شورش زدہ افغانستان بھارت کے لیے جنت دل پذیر
افغانستان پر امریکی حملے سے قبل جنوبی ایشیا میں ہماری معیشت سب سے زیادہ مستحکم تھی
امریکی حکومت نے پاکستان پر زوردیا ہے کہ وہ افغانستان میں قیام امن کے لیے افغان حکومت کی مدد کرے تاکہ افغانستان سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوسکے۔ یہ بیان حقیقتاً افغانستان کے معاملے میں امریکا کی بے بسی، لاچاری اور پریشانی کو ظاہر کرتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ جب امریکا کو پہلے سے پتا تھا کہ افغانستان میں کوئی بھی غیر ملکی حملہ آور زیادہ عرصے نہیں ٹک سکا جس کی مثال اپنے زمانوں کی سپرپاورز برطانیہ اور روس سے دی جاسکتی ہے تو سب کچھ جانتے بوجھتے غلطی کیوں کی گئی۔
پھر یہ کیا مذاق ہے کہ ایک طرف پاکستان کو افغانستان میں دہشت گردی ختم کرنے کے لیے پکارا جا رہا ہے تو دوسری جانب پاکستان کو ہی وہاں دہشت گردی پھیلانے کا ذمے دار قرار دیا جاتا ہے پھرافغانستان میں امن قائم کرنا پاکستان کی کیسے ذمے داری بن گئی؟ کیا افغان طالبان سے پاکستان نے چھیڑچھاڑکی تھی اور ان کے ملک پر قبضہ کرکے انھیں برانگیختہ کیا تھا؟ افغان حملے کے چکر میں پھنس کر تو پاکستان تباہ وبرباد ہوچکا ہے وہاں کی ساری گند پاکستان پر آکرگری ہے جسے صاف کرنے میں ابھی تک پاکستان جٹا ہوا ہے۔
امریکی حکمران شروع سے ہی پاکستان پر ڈومور کے کوڑے برسا رہے ہیں اور پاکستان ان کے حکم کی تعمیل میں مسلسل اپنا نقصان کرتا چلا آرہا ہے۔ امریکا کی ہی وجہ سے پاکستان کو طالبان سے دشمنی مول لینا پڑی اورانھوں نے ہمارے اپنے قبائلیوں کو بھی طالبان بنا ڈالا اور پھر ان دونوں نے مل کر ملک میں وہ تباہی مچائی کہ جس کی دنیا میں مثال نہیں ملتی۔یہ سب ہمیں امریکا کی دوستی میں برداشت کرنا پڑا اور اس کے باوجود ہمیں بے وفا کہا جاتا ہے جب کہ اصل بے وفا امریکی خود ہیں۔ افغان جنگ میں ہماری معیشت کا بھٹہ بیٹھ گیا۔
افغانستان پر امریکی حملے سے قبل جنوبی ایشیا میں ہماری معیشت سب سے زیادہ مستحکم تھی۔اب وہ خطے کے سب سے کمزور ترین ملک بنگلہ دیش سے بھی پیچھے آگئی ہے۔ اس جنگ میں ہماری بے لوث خدمات کے صلے میں امریکا ہمیں جو رقم دیتا رہا ہے وہ ہمارے لیے اونٹ کے منہ میں زیرے کی حیثیت رکھتی ہے لیکن وہ اس پر اتنا احسان جتاتا ہے کہ جیسے ان چند سکوں سے ہمارا پورا ملک چل رہا ہے۔
افغان جنگ کی وجہ سے ہی ہمارے ملک میں منشیات سے لے کر اسلحے کی فراوانی ہوئی۔ قتل وغارت گری کا بازار گرم ہوا، پورا ملک بدامنی کا شکار ہوگیا۔ایسے میں ہمارے دشمن نے خوب فائدہ اٹھایا۔ اس نے اپنے ''را'' کے اہلکاروں کو جوق در جوق ہمارے ملک میں داخل کرایا، ہمارے مقامی لوگوں کو لالچ دے کر اپنا ہمنوا بنایا اوران کی مدد سے ملک میں بدامنی عروج پر پہنچا دی۔ ایسے مقامی بھارتی ایجنٹ بلوچستان سے لے کرکراچی تک پھیلا دیے گئے۔
بلوچستان کو علیحدگی کے راستے پر ڈالنے کی کوشش کی گئی اورکراچی جو پاکستان کا معاشی حب ہے اسے ہنگاموں، فساد، جلاؤ گھیراؤاور ہڑتالوں کی نذر کرا دیا گیا ہے۔ خیر سے پاکستان کو تو ہماری بہادر افواج نے ''را'' اور اس کے ایجنٹوں سے پاک کردیا ہے اور ملک میں بڑی حد تک امن قائم ہوگیا ہے مگر افغانستان کا حال تو پہلے سے بھی بدتر ہوگیا ہے۔ وہاں افغان حکومت کا پتا ہی نہیں چلتا کہ وہ کہاں ہے؟ طالبان دھڑلے سے اپنا کام کررہے ہیں۔افغان فوج ان کا مقابلہ کیا کرتی ان کے مقابلے سے ہی کتراتی ہے۔آج افغانستان کے ساٹھ فیصد حصے پر طالبان کا کنٹرول بتایا جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر افغان حکومت کیا کررہی ہے؟ اس کی کیا ذمے داریاں ہیں؟ آیا اس کا کام طالبان کو شکست دے کر ملک میں امن وامان قائم کرنا ہے یا صرف بھارت کی خدمت گزاری کرنا اور اس کی پاکستان دشمنی میں اس کا ساتھ دے کر پاکستان کے لیے نئی نئی مشکلات پیدا کرنا؟ حقیقت یہ ہے کہ کرزئی سے لے کر اشرف غنی تک دونوں حکومتیں افغانستان میں امن و امان بحال کرنے کے بجائے وہاں کے حالات کو مزید بگاڑنے پرکمر بستہ ہیں۔ لگتا ہے یہ کام انھیں امریکی حکمرانوں نے ہی سونپا ہے۔
افغان حکومتوں کو پاکستان دشمن ٹاسک دینے والی اصل میں سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن بتائی جاتی ہیں۔ وہ بھارت کی دوست ہی نہیں سرپرست اعلیٰ بنی ہوئی ہیں شاید اس لیے کہ بھارت کلنٹن فاؤنڈیشن کو دنیا میں سب سے زیادہ چندہ جو مہیا کرتا ہے۔ ہیلری کلنٹن نے بھارت کو عالمی برادری میں اعلیٰ مقام دلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان ہی کی بھارت نواز پالیسیوں پر چل کر افغان حکمران بھارت کے لیے ہر وقت چشم براہ ہیں۔ وہ ادھر پاکستان کو ڈو مور کا ڈکٹیشن دیتی رہیں اور ادھر بھارت کو افغانستان میں پاکستان مخالف سرگرمیوں کو فروغ دینے میں خاموش مددگار بنی رہیں۔
ممبئی کے جھوٹے حملوں کو ہیلری کلنٹن نے ہی اس وقت کے پاکستانی قائدین پر زبردستی دباؤ ڈال کر اسے پاکستانی نوجوانوں کی کارروائی تسلیم کروایا تھا جب کہ یہ بات اب پوری دنیا پر آشکار ہوچکی ہے کہ یہ حملے ڈیوڈ ہیڈلی نے کرائے تھے اس نے خود اس کارروائی کا بار بار اعتراف کیا تھا۔ افغانستان میں پاکستانی سرحد سے ملحق درجنوں نام نہاد بھارتی قونصل خانے قائم کرانے کی ذمے دار بھی ہیلری کلنٹن کو قرار دیا جاتا ہے۔ یہاں ''را'' اور افغان خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار افغان نوجوانوں کو پاکستان میں تخریب کاری کی تربیت دیتے ہیں۔
افسوس تو اس امر پر ہے کہ ہماری حکومتیں بھی اتنی کمزور ہیں کہ وہ ان تخریبی اڈوں کو بند کرانے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ وہ تو امریکی ووٹرز نے بڑا کرم کیا کہ ہیلری کلنٹن صدارتی الیکشن ہار گئیں اگر جیت جاتیں تو وہ پہلی فرصت میں پاکستان کو دہشت گرد ملک ڈکلیئر کرا کے دم لیتیں۔ خیر سے اوبامہ کا دور اب لد چکا ہے۔ اب امریکا کی صدارت ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس ہے۔ ٹرمپ کو ہرانے کے لیے اوباما نے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا تھا۔
دراصل وہ چاہتے تھے کہ کسی طرح ہیلری جیت جائیں تاکہ ان کی اپنی بیوی کے لیے بھی صدارت کا راستہ صاف ہوجائے مگر ان کے منصوبے خواب و خیال بن کر رہ گئے۔ صدر ٹرمپ کے بارے میں راقم نے ہمیشہ اچھے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اب یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ امریکی کانگریس اور سینیٹ میں بھارت نوازوں کی بھرمار ہوتے ہوئے صدر ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر بھارت اور پاکستان کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی ہے۔
اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ کشمیریوں پر طویل بھارتی ظلم و بربریت سے سخت صدمے میں ہیں اور کشمیریوں کو سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق آزادی دلانا چاہتے ہیں انھوں نے مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کے لیے بھی محمود عباس کو واشنگٹن طلب کرلیا ہے وہ دراصل قوموں کی آزادی کے حق میں ہونے کے ساتھ ساتھ اقوام کو ایک بااعتبار ادارہ بنانا چاہتے ہیں۔ دراصل بھارت اور اسرائیل نے سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل نہ کرکے اقوام متحدہ کی ساکھ کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ پوری امید کی جاسکتی ہے کہ صدر ٹرمپ کے دور میں ہی مسئلہ کشمیر اور فلسطین حل ہوکر رہیں گے۔
جہاں تک افغانستان کا معاملہ ہے دراصل اوباما کے دور میں وہاں کے حالات بہت بگڑ چکے ہیں پورے افغانستان کو بھارت کے حوالے کردیا گیا ہے۔ وہاں دہشت گردی کو ختم کرنے پر توجہ دینے کے بجائے پوری افغان قیادت اور وہاں متعین امریکی حکام بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کو نشانہ بنانے میں لگے ہوئے ہیں وہاں جو بھی دہشت گردی ہوتی ہے افغان قیادت اسے پاکستان کے کھاتے میں ڈال کر اپنی کوتاہی سے دامن صاف کرلیتی ہے۔
افغان مسئلے کے حل میں افغان اور امریکی حکومتوں کی عدم توجہی کی وجہ سے ہی روس کو اس مسئلے کو حل کرانے کے لیے آگے آنا پڑا ہے جس پر امریکا کا سیخ پا ہونا سمجھ سے باہر ہے۔ بہرحال اب وقت آگیا ہے کہ صدر ٹرمپ خود اس مسئلے کو ڈیل کریں ورنہ بھارت پاکستان دشمنی میں وہاں قیامت تک امن قائم نہیں ہونے دے گا۔
پھر یہ کیا مذاق ہے کہ ایک طرف پاکستان کو افغانستان میں دہشت گردی ختم کرنے کے لیے پکارا جا رہا ہے تو دوسری جانب پاکستان کو ہی وہاں دہشت گردی پھیلانے کا ذمے دار قرار دیا جاتا ہے پھرافغانستان میں امن قائم کرنا پاکستان کی کیسے ذمے داری بن گئی؟ کیا افغان طالبان سے پاکستان نے چھیڑچھاڑکی تھی اور ان کے ملک پر قبضہ کرکے انھیں برانگیختہ کیا تھا؟ افغان حملے کے چکر میں پھنس کر تو پاکستان تباہ وبرباد ہوچکا ہے وہاں کی ساری گند پاکستان پر آکرگری ہے جسے صاف کرنے میں ابھی تک پاکستان جٹا ہوا ہے۔
امریکی حکمران شروع سے ہی پاکستان پر ڈومور کے کوڑے برسا رہے ہیں اور پاکستان ان کے حکم کی تعمیل میں مسلسل اپنا نقصان کرتا چلا آرہا ہے۔ امریکا کی ہی وجہ سے پاکستان کو طالبان سے دشمنی مول لینا پڑی اورانھوں نے ہمارے اپنے قبائلیوں کو بھی طالبان بنا ڈالا اور پھر ان دونوں نے مل کر ملک میں وہ تباہی مچائی کہ جس کی دنیا میں مثال نہیں ملتی۔یہ سب ہمیں امریکا کی دوستی میں برداشت کرنا پڑا اور اس کے باوجود ہمیں بے وفا کہا جاتا ہے جب کہ اصل بے وفا امریکی خود ہیں۔ افغان جنگ میں ہماری معیشت کا بھٹہ بیٹھ گیا۔
افغانستان پر امریکی حملے سے قبل جنوبی ایشیا میں ہماری معیشت سب سے زیادہ مستحکم تھی۔اب وہ خطے کے سب سے کمزور ترین ملک بنگلہ دیش سے بھی پیچھے آگئی ہے۔ اس جنگ میں ہماری بے لوث خدمات کے صلے میں امریکا ہمیں جو رقم دیتا رہا ہے وہ ہمارے لیے اونٹ کے منہ میں زیرے کی حیثیت رکھتی ہے لیکن وہ اس پر اتنا احسان جتاتا ہے کہ جیسے ان چند سکوں سے ہمارا پورا ملک چل رہا ہے۔
افغان جنگ کی وجہ سے ہی ہمارے ملک میں منشیات سے لے کر اسلحے کی فراوانی ہوئی۔ قتل وغارت گری کا بازار گرم ہوا، پورا ملک بدامنی کا شکار ہوگیا۔ایسے میں ہمارے دشمن نے خوب فائدہ اٹھایا۔ اس نے اپنے ''را'' کے اہلکاروں کو جوق در جوق ہمارے ملک میں داخل کرایا، ہمارے مقامی لوگوں کو لالچ دے کر اپنا ہمنوا بنایا اوران کی مدد سے ملک میں بدامنی عروج پر پہنچا دی۔ ایسے مقامی بھارتی ایجنٹ بلوچستان سے لے کرکراچی تک پھیلا دیے گئے۔
بلوچستان کو علیحدگی کے راستے پر ڈالنے کی کوشش کی گئی اورکراچی جو پاکستان کا معاشی حب ہے اسے ہنگاموں، فساد، جلاؤ گھیراؤاور ہڑتالوں کی نذر کرا دیا گیا ہے۔ خیر سے پاکستان کو تو ہماری بہادر افواج نے ''را'' اور اس کے ایجنٹوں سے پاک کردیا ہے اور ملک میں بڑی حد تک امن قائم ہوگیا ہے مگر افغانستان کا حال تو پہلے سے بھی بدتر ہوگیا ہے۔ وہاں افغان حکومت کا پتا ہی نہیں چلتا کہ وہ کہاں ہے؟ طالبان دھڑلے سے اپنا کام کررہے ہیں۔افغان فوج ان کا مقابلہ کیا کرتی ان کے مقابلے سے ہی کتراتی ہے۔آج افغانستان کے ساٹھ فیصد حصے پر طالبان کا کنٹرول بتایا جاتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ آخر افغان حکومت کیا کررہی ہے؟ اس کی کیا ذمے داریاں ہیں؟ آیا اس کا کام طالبان کو شکست دے کر ملک میں امن وامان قائم کرنا ہے یا صرف بھارت کی خدمت گزاری کرنا اور اس کی پاکستان دشمنی میں اس کا ساتھ دے کر پاکستان کے لیے نئی نئی مشکلات پیدا کرنا؟ حقیقت یہ ہے کہ کرزئی سے لے کر اشرف غنی تک دونوں حکومتیں افغانستان میں امن و امان بحال کرنے کے بجائے وہاں کے حالات کو مزید بگاڑنے پرکمر بستہ ہیں۔ لگتا ہے یہ کام انھیں امریکی حکمرانوں نے ہی سونپا ہے۔
افغان حکومتوں کو پاکستان دشمن ٹاسک دینے والی اصل میں سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن بتائی جاتی ہیں۔ وہ بھارت کی دوست ہی نہیں سرپرست اعلیٰ بنی ہوئی ہیں شاید اس لیے کہ بھارت کلنٹن فاؤنڈیشن کو دنیا میں سب سے زیادہ چندہ جو مہیا کرتا ہے۔ ہیلری کلنٹن نے بھارت کو عالمی برادری میں اعلیٰ مقام دلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان ہی کی بھارت نواز پالیسیوں پر چل کر افغان حکمران بھارت کے لیے ہر وقت چشم براہ ہیں۔ وہ ادھر پاکستان کو ڈو مور کا ڈکٹیشن دیتی رہیں اور ادھر بھارت کو افغانستان میں پاکستان مخالف سرگرمیوں کو فروغ دینے میں خاموش مددگار بنی رہیں۔
ممبئی کے جھوٹے حملوں کو ہیلری کلنٹن نے ہی اس وقت کے پاکستانی قائدین پر زبردستی دباؤ ڈال کر اسے پاکستانی نوجوانوں کی کارروائی تسلیم کروایا تھا جب کہ یہ بات اب پوری دنیا پر آشکار ہوچکی ہے کہ یہ حملے ڈیوڈ ہیڈلی نے کرائے تھے اس نے خود اس کارروائی کا بار بار اعتراف کیا تھا۔ افغانستان میں پاکستانی سرحد سے ملحق درجنوں نام نہاد بھارتی قونصل خانے قائم کرانے کی ذمے دار بھی ہیلری کلنٹن کو قرار دیا جاتا ہے۔ یہاں ''را'' اور افغان خفیہ ایجنسیوں کے اہلکار افغان نوجوانوں کو پاکستان میں تخریب کاری کی تربیت دیتے ہیں۔
افسوس تو اس امر پر ہے کہ ہماری حکومتیں بھی اتنی کمزور ہیں کہ وہ ان تخریبی اڈوں کو بند کرانے میں کامیاب نہ ہوسکیں۔ وہ تو امریکی ووٹرز نے بڑا کرم کیا کہ ہیلری کلنٹن صدارتی الیکشن ہار گئیں اگر جیت جاتیں تو وہ پہلی فرصت میں پاکستان کو دہشت گرد ملک ڈکلیئر کرا کے دم لیتیں۔ خیر سے اوبامہ کا دور اب لد چکا ہے۔ اب امریکا کی صدارت ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس ہے۔ ٹرمپ کو ہرانے کے لیے اوباما نے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا تھا۔
دراصل وہ چاہتے تھے کہ کسی طرح ہیلری جیت جائیں تاکہ ان کی اپنی بیوی کے لیے بھی صدارت کا راستہ صاف ہوجائے مگر ان کے منصوبے خواب و خیال بن کر رہ گئے۔ صدر ٹرمپ کے بارے میں راقم نے ہمیشہ اچھے خیالات کا اظہار کیا ہے۔ اب یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ امریکی کانگریس اور سینیٹ میں بھارت نوازوں کی بھرمار ہوتے ہوئے صدر ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر بھارت اور پاکستان کے درمیان ثالثی کی پیشکش کی ہے۔
اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ کشمیریوں پر طویل بھارتی ظلم و بربریت سے سخت صدمے میں ہیں اور کشمیریوں کو سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق آزادی دلانا چاہتے ہیں انھوں نے مسئلہ فلسطین کو حل کرنے کے لیے بھی محمود عباس کو واشنگٹن طلب کرلیا ہے وہ دراصل قوموں کی آزادی کے حق میں ہونے کے ساتھ ساتھ اقوام کو ایک بااعتبار ادارہ بنانا چاہتے ہیں۔ دراصل بھارت اور اسرائیل نے سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل نہ کرکے اقوام متحدہ کی ساکھ کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ پوری امید کی جاسکتی ہے کہ صدر ٹرمپ کے دور میں ہی مسئلہ کشمیر اور فلسطین حل ہوکر رہیں گے۔
جہاں تک افغانستان کا معاملہ ہے دراصل اوباما کے دور میں وہاں کے حالات بہت بگڑ چکے ہیں پورے افغانستان کو بھارت کے حوالے کردیا گیا ہے۔ وہاں دہشت گردی کو ختم کرنے پر توجہ دینے کے بجائے پوری افغان قیادت اور وہاں متعین امریکی حکام بھارت کے ساتھ مل کر پاکستان کو نشانہ بنانے میں لگے ہوئے ہیں وہاں جو بھی دہشت گردی ہوتی ہے افغان قیادت اسے پاکستان کے کھاتے میں ڈال کر اپنی کوتاہی سے دامن صاف کرلیتی ہے۔
افغان مسئلے کے حل میں افغان اور امریکی حکومتوں کی عدم توجہی کی وجہ سے ہی روس کو اس مسئلے کو حل کرانے کے لیے آگے آنا پڑا ہے جس پر امریکا کا سیخ پا ہونا سمجھ سے باہر ہے۔ بہرحال اب وقت آگیا ہے کہ صدر ٹرمپ خود اس مسئلے کو ڈیل کریں ورنہ بھارت پاکستان دشمنی میں وہاں قیامت تک امن قائم نہیں ہونے دے گا۔