’شہر کا قرض‘

ہماری حکومتوں کی پریشانی کیوجہ یہ ہے کہ وہ مال کمانےکیلئے وسائل اپنی جھولی میں اور مسائل عوام کی جھولی میں ڈال دیتی ہے


درختوں کی گھنی چھاؤں جہاں اُس کے نیچے بیٹھنے والوں کو سکون کا احساس دے رہی ہے وہاں سرسبز پتے ہماری آلودگی کو اپنے اندر کھینچ کر ہمیں تر و تازہ ہوا دے رہے ہیں۔ فوٹو: فائل

تقسیمِ ہند کے وقت میری عمر آٹھ برس کے لگ بھگ تھی، تقسیم کے وہ مناظر آج بھی اُسی طرح میرے ذہن پر عکس ہیں، پھر سفر کرتے کرتے میں اِس شہر میں آگیا۔ اِس شہر کے مجھ پر جو احسانات ہیں وہ میں اور میرا خاندان زندگی بھر بھی اتارتا رہے تو ہم نہیں اتار سکتے ہیں۔ بس میں اور میرا بیٹا اصغر اِسی کوشش میں رہتے ہیں کہ ہم سے کچھ تو اِس شہر کا حق ادا ہو۔

جب میں یہاں آیا تھا تو کچھ بھی نہیں تھا مگر اپنی محنت سے بہت پیسہ کمایا۔ پیسہ بذات خود راحت کی چیز نہیں، دولت بذات خود انسان کو آرام نہیں پہنچا سکتی، اگر انسان کے پاس پیسہ ہو لیکن اُس میں اللہ تعالی کی طرف سے برکت نہ ہو، تو وہ پیسہ راحت کا سبب بننے کے بجائے اُلٹا عذاب کا سبب بن جاتا ہے۔ اسی لیے دولت کو بس میں بقدرِ ضرورت اپنے پاس رکھتا ہوں اور باقی کا اِس شہر پر لگا دیتا ہوں۔ اِس قرض کو اتارنے کی کوشش کرتا رہتا ہوں جو اِس شہر کا مجھ پر ہے اور رات کو جب سونے کے لئے بستر پر لیٹتا ہوں تو بہت سے امراء کی طرح نیند کی گولیوں کا سہارا نہیں لیتا۔ سکون کی نیند کے بعد صبح تازہ دم بیدار ہوتا ہوں، میں اللہ سے صرف مال و دولت نہیں بلکہ برکت بھی مانگتا ہوں اور یہی وہ فارمولا ہے جس سے میں دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرتا جارہا ہوں۔

یہ کہتے ہوئے انصاری صاحب نے ایک اور پودا گملے سے نکال کر زمین میں لگاتے ہوئے کھرپی سے پودے کے ارد گرد خالی جگہ مٹی بھرنی شروع کردی۔ اِن کے ساتھ کھڑے ملازم نے جلدی سے پانی کی بالٹی اُٹھائی اور پودے کو پانی دینا شروع کردیا۔ پودا لگانے کے بعد وہ کچھ دیر رک کر اُس پودے کو دیکھنے لگے۔ اِس وقت مجھے اُن کی آنکھوں میں جو عکس دکھائی دیا اُسے دیکھ کر یوں لگ رہا تھا جیسے برسوں کا سفر ایک پل میں طے ہوگیا ہے اور وہ ننھا سا پودا ایک تناور درخت کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ اُس کی گھنی چھاؤں جہاں اُس کے نیچے بیٹھنے والوں کو سکون کا احساس دے رہی ہے وہاں سرسبز پتے ہماری آلودگی کو اپنے اندر کھینچ کر ہمیں تر و تازہ ہوا دے رہے ہیں۔ اِن کی شاخوں میں کئی نایاب پرندوں کے گھونسلے ہیں، اُن کی چہچہاتی آوازیں فضا میں رچی بسی بسوں، کاروں اور رکشوں کے شور کے باوجود زندگی کے کانوں میں رس گھول رہی ہیں۔

اگلے ہی لمحے وہ دوسرا پودا اُٹھا کر دوسری طرف چل پڑے، میں بھی اُن کے پیچھے پیچھے ہولیا۔ اُنہوں نے بیٹھ کر کھرپی سے نیا پودا لگانے کے لئے گڑھا بنانا شروع کردیا اور گویا ہوئے، میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ بعض لوگوں کی ظاہری حالت دیکھ کر لوگ اُن پر رشک کرتے ہیں کہ اُن کے پاس کتنی دولت ہے، کیسے اِن کے کوٹھی بنگلے ہیں، اُن کے نوکر چاکر، کیسی اُن کی گاڑیاں ہیں، لیکن جب وہ اندر کی زندگی کا حال آکر بیان کرتے ہیں اور اپنی بے چینی اور بے تابی کا اظہار کرتے ہیں تو اُس وقت پتہ چلتا ہے کہ یہ ظاہر میں جو طاقتور نظر آتے ہیں، فریب کے سوا کچھ بھی نہیں۔

جب میں اپنا فارمولا اُن کے سامنے رکھتا ہوں تو وہ کہتے ہیں کہ میں بے وقوف ہوں جو پیسہ ضائع کر رہا ہوں، کبھی سڑکوں پر پودے لگا رہا ہوں تو کبھی کسی کی مالی امداد۔ وہ یہ ماننے کو یا سمجھنے کو تیار ہی نہیں کہ پیسوں میں برکت کتنی ضروری ہے اور پُرسکون نیند کے لئے نیند کی گولیوں کی نہیں بلکہ نیکیوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

ابھی بہت سارے پودے باقی تھے جو اُنہوں نے اِس سڑک کے کنارے لگانے تھے، ہمارے ارد گرد بہت سے لوگ گزر بھی رہے تھے اور جو اُن کے جاننے والے تھے وہ تھوڑی دیر کے لئے رکتے اور یہی مشورہ دے کر اپنی راہ لیتے کہ انصاری صاحب یہ آپ کیا کر رہے ہیں؟ محکمہِ جنگلات یا تحصیل میونسپل کمیٹی کا یہ کام ہے، چھوڑیں پرے۔ انصاری صاحب مسکرا کر کہتے کہ دیکھو بھائی! مجھ پر اِس شہر کا جو قرض ہے وہ اتارنے کی کوشش کر رہا ہوں تاکہ میرا رب مجھ سے راضی ہو، اور وہ راضی اُسی وقت ہوگا جب میں ایسے کام اپنے ہاتھ سے کروں گا جس سے اُس کی مخلوق راضی ہو اور جب ایسا ہوگا تو میرے گھر میں رزق اور بھی وسیع ہوچکا ہوگا۔

مجھے انصاری صاحب نے وہ فارمولا بنا کر پکڑا دیا تھا جس پر عمل کرنے کے بعد مال و دولت میں اضافے کے ساتھ ساتھ بے سکونی، بیماریاں اور پریشانیاں انسان کو گھیرے میں نہیں لیتیں۔ دیکھا جائے تو ہماری ہر حکومت مختصر وقت کے بعد بہت سی مشکلات کا شکار ہوجاتی ہے کیونکہ وہ اپنے مال و دولت میں اضافے کے لئے قوانینِ قدرت سے ٹکرا جاتی ہے اور وسائل اپنی جھولی میں اور مسائل عوام کی جھولی میں ڈال دیتی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔