بڑھتی ہوئی ٹارگٹ کلنگ اور انتخابی جوڑ توڑ

حکومت اور اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتیں آئندہ عام انتخابات کے لئے تیاریوں میں مصروف ہیں۔

مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (فنکشنل) سندھ کی سطح پر گرینڈ الائنس قائم کرنا چاہتی ہیں۔ فوٹو: پی پی آئی

LAHORE:
عام انتخابات جیسے جیسے قریب آرہے ہیں۔ویسے ویسے سندھ میں نئی سیاسی صف بندیوں کے لئے سرگرمیاں تیز ہوتی جارہی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ کراچی میں بے گناہ لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ میں بھی اضافہ ہوتا جارہا ہے، جو انتہائی تشویش ناک بات ہے.

بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ اگر کراچی میں ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی پر قابو نہ پایا گیا تو پھر یہاں عام انتخابات کا پرامن انعقاد نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن نظر آتا ہے۔ خونریزی کو روکنے کے لئے اب تو کسی کے پاس سوچنے کا وقت بھی نہیں رہا۔ حکومت اور اپوزیشن کی تمام سیاسی جماعتیں آئندہ عام انتخابات کے لئے تیاریوں میں مصروف ہیں۔

گزشتہ ہفتے حروں کے روحانی پیشوا اور پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) کے سربراہ پیر پگارا صبغت اللہ شاہ راشدی نے لاہور کا تین روزہ دورہ کیا۔ وہاں انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں نواز شریف سے ان کے چھوٹے بھائی عباس شریف کے انتقال پر تعزیت کی اور ملک کی موجودہ صورتحال خصوصاً مسلم لیگی دھڑوں کے اتحاد کے حوالے سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ بعد ازاں رائے ونڈ پیلس میں مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دونوں رہنماؤں نے پیپلز پارٹی کے مقابلے میں گرینڈ الائنس تشکیل دینے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔

یہ واضح نہیں تھا کہ یہ گرینڈ الائنس پورے ملک کی سطح پر ہوگا یا صرف سندھ کی سطح پر ہوگا۔ بعد ازاں مسلم لیگ (ن) کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات مشاہداللہ خان نے ایک بیان میں وضاحت کی کہ ان کی جماعت صوبوں کی سطح پر دیگر سیاسی جماعتوں سے اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کریگی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (فنکشنل) سندھ کی سطح پر گرینڈ الائنس قائم کرنا چاہتی ہیں۔ لاہور میں پریس کانفرنس کے دوران پیرپگارا نے کہا کہ آئندہ عام انتخابات کے نتیجے میں پاکستان پیپلز پارٹی مرکزاور دیگر تین صوبوں میں حکومت نہیں بناسکے گی، صرف سندھ میں خطرناک صورتحال ہے۔


اس وقت سندھ اسمبلی میں پیپلز پارٹی کے ارکان کی تعداد 93 ہے۔ گھوٹکی کے ممبر بھی پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے ہیں۔ ٹھٹھہ کے شیرازی برادران بھی مسلم لیگ (ق) سے دور ہوچکے ہیں اور وہ پیپلز پارٹی سے اپنی وابستگی ظاہر کرتے ہیں۔ انتخابی سیاست میں وہ مضبوط اور مؤثر امیدوار پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے ہیں جو قبل ازیں ہر انتخابات کے موقع پر پیپلز پارٹی کے مخالف کیمپ میں چلے جاتے تھے۔ اب واضح طور پر محسوس ہورہا ہے کہ صوبائی اسمبلی کے لئے پیپلز پارٹی کے انتہائی مضبوط امیدواروں کی تعداد ایک سو سے زیادہ ہے۔ مسلم لیگ (فنکشنل) نے سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈیننس (ایس پی ایل جی او) کی مخالفت کرکے سندھ کے لوگوں کی سیاسی حمایت ضرور حاصل کی ہے لیکن اس حمایت کو انتخابی کامیابی میں تبدیل کرنا آسان نہیں ہوگا۔

سندھ کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کا کہنا ہے کہ پیرپگارا سے دوبارہ رابطوں کے لئے اپنے کچھ لوگوں کو ٹاسک دے دیا ہے۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ آئندہ عام انتخابات سے قبل پیپلز پارٹی کی حکومت ایس پی ایل جی او میں ایسی ترامیم لاسکتی ہے جس سے سندھ کے لوگوں میں پیپلز پارٹی کی مخالفت کم یا ختم ہوسکتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے سندھ پر''فوکس'' کرنے میں بڑی تاخیر کردی ہے۔ سندھ میں حکومت قائم کرنے کے لئے پیپلز پارٹی کی مخالف قوتوں کو متحدہ قومی موومنٹ( ایم کیو ایم ) کی حمایت کی ضرورت ہوگی۔ یہ ہوسکتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل)، نیشنل پیپلز پارٹی(این پی پی) اور دیگر قوم پرست جماعتوں کا انتخابی اتحاد قائم ہو لیکن سندھ میں حکومت قائم کرنے کے لئے اس اتحاد کو مطلوبہ سیٹیں بھی چاہئیں ہوں گی، یہ سیٹیں کیسے ملیں گی، یہ ایک سوال ہے۔

عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اور ایم کیو ایم کی قیادت نے طویل عرصے کے بعد دہشت گردی کے خلاف مشترکہ مؤقف اختیار کیا ہے۔ یہ بھی سندھ کی سیاست میں اہم پیش رفت ہے۔ اے این پی کے رہنماء سینیٹر افراسیاب خٹک نے اگلے روز اسلام آباد میں ایم کیو ایم کے رہنما بابر خان غوری کی رہائش گاہ پر جاکر رکن سندھ اسمبلی منظر امام کے قتل پر تعزیت کی اور دہشت گردی کے خلاف تمام سیاسی جماعتوں کے اتحاد پر زور دیا۔ توقع ہے کہ اے این پی کی دہشت گردوں کے خلاف آل پارٹیز کانفرنس ( اے پی سی ) میں ایم کیو ایم شرکت کرے گی۔ دونوں سیاسی جماعتیں طالبان کے خلاف بھرپور کارروائی کی حامی ہیں۔

ایم کیو ایم کے رکن منظر امام کے قتل اور قبل ازیں ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو کے قریب پارکنگ ایریا میں بم دھماکے کی ذمہ داری بھی بظاہر طالبان نے قبول کی تھی۔ لیکن کراچی میں طویل عرصے سے جاری دہشت گردی کی تمام تر ذمہ داری طالبان پر عائد نہیں کی جاسکتی۔ بعض دیگر عوامل بھی ہیں جنہیں نظر انداز کیا جارہا ہے۔ عام انتخابات سے قبل سیاسی جماعتوں کے کارکنوں اور رہنماؤں کی ٹارگٹ کلنگ میں تیزی آگئی ہے۔ دوسری طرف کراچی بدامنی کیس پر عمل درآمد کے حوالے سے چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے بینچ نے دوبارہ کراچی رجسٹری میں سماعت شروع کردی ہے۔

چیف جسٹس نے کراچی میں حالات مزید خراب ہونے پر سخت تشویش اور حکومت کے اقدامات پر ناخوشی کا اظہار کیا ہے۔کراچی میں اگر امن قائم نہ ہوا اور سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق انتخابی فہرستوں اور حلقہ بندیوں کا کام مقررہ وقت پر نہ ہوسکا تو عام انتخابات میں کراچی کو بدترین امکانی خونریزی سے بچانے کے لئے کون سا ادارہ سامنے آئے گا اور کیا فیصلہ کرے گا؟ اس سوال کا جواب آئندہ چند دنوں میں سامنے آسکتا ہے۔
Load Next Story