ایک جریدہ اور چند کتابیں پہلا حصہ
ڈاکٹر سکندر حیات میکن تحقیق و تنقید کے حوالے سے اپنا ایک نمایاں مقام بناچکے ہیں
KARACHI:
ڈاکٹر سکندر حیات میکن تحقیق و تنقید کے حوالے سے اپنا ایک نمایاں مقام بناچکے ہیں۔ حال ہی میں ان کی تازہ ترین تحریر ''اردو میں سوانحی تحقیق'' کے عنوان سے شایع ہوگئی ہے۔ اس کتاب سے قبل ایک اہم کتاب ''بحرادب کے دو شناور'' اشاعت کے مرحلے سے گزری اور ناقدین و قارئین سے داد و تحسین وصول کی۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ''بحر ادب کے دو شناور'' ادب کی قدرآور شخصیات کی تخلیقی و تحقیقی امور کا احاطہ کرتی ہے۔
ڈاکٹر رشید امجد نے اپنی تحریر ''حرف آغاز'' میں لکھا ہے کہ ڈاکٹر سکندر حیات میکن کی کتاب بحرادب کے دوشناور اور اردو ادب کی دو اہم شخصیات ڈاکٹر وزیر آغا اور ڈاکٹر انور سدید کے بارے میں ہے، یہ دونوں صاحب طرز ادیب فکری ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ بہت سے ادبی نظریات میں اشتراک رکھتے ہیں۔
وزیر آغا کو مفکر ادب کہاگیا ہے جو بالکل درست ہے، وزیر آغا نے نہ صرف تخلیقی سطح پر بلکہ تنقیدی حوالوں سے بھی اردو ادب کو نئے فکری و فنی کمالات سے آشنا کیا ہے۔ یہ کتاب ''بحرادب کے دوشناور '' حوالے کا درجہ رکھتی ہے اور اردو اہم ترین تخلیق کاروں اور نقادوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اردو ادب کے قارئین خصوصاً جامعات کے طلبہ و طالبات کے لیے ایک جامع مطالعہ کا موقع فراہم کرتی ہے۔ ڈاکٹر سکندر حیات میکن کا انداز و اسلوب رواں اور دبیز ہے ، جملہ ادبی توانائیوں کے ساتھ ساتھ اس میں خود کو پڑھوانے کی خوبی ہے۔
ڈاکٹر سکندر حیات میکن نے ڈاکٹر وزیر آغا کے فن پر 9 مضامین اور ڈاکٹر انور سدید کے کے علمی و تحقیقی کاموں پر 7مضامین قلمبند کیے ہیں اور تنقیدی بصیرت کو بروئے کار لاتے ہوئے دونوں کے کاموں کا بھرپور طریقے سے احاطہ کیا ہے۔ اپنے ایک مضمون وزیر آغا کی غزل میں سفر کی علامت پر تجزیاتی انداز فکر کچھ اس انداز میں سامنے آیا ہے ''اردو غزل نے فارسی غزل کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ارتقاء کی منازل طے کی ہیں، فارسی شاعری میں غزل کا وجود بالکل نہیں تھا، دراصل غزلی قصیدے کا ابتدائی حصہ ( جسے نشیب کہتے ہیں) آج کی مروجہ غزل کی ہیئت میں پہلے سے موجود تھا جسے فارسی شعراء نے قصیدے سے اچک لیا اور یوں فارسی شاعری میں ''صنف غزل'' وجود میں آئی یہی صنف سبک خراسانی، سبک عراقی سے ہوتی ہوئی ہندی پہنچی، نیشا پور برصغیر میں آئے تو انھوں نے غزل میں نیا رنگ پیدا کیا، سبک ہندی کا سب سے بڑا خاصہ خیال بافی تھا۔ جسے مرزا غالب نے خوب خوب آزمایا یعنی پہلے مصرعے میں کوئی خیال ، کوئی مضمون باندھنا اور دوسرے میں اس کی تائید یا تردید کرنا جیسے:
ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا
ہوگیا رقیب آخر جو تھا راز داں اپنا
ڈاکٹر سکندر حیات میکن نے ایک طرف تحقیق کا حق ادا کیا ہے تو دوسری طرف تخلیقات کے نت نئے پھول منظر نگاری کی شکل میں کھلائے ہیں وہ اچھے مبصر اور لفظوں سے بیل بوٹے بنانے کے فن میں یکتا نظر آتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں ذہن کو بوجھل کرنے والی فضا کی بجائے ایسی تخلیقی نظر آتی ہے کہ قاری کی دلچسپی آگے کا سفر طے کرتی ہے۔ میں حیران ہوں کہ اتنی چھوٹی عمر میں وہ علم و ادب کے حوالے سے بڑے کام کررہے ہیں۔
سخن فہمی نے انھیں اپنے اشعار کے انتخاب کرنے کے مواقع فراہم کیے ہیں جو تاثر اور معنی آفرینی سے پر ہیں۔ اسی مضمون سے چند سطور جو خوابیدہ منظر کو بیدار کررہی ہیں۔
''زندگی ایک سفر کی مانند ہے ، دیکھا جائے تو انسان روز ازل سے ہی سفر میں ہے۔ باغ عدم سے چلا اور صحرائے ارض تک پہنچا۔ اسی طرح مظاہر قدرت بھی ہمیشہ سے گردش میں ہیں، چاند، سورج، ستارے ، سیارے اور کہکشائیں سب مسافرت میں مبتلا ہیں۔ پرندوں پر نظر ڈالیں تو ان کی اڑانیں بھی سفر کی علامت ہیں یعنی وہ بھی گردش میں ہیں اسی گردش میں انسان زندگی بھر مبتلا رہتا ہے اور یہ بھی سفر کا دوسرا روپ ہے۔ میر نے کہا تھا
آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا
اور بقول آتش
میری طرح سے مہ و مہر بھی ہیں آوارہؔ
کسی حبیب کی یہ بھی ہیں جستجو کرتے
''انور سدید بطور محقق'' کے عنوان سے ڈاکٹر انور سدید کی تحقیقی صلاحیتوں کے حوالے سے ڈاکٹر سکندر حیات میکن نے اپنی محنت و جستجو کی بدولت ایسا مضمون لکھ ڈالا ہے جس میں قاری کے لیے بہت سی معلومات کے در وا کیے ہیں، جن سے وہ پہلے واقف نہ تھا، اگر واقف تھا تو انداز تحریر اس کے دل و دماغ جگہ نہ بناسکی، جب کہ ڈاکٹر سکندر حیات میکن کا طرز تحریر دلکش اور جداگانہ ہے، ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ''یہ لازمی امر ہے کہ ادبی تاریخ و تحقیق کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
انور سدید کی تحقیقی انکشافات کیے ہیں اور اپنے گہرے مطالعہ کے ذریعے قارئین کو نئی نئی معلومات سے متعارف کرایا ہے۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر انور سدید نے خواجہ امان کو اردو داستان کا پہلا نقاد قرار دیا ہے۔ (2) شاہ مراد انصاری سنبھلی نے قرآن مجید کی پہلی اردو تفسیر مکمل کی (3) مولوی احمد دین کی کتاب ''سرگزشت الفاظ ان کی تحقیق کا گراں قدر نمونہ ہے (4) اردو گیت کی اولین صورتیں امیر خسرو کے ہاں نمایاں ہیں (5) ہائیکو کو اردو میں ظفر اقبال نے تراجم کے ذریعے رسالہ لیل و نہار میں متعارف کروایا، اردو میں عبدالمجید بھٹی نے ماہیا کو متعارف کروانے کی اولین کاوش کی۔
ڈاکٹر سکندر حیات میکن نے اردو ادب کی نابغۂ روزگار شخصیات پر بے حد موثر اور مدلل انداز میں روشنی ڈالی ہے، جو یقیناً قابل تعریف ہے۔ ڈاکٹر سکندر حیات میکن کی رواں سال میں شایع ہونے والی ایک اور کتاب اردو میں سوانحی تحقیق کے طور پر سامنے آئی ہے، بے حد اہمیت کی حامل ہے جو کہ ادب کے طلبہ کے لیے ایک بہترین تحفہ ہے۔ ڈاکٹر سکندر حیات میکن نے بلند قامت شعراء اور ادیبوں کی ادبی جہتوں اور شعری کاوشوں پر بحث کی ہے اور ان کے انداز فکر سے ندرت بیان اور سطور الفاظ کا ذخیرہ سامنے آیا ہے۔263 صفحات پر وقیع تحریر درج ہے۔
ڈاکٹر معین الدین عقیل نے اپنے ''مقدمہ'' میں لکھا ہے کہ ''اگر ہم اردو تحقیق کی روایت میں عمدہ سوانحی تحقیقات یا مطالعات کو اخذ کرنا چاہیں تو سکندر صاحب کا یہ مطالعہ و جائزہ ہماری مدد کرسکے گا۔ سکندر حیات صاحب کو تحقیق اور تحقیقی مطالعات سے خاص شغف ان کے اپنے لیے سندی تحقیق کے موضوع کے انتخاب سے ظاہر ہے جو انھوں نے قیام پاکستان کے بعد ادبی تحقیق کے مطالعہ کے لیے مخصوص رکھا۔ زیر نظر مطالعہ ان کے اپنے مضبوط تحقیقی مقالے کا ایک جزو ہے جو سوانحی مطالعات کے تعارف و جائزے پر مشتمل ہے۔'' سکندر حیات صاحب کا ذوق و شوق اور تحقیق اور اس کے موضوعات و مسائل سے ان کی دلچسپی آج یونیورسٹیوں میں قدرے کمیاب صفت ہے۔
(جاری ہے)
ڈاکٹر سکندر حیات میکن تحقیق و تنقید کے حوالے سے اپنا ایک نمایاں مقام بناچکے ہیں۔ حال ہی میں ان کی تازہ ترین تحریر ''اردو میں سوانحی تحقیق'' کے عنوان سے شایع ہوگئی ہے۔ اس کتاب سے قبل ایک اہم کتاب ''بحرادب کے دو شناور'' اشاعت کے مرحلے سے گزری اور ناقدین و قارئین سے داد و تحسین وصول کی۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے ''بحر ادب کے دو شناور'' ادب کی قدرآور شخصیات کی تخلیقی و تحقیقی امور کا احاطہ کرتی ہے۔
ڈاکٹر رشید امجد نے اپنی تحریر ''حرف آغاز'' میں لکھا ہے کہ ڈاکٹر سکندر حیات میکن کی کتاب بحرادب کے دوشناور اور اردو ادب کی دو اہم شخصیات ڈاکٹر وزیر آغا اور ڈاکٹر انور سدید کے بارے میں ہے، یہ دونوں صاحب طرز ادیب فکری ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ بہت سے ادبی نظریات میں اشتراک رکھتے ہیں۔
وزیر آغا کو مفکر ادب کہاگیا ہے جو بالکل درست ہے، وزیر آغا نے نہ صرف تخلیقی سطح پر بلکہ تنقیدی حوالوں سے بھی اردو ادب کو نئے فکری و فنی کمالات سے آشنا کیا ہے۔ یہ کتاب ''بحرادب کے دوشناور '' حوالے کا درجہ رکھتی ہے اور اردو اہم ترین تخلیق کاروں اور نقادوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اردو ادب کے قارئین خصوصاً جامعات کے طلبہ و طالبات کے لیے ایک جامع مطالعہ کا موقع فراہم کرتی ہے۔ ڈاکٹر سکندر حیات میکن کا انداز و اسلوب رواں اور دبیز ہے ، جملہ ادبی توانائیوں کے ساتھ ساتھ اس میں خود کو پڑھوانے کی خوبی ہے۔
ڈاکٹر سکندر حیات میکن نے ڈاکٹر وزیر آغا کے فن پر 9 مضامین اور ڈاکٹر انور سدید کے کے علمی و تحقیقی کاموں پر 7مضامین قلمبند کیے ہیں اور تنقیدی بصیرت کو بروئے کار لاتے ہوئے دونوں کے کاموں کا بھرپور طریقے سے احاطہ کیا ہے۔ اپنے ایک مضمون وزیر آغا کی غزل میں سفر کی علامت پر تجزیاتی انداز فکر کچھ اس انداز میں سامنے آیا ہے ''اردو غزل نے فارسی غزل کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ارتقاء کی منازل طے کی ہیں، فارسی شاعری میں غزل کا وجود بالکل نہیں تھا، دراصل غزلی قصیدے کا ابتدائی حصہ ( جسے نشیب کہتے ہیں) آج کی مروجہ غزل کی ہیئت میں پہلے سے موجود تھا جسے فارسی شعراء نے قصیدے سے اچک لیا اور یوں فارسی شاعری میں ''صنف غزل'' وجود میں آئی یہی صنف سبک خراسانی، سبک عراقی سے ہوتی ہوئی ہندی پہنچی، نیشا پور برصغیر میں آئے تو انھوں نے غزل میں نیا رنگ پیدا کیا، سبک ہندی کا سب سے بڑا خاصہ خیال بافی تھا۔ جسے مرزا غالب نے خوب خوب آزمایا یعنی پہلے مصرعے میں کوئی خیال ، کوئی مضمون باندھنا اور دوسرے میں اس کی تائید یا تردید کرنا جیسے:
ذکر اس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا
ہوگیا رقیب آخر جو تھا راز داں اپنا
ڈاکٹر سکندر حیات میکن نے ایک طرف تحقیق کا حق ادا کیا ہے تو دوسری طرف تخلیقات کے نت نئے پھول منظر نگاری کی شکل میں کھلائے ہیں وہ اچھے مبصر اور لفظوں سے بیل بوٹے بنانے کے فن میں یکتا نظر آتے ہیں۔ ان کی تحریروں میں ذہن کو بوجھل کرنے والی فضا کی بجائے ایسی تخلیقی نظر آتی ہے کہ قاری کی دلچسپی آگے کا سفر طے کرتی ہے۔ میں حیران ہوں کہ اتنی چھوٹی عمر میں وہ علم و ادب کے حوالے سے بڑے کام کررہے ہیں۔
سخن فہمی نے انھیں اپنے اشعار کے انتخاب کرنے کے مواقع فراہم کیے ہیں جو تاثر اور معنی آفرینی سے پر ہیں۔ اسی مضمون سے چند سطور جو خوابیدہ منظر کو بیدار کررہی ہیں۔
''زندگی ایک سفر کی مانند ہے ، دیکھا جائے تو انسان روز ازل سے ہی سفر میں ہے۔ باغ عدم سے چلا اور صحرائے ارض تک پہنچا۔ اسی طرح مظاہر قدرت بھی ہمیشہ سے گردش میں ہیں، چاند، سورج، ستارے ، سیارے اور کہکشائیں سب مسافرت میں مبتلا ہیں۔ پرندوں پر نظر ڈالیں تو ان کی اڑانیں بھی سفر کی علامت ہیں یعنی وہ بھی گردش میں ہیں اسی گردش میں انسان زندگی بھر مبتلا رہتا ہے اور یہ بھی سفر کا دوسرا روپ ہے۔ میر نے کہا تھا
آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
اسباب لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا
اور بقول آتش
میری طرح سے مہ و مہر بھی ہیں آوارہؔ
کسی حبیب کی یہ بھی ہیں جستجو کرتے
''انور سدید بطور محقق'' کے عنوان سے ڈاکٹر انور سدید کی تحقیقی صلاحیتوں کے حوالے سے ڈاکٹر سکندر حیات میکن نے اپنی محنت و جستجو کی بدولت ایسا مضمون لکھ ڈالا ہے جس میں قاری کے لیے بہت سی معلومات کے در وا کیے ہیں، جن سے وہ پہلے واقف نہ تھا، اگر واقف تھا تو انداز تحریر اس کے دل و دماغ جگہ نہ بناسکی، جب کہ ڈاکٹر سکندر حیات میکن کا طرز تحریر دلکش اور جداگانہ ہے، ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ''یہ لازمی امر ہے کہ ادبی تاریخ و تحقیق کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
انور سدید کی تحقیقی انکشافات کیے ہیں اور اپنے گہرے مطالعہ کے ذریعے قارئین کو نئی نئی معلومات سے متعارف کرایا ہے۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر انور سدید نے خواجہ امان کو اردو داستان کا پہلا نقاد قرار دیا ہے۔ (2) شاہ مراد انصاری سنبھلی نے قرآن مجید کی پہلی اردو تفسیر مکمل کی (3) مولوی احمد دین کی کتاب ''سرگزشت الفاظ ان کی تحقیق کا گراں قدر نمونہ ہے (4) اردو گیت کی اولین صورتیں امیر خسرو کے ہاں نمایاں ہیں (5) ہائیکو کو اردو میں ظفر اقبال نے تراجم کے ذریعے رسالہ لیل و نہار میں متعارف کروایا، اردو میں عبدالمجید بھٹی نے ماہیا کو متعارف کروانے کی اولین کاوش کی۔
ڈاکٹر سکندر حیات میکن نے اردو ادب کی نابغۂ روزگار شخصیات پر بے حد موثر اور مدلل انداز میں روشنی ڈالی ہے، جو یقیناً قابل تعریف ہے۔ ڈاکٹر سکندر حیات میکن کی رواں سال میں شایع ہونے والی ایک اور کتاب اردو میں سوانحی تحقیق کے طور پر سامنے آئی ہے، بے حد اہمیت کی حامل ہے جو کہ ادب کے طلبہ کے لیے ایک بہترین تحفہ ہے۔ ڈاکٹر سکندر حیات میکن نے بلند قامت شعراء اور ادیبوں کی ادبی جہتوں اور شعری کاوشوں پر بحث کی ہے اور ان کے انداز فکر سے ندرت بیان اور سطور الفاظ کا ذخیرہ سامنے آیا ہے۔263 صفحات پر وقیع تحریر درج ہے۔
ڈاکٹر معین الدین عقیل نے اپنے ''مقدمہ'' میں لکھا ہے کہ ''اگر ہم اردو تحقیق کی روایت میں عمدہ سوانحی تحقیقات یا مطالعات کو اخذ کرنا چاہیں تو سکندر صاحب کا یہ مطالعہ و جائزہ ہماری مدد کرسکے گا۔ سکندر حیات صاحب کو تحقیق اور تحقیقی مطالعات سے خاص شغف ان کے اپنے لیے سندی تحقیق کے موضوع کے انتخاب سے ظاہر ہے جو انھوں نے قیام پاکستان کے بعد ادبی تحقیق کے مطالعہ کے لیے مخصوص رکھا۔ زیر نظر مطالعہ ان کے اپنے مضبوط تحقیقی مقالے کا ایک جزو ہے جو سوانحی مطالعات کے تعارف و جائزے پر مشتمل ہے۔'' سکندر حیات صاحب کا ذوق و شوق اور تحقیق اور اس کے موضوعات و مسائل سے ان کی دلچسپی آج یونیورسٹیوں میں قدرے کمیاب صفت ہے۔
(جاری ہے)