خوش گوار سیاسی تبدیلی

انتخابی سرگرمیاں مختلف خدشات، قیاس آرائیوں اور سوگ کی زد میں۔

انتخابی سرگرمیاں مختلف خدشات، قیاس آرائیوں اور سوگ کی زد میں۔ فوٹو : فائل

سیاست کے میدان میں پچھلے چند ہفتوں سے بے یقینی کا رنگ، مختلف خدشات اور قیاس آرائیوں کی گرد اُڑنے کے ساتھ ساتھ احتجاج، مطالبات کی گونج اور سوگ کی کیفیت پائی جاتی ہے، جس نے عام انتخابات کے لیے تیاریوں کو کہیں پیچھے دھکیل دیا ہے۔

سیاسی جماعتوں کی مرکزی اور مقامی قیادتیں عوامی جلسوں سے خطاب، کارکنوں سے ملاقاتوں، تنظیمی سرگرمیوں کا دائرہ بڑھانے کی کوششوں اور اس سے جڑے دیگر معاملات پر توجہ دینے کے بجائے سیاسی صلاح و مشورے، اہم نوعیت کے فیصلوں اور الزمات کی سیاست میں مصروف ہیں۔

گذشتہ ہفتے کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ کے رکن سندھ اسمبلی منظر امام اور ان کے محافظوں کی شہادت کا افسوس ناک واقعہ پیش آیا، جس پر ایم کیو ایم کی طرف سے تین روزہ سوگ کا منایا گیا، جمعے کے دن شہر بھر میں کاروبارِ زندگی معطل رہا، ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی نے پُرامن طریقے سے سوگ منانے کے لیے اپنے کارکنوں اور ہم دردوں سے اپیل کرتے ہوئے کہا کہ اپنے بازؤں پر سیاہ پٹیاں باندھیں اور شہداء کے لیے فاتحہ خوانی کریں۔

شہید منظر امام 2008 کے انتخابات میں اورنگی ٹاؤن کے صوبائی حلقۂ انتخاب 95 سے رکن اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔ دو ہزار دس میں صوبائی حلقہ 94 پر ایم کیو ایم کے ایک اور منتخب راہ نما سید رضا حیدر بھی دہشت گردوں کی فائرنگ سے جاں بحق ہو گئے تھے۔ دہشت گردی کے حالیہ واقعے کے بعد ایم کیو ایم کے راہ نماؤں کا کہنا تھا کہ ایم کیوایم کے سیکڑوں عہدے دار اورکارکنوں کو اسی طرح شہید کیا جا چکا ہے، لیکن افسوس ناک امر یہ ہے کہ ان کے قاتل آج تک گرفتار نہیں کیے جاسکے، شہر میں فرقہ وارانہ قتل کی وارداتیں تسلسل کے ساتھ ہو رہی ہیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی ایک سوال بنی ہوئی ہے۔ رابطہ کمیٹی کی طرف سے کہا گیا کہ منظر امام کی شہادت سے ان کی جماعت انتہائی سرگرم، محنتی، سینئر کارکن اور عوام میں مقبول رکن سندھ اسمبلی سے محر وم ہوگئی ہے۔

ایم کیو ایم نے شہرکے امن اور استحکام کی خاطر اپنے کارکنوں کے جنازے اٹھاکر بھی صبروتحمل کامظاہرہ کیا ہے اور آج بھی اپنے کارکنان اور عوام کو صبرکی تلقین کررہی ہے۔ دہشت گرد عناصر اس قسم کی کارروائیوں سے نہ تو ہمارے حوصلے پست کرسکتے ہیں اور نہ ہی ایم کیو ایم کو اپنے مشن اور مقصد سے روک سکتے ہیں، ایم کیو ایم کے کارکنان قائد تحریک الطاف حسین کی قیادت میں اپنی حق پرستانہ جدوجہد جاری رکھیں گے۔ رابطہ کمیٹی نے صدر، وزیر اعظم اور ارباب اختیار سے مطالبہ کیاکہ وہ اس واقعے کی اعلیٰ سطحی تحقیقات کروائیں اور قاتلوں کو گرفتار کر کے سخت سزا دلوانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ منظر امام اور دیگر کے قتل پر پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، فنکشنل مسلم لیگ، اے این پی، پاکستان مسلم لیگ اور دیگر جماعتوں کے راہ نماؤں کی طرف سے گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے قاتلوں کی گرفتاری کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف اور عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ اسفند یار ولی نے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان سے ٹیلی فون پر تعزیت اور دہشت گردی کے واقعات کی مذمت کی اور دہشت گردوں کے خلاف سرگرمِ عمل رہنے کے عزم کا اظہار کیا۔ پیپلزپارٹی کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری اطلاعات اور صوبائی وزیر شرجیل انعام میمن، جماعت اسلامی کے راہ نما معراج الہدی صدیقی، اے این پی کے شاہی سید، مسلم لیگ فنکشنل کے راہ نما امتیاز احمد شیخ ، کامران ٹیسوری، ن لیگ (سندھ) کے سیکریٹری اطلاعات علی اکبر گجر، آل پاکستان مسلم لیگ (سندھ) کے چیف آرگنائزر سردار غلام مصطفی خاصخیلی، سیکریٹری جنرل سندھ شاہد قریشی اور دیگر سیاسی شخصیات نے اپنے تعزیتی پیغامات کے ساتھ حکومت سے قاتلوں کی فوری گرفتاری کا مطالبہ کیا۔

شہید حق پرست رکن صوبائی اسمبلی منظر امام، عمران خان، عمران مراد اور ساجد احمد کی یاد میں اتوار کی شب ملک بھر میں دعائیہ اجتماعات بھی منعقد ہوئے۔ اس سلسلے میں مرکزی اجتماع کراچی میں ایم کیوایم کے مرکز نائن زیرو پر منعقد ہوا، جس میں شرکاء نے شہداء کی یاد میں شمعیں روشن کیں، اس موقع پر ان کے درجات کی بلندی اور سوگواروں کے لیے صبر جمیل کی دعا کی گئی۔ دعائیہ اجتماع میں ایم کیوایم کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر فاروق ستار، انیس احمد قائم خانی، ڈاکٹر نصرت، اراکین رابطہ کمیٹی، ایم کیوایم کے راہ نما عامر خان، حق پرست سینیٹرز، وزراء، اراکین اسمبلی کے علاوہ عوامی نیشنل پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ(ق)، پاکستان تحریک انصاف، عوامی تحریک اور منہاج القرآن سمیت دیگر جماعتوں کے وفود نے شرکت کی۔ اس موقع پر مختلف تجارتی، ثقافتی اور سماجی حلقوں سے وابستہ شخصیات کے علاوہ ایم کیو ایم کے مختلف ونگ اور شعبہ جات کے اراکین، عہدے دار اور کارکنان نے بڑی تعداد میں شریک تھے۔


کراچی کی طرح اندرونِ سندھ مختلف شہروں میں ایم کیو ایم کے ضلعی، زونل دفاتر پر بھی شہداء کی یاد میں دعائیہ اجتماعات منعقد ہوئے۔ ایم کیوایم کے مرکز نائن زیرو پر اے این پی کے نمایندہ وفد نے اپنے تاثرات کا اظہا ر کرتے ہوئے منظر امام اور دیگر کے قتل کی سخت الفاظ میں مذمت کی اور کہاکہ اے این پی کی پوری قیادت اس واقعے میں ہونے والی شہادتوں پر افسردہ ہے اور ایم کیو ایم کے غم میں برابر کی شریک ہے۔

اے این پی اور ایم کیوایم کا دشمن ایک ہے، ہمیں مل کر ان دہشت گردوں کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ اس دعائیہ تقریب میں پیپلز پارٹی کے وفد کی جانب سے واقعے پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ ایم کیو ایم حکومت کی اتحادی جماعت ہے، اور دونوں کو اس وقت دہشت گردوں کی سفاکی اور ظلم کا سامنا ہے، ہم شہر اور ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ٹھوس اور مثبت اقدامات کرنا چاہتے ہیں، جس کے لیے تمام جماعتوں کو ایک جگہ بیٹھنا ہوگا۔ وفد نے صدر آصف علی زرداری، وزیر اعظم راجا پرویز اشرف اور پی پی پی کی تمام قیادت کی جانب سے منظر امام اور دیگر شہداء کی مغفرت اور سوگواران کے لیے صبر جمیل کی دعا کی۔ پاکستان تحریک انصاف کے وفد نے بھی دعائیہ اجتماع میں ایم کیو ایم اور شہداء کے اہل خانہ سے دلی تعزیت اور ہم دردی کا اظہار کیا۔

ڈاکٹر فاروق ستار نے اس اجتماع میں اپنے تأثرات کا اظہار کرتے ہوئے منظر امام اور دیگر شہداء کو خراج عقید ت پیش کیا اور کہاکہ آج کی تقریب کے انعقاد کا مقصد انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کو یہ پیغام دینا ہے کہ ہمارے حوصلے آج بھی بلند ہیں اور دہشت گردی سے انھیں کم زور نہیں بنایا جاسکتا۔ انھوں نے کہاکہ ملک کو اس وقت بد ترین دہشت گردی کا سامنا ہے، جس سے نمٹنے کے لیے تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو متحد ہو نا پڑے گا۔ انھوںنے کہاکہ الطاف حسین نے مسلسل پاکستان کے عوام کو طالبان دہشت گردوں کے خطرے سے آگاہ کیا اور ان کے خاتمے کے لیے حکمت عملی اختیار کرنے پر زور دیا ہے، ہمیں انتہا پسندی کی روک تھام کے لیے اجتماعی جدوجہد کرنی ہوگی۔

مقامی سیاست میں اس سانحے کے بعد متحدہ قومی موومنٹ اور عوامی نیشنل پارٹی کے درمیان فاصلہ بھی کم ہوتا نظر آرہا ہے، جس کے مثبت اثرات آنے والے دنوں میں ظاہر ہوں گے۔ کراچی میں 'طالبانائزیشن' سے متعلق ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کے بیانات اور چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بارہ مئی کو کراچی آمد پر ہنگامہ آرائی کے بعد ان دونوں جماعتوں کی طرف سے ایک دوسرے کی سخت مخالفت کی گئی تھی۔ کراچی میں طالبانائزیشن کے ایم کیو ایم کے مؤقف کی اے این پی نے شدید مخالفت کی اور اس کا مقصد مخصوص آبادی کو نشانہ بنانا بتایا تھا۔

تاہم کالعدم تحریک طالبان کی طرف سے کراچی میں رکن سندھ اسمبلی کے قتل کی ذمے داری قبول کرنے اور بعض اطلاعات ہیں کہ بلدیہ اور اتحاد ٹاؤن کے علاوہ سہراب گوٹھ میں اے این پی کے راہ نما اور کارکن بھی کالعدم تحریک کی کارروائی میں نشانہ بنے ہیں، نے انھیں ایک دوسرے کے قریب آنے کا موقع دیا ہے۔ اے این پی کا کہنا ہے کہ سیاسی اختلافات اپنی جگہ ہیں اور انھیں مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے گا۔ تاہم غیر جمہوری قوتوں اور انتہاپسندوں کو ملکی سلامتی اور مفاد کے خلاف کام کرنے اور قتل و غارت گری کی اجازت کسی صورت نہیں دی جاسکتی۔

سانحۂ کوئٹہ اور پھر منظر امام کے قتل کے بعدکراچی میں امن وامان کی خراب صورت حال سے گھر گھر جاکر ووٹر لسٹوںکی تصدیق کا عمل متاثر ہوا ہے۔ الیکشن کمیشن کا عملہ پچھلے ہفتے شہر میں کشیدگی اور زندگی مفلوج رہنے کے باعث اپنا کام انجام نہیں دے سکا اور متعدد علاقوں میں ان کی ٹیمیں نہیں پہنچ سکیں۔ واضح رہے کہ یہ کام فوج اور رینجرز کی نگرانی میں انجام دیا جارہا ہے۔ عدالت کے ایک حکم پر کراچی میں الیکشن کمیشن کا عملہ ایک مرتبہ پھر متحرک ہے، لیکن جن سیاسی جماعتوں کی طرف سے درخواست پر یہ کام شروع کیا گیا تھا، وہ اس پر ایک بار پھر معترض ہیں۔

سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے راہ نمائوں کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی ہو رہی ہے اور فوج کے بغیر انتخابی فہرستوں کی تصدیق کا عمل شفاف نہیں ہو سکتا۔ گذشتہ دنوں جماعت اسلامی کے دفتر ادارہ نورحق میں امیر جماعت اسلامی(کراچی) محمد حسین محنتی کی قیادت میں سیاسی جماعتوں کے راہ نماؤں کے اجلاس میں بدھ (آج) دوپہر ایک بجے الیکشن کمیشن کے دفتر کے باہر احتجاجی کیمپ لگانے کا اعلان کیا گیا۔

اجلاس میں ن لیگ کے راہ نما سلیم ضیاء، جماعت اسلامی کے برجیس احمد، راجا عارف سلطان، تحریک انصاف کے سید حفیظ الدین، جمعیت علمائے پاکستان کے محمد مستقیم نورانی، جمعیت علمائے اسلام (س) کے مولانا غلام مصطفی فاروقی، عوامی تحریک کے مظہر راہوجا، سنی تحریک کے مطلوب اعوان، مسلم لیگ شیر بنگال کے ڈاکٹر صالح ظہور و دیگر نے شرکت کی ۔ ان راہ نماؤں کا کہنا تھا کہ عدالت نے فوج کی نگرانی میں انتخابی فہرستوں کو درست کرنے کا فیصلہ سنایا تھا، مگر اس پر عمل نہیں ہو رہا، جس کی وجہ سے یہ خدشہ پیدا ہوگیا ہے کہ ایک بار پھر انتخابی فہرستیں درست نہیں ہوں گی۔
Load Next Story