افغانستان میں قیدیوں پرتشدد کے واقعات جاری ہیں اقوام متحدہ
اعتراف جرم کیلیے بجلی کے جھٹکے دیے جاتے ہیں، رپورٹ میں14طریقوں کاانکشاف.
اقوام متحدہ نے کہاہے کہ افغانستان کی جیلوں میں قیدیوں پر تشدد کے وسیع تر واقعات جاری ہیں، زیر حراست قیدیوں کو تشدد کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔
قیدیوں کو اعتراف جرم کے لیے بجلی کے جھٹکے دیے جاتے ہیں جبکہ افغان حکومت نے رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس دعوے میں مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا ہے۔ پیرکوعالمی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے اسسٹنٹ مشن برائے افغانستان'اوناما' کی رپورٹ میں قومی پولیس، افغان انٹیلی جنس سروس اور مقامی پولیس کے زیرانتظام حراستی مراکز میں قیدیوں پر تشدد اور بدسلوکی کے 14 مختلف طریقوں کی نشاندہی کی گئی۔ اس میں مار پیٹ، جان سے مار دینے کی دھمکی اور جنسی بدسلوکی کے طریقے شامل ہیں۔بعض قیدیوں کو برقی جھٹکے دیے گئے تاکہ ان سے اعتراف جرم یا معلومات حاصل کی جا سکیں۔
گزشتہ ایک سال کے دوران پولیس کے حراستی مراکز میں تشدد کے واقعات میں پینتیس سے تینتالیس فیصد تک اضافہ ہوا جبکہ افغان انٹیلی جنس سروس کے زیر انتظام مراکز میں چھیالیس سے چونتیس فیصد تک کمی آئی۔
اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس کی گذ شتہ سال کی رپورٹ میں دی جانے والی چند تجاویز جس میں تربیت اور معائنہ شامل ہے پر حکومت نے عمل درآمد کیا تاہم تشدد میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی میں بہت کم پیش رفت ہوئی۔اقوام متحدہ کے اسسٹنٹ مشن برائے افغانستان 'اوناما' کے حقوق انسانی کے ڈائریکٹر جارجیٹ گینگن نے کہا ہے کہ تشدد کے قصورواروں کا تسلسل سے احتساب نہیں کیا گیا اور اس میں چند ایک سے تفتیش کی گئی لیکن ذمے داروں کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی۔
قیدیوں کو اعتراف جرم کے لیے بجلی کے جھٹکے دیے جاتے ہیں جبکہ افغان حکومت نے رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اس دعوے میں مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا ہے۔ پیرکوعالمی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے اسسٹنٹ مشن برائے افغانستان'اوناما' کی رپورٹ میں قومی پولیس، افغان انٹیلی جنس سروس اور مقامی پولیس کے زیرانتظام حراستی مراکز میں قیدیوں پر تشدد اور بدسلوکی کے 14 مختلف طریقوں کی نشاندہی کی گئی۔ اس میں مار پیٹ، جان سے مار دینے کی دھمکی اور جنسی بدسلوکی کے طریقے شامل ہیں۔بعض قیدیوں کو برقی جھٹکے دیے گئے تاکہ ان سے اعتراف جرم یا معلومات حاصل کی جا سکیں۔
گزشتہ ایک سال کے دوران پولیس کے حراستی مراکز میں تشدد کے واقعات میں پینتیس سے تینتالیس فیصد تک اضافہ ہوا جبکہ افغان انٹیلی جنس سروس کے زیر انتظام مراکز میں چھیالیس سے چونتیس فیصد تک کمی آئی۔
اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس کی گذ شتہ سال کی رپورٹ میں دی جانے والی چند تجاویز جس میں تربیت اور معائنہ شامل ہے پر حکومت نے عمل درآمد کیا تاہم تشدد میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی میں بہت کم پیش رفت ہوئی۔اقوام متحدہ کے اسسٹنٹ مشن برائے افغانستان 'اوناما' کے حقوق انسانی کے ڈائریکٹر جارجیٹ گینگن نے کہا ہے کہ تشدد کے قصورواروں کا تسلسل سے احتساب نہیں کیا گیا اور اس میں چند ایک سے تفتیش کی گئی لیکن ذمے داروں کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی۔