پاکستانی معیشت کی انحطاط پذیری

مشکل سے مستحکم ہونے والی پاکستانی معیشت خطرات کی زد پر ہے


Zuber Rehman May 07, 2017
[email protected]

KARACHI: ہمارے حکمران دن و رات یہ کہہ رہے ہیں کہ چند برسوں میں پاکستان دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کے صف میں شامل ہوجائے گا، جب کہ آئی ایم ایف کے قرضوں پہ پالنے والا ادارہ ہمیں کہہ رہا ہے کہ ''پاکستانی معیشت خطرات کی زد پر ہے۔''

آئی ایم ایف کے نمایندے نے ایک بیان میں کہا کہ مشکل سے مستحکم ہونے والی پاکستانی معیشت خطرات کی زد پر ہے اور یہ خطرات توانائی، مالیات اوربیرونی ادائیگیوں کے شعبوں کو درپیش ہیں۔ آئی ایم ایف، پاکستان مشن کے سربراہ کے بیان نے معاشی احیا کے حکومتی دعوؤں کی قلعی کھول دی ہے۔ ادارے نے کہا ہے کہ پاکستان کی معاشی نموکی شرح پانچ فیصد رہی جوکہ اپنے طے کردہ ہدف پانچ عشاریہ سات فیصد سے کم ہے۔

عالمی مالیاتی ادارے نے پہلی باریہ اعتراف بھی کیا ہے کہ بیرونی ادائیگیوں اور بیرونی ملک سے ہونے والی وصولیوں کا فرق خام قومی پیداوارکے ایک عشاریہ پانچ فیصد کے ابتدائی تخمینے سے تقریبا دگنا ہوسکتا ہے ۔ پاکستان تو یہ ویسے تسلیم کرچکا ہے کہ بجٹ خسارے کو مجموعی قومی پیداوارکے تین عشاریہ آٹھ فیصد پر لانے کا ہدف حاصل نہیں ہوسکے گا اور یہ خسارہ موجودہ مالی سال کے آخر تک دوعشاریہ نوفیصد رہے گا۔آئی ایم ایف نے یہ بیان پاکستانی اقتصادی وفد سے ہفتہ بھرمذاکرات کے بعد جاری کیا ہے۔

آرٹیکل چارکے تحت ہونے والے ان مذاکرات میں پاکستانی وفد کی قیادت وزیرخزانہ اسحق ڈارکررہے تھے جب کہ ان کے ساتھ گورنراسٹیٹ بینک آف پاکستان بھی موجود تھے ۔آئی ایم ایف مشن کے سربراہ ہیرالڈ فنکر نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ مالیاتی حوالے سے بیرونی ادائیگیوں کے حوالے سے اور توانائی کے شعبے کے اثرات بڑی مشکل سے حاصل کیے گئے۔

فنکر نے مزید کہا کہ آیندہ پالیسیوں کا مرکز مشکل سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ خسارے کا مطلب یہ ہوگا کہ بیرونی ملک سے پہلے سے زیادہ مہنگے قرضے لیے جائیں گے ۔ رواں مالی سال کی فنانسنک کی ضرورت کا تخمینہ گیارہ ارب ڈالر لگایا تھا لیکن آزاد اقتصادی ماہرین کے مطابق اب یوں لگتا ہے کہ یہ اعدادوشمارکم ازکم چار ارب ڈالرکم کرکے بنائے گئے تھے۔

مالی سال کے پہلے سات ماہ میں پاکستان نے کرنٹ اکاؤنٹ کے خسارے کے لیے پانچ سوسینتالیس ارب ڈالرکا انتظام کیا تھا جو کہ جی ڈی پی کے چھبیس فیصدکے برابر تھی۔ گزشتہ چار برس کے دوران حکومت اپنے آپ کو اقتصادی محاذ پر فاتح قراردیتی رہی اوراس کا دعوی رہا ہے کہ ملک میں غیرملکی زرمبادلہ کے ذخائر بڑھ رہے ہیں لیکن وفاقی وزارت خزانہ کے مطابق یہ بہت کچھ مہنگے بیرونی قرضے لے کرکیا گیا اور اس کے علاوہ بجٹ خسارہ ، بجٹ کے باہرکے مسائل کو شامل کر کے کم کیا گیا۔

آئی ایم ایف نے مزید کہا کہ بڑے پیمانے کی مینیو فیکچرنگ کی نمومیں اضافہ توقع سے کم رہا ہے اور اسی طرح بر آمدات بھی ایک سطح پر ٹہھری ہوئی ہے جس پر نمو کے امکا نات پر برے اثرات پڑرہے ہیں۔آئی ایم ایف کے نمایندے نے کہا کہ توانائی کے شعبے کا گردشی قرضہ تین سو چھیاسی ارب روپے پر پہنچ گیا ہے اور اس کا اعتراف تو خود وزیرپانی وبجلی بھی کرچکے ہیں ۔اس سے قبل اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر نے بھی مہنگائی میں اضافے اور تجارتی خسارے کا برملا اظہارکرچکا ہے۔ تجارتی خسارہ سب سے زیادہ چین سے ہورہا ہے۔

رواں سال قرضوں کا حجم اکیس ہزار چارسو اکہتر ارب رو پے تک پہنچ جائے گا۔ آئی ایم ایف کے مطابق مہنگائی کی شرح چارعشاریہ دوفیصد ، بے روزگاری کی شرح چھ فیصد ہوگی ۔ برآمدات میں تین عشاریہ تین فیصدکمی ہوگی، اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ جی ڈی پی کا انتیس فیصد ہوگا۔ جولائی تا مارچ دوہزارسترہ ادائیگیوں کا توازن منفی چھ ارب ڈالر سے بھی تجاوز، بحران کا خدشہ، نو ماہ کے دوران پاکستان کے جاری کھاتے کو چھ ارب تیرہ کروڑ ڈالر خسارہ کا سامنا ہے۔ صرف جنوری تا مارچ دوہزار سترہ سہ ماہی کے دوران جاری کھا تے کو درپیش خسارے میں دو ارب اٹھاون کروڑ ساٹھ لاکھ ڈالرکا اضافہ ہوا ہے۔گرتی

ہوئی برآمدات کی وجہ سے نو ماہ کے دوران بیرونی تجارت سترہ عشاریہ سات سو بیاسی ارب ڈالرخسارے کا سامنا کرنا پڑا۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے ایک اور تازہ ترین جاری کردہ اعدادو شمارکے مطابق چودہ اپریل کو ختم ہو نے والے ہفتے میں زرمبادلے کے ذخائراکیس ارب چھپن کروڑاکیا سی لاکھ ڈالرکمی سے سولہ ارب اکتالیس کروڑ اکسٹھ لا کھ ڈالر جب کہ کمرشل بینکوں کے ذخائر نوکروڑ اکسٹھ لاکھ ڈالراضافے سے پانچ ارب پندرہ کروڑ بیس لاکھ ڈالرکی سطح پر ریکارڈ کیے گئے۔

اگر یہ سارے ادارے قومی ملکیت میں ہوتے اوران منافعوں کو عوام کی بھلائی، بیروزگاری کے خاتمے، علاج کے لیے اورکارخانے قائم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا تو ملک سے ایک حدتک عوام کو فائدہ پہنچتا۔ یہ رہی پاکستانی معیشت کی حالت۔

عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ بننے سے یہی صورتحال بنتی ہے، سعودی عرب جوکہ دنیا میں تیل پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے، یہاں ساڑھے بارہ فیصد لوگ بے روزگار ہیں (سرکاری اعدادوشمارکے مطابق) جب کہ دس ہزار کمروں پر مشتمل دنیا کے سب سے بڑے ہوٹل کی تعمیرہورہی ہے ، یہ ہوٹل چار لاکھ اسکوائرمیٹر پر پھیلا ہوا ہوگا، پینتیس ارب ڈالر سے تعمیرکی گئی پانچ منزلیں صرف سعودی شاہی خاندان کے لیے مخصوص ہوں گی۔

اس صورتحال میں آیندہ فرانس اور برطانیہ کے انتخابات بڑی اہمیت کے حامل ہونگے،اس لیے بھی کہ برطانیہ کی حزب اختلاف لیبر پارٹی کا لیڈر سوشلسٹ ہے ، ویسے تو ترکی کے حالیہ آمرانہ طرزکے ریفرنڈم میں د ھاندلی کے ذریعے وہ بھی صرف اکاون فیصد ووٹ لے کر صدارتی نظام کی یکطرفہ نفاذ کو بائیں بازوکی حزب اختلاف نے سپریم کورٹ میں چیلینج کردیا ہے ۔ اگر را حیل شریف یمن کے عوام پرسعودی بمباری کو رکوا سکیں تو ایک معجزہ ہوگا۔

ادھر جنوبی کوریا کی جانب سے امریکی بیڑے کی روانگی کے ساتھ ساتھ شمالی کوریا کی جانب روسی بیڑے کی روانگی اورسیکیورٹی کونسل میں شمالی کوریا کے مسئلے پر روس کا ویٹو ایک تیسری عالمی جنگ کے ابتدا کی جھلک پیش کرتے ہوئے نظرآرہے ہیں۔

پاکستان کی انحطاط پزیرمعیشت کو بحال کرنے، مہنگائی اور بے روزگاری کے خاتمے کے لیے حزب اختلاف کی پارٹیوں کو تحریک چلانے کی بجائے پانامہ ایشو پرمہم چلاکر عوام کوگمراہ کیا جا رہا ہے۔ بہرحال آیندہ عوام کا انقلابی ریلا تمام رکاوٹوں کو خس وخاشاک کی طرح بہالے جائے گا اور جلد ایسا انقلاب برپا ہوگا جوکمیو نسٹ سماج کے قیام کی جا نب پیش قدمی کرے گا ، پھرکوئی ارب پتی ہوگا اورنہ کوئی گدا گر۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں