ایڈمنٹن اور کیل گیری
ایئرپورٹ پر لاہور سے تعلق رکھنے والا خوش گلو فن کار اور محبتی انسان اطہر شہزاد ہمارا منتظر تھا
ISLAMABAD:
میری ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ غیر ملکی سفروں کے دوران تاثرات اور معلومات کو ساتھ ساتھ قلمبند کر کے آپ سے رابطے میں رہوں لیکن پروگراموں کی نوعیت، مصروفیات اور ہوائی اڈوں کی دوڑ بھاگ میں یہ تسلسل قائم نہیں رہ پاتا اور ایک دو کالم آگے پیچھے ہو جاتے ہیں۔ مگر اس بار معاملہ ذرا زیادہ ہی ''خود مختار'' ہو گیا۔ نوٹس تو میں نے لے لیے مگر دس بارہ دن تک لکھنے کا موقع نہ مل سکا۔ یہاں تک کہ واپسی کی لندن تا لاہور پرواز کا وقت آگیا۔
سوچا کہ ساڑھے سات گھنٹے میں دو کالم تو نمٹ ہی جائیں گے، پی آئی اے کی فلائٹ عین وقت پر چلی ایئرپورٹ اور جہاز دونوں کا عملہ بھی بہت مستعد اور خوش طبع تھا۔ البتہ میری سیٹ کا ٹی وی مانیٹر اس بار بھی خراب تھا لیکن دو وجہ سے اس کا افسوس نسبتاً کم ہوا۔ ایک تو یہ کہ اس فلائٹ کا دورانیہ ٹورانٹو والی فلائٹ سے تقریباً نصف تھا اور دوسرے یہ کہ میرا زیادہ وقت تو کالم لکھنے ہی میں گزرنا تھا۔ کاغذ قلم سیٹ کرنے کے بعد دستی اٹیچی کیس یعنی ہینڈ کیری (Hand Carry) میں اس ڈائری کی تلاش شروع کی جس میں نوٹس درج کیے تھے مگر اس کا کہیں نام و نشان نہ ملا۔
سوچا کہ شاید وہ اس بڑے بیگ میں رہ گئی ہے جسے جمع کروایا گیا ہے یعنی اب صرف یادداشت کے سہارے ہی بات کو آگے بڑھایا جا سکتا تھا۔ طبیعت کی بدمزگی اور غنودگی کے باعث یہ ارادہ بھی ترک کرنا پڑا کہ جہاں سیر وہاں سواسیر۔ اب گھر چل کر ایک ہی بار اس حساب جاں کو چکائیں گے مگر اس وقت صورتحال یہ ہے کہ وہ کم بخت ڈائری سرے سے منقود الخبر ہوگئی ہے اور باوجود بار بار کی کوشش کے اس کا کچھ پتہ نہیں چل رہا۔ سو اب یادداشت سے ہی کام چلانا پڑے گا۔ سو اگر کہیں میزبانوں اور جگہوں کے نام آگے پیچھے ہوجائیں تو پیشگی معذرت۔
ایڈمنٹن اور کیلگری کا تفصیلی ذکر میرے 1984ء والے سفر کی داستان میں محفوظ ہے جو ''شہر در شہر'' کے نام سے متعدد بار شایع ہو چکا ہے جس میں میرے ہم سفر جمیل الدین حالی اور پروین شاکر تھے۔ اس کے بعد ایک بار ایڈمنٹن اور دو بار کیلگری جانے کا موقع ملا جس کا مختصر احوال ان دنوں میں لکھے گئے کالموں میں ہوا تو سہی مگر یونہی سرراہے کے انداز میں۔ ایڈمنٹن گزشتہ دو برس قبل جانا ہوا تو اولین سفر کے تینوں میزبان ڈاکٹر سلیم قریشی ان کی سوئس جرمن بیگم ریگلولا قریشی اور کشور غنی تینوںسے ملاقات رہی اس بار صرف کشور سے ہی مل سکے کہ ڈاکٹر سلیم قریشی کا کچھ ماہ قبل انتقال ہوگیا ہے اور ریگولا شہر میں نہیں تھیں۔
ایئرپورٹ پر لاہور سے تعلق رکھنے والا خوش گلو فن کار اور محبتی انسان اطہر شہزاد ہمارا منتظر تھا۔ اس سے خوب گپ شپ رہی کہ وہ بہت مؤدب ہونے کے ساتھ ساتھ عمدہ حس مزاح کا بھی مالک تھا۔ کینیڈا کے بیشتر بڑے شہروں کی طرح ایڈمنٹن بھی رقبے کے اعتبار سے بہت بڑا اور آبادی کے لحاظ سے لاہور سے کم از کم آٹھ گنا چھوٹا ہے۔ ٹورانٹو اور ونیکوور کی نسبت یہاں کا موسم خاصا سرد تھا اور ایک دن قبل ہونے والی برف باری کی وجہ سے جگہ جگہ سفید رنگ کی چادریں سی بچھی ہوئی تھیں، بالخصوص ہوائی جہاز کی کھڑکی سے شہر کے اردگرد کے غیر آباد علاقے اور کھیت وغیرہ تو تاحد نظر برف سے ڈھکے ہوئے تھے۔
اطہر شہزاد نے بتایا کہ اس سے کئی گنا زیادہ برف باری کے دوران بھی زندگی معمول کے مطابق چلتی رہتی ہے حالانکہ درجۂ حرارت بعض اوقات منفی 30 درجے سنٹی گریڈ سے بھی نیچے گرجاتا ہے۔ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے ڈائریکٹر اور ہمارے ہم سفر عزیزی عامر جعفری نے فنڈ ریزنگ کے حوالے سے محفل کو خوب گرما دیا تھا۔ سو یہاں مجھے اور انور مسعود کو معمول سے بھی کچھ زیادہ دیر کلام سنانا پڑا۔ یوں یہ محفل ہر لحاظ سے بہت کامیاب رہی۔
طے شدہ پروگرام کے مطابق ہمیں چھ سفر بذریعہ ہوائی جہاز اور صرف ایک (مونٹریال سے آٹوا تک) زمینی راستے سے کرنا تھا مگر تفتیش پر معلوم ہوا کہ ایڈمنٹن سے کیلگری کا راستہ بذریعہ کار صرف تین گھنٹے کا ہے۔ عزیزی اطہر شہزاد تو جیسے پہلے سے اشارے کا منتظر بیٹھا تھا اس نے ذمے دیا کہ اگرہم جہاز کی ٹکٹیں ضایع کرنے پر تیار ہوں تو وہ ہمیں کیلگری تک پہنچانے کی ''سعادت'' حاصل کرکے بہت خوش ہوگا۔ سو ایسا ہی کیا گیا۔ کیل گری میں ہمارا قیام تقریباً چار دن کا تھا کہ یورپ اور امریکا میں تقریبات بوجوہ صرف جمعے ہفتے اور اتوارکو ہی ممکن ہوتی ہیں۔
وہاں ہمارے میزبان خصوصی طاہر علوی اور ان کی بیگم ڈاکٹر فوزیہ تھے لیکن اس شہر میں پاکستانیوں کی زیادہ تعداد جیالوجی اور اس سے متعلقہ علوم کے انجینئرز پر مشتمل ہے کہ یہ علاقہ اپنے تیل کے ذخائر، کنوؤں اور ریفائنریزکی وجہ سے مشہور ہے سو ہمارا زیادہ وقت بھی انھی لوگوں کے ساتھ گزرا بالخصوص عزیزی عبید نے تو رفاقت اور مہمانداری کا حق ادا کردیا۔ تینوں دن ہمارے ساتھ ساتھ رہا اور ہمیں یٹاگرا کے بعد کینیڈا کے سب سے اہم سیاحتی مقام بنیف Banff کی بھی ایک پورا دن سیر کرائی۔
مشاعرہ گاہ میں شائستہ زیدی سے بھی ملاقات ہوئی جن کے گھر ہم دو بار جاچکے تھے اور جن کا سارا خاندان ادب کا بے حد رسیا اور دلدادہ ہے۔ ایڈمنٹن کی طرح یہاں بھی بیٹھنے کی جگہ مہمانوں کی تعداد سے کم تھی۔ سو بہت سے لوگوں کو واپس جانا پڑا۔ حاضرین نے نہ صرف فنڈریزنگ میں دل کھول کر حصہ لیا بلکہ شعر فہمی اور داد دہی میں بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔
طاہر علوی کے گھر پر ناشتے اور ڈنر کے دو سیشن تو خوب جمے مگر اس سے بھی زیادہ مزہ ان کے ساتھ گفتگو اور ان کی انتہائی ملنسار اور لائق بیگم ڈاکٹر فوزیہ کے کلینک کی وزٹ میں آیا کہ انھوں نے اس مختصر ملاقات کے دوران ہم دونوں مہمانوں یعنی میرا اور انور مسعود کا نہ صرف میڈیکل چیک اپ کر ڈالا بلکہ فوری طور پر کچھ ادویات کا بندوبست بھی کردیا۔
واضح رہے کہ تقریباً تمام ترقی یافتہ ممالک میں چند ایک کے علاوہ آپ کو کوئی دوا ڈاکٹر کے باقاعدہ نسخے اور اندراج کے بغیر نہیں مل سکتی۔ یہاں تک کہ لگے ہاتھوں انور مسعود کے ایک پرانے تھائی رائڈ کے آپریشن کی بائی آپسی بھی کر ڈالی جس کی تسلی بخش رپورٹ ہمیں چند دن بعد آٹوا میں ملی۔
بنیف، کیل گری سے تقریباً دو گھنٹے کی ڈرائیو پر ایک برفانی علاقہ ہے جہاں گنڈولہ چیئر لفٹ کے ذریعے آٹھ منٹ میں آپ کو ایک ایسے بلند مقام پر لے جایا جاتا ہے جہاں سے آپ حد نظر تک پھیلی ہوئی برف کی شعبدہ کاریوں کو جی بھر کے دیکھ سکتے ہیں۔ میں یہاں 33 برس پہلے بھی آیا تھا اور اس وقت میں نے اور علی سردار جعفری مرحوم نے ایک ہی لفٹ میں سفر کیا تھا۔ اب یہ لفٹیں تعداد میں زیادہ اور ٹیکنالوجی میں بہتر ہونے کے ساتھ ساتھ پہلے سے بہتر اور زیادہ کھلی ہیں۔ بنیف کے راستے میں ہم دو ایسی جھیلوں پر بھی رکے جن کا پانی مکمل طور پر جم چکا تھا۔ سو جمی ہوئی برف پر دور تک چلنا بہت اچھا لگا۔
کیل گری کے گزشتہ دورے میں عزیزی آصف رضا میر کے والد گرامی رضا میر صاحب سے ملاقات ہوئی تھی اور اس بار ان کی بیگم سے ملنا ہوا، اتفاق سے دونوں مواقعے پر آصف خود کراچی میں تھے۔ گزشتہ روز کیلگری کی سیر کے دوران عبید کے سکھ باس اور شہر کے اسماعیلی فرقے سے تعلق رکھنے والے میئر سے ملاقات رہی۔ دونوں ہی بہت دلچسپ اور ڈاؤن ٹو ارتھ قسم کے انسان تھے جب کہ ہمارے یہاں ایسی دولت اور عہدے کی طاقت بڑے بڑوں کا دماغ خراب کردیتی ہے۔ طاہر علوی نے بتایا کہ ونی پیگ والوں نے ہمیں وہاں پروگرام سے ایک دن قبل بھجوانے کی درخواست کی ہے۔ سو اب ہم کیلگری کے قیام کا چوتھا دن وہاں گزاریں گے۔
میری ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ غیر ملکی سفروں کے دوران تاثرات اور معلومات کو ساتھ ساتھ قلمبند کر کے آپ سے رابطے میں رہوں لیکن پروگراموں کی نوعیت، مصروفیات اور ہوائی اڈوں کی دوڑ بھاگ میں یہ تسلسل قائم نہیں رہ پاتا اور ایک دو کالم آگے پیچھے ہو جاتے ہیں۔ مگر اس بار معاملہ ذرا زیادہ ہی ''خود مختار'' ہو گیا۔ نوٹس تو میں نے لے لیے مگر دس بارہ دن تک لکھنے کا موقع نہ مل سکا۔ یہاں تک کہ واپسی کی لندن تا لاہور پرواز کا وقت آگیا۔
سوچا کہ ساڑھے سات گھنٹے میں دو کالم تو نمٹ ہی جائیں گے، پی آئی اے کی فلائٹ عین وقت پر چلی ایئرپورٹ اور جہاز دونوں کا عملہ بھی بہت مستعد اور خوش طبع تھا۔ البتہ میری سیٹ کا ٹی وی مانیٹر اس بار بھی خراب تھا لیکن دو وجہ سے اس کا افسوس نسبتاً کم ہوا۔ ایک تو یہ کہ اس فلائٹ کا دورانیہ ٹورانٹو والی فلائٹ سے تقریباً نصف تھا اور دوسرے یہ کہ میرا زیادہ وقت تو کالم لکھنے ہی میں گزرنا تھا۔ کاغذ قلم سیٹ کرنے کے بعد دستی اٹیچی کیس یعنی ہینڈ کیری (Hand Carry) میں اس ڈائری کی تلاش شروع کی جس میں نوٹس درج کیے تھے مگر اس کا کہیں نام و نشان نہ ملا۔
سوچا کہ شاید وہ اس بڑے بیگ میں رہ گئی ہے جسے جمع کروایا گیا ہے یعنی اب صرف یادداشت کے سہارے ہی بات کو آگے بڑھایا جا سکتا تھا۔ طبیعت کی بدمزگی اور غنودگی کے باعث یہ ارادہ بھی ترک کرنا پڑا کہ جہاں سیر وہاں سواسیر۔ اب گھر چل کر ایک ہی بار اس حساب جاں کو چکائیں گے مگر اس وقت صورتحال یہ ہے کہ وہ کم بخت ڈائری سرے سے منقود الخبر ہوگئی ہے اور باوجود بار بار کی کوشش کے اس کا کچھ پتہ نہیں چل رہا۔ سو اب یادداشت سے ہی کام چلانا پڑے گا۔ سو اگر کہیں میزبانوں اور جگہوں کے نام آگے پیچھے ہوجائیں تو پیشگی معذرت۔
ایڈمنٹن اور کیلگری کا تفصیلی ذکر میرے 1984ء والے سفر کی داستان میں محفوظ ہے جو ''شہر در شہر'' کے نام سے متعدد بار شایع ہو چکا ہے جس میں میرے ہم سفر جمیل الدین حالی اور پروین شاکر تھے۔ اس کے بعد ایک بار ایڈمنٹن اور دو بار کیلگری جانے کا موقع ملا جس کا مختصر احوال ان دنوں میں لکھے گئے کالموں میں ہوا تو سہی مگر یونہی سرراہے کے انداز میں۔ ایڈمنٹن گزشتہ دو برس قبل جانا ہوا تو اولین سفر کے تینوں میزبان ڈاکٹر سلیم قریشی ان کی سوئس جرمن بیگم ریگلولا قریشی اور کشور غنی تینوںسے ملاقات رہی اس بار صرف کشور سے ہی مل سکے کہ ڈاکٹر سلیم قریشی کا کچھ ماہ قبل انتقال ہوگیا ہے اور ریگولا شہر میں نہیں تھیں۔
ایئرپورٹ پر لاہور سے تعلق رکھنے والا خوش گلو فن کار اور محبتی انسان اطہر شہزاد ہمارا منتظر تھا۔ اس سے خوب گپ شپ رہی کہ وہ بہت مؤدب ہونے کے ساتھ ساتھ عمدہ حس مزاح کا بھی مالک تھا۔ کینیڈا کے بیشتر بڑے شہروں کی طرح ایڈمنٹن بھی رقبے کے اعتبار سے بہت بڑا اور آبادی کے لحاظ سے لاہور سے کم از کم آٹھ گنا چھوٹا ہے۔ ٹورانٹو اور ونیکوور کی نسبت یہاں کا موسم خاصا سرد تھا اور ایک دن قبل ہونے والی برف باری کی وجہ سے جگہ جگہ سفید رنگ کی چادریں سی بچھی ہوئی تھیں، بالخصوص ہوائی جہاز کی کھڑکی سے شہر کے اردگرد کے غیر آباد علاقے اور کھیت وغیرہ تو تاحد نظر برف سے ڈھکے ہوئے تھے۔
اطہر شہزاد نے بتایا کہ اس سے کئی گنا زیادہ برف باری کے دوران بھی زندگی معمول کے مطابق چلتی رہتی ہے حالانکہ درجۂ حرارت بعض اوقات منفی 30 درجے سنٹی گریڈ سے بھی نیچے گرجاتا ہے۔ غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے ڈائریکٹر اور ہمارے ہم سفر عزیزی عامر جعفری نے فنڈ ریزنگ کے حوالے سے محفل کو خوب گرما دیا تھا۔ سو یہاں مجھے اور انور مسعود کو معمول سے بھی کچھ زیادہ دیر کلام سنانا پڑا۔ یوں یہ محفل ہر لحاظ سے بہت کامیاب رہی۔
طے شدہ پروگرام کے مطابق ہمیں چھ سفر بذریعہ ہوائی جہاز اور صرف ایک (مونٹریال سے آٹوا تک) زمینی راستے سے کرنا تھا مگر تفتیش پر معلوم ہوا کہ ایڈمنٹن سے کیلگری کا راستہ بذریعہ کار صرف تین گھنٹے کا ہے۔ عزیزی اطہر شہزاد تو جیسے پہلے سے اشارے کا منتظر بیٹھا تھا اس نے ذمے دیا کہ اگرہم جہاز کی ٹکٹیں ضایع کرنے پر تیار ہوں تو وہ ہمیں کیلگری تک پہنچانے کی ''سعادت'' حاصل کرکے بہت خوش ہوگا۔ سو ایسا ہی کیا گیا۔ کیل گری میں ہمارا قیام تقریباً چار دن کا تھا کہ یورپ اور امریکا میں تقریبات بوجوہ صرف جمعے ہفتے اور اتوارکو ہی ممکن ہوتی ہیں۔
وہاں ہمارے میزبان خصوصی طاہر علوی اور ان کی بیگم ڈاکٹر فوزیہ تھے لیکن اس شہر میں پاکستانیوں کی زیادہ تعداد جیالوجی اور اس سے متعلقہ علوم کے انجینئرز پر مشتمل ہے کہ یہ علاقہ اپنے تیل کے ذخائر، کنوؤں اور ریفائنریزکی وجہ سے مشہور ہے سو ہمارا زیادہ وقت بھی انھی لوگوں کے ساتھ گزرا بالخصوص عزیزی عبید نے تو رفاقت اور مہمانداری کا حق ادا کردیا۔ تینوں دن ہمارے ساتھ ساتھ رہا اور ہمیں یٹاگرا کے بعد کینیڈا کے سب سے اہم سیاحتی مقام بنیف Banff کی بھی ایک پورا دن سیر کرائی۔
مشاعرہ گاہ میں شائستہ زیدی سے بھی ملاقات ہوئی جن کے گھر ہم دو بار جاچکے تھے اور جن کا سارا خاندان ادب کا بے حد رسیا اور دلدادہ ہے۔ ایڈمنٹن کی طرح یہاں بھی بیٹھنے کی جگہ مہمانوں کی تعداد سے کم تھی۔ سو بہت سے لوگوں کو واپس جانا پڑا۔ حاضرین نے نہ صرف فنڈریزنگ میں دل کھول کر حصہ لیا بلکہ شعر فہمی اور داد دہی میں بھی کسی سے پیچھے نہیں رہے۔
طاہر علوی کے گھر پر ناشتے اور ڈنر کے دو سیشن تو خوب جمے مگر اس سے بھی زیادہ مزہ ان کے ساتھ گفتگو اور ان کی انتہائی ملنسار اور لائق بیگم ڈاکٹر فوزیہ کے کلینک کی وزٹ میں آیا کہ انھوں نے اس مختصر ملاقات کے دوران ہم دونوں مہمانوں یعنی میرا اور انور مسعود کا نہ صرف میڈیکل چیک اپ کر ڈالا بلکہ فوری طور پر کچھ ادویات کا بندوبست بھی کردیا۔
واضح رہے کہ تقریباً تمام ترقی یافتہ ممالک میں چند ایک کے علاوہ آپ کو کوئی دوا ڈاکٹر کے باقاعدہ نسخے اور اندراج کے بغیر نہیں مل سکتی۔ یہاں تک کہ لگے ہاتھوں انور مسعود کے ایک پرانے تھائی رائڈ کے آپریشن کی بائی آپسی بھی کر ڈالی جس کی تسلی بخش رپورٹ ہمیں چند دن بعد آٹوا میں ملی۔
بنیف، کیل گری سے تقریباً دو گھنٹے کی ڈرائیو پر ایک برفانی علاقہ ہے جہاں گنڈولہ چیئر لفٹ کے ذریعے آٹھ منٹ میں آپ کو ایک ایسے بلند مقام پر لے جایا جاتا ہے جہاں سے آپ حد نظر تک پھیلی ہوئی برف کی شعبدہ کاریوں کو جی بھر کے دیکھ سکتے ہیں۔ میں یہاں 33 برس پہلے بھی آیا تھا اور اس وقت میں نے اور علی سردار جعفری مرحوم نے ایک ہی لفٹ میں سفر کیا تھا۔ اب یہ لفٹیں تعداد میں زیادہ اور ٹیکنالوجی میں بہتر ہونے کے ساتھ ساتھ پہلے سے بہتر اور زیادہ کھلی ہیں۔ بنیف کے راستے میں ہم دو ایسی جھیلوں پر بھی رکے جن کا پانی مکمل طور پر جم چکا تھا۔ سو جمی ہوئی برف پر دور تک چلنا بہت اچھا لگا۔
کیل گری کے گزشتہ دورے میں عزیزی آصف رضا میر کے والد گرامی رضا میر صاحب سے ملاقات ہوئی تھی اور اس بار ان کی بیگم سے ملنا ہوا، اتفاق سے دونوں مواقعے پر آصف خود کراچی میں تھے۔ گزشتہ روز کیلگری کی سیر کے دوران عبید کے سکھ باس اور شہر کے اسماعیلی فرقے سے تعلق رکھنے والے میئر سے ملاقات رہی۔ دونوں ہی بہت دلچسپ اور ڈاؤن ٹو ارتھ قسم کے انسان تھے جب کہ ہمارے یہاں ایسی دولت اور عہدے کی طاقت بڑے بڑوں کا دماغ خراب کردیتی ہے۔ طاہر علوی نے بتایا کہ ونی پیگ والوں نے ہمیں وہاں پروگرام سے ایک دن قبل بھجوانے کی درخواست کی ہے۔ سو اب ہم کیلگری کے قیام کا چوتھا دن وہاں گزاریں گے۔