’’بچوں‘‘ سے تو جیت جاتے

مکی آرتھر بھی کوئی بہتری لانے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔


Saleem Khaliq May 06, 2017
مکی آرتھر بھی کوئی بہتری لانے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں۔ فوٹو: اے ایف پی/فائل

36 رنز پر 7 کھلاڑی آؤٹ، میں نے ٹی وی اسکرین پر جب یہ دیکھا تو اپنے ہاتھ پر چٹکی نوچ کر تصدیق کی کہ کہیں میں خواب تو نہیں دیکھ رہا، کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہو گا کہ پاکستانی ٹیم کے ساتھ ایسا ہو سکتا ہے، ساتھ بیٹھے پیج میکر ثاقب قریشی نے میچ کی صورتحال دیکھ کر کہا کہ ان ''بچوں'' سے تو جیت جاتے، یہ میچ تو ہاتھ سے نکل گیا، پھر یہ بات درست ثابت ہوئی اور چائے کا وقفہ ہونے سے قبل ہی کھلاڑیوں کو آرام سے ہوٹل واپس جا کر کھانا کھانے کا موقع مل گیا۔

ویسٹ انڈیز کی کمزور ٹیم کو مارلون سموئلز اور ڈیرن براوو سمیت کئی سینئرز کا ساتھ حاصل نہ تھا، بعض بورڈ سے لڑائی تودیگر آئی پی ایل کی رنگینیوں کے سبب ٹیم سے باہر تھے،اس کیخلاف ایسی کارکردگی کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا، مان لیتے ہیں کہ پچ مشکل تھی لیکن ایسا بھی نہیں تھا کہ وہاں بولرز گیندوں کی جگہ بم پھینک رہے تھے، نہ ہی سامنے مائیکل ہولڈنگ، کورٹی والش یا کرٹلی امبروز تھے، مگر ہم نے اسٹارز بنانے کی روایت برقرار رکھتے ہوئے شینن گبرائیل کو وکٹیں پیش کیں۔

یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ کھلاڑیوں کو کروڑوں روپے ہر قسم کی کنڈیشنز میں عمدہ پرفارمنس کیلیے ملتے ہیں،کنٹریکٹ میں یہ کہیں نہیں لکھا ہوتا کہ ہر میچ دبئی کی ڈیڈ وکٹ پر ہو گا، دراصل خودغرضی کا بھی اس شکست میں اہم کردار ہے، ماضی میں کھلاڑی ملک کیلیے کھیلتے تھے، اب پیسے اور اپنی پوزیشن کیلیے کھیلتے ہیں۔

انداز بیٹنگ کا یہ عالم ہے کہ شعیب محمد اور مدثر نذر جیسے سست روی سے کھیلنے والے سابق بیٹسمین بھی شرما جائیں، مگر وہ اگر 2 دن بیٹنگ کرتے تو ڈبل سنچری بھی بنا لیتے تھے، اب ایسا نہیں ہے، اظہر علی اور احمد شہزاد نے برج ٹاؤن ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں جو انداز اپنایا وہ کچھوے کی چال سے بھی سست تھا،خوش قسمتی سے نوبالز اور ڈراپ کیچز کی وجہ سے چند مواقع ملے تو رنز بنا لیے، دوسری باری میں بھی دونوں نے انتہائی سلو آغاز کیا، احمد کو چانس بھی ملا مگر پھر قسمت نے بے وفائی کی اور غلط امپائرنگ فیصلے کی بھینٹ چڑھ گئے۔

صاف ظاہر ہے کہ ان کی کوشش صرف اپنی جگہ بچانے کی تھی کہ جیسے تیسے رنز بنا کر اگلا میچ کھیل جاؤں، مجھے اکثر ماضی کا احمد شہزاد یاد آتا ہے جو بولرز پر حاوی ہو جاتا اور اپنے اسٹروکس کھیلتا رہتا تھا، اب ٹیم میں ان اور آؤٹ کر کے اوپنر کا اعتماد ختم اور انھیں بقا کی جنگ میں لگا دیا گیا ہے، اظہر علی عموماً لوز شاٹس سے گریز کرتے ہیں مگر حیران کن طور پر دوسری اننگز میں انھوں نے ایسا کیا اور وکٹ گنوا کر تباہی کی بنیاد رکھی، مصباح الحق اور یونس خان اکثر اننگز کے آغاز میں پھنس کر کھیلتے ہیں، دونوں کو اس وقت گھیرنا ممکن ہوتا ہے ویسٹ انڈیز نے یہی کیا۔

اس سے یہ بھی ثابت ہو گیا کہ دونوں سینئرز جب جلد آؤٹ ہو جائیں تو ٹیم کا سنبھلنا مشکل ہو جاتا ہے، بابر اعظم باصلاحیت نوجوان ہیں مگرانھیں کارکردگی میں تسلسل لانا ہوگا،ایسے پیئر کرنے سے ان کیخلاف بھی آوازیں اٹھنا شروع جائیں گی، اسد شفیق کو اب مصباح اور یونس کا خلا پُر کرنا ہے مگر وہ اکثر اوقات مایوس ہی کر رہے ہیں، آل راؤنڈرز کے نہ ہونے کی وجہ سے بیٹنگ کی ٹیل جلد شروع ہو جاتی ہے، لہذا سرفراز کو کسی کے ساتھ شراکت بنانے کا موقع نہ ملا، عامر نے البتہ کچھ دیر ان کا ساتھ دیا، دونوں نے چند چوکے جڑ کر ساتھیوں کو احساس دلایا کہ مثبت انداز اپناتے تو شاید کامیابی مل ہی جاتی۔

دنیا کی دیگر ٹیمیں کہاں پہنچ رہی ہیں اور ہم اب تک ویسٹ انڈیز جیسے حریفوں کیخلاف81 رنز پر ڈھیر ہو کر میچ ہار رہے ہیں، سیریز میں کلین سویپ سے کم کوئی بات ہی نہیں ہونی چاہیے تھی مگر اب پہلی بار ٹرافی جیتنے کا خواب پورا کرنا محال ہوگیا، یہاں سلیکٹرز کو بھی قصوروار قرار دینا چاہیے جنھوں نے ٹی ٹوئنٹی کی کارکردگی پر شاداب خان کو وقت سے پہلے ٹیسٹ کیپ دے دی۔

فرسٹ کلاس کرکٹ کا زیادہ تجربہ نہ ہونے کے سبب وہ جدوجہد کرتے دکھائی دیے، سہیل خان جیسا بولر باہر بیٹھا ہے جبکہ کئی باصلاحیت بیٹسمین بھی موقع کے انتظار میں مایوسی کا شکار ہیں، انضمام الحق ایک باصلاحیت آل راؤنڈر تو تلاش نہ کر سکے، ان کو لاکھوں روپے ماہانہ دینے کا کیا فائدہ،اس شکست سے ثابت ہوتا ہے کہ ہماری ٹیسٹ ٹیم بھی زوال پذیر ہے، جب ہم نمبر8 رینک ویسٹ انڈیز سے ہار رہے ہوں تو جان لیں معاملہ گڑبڑ ہے۔

بجائے بہتری کی کوششوں کے بورڈ یہ بحث شروع کرانے میں لگا ہے کہ ''مصباح، عمران خان سے بڑے کپتان ہیں'' ویسے شہریارخان کو ایسا بیان دینے کی کوئی ضرورت نہ تھی، مصباح نے بیشتر فتوحات یو اے ای میں حاصل کیں، عمران نے تو بھارت کو اس کے ملک میں جاکر بھی ہرایا تھا،انھوں نے ملک کو کئی بڑے پلیئرز بھی دیے، دونوں کا کوئی موازنہ ممکن نہیں، رہی بات اعدادوشمار کی تو اس کے لحاظ سے تو شاہد آفریدی بھی عمران خان سے بہتر آل راؤنڈر ہیں۔

البتہ مجھے یقین ہے کہ وہ خود سابق کپتان کو اپنے سے بہترکرکٹر قرار دیں گے، بورڈ نے ایک کھلاڑی پر انحصار کر کے نئے بیٹسمینوں کو ٹیم میں جگہ نہ بنانے دی جس کا خمیازہ اب بھگتنا پڑے گا، البتہ امید کی ایک کرن سرفراز احمد کی صورت میں موجود ہے، وہ ایک جارح مزاج کپتان ہیں، اگر ٹیم نے ان کا انداز اپنایا تو یقیناً بہتری آ سکتی ہے، اس وقت ''مصباح وائرس'' نے تمام بیٹسمینوں کو بیحد متاثر کیا ہے، سب انہی کے انداز کی کرکٹ کھیلنے لگے ہیں، جو ٹیم 50 سے زائد اوورز میں کوئی رن نہ بنائے اس کا تو اﷲ ہی حافظ ہے۔

مکی آرتھر بھی کوئی بہتری لانے میں ناکام ثابت ہوئے ہیں، سلیکشن کمیٹی اور بھاری بھرکم ٹیم مینجمنٹ کروڑوں روپے ماہانہ اپنے بینک اکاؤنٹس میں منتقل کرانے کے باوجود بھی مثبت نتائج نہیں دے سکے تو پھر ان کا فائدہ کیا ہے؟ بورڈ حکام کو اب ان کی کارکردگی پر ضرور نظر ڈالنی چاہیے،شہریارخان جاتے جاتے کچھ جراتمندانہ فیصلے کر جائیں تو ملکی کرکٹ تاریخ میں انھیں اچھے الفاظ میں ضرور یاد رکھا جائے گا۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں