سوال یہ ہے

ترقی میٹرو بسوں یا اورینج ٹرین چلانے سے نہیں ہوتی

muqtidakhan@hotmail.com

ایک شخص بھری ہوئی بس کے پائیدان پر لٹکا ہوا تھا۔ کچھ دیر بعد چند مسافروں کے اترنے سے اتنی جگہ بنی کہ وہ بس کے اندرگھس سکے۔ اس نے خدا کا شکر ادا کیا کہ اسے چلتی بس سے گرنے سے بچا لیا۔ اسے اس بات کا اندازہ ہی نہیں کہ بس میں بیٹھ کر سفر کرنا اس کا حق ہے، جس کے لیے اس نے پیسے دیے ہیں۔ یہی کچھ معاملہ پاکستان میں جمہوریت کا ہے۔ طویل آمریتوں کے بعد جب سویلین حکومت قائم ہوتی ہے، تو اس کے بیشتر عیوب کو نظر انداز کرتے ہوئے، جمہوریت کی جانب پیشرفت کے طور پر اس کا خیر مقدم کیا جاتا ہے۔

یہاں بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں۔ اول، منتخب سویلین حکومتیں کیا واقعی جمہوری نظام کی نمائندگی کرتی ہیں؟ دوئم، کیا عوام کو اچھی حکمرانی مل رہی ہے، جو جمہوریت سے مشروط ہوتی ہے؟ سوئم، کیا عوام کو ترقیاتی منصوبہ سازی میں شرکت کا موقع مل رہا ہے؟یہ وہ سوالات ہیں جو آج کل ہر متوشش شہری کے ذہن میں گردش کر رہے ہیں، مگر ان میں سے کسی بھی سوال کا سادہ سا جواب ممکن نہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ملک کا سیاسی اور سماجی ڈھانچہ اس قدر پیچیدہ ہے یا کر دیا گیا ہے کہ اس میںکسی بھی نظام کے ثمرات کی عوام تک رسائی ممکن نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام کی زندگیوں میں اطمینان اور سکون کا فقدان ہے۔

درج بالا تینوں سوالات ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ جن کے جوابات بھی لازماً ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہوں گے۔ لیکن ہمارے یہاں ایک بڑی خرابی یہ ہے کہ نظام حکمرانی پر سوال اٹھانے پر جمہوریت مخالفت کا الزام لگ جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معاشرے میں دلیل کی بنیاد پر مکالمے کی روایت خاصی کمزور ہے۔

علاوہ ازیں ملک کی عمر عزیز کے32 برس چار آمریتوں کی نذر ہو چکے ہیں، اس لیے جمہوریت کے حوالے سے متوشش حلقے خاصے حساس ہیں۔ لہٰذا ہر اس شخص پر جمہوریت مخالفت کا الزام لگ جاتا ہے، جو منتخب سویلین حکومت کی کارکردگی کا ناقدانہ جائزہ لینے کی کوشش کرتا ہے۔ حالانکہ حکمرانی کے نقائص کی نشاندہی اور طرز حکمرانی پر تنقید کا مطلب نظام کی مخالفت ہرگز نہیں ہوتا۔ بلکہ اصلاح احوال ہوتا ہے۔

یہاں ایک سوال یہ بھی ہے کہ عوام منتخب حکومت کے قیام کے پہلے ہی برس کیوں بدظن ہو جاتے ہیں؟ جب کہ آمریتوں کو کئی برسوں تک بلاچوں چرا برداشت کر لیتے ہیں۔ اس سلسلے میں کئی آرا پائی جاتی ہیں۔ ایک حلقے کا خیال ہے کہ عوام کی توقعات چونکہ اپنے منتخب نمائندوں سے زیادہ ہوتی ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کے مسائل پر خصوصی توجہ دی جائے، مگر جب سیاسی جماعتیں اقتدار میں آکر اپنے منشور طاق نسیاں کردیتی ہیں اور عوامی مسائل پر عدم توجہی کا مظاہرہ کرتی ہیں، تو عوامی ردعمل کا شدید ہونا فطری بات ہے۔ اس کے برعکس ایک دوسرے حلقے کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملک میں غیر جمہوری قوتیں جنھیں آمریت کے دور میںکھل کر گل کھلانے کا موقع ملتا ہے، وہ سویلین حکومت کے قائم ہوتے ہی اس کا میڈیا ٹرائیل شروع کر دیتی ہیں۔

دونوں نکتہ ہائے نظر اپنے اندر وزن رکھتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ منتخب حکومتوں کا میڈیا ٹرائیل آمریتوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔ مگر اس کا موقع خود منتخب حکومتیں فراہم کرتی ہیں۔ کیونکہ اقتدار میں آنے کے بعد سیاسی جماعتیں ان اہداف کو قطعی نظر انداز کردیتی ہیں، جو عوام کے مسائل سے براہ راست جڑے ہوتے ہیں۔ لہٰذا ان کا ردعمل زیادہ شدید ہو جاتا ہے۔اب اس سلسلے میں بھی کئی نکتہ ہائے نظر ہیں۔

ایک نکتہ نظر یہ ہے کہ سیاست پر اشرافیائی کلچر کی جڑیں گہری ہونے کی وجہ سے سیاسی جماعتیں ووٹ حاصل کرنے کی حد تک توعوام سے رابطے میں رہتی ہیں، لیکن عوام کے ساتھ سماجی بنیادوں پر روابط نہیں ہوتے۔ جس کی وجہ سے انھیں ان مسائل کا صحیح ادراک نہیں ہوتا، جو عوام کو درپیش ہیں اور فوری حل کے متقاضی ہیں۔


دوسرا نکتہ نظر یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اندر مضبوط ہوتا فیوڈل کلچر اورElectables کا بڑھتا ہوا اثر و نفوذ انھیں مقامی حکومتی نظام کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے اقتدار و اختیار کی مرکزیت قائم کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ دنیا بھر میں سیاسی جماعتوں کو نیا کیڈر طلبہ تنظیموں اور مقامی حکومتوں سے ملتا ہے۔ جنرل ضیا نے طلبہ یونینوں پر پابندی عائد کر کے مڈل کلاس کی سیاست میںآمد کا راستہ روک دیا۔

دوسری طرف مقامی حکومتی نظام تسلسل کے ساتھ جاری نہیں رہ سکا۔جس کی وجہ سے اس انسٹیٹیوشن سے عوامی مسائل کے بارے میں آگہی رکھنے والا کیڈر بھی سیاسی جماعتوں میں مناسب جگہ نہیں پا سکا۔ جو لوگ اس نظام سے سیاسی جماعتوں میں آئے،ایک تو وہ خود سیاسی جماعت کے کلچر میں رنگ کر ان معاملات ومسائل سے بے نیاز ہوگئے، جو انھوں نے مقامی حکومتی نظام سے سیکھے تھے۔ دوسرے ان کی جماعت نے بھی ان کے تجربات سے استفادہ کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ہماری قومی دھارے کی سیاسی جماعتیں ان معاملات و مسائل سے بے بہرہ ہیں، جو فوری حل کے طلب گار ہیں اور جن پر قومی ترقی کا انحصار ہے۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد آزاد ہونے والی جن نوآبادیات نے تعلیم کے فروغ اور معاشی منصوبہ بندی کو اولین ترجیح بنایا، آج وہ دنیا کی مستحکم معیشتیں اور خوشحال معاشرے بن چکے ہیں، یا اس جانب تیزی کے پیشرفت کررہے ہیں۔

ہم قومی سلامتی کے خوف میں مبتلا ہونے کی وجہ سے نہ تو ریاست کے منطقی جواز کے بارے میں کوئی واضح نکتہ نظر اپناسکے اور نہ ہی قومی ترقی کے لیے اہداف متعین کرسکے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہماری اول و آخر ترجیح ملک کا دفاع ہی ہوکر رہ گئی۔تعلیم جو ترقی کی کلید ہے، اس پر ہم نے روز اول ہی سے توجہ نہیں دی۔

اس پہلو پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ ترقی میٹرو بسوں یا اورینج ٹرین چلانے سے نہیں ہوتی۔ بلکہ مضبوط تعلیمی نظام اور مستحکم معاشی ڈھانچے کی تشکیل ہی ترقی کی اصل سمت ہے۔جن معاشروں میں تعلیم اولین ترجیح نہیں، ان کا ترقی کا خواب کبھی پورا نہیں ہوسکتا۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ جنوبی ایشیا میں پاکستان میں خواندگی کی شرح صرف نیپال سے چند فیصد بہتر ہے۔ باقی تمام ممالک کے مقابلے میں ہماری حالت انتہائی تشویشناک ہے۔

گزشتہ برس اقوام متحدہ نے خواندگی کی شرح 88 فیصدتک پہنچانے کا ٹارگٹ دیا تھا، مگر یہ آج بھی 52-53فیصد سے زیادہ نہیں ہوسکی ہے۔سابقہ دور حکومت میں اٹھارویں ترمیم میں تعلیم کے حوالے سے ایک ذیلی شق25Aشامل کی گئی تھی۔ جس کے مطابق 31دسمبر2015ء تک 5سے 16 برس کے تمام بچوں کو اسکولوں میں رجسٹر ہونا تھا، مگرپورے ملک میںڈھائی کروڑ،جب کہ سندھ میں60 فیصد سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔

اگر پاکستان کو ایشیا کی تیز رفتار معیشتوں کی دوڑ میں شریک ہونا ہے اورجمہوری نظم حکمرانی کو استحکام دیناہے، تو تعلیمی نظام کی بہتری کو اولین ترجیح بنانا ہوگا۔ اس مقصد کے لیے مقامی حکومت کی فعالیت اور باختیاریت میں اضافہ کرنا ہوگا۔ کیونکہ ثانوی (میٹرک تک) تعلیم کی نگہداشت کی ذمے داری مقامی حکومت کو سونپنے سے بہتری کے امکانات روشن ہوسکتے ہیں۔

اس کے علاوہ سرکاری اسکولوں کی نجکاری کے بجائے انھیں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت چلانے کی کوشش کی جائے، تو بہتر نتائج آسکتے ہیں، لیکن سب سے پہلے نصاب تعلیم کو جدید خطوط پر استوارکرنا ہوگا ۔کیونکہ فرسودہ نظام تعلیم اور اناڑی اساتذہ کے ساتھ ترقی کی دوڑ میں شریک ہونا ممکن نہیں ہوتا۔اس لیے اساتذہ کے انتخاب کے طریقہ کو شفاف اور غیر سیاسی بنانا اور ان کی مناسب تربیت کا اہتمام بھی ضروری ہے۔ اس طرح ایک طرف ملک خوشحالی کی جانب بڑھے گا اور دوسری جانب جمہوری نظام کو استحکام حاصل ہوگا۔
Load Next Story