چمن بارڈر پر افغان فورسز کی گولہ باری

افغانستان نے جو اقدام کیا ہے یہ سراسر جارحیت اور اشتعال انگیزی کے زمرے میں آتا ہے


Editorial May 06, 2017
فوٹو: فائل

جمعہ کی صبح افغانستان کی بارڈر پولیس نے چمن کے سرحدی علاقے میں مردم شماری کے عملے کی حفاظت پر مامور پاکستانی ایف سی کے اہلکاروں پر فائر کھول دیے۔ اندھا دھند فائرنگ سے 9 پاکستانی شہری شہید جب کہ 6 بچوں اور 3 خواتین سمیت 42 افراد زخمی ہو گئے۔

میڈیا کی اطلاعات کے مطابق علاقے کے اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر کے عملے کی چھٹیاں منسوخ کر دی گئیں۔جب کہ شدید زخمیوں کو کوئٹہ بھیج دیا گیا ہے۔ افغان فورسز کی سول آبادی پر گولہ باری سے علاقے میں شدید خوف و ہراس پایا جاتا ہے اور معمول کے مطابق صبح سویرے کھلنے والے بازار بند رہے جب کہ پاکستانی فورسز کی جانب سے بھی افغان فورسز کی فائرنگ اور گولہ باری کا بھرپور جواب دیا گیا ہے۔

ترجمان پاک فوج نے کہا ہے کہ افغان فورسز کی جانب سے ایف سی اہلکاروں کو نشانہ بنانا افسوسناک ہے جس کے نتیجے میں چمن بارڈر کو بند کر دیا گیا۔ افغان فورسز کی جانب سے چمن کے سرحدی دیہات کلی لقمان اور کلی جہانگیر میں مردم شماری میں رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں۔یہ دونوں گاؤں ڈیورنڈ لائن کے آر پار آباد ہیں۔ ترجمان پاک فوج کے مطابق افغان حکام کوان دیہات میں مردم شماری سے متعلق آگاہ کیا جا چکا ہے لیکن تفصیلات فراہم کرنے کے باوجود افغان فورسز کی جانب سے کارروائی افسوسناک ہے۔

پاکستان کو اپنے علاقے میں مردم شماری کا حق حاصل ہے 'افغانستان نے جو اقدام کیا ہے یہ سراسر جارحیت اور اشتعال انگیزی کے زمرے میں آتا ہے۔ اسی لیے پاکستان نے افغان ناظم الامور کو دفتر خارجہ طلب کر کے اس اشتعال انگیزی پر سخت احتجاج ریکارڈ کرایاہے۔

افغان ناظم الامور کو واضح پیغام دیا گیا ہے کہ افغان فورسز فوری طور پر سرحدی حدود کی خلاف ورزی بند کریں ورنہ جوابی کارروائی کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ افغانستان کی بارڈر پولیس کی پاکستانی علاقے میں ایف سی اہلکاروں اور سول آبادی پر فائرنگ امن کوششوں کے لیے نقصان دہ ہے، افغان حکومت کی ذمے داری ہے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کرے، وزیر اعظم میاں محمد نوا زشریف نے پاک افغان بارڈر پر فائرنگ کے واقعے کی مذمت کرتے ہوئے متاثرہ افراد کے خاندانوں سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ بارڈر پر افغان فورسر فائرنگ اور پاکستانی اہلکاروں کی شہادت انتہائی افسوسناک ہے، فائرنگ کے واقعات امن کی کوششوں کے لیے نقصان دہ ہیں لہذا افغان حکومت کی ذمے داری ہے کہ ایسے واقعات کی روک تھام کرے۔ اس کے ساتھ ہی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے بھی افغان بارڈر پر فائرنگ کی شدید مذمت کی ہے۔ پاکستان کے لیے یہ دوہری مشکل ہے کہ مشرقی بارڈر پر اس کا ازلی دشمن بھارت چھیڑچھاڑ کرتا ہے اور اب اسی کی شہ پر افغانستان بھی معاندانہ حرکات شروع کر چکا ہے۔

افغانستان کی جانب سے یہ پہلی اشتعال انگیزی ہے اور نہ ہی یہ آخری ہو گی ۔پاکستان کے پالیسی سازوں نے گزشتہ 68برس سے شمال مغربی سرحد کو ڈھیلا ڈھالا چھوڑے رکھا جس کا خمیازہ آج پورا ملک بھگت رہا ہے۔ ڈیورنڈ لائن کے آر پار دیہات کے حوالے سے جو صورت حال ہے' اس کو برسوں پہلے کلیئر کر لیا جانا چاہیے تھا۔ جب ملکوں کے درمیان سرحدیں نرم ہو جائیں تو پھر شرپسندوں کے لیے آمدورفت آسان ہو جاتی ہے۔ لیکن افغانستان کے معاملات میں دیگر عوامل بھی شامل ہیں۔

افغانستان کی حکومت اور وہاں کی اشرافیہ کا پاکستان کے بارے میں بغض اور عناد کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ڈیورنڈ لائن کے مسئلے پر افغانستان کا کردار ہمیشہ منفی رہا ہے' اب وقت آ گیا ہے کہ پاکستان اس حوالے سے ایک مضبوط موقف اختیار کرے' افغانستان کے ساتھ پاکستان کی سرحد کو مستقل بنانا اور اس پر باڑ لگانا انتہائی ضروری ہے۔ اس کے علاوہ بھی پاک افغان سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے جن اقدامات کی ضرورت ہے' وہ کیے جانے چاہئیں۔ سرحدوں

کو محفوظ بنانا ہر ریاست کی اولین ترجیح ہوتی ہے ' جب کوئی ملک اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانے کے اقدامات کرتا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ کسی کا مخالف یا دشمن ہے۔پاک افغان سرحد محفوظ ہو گی تو اس کا فائدہ صرف پاکستان کو ہی نہیں ہو گا بلکہ افغانستان کو بھی ہو گا۔

پاک افغان سرحد کو محفوظ بنانے کے اقدامات کے ساتھ ساتھ پاکستان کو چاہیے کہ وہ شمال مغربی علاقے میں سماجی تبدیلی لانے کے لیے اقدامات اٹھائے۔ اس سلسلے میں فاٹا کو مین اسٹریم لائن میں لانا'وہاں سیٹلڈ ایریاز کے قوانین نافذ کرنا 'پاکستان پینل کوڈ اورکریمینل پروسیجر کوڈ'نافذ کرنا اور لینڈ ریفارمز لانا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔ پاکستان کے پالیسی سازوں کو اس حوالے سے کسی قسم کی کوتاہی یا مصلحت اندیشی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

شیطان کے ایجنٹ

Nov 24, 2024 01:21 AM |

انسانی چہرہ

Nov 24, 2024 01:12 AM |