زبردست مارے رونے نہ دے

فوجی گملوں کی پنیریوں کو کھاد اچھی اور خالص ملتی ہے

fatimaqazi7@gmail.com

KARACHI:
بچپن سے یہ کہاوت ہم گھر میں سنتے آئے ہیں اور پڑھتے بھی آئے ہیں، اسی مفہوم کا ایک اور محاورہ بھی ہے کہ ''زبردست کا ٹھینگا سر پر'' یا ''جس کی لاٹھی، اس کی بھینس'' وغیرہ وغیرہ۔ ذرا غورکیجیے تو یہ سب محاورے گزشتہ 70 سال سے ہمارے ملک اورعوام پر صادق آتے ہیں۔ حاکم جو کہے وہ سچ ہے اور غریب عوام جوکہیں وہ جھوٹ ہے۔ خواہ عوام کی بات سو فی صد درست ہو لیکن طاقت کا اپنا نشہ ہوتا ہے۔ یہ ہر پانچ سال کے بعد حاکم کو چور اور چورکو حاکم قرار دے دیتا ہے۔

در اصل ترازو جس کے ہاتھ میں ہے وہ اس کی ڈنڈی پکڑ کر خوش ہے کہ جب چاہے کسی بھی پلڑے کو اونچا کردے اور جب چاہے دوسرے پلڑے میں زیادہ وزن ڈال دے، پہلے یہ سب کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی تھی۔ پرویز مشرف کی حکومت تک سب کچھ آئینے کی طرح واضح اور صاف تھا۔ ''کرلو جوکرنا ہے، اقتدار میں تو ہم ہی رہیںگے''۔ لیکن پھر ادھر ادھر کی پھٹکار نے مقتدر قوتوں کے کان کھڑے کردیے۔ ''بھلا ہمیں کیا ضرورت ہے وردی زیب تن کرنے کی۔ حکم تو ہمارا ہی چلتا ہے۔'' تب کٹھ پتلیاں تلاش کی گئیں۔ تلاش کیا کی گئیں خود ہاتھ باندھے سامنے آگئیں۔

فوجی گملوں کی پنیریوں کو کھاد اچھی اور خالص ملتی ہے۔ عوام کو پینے کا پانی ملے نہ ملے لیکن ان فوجی گملوں کے گل بوٹوں کے لیے منرل واٹر میسر کردیا جاتا ہے۔ لو بھئی نہ ہینگ لگی نہ پھٹکری اور رنگ چوکھا آگیا۔ ترازو کی ڈنڈی پکڑنے والے ہاتھوں کی جنبش کے ایک اشارے پر جس کو چاہا اٹھوالیا، جس کو چاہا غائب کروادیا، جس کو چاہا مجرم ٹھہرادیا، جس نے سچ لکھا اس کا سر قلم کردیاگیا۔ صرف حاکم سچا ہے باقی سب جھوٹے ہیں۔

اس صورت حال پہ مجھے بھیڑ کے اس بچے کی حکایت یاد آتی ہے جو دریا پہ پانی پینے چلا گیا تھا۔ دوسرے کنارے پر ایک بھیڑیا بھی پانی پینے آگیا، اس کا دل بھیڑکے بچے کو دیکھ کر لُلچایا اور سوچنے لگا کہ کس طرح اس کو کھاؤں۔ بھیڑیا جس جگہ کھڑاتھا وہ جگہ اونچی تھی، لیکن بھیڑ کا بچہ جس طرف کھڑا پانی پی رہا تھا وہ ذرا نشیب میں تھا، پانی بھیڑیے کی طرف سے بہتاہوا بھیڑکے بچے کی طرف آرہا تھا۔ بھیڑیا دل میں ترکیبیں سوچنے لگا کہ کس طرح اس کو نوالہ بناؤں۔

سوچتے سوچتے کہنے لگا۔ او بد ذات تیری یہ مجال کہ میرے پینے کے پانی کو گندہ کرے، تیری یہ ہمت کہ جو پانی میری پیاس بجھائے تو اسے پہلے پی کر گندہ اور غلیظ کر رہا ہے۔ بتا تجھے اس کی کیا سزا دوں؟ ننھا سا بھیڑ کا بچہ بھیڑیے کی غراہٹ اور غصے سے ڈرگیا اور پیچھے کی طرف دبک گیا۔ پھر ہمت کرکے بولا۔ جناب آپ جو فرماتے ہیں وہ درست نہیں۔ میری کیا مجال جو آپ کا پانی گندہ کروں۔ ذرا غورکیجیے تو پانی آپ کی طرف سے بہتا ہوا میری طرف آرہا ہے۔ یعنی میں آپ کا جھوٹا پانی پی رہا ہوں۔ یہ بات خلاف قیاس ہے کہ پانی میرے سبب گندہ ہورہا ہے۔ ویسے آپ کی خوشی جو چاہیں سو کہیں۔ شاید حسرت موہانی کا یہ شعر کسی ایسے ہی موقعے پر کہا گیا ہوگا:

خرد کا نام جنوں پڑگیا، جنوں کا خرد
جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے


بھیڑیا زِچ ہوکر بولا، چل ٹھیک ہے، پانی میری طرف سے تیری طرف بہہ کر آرہا ہے۔ لیکن تو تو بڑا ہی بد ذات ہے، چھ ماہ پہلے تو مجھے برا بھلا کہہ رہا تھا، گالیاں دے رہا تھا، بتا تجھے کیا سزا دوں۔ میرے پیٹھ پیچھے تو میری غیبت کرے اور میں چپ رہوں۔ یہ سن کر بھیڑ کے معصوم بچے نے حیرت سے بھیڑیے کو دیکھا اور ادب سے بولا۔ نہیں صاحب ایسی باتیں خلاف قیاس ہیں، کیونکہ میری عمر تو ابھی صرف تین ماہ ہے، توکیونکر میں چھ ماہ پہلے آپ کی غیبت کرسکتا تھا۔ میری پیدائش کو تو ابھی پورے تین ماہ بھی نہیں ہوئے۔ آپ میرے ماں باپ اور دوسرے جانوروں سے اس کی تصدیق کرسکتے ہیں۔

بھیڑیا یہ باتیں سن کر چِڑ گیا کہ سچ کے آگے جھوٹ کا چراغ نہیں جلتا۔ جب جھوٹ سے بات نہ بنی تو انتہائی غصے میں بھیڑ کے بچے کی طرف بڑھا۔ اسے دبوچا اور زمین پر پٹک کر بولا، ٹھیک ہے تیری عمر تین ماہ ہے لیکن چھ ماہ پہلے تیرے باپ نے جو گالیاں مجھے دی تھیں وہ میرے دوستوں نے مجھے بتادی تھیں اب تجھے اس کا حساب دینا ہوگا تو نہ سہی تیرا باپ تو مجرم ہے۔ ہوسکتا ہے تیرے دادا نے بھی میرے دادا کو گالیاں دی ہوں اور غیبت کی ہو۔ یہ کہہ کر ایک ہی وار میں بھیڑ کے معصوم بچے کو چیر پھاڑ ڈالا اور پانی پی کر بغیر ڈکار لیے وہاں سے چلا گیا۔

اب آپ بتائیے کہ بھیڑیے کی جگہ مقتدر قوتیں اور بھیڑ کے بچے کی جگہ عوام، اور سچے لکھاری، زبردست مارے اور رونے بھی نہ دے کیا پاکستانی سیاست پہ اسی طرح صادق نہیں آتی جس طرح بھیڑ کے بچے کے انجام پر؟ جو سچ بول کر سمجھتا تھا کہ وہ بچ جائے گا...؟ سچ بول کر صرف زہر پینا پڑتا ہے۔ نوکریوں سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔ جھوٹ بول کر قصیدے لکھنے والوں کے مراتب بڑھادیے جاتے ہیں، لفافے موٹے ہوجاتے ہیں۔ پاکستانی کرنسی کی جگہ ڈالر، ریال اور دینار آجاتے ہیں۔

چیئرمین تحریک انصاف نے کہاکہ ملک پر لٹیرے قابض ہیں، عوام نجات کے لیے گھروں سے نکلیں۔ کیا مذاق ہے۔!۔ بھیڑیے کی جگہ لٹیروں کو رکھ لیجیے اور عوام کی جگہ بھیڑ کے بیگناہ سچ بول کر جان گنوانے والے ننھے بچے کو۔ ساری بات صاف ہوجاتی ہے۔ اس ملک سے لٹیرے کبھی نہیں جاسکتے کہ پورا ایک گروہ جو مافیا کی صورت اختیارکرچکا ہے آگے پیچھے لوٹ مار میں لگا ہے۔ سب سے بڑی بد قسمتی یہ ہے کہ بعض قوتوں کو ''مقدس گائے'' کا درجہ دے کر لوٹ مار، فریب اورکرپشن کو بھی دیوتاؤں کی آشیرواد سمجھ لیا گیا ہے۔

''مقدس گائے'' نے اپنا چولا بدل لیا ہے۔ کاروبار ہورہے ہیں، کرپشن کے ریکارڈ ٹوٹ رہے ہیں، ہاتھ میں ترازو، پلڑے اور باٹ ہیں۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔ دن میں خواب دیکھنے والوں کو بھی پیٹ بھر کر لفافے اور اُجرت مل رہی ہے۔ کوئی کالموں کے ذریعے قصیدہ خوانی کا پھل کھا رہا ہے، کوئی ٹی وی چینلز پہ گلا پھاڑ پھاڑ کر اپنا شجرۂ نسب بیان کرکے بیرون ملک فلیٹ اور جائیدادیں بنارہا ہے۔ غرضیکہ ہر طرف جھوٹ کا بول بالا ہے، دروغ گوئی کا دیو دن بدن اپنا قد کاٹھ بڑھا رہا ہے۔

کبھی سرے محل،کبھی لندن اور دیگر ملکوں کے فلیٹ اور شاطو کبھی قیمتی اراضی اور فارم ہاؤس۔ چور کا بھائی گرہ کٹ، ملی بھگت سے میڈیا پر دوسروں کو چور کہنے والے اپنا ماضی جھانک لیں۔ عوام بھیڑ کے بچے کی طرح سمجھتے ہیں کہ سچ کا بول بالا ہو گا، جھوٹے کا منہ کالا ہو گا۔ لیکن سچ کا فرشتہ تو مدتیں ہوئیں اپنے پر کٹواکر کہیں سسک رہا ہے۔

سچ اور جھوٹ کے رزم ناموں میں سچ کی فتح اب قسمت میں نہیں۔ جھوٹوں کو قصیدہ خوانی کے بدلے مالا مال ہوتے دیکھ کر سچ بولنے والوں نے آنکھیں موندلی ہیں۔ آخر انھیں بھی تو بچے پالنے ہیں، گھر بنانا ہے، گاڑی لینی ہے، 5 اسٹار ہوٹلوں میں بچوں کی شادیاں کرنی ہیں۔ یہ سب سچ لکھ کر اور سچ بول کر تو نہیں ہوسکتا۔ یاد کیجیے بھیڑ کے معصوم بچے کا انجام اور لٹیروں کی قصیدہ خوانی کرکے اونچی عمارتوں کے مکین بن جایئے۔
Load Next Story