’پولی ایہڈی وی پولی نہیں‘

اب بھی وقت ہے میاں صاحب اپنی ضد کو ایک طرف رکھتے ہوئےعوامی امنگوں کے مطابق فیصلہ کرلیں۔


شاہد کاظمی May 05, 2017
یہ ایک فرضی کہانی ہے۔ مگر پاکستان کے موجودہ حالات پر صادق آ رہی ہے اور جو لوگ یہ توقع کیے بیٹھے ہیں کہ بس اب معاملات ختم ہوگئے ہیں تو یاد رہے ادارے اتنے بھی بھولے نہیں۔

MUZAFFARABAD: پنڈ کی ایک سادی حسینہ جس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ سادگی میں اپنی مثال آپ ہے۔ لڑکے بالے اُس کے گرویدہ تھے۔ آوازیں کستے مگر وہ بے توجہی سے گزر جاتی۔ نام اُس کا تھا پولی (بھولی)۔ کسی نے ازراہِ مذاق اُسے تنہائی میں بات سننے کا کہا تو مسکرا کر بولی،
من لیا پولی بہت پولی ائے مگر ایہڈی وی پولی نہیں (بھولی بے شک بھولی تو ہے مگر اب اتنی اب بھولی نہیں ہے)۔

یعنی وہ سادہ اور بھولی تو ہے مگر اتنی بھی سادہ نہیں کہ لفظوں کے دام میں آجائے۔ یہ ایک فرضی کہانی ہے۔ مگر پاکستان کے موجودہ حالات پر صادق آ رہی ہے اور جو لوگ یہ توقع کیے بیٹھے ہیں کہ بس اب معاملات ختم ہوگئے ہیں تو یاد رہے ادارے اتنے بھی بھولے نہیں۔

عدل کے اعلیٰ ایوان نے جب جے آئی ٹی بنانے کا فیصلہ دیا تو نہ جانے کیوں کچھ لوگوں کے نزدیک یہ عمران خان کی ہار اور نواز شریف کی جیت ہے، مگر ایسے لوگوں کو صرف ایسا کبوتر کہا جاسکتا ہے جو آنکھیں بند کرکے تصور کرچکے ہیں کہ بلی انہیں کچھ نہیں کہے گی یا پھر شتر مرغ کی طرح ریت میں سر دبا کے بچ جانے پر شکر ادا کر رہے ہیں۔ پولے بادشاہو بچ تو آپ عارضی طور پر واقعی گئے ہیں، لیکن حالات ہر گزرتے دن کے ساتھ آپ کے خلاف جارہے ہیں۔

اب اگر جذباتی عمران خان نے ہمیشہ کی طرح وطیرہ وہی رکھا جس کی اُن سے ہمیشہ توقع رکھی جاتی ہے تو یقیناً جے آئی ٹی بھی حکمران جماعت کے حق میں ہی جائے گی، کیونکہ جے آئی ٹی کو صرف جذباتیت سے سروکار نہیں ہے بلکہ انہیں تو حقائق کو پرکھنا ہے اور صرف پرکھنا ہی نہیں ہے بلکہ پہلے سے پرکھے گئے شواہد کو مزید پرکھنا ہے۔

اعلیٰ عدلیہ کے تمام ججز کم و بیش اِس بات پر تو کوئی دوسری رائے نہیں رکھتے کہ صادق و امین کا دعویٰ اب کُھل کر جھوٹ بن چکا ہے مگر قانون کی آنکھوں پر جو پٹی بندھی ہوتی ہے وہ صرف اِس لیے ہوتی ہے کہ یا تو اخلاقی طور پر کوئی اپنا جرم تسلیم کرکے اِس پٹی کو کھول دے یا پھر ثبوت اِس قدر مضبوط ہوں کہ پٹی خود بخود کُھل جائے۔ اِس معاملے میں اتفاق سے یہ دونوں صورتیں نظر نہیں آ رہیں۔ نہ تو میاں نواز شریف و خاندان اخلاقی طور پر عہدہ چھوڑنے کو تیار ہیں اور نہ ہی عمران خان ناکافی ثبوت پیش کرنے کے باوجود پیچھے ہٹنے کو تیار ہیں۔

گاڈ فادر مافیا سے متشابہ ہونے کے باجود بھی میاں محمد نواز شریف اقتدار سے چمٹے رہنے کو اپنی کامیابی تصور کیے ہوئے ہیں تو دوسری طرف خان صاحب اپنی جذباتیت سے حالات اپنے ہی خلاف کر رہے ہیں۔ کبھی دس ارب جیسا بے سروپا راگ تو کبھی دو ججز صاحبان کے اختلافی نوٹ کو بلاوجہ ہوا دینا۔

کوئی شک نہیں کہ میاں صاحب کو سیاسی شہید بننے کے لیے اور اِس قوم کا ہیرو بننے کے لیے عہدے کو ثانوی درجہ دیتے ہوئے کسی با اعتماد ساتھی کو وزیراعظم کی کرسی پر بٹھاتے ہوئے یہ اعلان کرنا چاہیئے تھا کہ جب تک جے آئی ٹی کی رپورٹ پیش نہیں ہوجاتی تب تک وہ کوئی عہدہ نہیں لیں گے۔ ایسا کرنے سے اُن کو مستقبل قریب میں ایسا فائدہ ہونا تھا جس کا تصور شاید وہ ابھی نہیں کر رہے۔

کمیٹی دو ماہ میں اپنی رپورٹ پیش کرے گی یعنی ابھی اپریل ہے تو یقیناً جولائی کے کسی بھی ہفتے میں رپورٹ متوقع ہے اور آخری بجٹ پیش کرنے کے بعد اگست یا ستمبر میں الیکشن مہم شروع ہوجانی ہے جس کے اثرات ابھی سے نظر آنا شروع ہوگئے ہیں، اور آخری چند ماہ تو ویسے ہی نگران حکومت سوٹڈ بوٹڈ ہو کر مزے لے گی۔ لہذا اگر میاں صاحب ابھی بڑا پن دکھاتے کہ دیکھیں جی ہم پر کچھ ثابت بھی نہیں ہوا اور ہم نے خود کو احتساب کے لیے پیش کردیا تو آئندہ انتخابات میں ایک وہ ہیرو بن کر اُبھرتے۔

یہ بات اِس لیے کہی جارہی ہے کہ ابھی تو میاں صاحب عہدہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں، لیکن اگر دو یا تین ماہ بعد جی آئی ٹی کی رپورٹ اُن کے خلاف آجاتی ہے اور اُن سے عہدہ چھوڑنے کا کہا جاتا ہے تو اُس صورتحال میں وہ کہاں کھڑے ہوں گے؟ اُس وقت میاں صاحب کے سر پر ناصرف نااہلی کی تلوار لٹک رہی ہوگی بلکہ وہ سیاسی طور پر عوام کا سامنا کرنے میں بھی یقیناً مشکلات کا شکار ہوجائیں گے۔ اِس لیے کرنا تو یہ چاہیئے تھا کہ وہ عمران خان کی جذباتیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وزارتِ عظمیٰ سے الگ ہوکر مخالفین کو کرارا جواب دیتے۔

اب تصویر کے دوسرے رخ پر توجہ دیتے ہیں۔ فرض کرلیجیئے کہ موجودہ حالات میں اگر جے آئی ٹی کی رپورٹ بھی گھمن گھیری کی سی آتی ہے تو بھی اُن کے سیاسی مخالفین اِس بات کو انتخابی مہم میں یقیناً اُن کے خلاف استعمال کریں گے۔ لیکن اِس بات کے امکان کم ہی ہیں کہ جے آئی ٹی کی جانب سے حکومت کو کچھ ریلیف ملے کیونکہ یہ کوئی عام جے آئی ٹی نہیں جو حکومت کو جوابدے ہو بلکہ یہ جے آئی ٹی براہِ راست سپریم کورٹ کے نئے بینچ کو جوابدہ ہوگی۔ لہذا کوئی شک نہیں کہ اداروں پر اثرو رسوخ رکھنے کے باجود میاں صاحب کسی بھی طرح سے اِس ٹیم کی تحقیقات پر اثر انداز نہیں ہو پائیں گے۔

لہذا حکمران جماعت جو ابتدائی فیصلے کے بعد یہ سمجھ رہی تھی کہ اب جے آئی ٹی بن گئی ہے اِس لیے اُن کے لیے کوئی مشکل نہیں اور اِسی خوشی میں صرف مٹھائیاں ہی تقسیم نہیں کی گئیں بلکہ اُسی شام وزیراعظم کے قوم سے خطاب کی تیاریاں بھی شروع ہوگئی تھیں، لیکن عین وقت پر معلوم ہوا کہ خطاب کو روک دیا گیا ہے، یہ خطاب کا رکنا چیخ چیخ کر بتارہا ہے کہ وہ شاید جان چکے ہیں کہ پولی ایہڈی وی پولی نہیں۔

پاکستان کے سیاستدان اقتدار سے چمٹے رہنا ہی اپنی کامیابی سمجھنا شروع ہوگئے ہیں، یہی وجہ ہے کہ میاں نواز شریف نے خود کو عوام کی نظر میں ہیرو بنانے کا ایک نادر موقع گنوا دیا ہے۔ وہ بھی ایسے موقع پر جب انتخابات کی گہما گہمی کم و بیش ہر صوبے میں شروع ہوچکی ہے اور جے آئی ٹی کا کوئی بھی فیصلہ اِس انتخابات میں یقیناً اثر انداز ہوگا، اور اگر پہلے سے قائم کی گئی رائے مزید میاں صاحب کے خلاف ہوگئی تو اُن کو آنے والے انتخابات میں ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔ اِس لیے اب بھی وقت ہے کہ میاں صاحب اپنی ضد کو ایک طرف رکھتے ہوئے عوامی امنگوں کے مطابق فیصلہ کرلیں، ایسا کرنے سے کچھ مہینے تک تو وہ وزارت عظمٰی کے منصب سے الگ ہوجائیں گے، مگر اِس کے مثبت اثرات دیرپا ثابت ہوسکتے ہیں، اور کامیاب درحقیقت وہی لوگ ہوتے ہیں جو لمبے عرصے تک فائدہ حاصل کرنے کا ہنر جانتے ہوں۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کےساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں