئے ہیں، پاک فضائیہ کو بھی الرٹ کر دیا گیا ، باب دوستی بھی بند کر دیا گیا ہے،زخمیوں کو سی ایم ایچ اور سول اسپتال کوئٹہ منتقل کر دیا گیا ، قلعہ عبد اللہ کے سرحدی دیہات میں مردم شماری روک دی گئی تمام سرکاری اور نجی اسکول بھی غیرمعینہ مدت تک بندکردیے گئے اور شہریوں کو سرحدی علاقوں سے نقل مکانی کی ہدایت کر دی گئی ہے۔
اس خبرکوبھی پڑھیں: پاک افغان ڈی جی ایم اوز کا ہاٹ لائن پر رابطہ
سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان فورسز کی کارروائی میں زخمی ہونے والوں کو طبی امداد کے لئے سول اسپتال چمن منتقل کیا گیا جب کہ شدید زخمیوں کو علاج کے لئے کوئٹہ منتقل کردیا گیا ہے۔ چمن انتظامیہ نے اسپتال میں میڈیکل ایمرجنسی نافذ کر کے تمام عملے کی چھٹیاں منسوخ کر دیں۔افغان فورسز کی جانب سے سول آبادی میں گولہ باری سے علاقے میں شدید خوف و ہراس پایا جاتا ہے اور صبح سویرے کھلنے والے بازار بند ہیں جب کہ پاکستانی فورسز کی جانب سے بھی افغان فورسز کی فائرنگ اور گولہ باری کا بھرپور جواب دیا گیا۔
اس خبر کو بھی پڑھیں : فائرنگ امن کوششوں کے لئے نقصان دہ
پاک فوج کے شعبہ تعلقات (آئی ایس پی آر) کے مطابق افغان جارحیت کا نشانہ بننے والے ایف سی جوان مردم شماری ٹیم کی سیکیورٹی پر مامور تھے،آئی ایس پی آرکے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے ٹویٹ کیا کہ افغان فورسز کی جانب سے مردم شماری میں مصروف ایف سی اہلکاروں پر فائرنگ کی گئی جس سے ایک اہلکار شہید ہوا، افغان فورسز کی جانب سے چمن کے علاقوں کلی لقمان اور کلی جہانگیر میں مردم شماری میں رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں۔ ترجمان کے مطابق افغان حکام کو مردم شماری سے متعلق آگاہ کیا جا چکا، اس کے باوجود افغان فورسز کی جانب سے کارروائی افسوسناک ہے تاہم فائرنگ کے بعد پاک افغان ڈی جی ایم اوز میں ہاٹ لائن رابطہ ہوا ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق ڈی جی ایم او میجر جنرل ساحر شمشاد مرزا نے پاکستانی دیہاتوں اور سیکیورٹی فورسز پر فائرنگ کی مذمت کی اورکہا کہ بارڈ کے مقام پر دیہات دونوں اطراف تقسیم ہیں اور پاکستان کی فورسز اور عوام شہری بارڈ پر اپنی سائیڈ پر ہیں جب کہ مردم شماری ٹیمیں بھی اپنےعلاقے میں فرائض سرانجام دے رہی تھیں اور ٹیمیں اپنے علاقے میں کام جاری رکھیں گی افغان فورسزکشیدہ صورتحال کوختم کریں اور اپنی سائیڈ پر رہیں
آئی ایس پی آر کے مطابق افغان ڈی جی ایم او نے اس بات کا اعتراف کیا کہ جس دیہات پر فائرنگ کی گئی وہ بارڈ کھائی میں نہیں بلکہ پاکستان کی سائیڈ پر ہے افغان ڈی جی ایم او نے کشیدگی کے خاتمے کے سلسلے میں ضروری اقدامات کی یقین دہانی کرائی ہے۔
وزیراعظم نواز شریف نے پاک افغان بارڈر پر فائرنگ کے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے متاثرہ افراد کے خاندانوں سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ بارڈر پر فائرنگ اور اہلکاروں کی شہادت انتہائی افسوسناک ہے، فائرنگ کے واقعات امن کی کوششوں کے لئے نقصان دہ ہیں لہذا افغان حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کرے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار نے بھی افغان بارڈر پر فائرنگ کی شدید مذمت کرتے ہوئے متاثرہ خاندانوں سے اظہار تعزیت اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعا کی۔
دوسری جانب چمن بارڈر پر افغان فورسز کی فائرنگ پر احتجاج کے لیے پاکستان میں تعینات افغان ناظم الامورکو دفترخارجہ طلب کرکے انہیں احتجاجی مراسلہ بھی دیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ افغانستان فوری طور پر پاکستانی علاقوں میں فائرنگ کا سلسلہ بند کرے اور مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے اقدامات کرے، اگر افغانستان فائرنگ کا سلسلہ بند نہیں کرے گا تو پاکستان جوابی کارروائی کا حق محفوظ رکھتا ہے۔
واضح رہے کہ کچھ عرصے قبل بھی پاک افغان سرحد پر کشیدگی کے باعث پاکستان نے افغانستان سے ملحقہ چمن اور طورخم بارڈر کو ایک ماہ تک بند کئے رکھا تھا اور پھر افغان حکام کی جانب سے تعاون کی یقین دہانی کے بعد وزیراعظم نواز شریف کی ہدایت پر سرحدوں کو کھولا گیا تھا۔
بلوچستان کے شہر چمن کے سرحدی دیہات پر افغان بارڈر فورسز کی بلااشتعال گولہ باری اور فائرنگ سے سیکیورٹی فورسز کے 2 اہلکاروں اور 3 خواتین سمیت 11 پاکستانی شہری شہید جبکہ 4 ایف سی اہلکاروں سمیت 46 افراد زخمی ہوگئے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق بلوچستان کے شہر چمن کے سرحدی دیہات پر افغان بارڈر فورسز نے بلااشتعال گولہ باری اور فائرنگ کی جس کے نتیجے میں سیکیورٹی فورسز کے 2 اہلکاروں، 3 خواتین اور 2 بچوں سمیت 11 پاکستانی شہری شہید جبکہ 4 ایف سی اہلکاروں سمیت 46 افراد زخمی ہوگئے۔ پاک فورسز نے افغان فائرنگ کا بھرپور جواب دیا جس کے بعد افغان فوسز کی جانب سے فائرنگ اور گولہ باری رک گئی، جوابی فائرنگ کے نتیجے میں افغان فورسز کی 3 چوکیاں اور 2 گاڑیاں تباہ ہوگئیں جبکہ متعدد افغان اہلکاروں کی ہلاکت کی بھی اطلاعات ہیں، پاک فوج کے تازہ دم دستے چمن بھیج دیے گئے ہیں، پاک فضائیہ کو بھی الرٹ کر دیا گیا ، باب دوستی بھی بند کر دیا گیا ہے،زخمیوں کو سی ایم ایچ اور سول اسپتال کوئٹہ منتقل کر دیا گیا ، قلعہ عبد اللہ کے سرحدی دیہات میں مردم شماری روک دی گئی تمام سرکاری اور نجی اسکول بھی غیرمعینہ مدت تک بندکردیے گئے اور شہریوں کو سرحدی علاقوں سے نقل مکانی کی ہدایت کر دی گئی ہے۔
اس خبرکوبھی پڑھیں: پاک افغان ڈی جی ایم اوز کا ہاٹ لائن پر رابطہ
سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان فورسز کی کارروائی میں زخمی ہونے والوں کو طبی امداد کے لئے سول اسپتال چمن منتقل کیا گیا جب کہ شدید زخمیوں کو علاج کے لئے کوئٹہ منتقل کردیا گیا ہے۔ چمن انتظامیہ نے اسپتال میں میڈیکل ایمرجنسی نافذ کر کے تمام عملے کی چھٹیاں منسوخ کر دیں۔افغان فورسز کی جانب سے سول آبادی میں گولہ باری سے علاقے میں شدید خوف و ہراس پایا جاتا ہے اور صبح سویرے کھلنے والے بازار بند ہیں جب کہ پاکستانی فورسز کی جانب سے بھی افغان فورسز کی فائرنگ اور گولہ باری کا بھرپور جواب دیا گیا۔
اس خبر کو بھی پڑھیں : فائرنگ امن کوششوں کے لئے نقصان دہ
پاک فوج کے شعبہ تعلقات (آئی ایس پی آر) کے مطابق افغان جارحیت کا نشانہ بننے والے ایف سی جوان مردم شماری ٹیم کی سیکیورٹی پر مامور تھے،آئی ایس پی آرکے ڈائریکٹر جنرل میجر جنرل آصف غفور نے ٹویٹ کیا کہ افغان فورسز کی جانب سے مردم شماری میں مصروف ایف سی اہلکاروں پر فائرنگ کی گئی جس سے ایک اہلکار شہید ہوا، افغان فورسز کی جانب سے چمن کے علاقوں کلی لقمان اور کلی جہانگیر میں مردم شماری میں رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں۔ ترجمان کے مطابق افغان حکام کو مردم شماری سے متعلق آگاہ کیا جا چکا، اس کے باوجود افغان فورسز کی جانب سے کارروائی افسوسناک ہے تاہم فائرنگ کے بعد پاک افغان ڈی جی ایم اوز میں ہاٹ لائن رابطہ ہوا ہے۔ آئی ایس پی آر کے مطابق ڈی جی ایم او میجر جنرل ساحر شمشاد مرزا نے پاکستانی دیہاتوں اور سیکیورٹی فورسز پر فائرنگ کی مذمت کی اورکہا کہ بارڈ کے مقام پر دیہات دونوں اطراف تقسیم ہیں اور پاکستان کی فورسز اور عوام شہری بارڈ پر اپنی سائیڈ پر ہیں جب کہ مردم شماری ٹیمیں بھی اپنےعلاقے میں فرائض سرانجام دے رہی تھیں اور ٹیمیں اپنے علاقے میں کام جاری رکھیں گی افغان فورسزکشیدہ صورتحال کوختم کریں اور اپنی سائیڈ پر رہیں
آئی ایس پی آر کے مطابق افغان ڈی جی ایم او نے اس بات کا اعتراف کیا کہ جس دیہات پر فائرنگ کی گئی وہ بارڈ کھائی میں نہیں بلکہ پاکستان کی سائیڈ پر ہے افغان ڈی جی ایم او نے کشیدگی کے خاتمے کے سلسلے میں ضروری اقدامات کی یقین دہانی کرائی ہے۔
وزیراعظم نواز شریف نے پاک افغان بارڈر پر فائرنگ کے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے متاثرہ افراد کے خاندانوں سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ بارڈر پر فائرنگ اور اہلکاروں کی شہادت انتہائی افسوسناک ہے، فائرنگ کے واقعات امن کی کوششوں کے لئے نقصان دہ ہیں لہذا افغان حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کرے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار نے بھی افغان بارڈر پر فائرنگ کی شدید مذمت کرتے ہوئے متاثرہ خاندانوں سے اظہار تعزیت اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعا کی۔
دوسری جانب چمن بارڈر پر افغان فورسز کی فائرنگ پر احتجاج کے لیے پاکستان میں تعینات افغان ناظم الامورکو دفترخارجہ طلب کرکے انہیں احتجاجی مراسلہ بھی دیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ افغانستان فوری طور پر پاکستانی علاقوں میں فائرنگ کا سلسلہ بند کرے اور مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام کے لئے اقدامات کرے، اگر افغانستان فائرنگ کا سلسلہ بند نہیں کرے گا تو پاکستان جوابی کارروائی کا حق محفوظ رکھتا ہے۔
اس خبر کو بھی پڑھیں : افغان ناظم الامور دفترخارجہ طلب
واضح رہے کہ کچھ عرصے قبل بھی پاک افغان سرحد پر کشیدگی کے باعث پاکستان نے افغانستان سے ملحقہ چمن اور طورخم بارڈر کو ایک ماہ تک بند کئے رکھا تھا اور پھر افغان حکام کی جانب سے تعاون کی یقین دہانی کے بعد وزیراعظم نواز شریف کی ہدایت پر سرحدوں کو کھولا گیا تھا۔