تنولی کبھی لاہورنہیں آئے گا

بیروزگاری کاتندوراپنی پوری آگ سے ہماری نوجوان نسل کو زندہ جلارہاہے

raomanzarhayat@gmail.com

تربیلاڈیم کے ریسٹ ہاؤس میں کوئی خاص بات نہیں۔سرکاری طرزکی عام سی عارضی قیام گاہ۔ سادہ سافر نیچراورانتہائی سادہ ساانتظام زندگی۔سرکارکے تمام ریسٹ ہاؤس یاقیام گاہیں تقریباًایک جیسی ہیں۔تین مہینے پہلے تقریباًشام کو اس جگہ پہنچا تو سورج ڈھل چکاتھا۔ اس قدرتی طلسم کا قطعاً اندازہ نہیں تھا جو دن کی روشنی میںرواں ہوجاتا ہے۔ تربیلا جھیل، رنگ ونور کی ایک بارش سی بن جاتی ہے جودل پرپھوار بن کربرستی ہے۔

خیرشام کوکمرے میں اشفاق احمدکی کتاب پڑھ رہا تھا کہ چوکیدارنے آکربتایاکہ کوئی نوجوان طالبعلم ملنا چاہتا ہے۔تربیلامیں کسی کوبھی نہیں جانتاتھا۔حیرت ہوئی کہ اس انجان جگہ پرکون ملنے آیاہے۔حیرت دورکرنے کے لیے ڈرائنگ روم میں پہنچاتو ایک اجنبی سانوجوان صوفے پربیٹھا تھا۔درمیانے قدکاایک ایساطالبعلم جسکی آنکھوں کے سامنے موٹے موٹے شیشوں کی عینک لگی ہوئی تھی۔ منحنی سی جسامت کے نوجوان کے چہرے پرسادگی اورشرافت کی بھرپورچھاپ لگی ہوئی تھی۔مکالمہ شروع ہوا۔ وہ آہستہ آہستہ بولتارہا۔بتایاکہ انگریزی میں ماسٹرز کیا ہوا ہے۔ اس کے بعدایم۔فل بھی کررکھاہے۔اس کی باتوں میں منفردطرح کی شائستگی تھی۔

بتانے لگاکہ تربیلاکے نزدیک کسی تعلیمی ادارے میں کبھی کبھی لیکچردینے جاتاہے۔مگرعملی طورپربے روزگارہے۔عجیب سی تکلیف ہوئی کہ ایک پڑھا لکھا نوجوان بیروزگاری کی آگ میں جھلس رہاہے اورپریشان حال ہے۔اس نے محکمہ تعلیم میں درجنوں جگہ نوکری کے لیے درخواستیں بھجوائیں مگرکسی جگہ شنوائی نہ ہوپائی۔میرے پاس بھی وہ اسی لیے آیاتھاکہ کسی بھی جگہ پڑھانے کی نوکری دلوادوں۔خیردس پندرہ منٹ کے مختصرملاقات کے بعد واپس چلا گیا۔

لاہورپہنچ کردوتین تعلیمی اداروں میں اس کی تعیناتی کی کوشش بھی کی مگر ناکام رہا۔اس لڑکے کانام زوہیب تنولی تھامگرمیرے ذہن سے اس کے نام کاپہلاحصہ نکل گیااورصرف تنولی ہی رہ گیا۔کبھی کبھی مجھے تربیلاسے میسج کرتا تھا۔ موبائل فون پریہ میسج اس درجہ دقیق انگریزی میں ہوتاتھاکہ ڈکشنری نکال کرچندالفاظ کے مطلب تلاش کرنے پڑتے تھے۔میسج سے کئی نئے الفاظ سیکھنے کاموقعہ ملا۔

قصہ کوتاہ یہ کہ میں اسے بیروزگاری کے جہنم سے باہرنہ نکال سکا۔انہی دنوں میں تبادلہ لاہورہی میں ایک کارپوریشن میں ہوگیا۔تنولی ذہن سے بالکل نکل گیا۔سرکاری نوکری بھی عجیب سی جادونگری ہے۔ہرپوسٹنگ پرایک جہان ختم ہوجاتاہے اورایک نیاجہان اپنے مصائب سمیت سامنے آن کھڑاہوتاہے۔نئی تعیناتی میں پرانے ادارے کے مسائل اوراکثرلوگ بھول سے گئے۔ان میں تنولی بھی تھا۔

چاردن پہلے دفترمیں بیٹھاتھاکہ تنولی ملنے آگیا۔ عجیب اَمریہ بھی تھاکہ اس نے لاہورآنے کے متعلق بالکل نہیں بتایاتھا۔خاموشی سے کمرے میں آکرکرسی پربیٹھ گیا۔ چہرے پریاس اورغم کی نمایاں پرچھائی نظرآئی۔مکمل خاموش تھا۔کسی مجسمے یابُت کی طرح مستقل زبان بندی کانمونہ۔ حال احوال کرنے لگاتومحسوس ہواکہ اس کی آنکھوں میں آنسو ہیں۔آنسوباقاعدہ چہرے پرپانی کی دھاربنکرنیچے گررہے تھے۔

عجیب سالگاکہ ایک پڑھالکھانوجوان اتنی تکلیف میں ہے کہ اپنے آنسوتک نہیں روک پارہا۔پوچھنے پر،تنولی نے روناشروع کردیا۔دفترکاماحول عجیب ساہوگیا۔میرے ساتھ دوافرادبیٹھے ہوئے تھے۔وہ بھی پریشان سے ہوگئے۔ اصرارپرتنولی نے جوکچھ بتایا، آپکے سامنے اس کے الفاظ میں سامنے رکھ رہاہوں۔

کہنے لگامجھے لاہورمیں ایک سرکاری دفترمیں نوکری کی درخواست جمع کروانی تھی۔شام کوگھرسے نکلاتووالدہ نے قران کے سائے میں رخصت کیا۔حفاظت کے لیے چاروںقُل پڑھ کرکئی بارپھونکے۔بس نے رات تین بجے کے قریب لاہورکے لاری اَڈے پہنچادیا۔خاموشی سے اَڈے میں ایک جگہ کھڑاہوگیا۔کئی رکشہ ڈرائیور بار بار نزدیک آکرپوچھنے لگے کہ باؤجی،کدھرجاناہے۔سواری حاضر ہے۔ سب کو انکارکرتارہا۔مگرانھیں اندازہ ہوگیاکہ اس نوجوان کو لاہور شہرکا کچھ بھی معلوم نہیں۔

کچھ دیربعد،ایک رکشہ والا آیا اور کہنے لگاکہ ایک ہوٹل میں لے جاتا ہوں۔ وہاں ناشتہ کر لیں۔پھرسرکاری دفترچھوڑآؤنگا۔اس میں سوار ہوگیا۔ تھوڑی دیربعدمحسوس ہواکہ رکشہ تنگ گلیوں میں جارہا ہے۔ پوچھنے پرڈرائیورکہنے لگاکہ ہوٹل بس نزدیک ہی ہے۔ ابھی صبح نہیں ہوئی تھی۔ہرطرف اندھیرہ ہی اندھیرہ تھا۔ ایک دم رکشہ کوچندباوردی افرادنے روک لیا۔پتہ نہیں تھاکہ پنجاب پولیس کی یونیفارم تبدیل ہوچکی ہے۔سمجھاکہ رینجرز والے ہیں۔خیرپولیس والوں نے رکشہ سے اتارکرانتہائی بدتمیزی سے پوچھاکہ تم کون ہواورکہاں سے آرہے ہو۔


ابھی سوال ہوہی رہے تھے کہ ایک پولیس والے نے تلاشی لینی شروع کردی۔والدہ نے چندہزارروپے جیب میں ڈال دیے تھے۔سپاہی نے بڑے اطمینان سے پیسے جیب سے نکال کرکہاکہ اب جاؤ،جہاں بھی جاناہے،دفع ہوجاؤ۔میں وہیں رُک گیا۔پولیس والوں کوکہاکہ میرے پاس صرف یہی پیسے ہیں ۔میں اب کہیں نہیں جاسکتا۔پولیس والابولا،کہ یہ توکوئی عادی مجرم ہے۔اسے تھانے لے چلو۔میں زمین پربیٹھ گیااورکہاکہ تم مجھے گولی ماردویاتھانے لے جاؤ،میرے پیسے واپس کرو۔ میں پڑھا لکھا آدمی ہوں۔ آپ لوگ زیادتی کررہے ہیں۔ پولیس والے وہاں سے ایک دم غائب ہوگئے۔

دوسری جیب میں چندسوروپے رہ گئے تھے جو چھپا کر رکھے ہوئے تھے۔رکشہ والاپولیس والوں سے ملاہواتھا اورمنصوبہ بندی کے تحت مجھے وہاں لیکرآیاتھا۔خیرمیں نے رکشہ والے کی منت کی کہ جس سرکاری دفترمیں درخواست دینی ہے،وہاں لے جاؤ۔صبح ہورہی تھی۔رکشہ والامال روڈ پر آیااورایک اجنبی سی جگہ پرچھوڑگیا۔نزدیک ایک مسجد تھی۔ وہاں چلاگیا۔نمازکاوقت نہیں ہواتھامگر مسجدکے اندربیٹھ گیا۔نمازکے بعددعاہوئی توآنسونکل آئے، کہ اے خدا، میں نے توکسی کے ساتھ زیادتی نہیں کی،پھرمیرے ساتھ ایساکیوں ہورہاہے۔

آنسو دیکھ کرایک ادھیڑعمربزرگ نزدیک آیااورپوچھنے لگاکہ کیوں رورہے ہیں۔کیاجواب دیتا۔ مگر باربارپوچھنے پربتایاکہ ایک رکشہ والے اورچندپولیس والوں نے ملکرلوٹ لیاہے اورمیں اس شہرمیں مسافرہوں۔اجنبی نمازی مجھے لیکر اپنے گھرآگیا۔مسجدکے نزدیک گھرمیں صرف دوکمرے تھے۔جیسے ہی مہربان شخص کمرے میں بٹھا کر دوسرے کمرے میں گیا،توبیوی نے اونچی آوازمیں لڑنا شروع کردیا۔کانوں میں صرف ایک فقرہ گونجاکہ آپ کس کو پکڑ کر گھرلے آئے ہیں۔ آج کل دہشتگردی عروج پر ہے۔ یہ لڑکا تو ہمیں نقصان پہنچا سکتا ہے۔

الفاظ سن کر گھرسے باہر نکلااورمحلہ کی نکڑ پر کھڑاہوگیاتاکہ آٹھ بج جائیں اور دفتر جاسکوں۔ڈیڑھ گھنٹہ مسلسل کھڑارہا۔اتنی دیرمیں وہی مہربان انسان اوراس کی بیوی موٹرسائیکل پرنزدیک آئے۔ اہلیہ نے غورسے مجھے دیکھا اور خاوند سے کہنے لگی کہ یہ نوجوان توشکل سے دہشتگردنہیں لگتا۔مجھ سے غلطی ہوگئی ہے۔اپنے بیٹے کوبلوایااورکہاکہ فوری طورپرمجھے گھرلے جائے۔ناشتہ دے اورکپڑے استری کروائے۔گھرپہنچ کر ناشتہ کروایاگیااورکپڑے بھی استری کرواکردیے گئے۔

ایک اجنبی گھرانے سے مجھے اتنی محبت کی توقع نہیں تھی۔خیرشکریہ اداکرکے باہرنکلا۔لوگوں سے سرکاری دفترکاپتہ پوچھا تو معلوم ہواکہ وہ تومال روڈپرہی ہے۔وہاں پہنچاتودفترمیں کوئی بھی نہیں تھا۔نوبجے کے قریب عملہ آیا۔اپنی درخواست جمع کروائی۔وہاں سے سیدھاآپکے دفترآگیا ہوں۔ پورا واقعہ سناتے ہوئے تنولی کی آنکھوں سے کئی بار آنسو گرے۔ بذات خود،میں عجیب سے دکھ کاشکارہوگیا۔

دفترمیں بیٹھے ہوئے ایک افسرنے مشورہ دیاکہ تنولی کو چاہیے کہ ایف آئی آرکٹوائے اورپولیس کے اہلکاروں کی زیادتی کے متعلق باقاعدہ شکایت کرے۔مگردوسرے افسرنے کہاکہ کوئی فائدہ نہیں۔کچھ نہیں ہوگا۔بلکہ جوکچھ بچ گیا ہے، وہ بھی ضائع ہوجائیگا یا گنوانا پڑیگا۔ نوجوان نے خودہی کہا کہ وہ کچھ نہیں کرناچاہتا۔اسے کسی سے کوئی شکایت نہیں۔اپنامعاملہ خدا پرچھوڑتاہے۔وثوق سے عرض نہیں کرسکتاکہ اس نوجوان نے ٹھیک کیایاغلط۔مگریہ نوجوان ہمارے ریاستی اداروں کے لیے بذات خودایک سوالیہ نشان سابن چکاہے۔

کچھ اورتونہ کرسکا۔ذہن میں صرف یہ خیال آیاکہ تنولی کولاہورکے راستوں کابالکل نہیں پتہ۔کہیں یہ دوبارہ کسی حادثہ کاشکارنہ ہوجائے۔ڈرائیورکوکہاکہ اسے لاری اَڈے لے کرجائے۔تربیلاکی بس میں سوارکروائے اورجب تک بس روانہ نہ ہوجائے،وہیں کھڑارہے۔بس کانمبربھی نوٹ کرے۔خیرتنولی کوذمے داری سے اس کے گھرروانہ کیا۔میں زیادہ سے زیادہ یہی کرسکتاتھا۔راستے میں فون کرکے خیریت بھی معلوم کرتارہا۔آپ اس نوجوان کانام تھوڑی دیر کے لیے بھول جائیے۔اسے کوئی بھی نام دے دیجئے۔

بیروزگاری کاتندوراپنی پوری آگ سے ہماری نوجوان نسل کو زندہ جلارہاہے۔آپ جتنامرضی پڑھ لیں۔جومرضی کر لیں۔باعزت نوکری ملناتقریباًناممکن ہوچکی ہے۔اس وقت ہزاروں نہیں،لاکھوں بھی نہیں،کروڑوں نوجوان بچے اور بچیاں بیروزگارہیں۔اپنے گھروالوں سے بھی شرمندہ سے رہتے ہیں جواپنی ساری جمع پونجی ان کی تعلیم پرلگابیٹھے ہیں۔ان کے والدین کی آنکھوں میں اولادکے سکھ کے خواب ہیں۔مگریہ خواب صرف اورصرف خواب ہی رہتے ہیں۔

ان نوجوان بچیوں اوربچوں کے مسائل حل کرنے کے لیے کوئی بھی سنجیدہ نہیں۔سکہ کادوسرارخ ہمارے ریاستی اداروں کاوہ مشکل رویہ ہے جہاں ہراہلکارحسب توفیق عام اور کمزور لوگوں سے خراج وصول کررہاہے۔جیبوں کی تلاشی لیتے لیتے ان کے تمام پیسے لوٹ لیتاہے۔لوٹ مار،سودے بازی اورڈاکہ زنی کاہمہ وقت ناجائزدھندا،اب گورکھ دھندابن چکا ہے۔

نوجوان نسل حق بجانب ہے کہ پوچھے کہ ہمارے ساتھ یہ زیادتی کیوں ہورہی ہے۔اسے کوئی روک کیوں نہیں رہا۔ لگتاہے یہاں ہرنوجوان لڑکااورلڑکی زوہیب تنولی کی طرح غم ذدہ اوردکھی ہے۔ہاں ایک اور بات، تنولی اُٹھتے ہوئے کہنے لگا،کہ زندگی میں پہلی بار لاہور آیا تھا۔اب وہ کبھی لاہورنہیں آئیگا!
Load Next Story