طاقتور بچ نکلیں گے 

نیوز لیکس سے برپا ہونے والے طوفان کے بعد حکومت نے اس خبر کو ’’من گھڑت اور پلانٹڈ‘‘ قرار دیا تھا۔


اکرام سہگل May 06, 2017

نیوز لیکس سے برپا ہونے والے طوفان کے بعد حکومت نے اس خبر کو ''من گھڑت اور پلانٹڈ'' قرار دیا تھا۔ پھر معاملہ بگڑا تو وزیر اطلاعات پرویز رشید سے عہدے کا قلمدان واپس لے لیا گیا اور ریٹائرڈ جج جسٹس عامررضا خان کی سربراہی میں ایک سات رُکنی تحقیقاتی ٹیم تشکیل دی گئی جسے 30 دنوں میں اپنی رپورٹ جمع کرانی تھی۔ گو اس معاملے کی تحقیق کے لیے 72گھنٹے بھی کافی تھے، لیکن یہ معاملہ چھ ماہ تک طول پکڑ گیا۔

اس تاخیر نے عمومی تاثر کو مزید پختہ کردیا کہ تحقیقات میں وزیر اعظم کے ''کسی'' قریبی کو بچانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ کم از کم ابھی تک تو یہ بات سامنے آئی ہے کہ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان وزیر اعظم کو نیوز لیکس کی رپورٹ 23 اپریل کو پیش کرچکے تھے، جس میں حقیقی ذمے داران پر فرد جرم عاید نہیں کی گئی تھی۔

اس کے بعد وزیر اعظم ہاؤس سے ایک نوٹیفکیشن جاری ہوا جس کے تحت وزیر اعظم کے خصوصی معاون برائے امور خارجہ طارق فاطمی کو عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ اس حکم نامے نے شبہات کو مزید بڑھا دیا۔پیپلز پارٹی کے رہنما قمر الزمان کائرہ نے درست طور پر عوامی تاثر کی ترجمانی کی کہ حکومت کو ''کسی کا بچاؤ'' مطلوب ہے اور کوئی بھی ہوش مند فرد ان تحقیقات کے ''نتائج'' کو تسلیم نہیں کرسکتا۔

محسوس ہوتا ہے کہ حکومت اصل ذمے داروں کو سزا سے بچانے کے لیے نئے قربانی کے بکرے کی تلاش شروع کرچکی ہے۔ طارق فاطمی نے الزام اپنے سر لینے سے انکار دیا ہے۔ دفتر خارجہ میں اپنے ساتھیوں کو الوداعی مراسلے میں طارق فاطمی نے سختی سے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کسی صوفی کے قول پر عمل کیا ہے کہ ''بین السطور پڑھو، اس طرح زیادہ دیدہ ریزی کی ضرورت نہیں رہتی۔'' انھوں نے کہیں بھی اپنے اس مہربان کی جانب اشارہ تک نہیں کیا جس کے وہ بندۂ بے دام تھے اور برسوں جس کی خدمت پر مامور رہے۔ ایسی گہری خاموشی بہت کچھ بیان کرتی ہے۔ اس سے تحریک انصاف کے سوالات کو بھی تقویت ملتی ہے۔ حکومت کی جانب سے اس معاملے پر پردہ ڈالنے کی پیہم کوششوں سے یہ عمومی تاثر مضبوط ہوتا جا رہا ہے کہ کسی اہم ذمے دار کو بچا لیا گیا ہے۔

نومبر 2016ء میں جنرل باجوہ کے منصب سنبھالنے کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ سول ملٹری تعلقات میں واضح طور پر تلخی کچھ شدت کے ساتھ سامنے آئی ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے یہ ٹوئیٹ کیا تھا ''ڈان لیکس پر جاری کیا جانے والا نوٹیفکیشن نامکمل ہے اور تفتیشی بورڈ کی سفارشات سے مطابقت نہیں رکھتا۔ نوٹیفکیشن مسترد کیا جاتا ہے۔'' اگر اس اعلان میں ''نوٹیفکیشن مسترد کیا جاتا ہے'' کا ٹکڑا شامل نہ بھی کیا جاتا تو ہم پوری بات سمجھ جاتے لیکن اس کے اثرات کے پورے ادراک کے ساتھ قدرے سخت زبان استعمال کی گئی۔

انہی صفحات پر شائع ہونے والے کالم ''عالمی اقتصادی فورم اور ہماری ترجیحات'' میں عرض کیا تھا: ''مسلم لیگ ن کی صفوں میں فوج مخالف عناصر موجود ہیں۔ انہی کی وجہ سے، فوج اور حکومت کے مابین غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں' جس کے نتیجے میں مجموعی سیاسی فضا خراب ہو رہی ہے، ایسے لوگوںکو نہ روکنا بڑی غلطی تھی۔'' راحیل شریف نے سادگی اور شرافت کا مظاہرہ کیا جو اس معاملے کے بعد پیدا ہونے والی خرابی موجودہ سپہ سالار کے لیے چھوڑ گئے۔نیوز لیکس سے پہلو تہی مناسب نہیں تھی۔ اس خرابے کو درست کرنے میں مزید تاخیر سے سول ملٹری تعلقات مزید خراب ہوں گے۔

مسلم لیگ ن کا میڈیا سیل سوشل میڈیا پر نون لیگ کے مخالفوں پر کیچڑ اچھالنے کے فرائض انجام دیتا ہے، وزیر اعظم کے قصیدے بیان کرتا ہے اور جن امور پر وزیر اعظم براہ راست اظہار خیال نہیں کرنا چاہتے یہ سیل ان کی ترجمانی کرتا ہے۔حال ہی میں وزیراعظم کی صاحبزادی نے اپنے ایک ٹوئیٹ میں پاناما پیپرز کی خبر گیری کی اور اس اسکینڈل کو ''فضول'' قرار دیا۔ پانامہ پیپرز کے حقائق سامنے لانے میں بنیادی کردار ادا کرنے والے انٹرنیشنل کنسورشیم فار انویسٹی گیٹوو جرنلزم (آئی سی آئی جے) میں شامل جرمن صحافی بیسچیئن اوبرمائر اور فریڈرک اوبرمیئر نے چند گھنٹوں بعد ہی ریکارڈ درست کردیا۔

انھیں اپنے طرز عمل پر غور کرنا چاہیے یا پھر وہ ''حملہ بہترین دفاع ہے'' کے اصول پر یقین رکھتی ہیں؟ ان کی جرأت مندی کو آپ قابل تعریف کہہ سکتے ہیں۔ یقیناً ان کے لیے کئی امکانات روشن ہیں۔ اپنی ذہانت اور سیاسی عزائم اور شخصیت کے بل پر وہ اپنے والد کے ووٹ بینک کا بھرپور فائدہ اٹھا سکتی ہیں (ہر چند کہ موجودہ حالات میں ووٹ بینک کا حوالہ طنز محسوس ہوتا ہے)۔ لیکن ''پانامہ پیپرز'' پر کیے گئے ٹوئیٹ کی طرح اضطراب میں اٹھائے گئے کسی بھی قدم سے ان کی مستقبل کی سیاست کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

فوج مخالف ایجنڈے اور بھارتی پراپیگنڈے میںیکسانیت محض اتفاقی نہیں تھی'کیا ایسے پروپیگنڈے کے ذمے داروں کا احتساب نہیں ہونا چاہیے۔ جب فضا شکوک سے پُر ہو تو ایسے ماحول میں قومی سلامتی کے امور پر باہمی گفت و شنید ممکن رہے گی؟ طاقتوروں کو بچانے کے لیے قربانیاں دی جاتی رہیں گی۔ شاید ''نیا جنم'' لینے والے طارق فاطمی اپنا کردار ادا کریں۔ شاید؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔