صوبائی خود مختاری اور ہائر ایجوکیشن کمیشن
18ویں ترمیم کی بنیاد پر ایک مسئلہ وفاق اور صوبوں کے درمیان قائم ہائر ایجوکیشن کمیشن پر بداعتمادی کا ہے
پاکستان بنیادی طور پر ایک مضبوط وفاق اور مضبوط صوبوں کے باہمی تعلق کے ساتھ ہی ایک مضبوط ریاست کے طور پر اپنی پہچان اور ساکھ کو قائم رکھ سکتا ہے۔ 18 ویں ترمیم میں اسی بنیادی اصول کو سامنے رکھتے ہوئے وفاق اور صوبوں کے درمیان اختیارات کے توازن اور اختیارات کی منصفانہ تقسیم کو بنیاد بنایا گیا تھا۔
اگر واقعی پاکستان میں 18 ویں ترمیم کو سیاسی بالادستی اور اپنی قومی ترجیحات کا حصہ بنا کر ایک مضبوط سیاسی کمٹمنٹ کے ساتھ آگے بڑھایا جاتا تو صورتحال آج سے کافی بہتر ہوتی۔ہم نے آئینی ترمیم کی مدد سے اختیارات کی تقسیم کا فارمولہ تو طے کرلیا،لیکن سیاسی محاذ پر اپنی کمزور کمٹمنٹ اور ذاتی مفادات پر مبنی سیاست کے باعث اس اہم امر پر سنجیدگی سے عمل نہیں کیا۔ اب بھی یہاں ایسے لوگ موجود ہیں جو صوبائی خود مختاری کے برعکس وفاق کو مضبوط بنا کر صوبوں کو سیاسی، انتظامی اور مالی طور پر مفلوج کرکے مضبوط مرکزیت کا ایجنڈا رکھتے ہیں جو عدم مرکزیت کے اصولوں کے برعکس ہے۔
اسی 18ویں ترمیم کی بنیاد پر ایک مسئلہ وفاق اور صوبوں کے درمیان قائم ہائر ایجوکیشن کمیشن پر بداعتمادی کا ہے۔ وفاق سمجھتا ہے کہ صوبوں کو زیادہ خود مختار اور بااختیار بنانے سے ان کی مرکزیت یا طاقت کا عمل کمزور ہوتا ہے۔ ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ صوبوں کی صلاحیت کمزور ہے اور وہ زیادہ خود مختاری سے اپنا فعال کردار ادا نہیں کرسکیں گے۔جب کہ اس صوبائی خود مختاری میں دو اہم رکاوٹیں ہیں۔ اول وفاقی حکومت اور وفاقی ہائر ایجوکیشن کمیشن اور دوئم صوبائی حکومتیں جو اپنے صوبوں میں قائم ہائر ایجوکیشن کمیشن کو مضبوط بنانے کے بجائے خود کو مضبوط کرنے کا ایجنڈا رکھتی ہیں۔
18ویں آئینی ترمیم 2010ء کے تحت کنکرنٹ لسٹ کا خاتمہ کرتے ہوئے تعلیم بشمول اعلی تعلیم کو دوبارہ صوبوں کے حوالے کردیا گیا۔ جب کہ اعلی تعلیم میں معیارات اور تحقیق کو فیڈرل لیجسلیٹولسٹ ٹو یعنی وفاقی مقننہ کی فہرست دوئم کے تحت وفاق اور صوبائی حکومتوں کے دائرہ اختیار میں دے دیا گیا ہے۔ لیکن سات سال گزرنے کے باوجود ان آئینی دفعات پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔ 2016ء میں ہائر ایجوکیشن کے معاملے پر بالخصوص وائس چانسلرز کی تقرری کے طریقہ کار پر لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر ہوئی جس پر اب تفصیلی فیصلہ بھی آگیا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں قائم عدالتی بینچ کا یہ تاریخی فیصلہ وفاق اور صوبوں کے درمیان تعلیمی امور پر ابہام کا خاتمہ اور اختیارات کی سرد جنگ کے خاتمہ کا بھی باعث بنے گا۔عدالت کے اس فیصلہ کے تحت اس بنیادی نکتہ کو تسلیم کیا گیا ہے کہ تعلیم صوبائی معاملہ ہے اور وائس چانسلرز کی تقرری کا اختیار صوبے کے پاس ہے۔ وفاق اور ہائر ایجوکیشن کمیشن اس میںمداخلت کا کوئی قانونی جواز اور حق نہیں رکھتا۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وفاقی ہائر ایجوکشن کمیشن کو آرٹیکل 154کے تحت مشترکہ مفادات کونسل کے کنٹرول میں دے دیا گیا ہے۔اب صوبوں میں اگر وفاقی کمیشن نے مداخلت کرنی ہے تو اسے اب مشترکہ مفادات کو نسل کو بائی پاس نہیں کرنا ہوگا، بلکہ اپنی تمام تر پالیسی کی حتمی منظوری اسی فورم سے لینی ہوگی۔ جب تک یہ کونسل کسی بھی پالیسی کی منظوری نہیں دے گی اس وقت تک وفاقی ایچ ائی سی کے پاس کوئی حق نہیں کہ وہ صوبوں کی پالیسی میں مداخلت کرے۔اس فیصلہ کے تحت وفاقی کمیشن مشترکہ مفادات کونسل کے تابع ہوگئی ہے۔
پاکستان میں اس وقت 183جامعات ہیں جو منظور شدہ ہیں جن میں سے 163جامعات صوبائی حکومتوں کے دائرہ اختیار میں ہیں۔ اب عدالتی فیصلہ کے تحت مشترکہ مفادات کونسل کو احکامات جاری کیے گئے ہیںکہ وہ چھ ماہ کے دوران ایچ ای سی کے وضع کردہ تمام تمام معیارات کا جائزہ لے اور قانونی طور پر وہی معیارات قابل عمل ہونگے جن کی منظوری مشترکہ مفادات کونسل دے گی۔ آئین کی شق 142 سی کے تحت صوبائی اسمبلیوں کو اختیارات حاصل ہیں وہ کسی بھی معاملے پر قانون سازی کر سکتی ہیں، جن کا تعلق وفاقی مقننہ کی فہرست سے نہ ہو۔
دراصل بنیادی طور پر مضبوط صوبے مضبوط وفاق اور مضبوط وفاق مضبوط صوبوں کی علامت ہوتے ہیں۔ لیکن پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں اختیارات کی تقسیم میں جاری جنگ کے باعث ہم نے قومی اداروں کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ پرائمری اور ہائر ایجوکیشن کمیشن یا تعلیمی اداروں سمیت وفاق اور صوبوں کے درمیان جاری جنگ اور عدم ترجیحات کے باعث متاثر ہوئے ہیں۔اس وقت ہماری اعلی تعلیم کی حالت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ پہلے الزام طلبہ تنظیموں پر تھا کہ وہ تعلیم کی بدحالی کے ذمہ دا ر ہیں۔
اب اعلی تعلیم سیاسی مداخلت، آپس کی چپقلش، اختیارات کی جنگ اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے باعث سب کے سامنے تماشہ بنی ہوئی ہے۔مسئلہ یہ نہیں کہ ہمارے پاس اعلی تعلیم یعنی یونیورسٹیوں کو چلانے والے اعلی دماغ یا پروفیشنل لوگ نہیں ہیں۔ بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ سیاسی مداخلتوں اقربا پروری، ذاتی پسند و ناپسند اور ذاتی مفادات کے لیے ہم اچھے، پڑھے لکھے، میرٹ کی بالادستی کے قائل لوگوں کو اس لیے سامنے نہیں لانا چاہتے ،کیونکہ ان کی موجودگی میں وفاقی یا صوبائی حکومتیں اور اہل سیاست کیسے اپنے ذاتی ایجنڈے کو تقویت دے کر ان اداروں میں اپنی بالادستی قائم رکھ سکیں گے۔
آج بھی آگر وفاق صوبوں کو اور صوبہ تعلیمی اداروں کے سربراہان کو خود مختاری، اختیارات، وسائل اور آزادانہ بنیادوں پر کام کرنے دیا جائے تو ان ہی جامعات کو دنیا کی بہترین جامعات بنایا جا سکتا ہے ۔اگر ہم یہ طے کرلیںکہ وفاق اور صوبائی حکومتوں نے صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن کو زیادہ خود مختاراور بااختیار بنا کر ان پر نگرانی کے عمل کو مضبوط کرنا ہے تو مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔اسی طرح وائس چانسلرز کی تقرری میں بھی جو سرچ کمیٹیاں تشکیل دی جائیں اس میں سابق تعلیم کے اعلی ترین ماہرین کی شمولیت ہو تو اور سیاسی مداخلت نہ ہو تو اچھے چانسلرز مل سکتے ہیں۔
مضبوط صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن ہی بنیادی طور پر صوبوں میں موجود جامعات کی اعلی یا بری کارکردگی کا اصل ذمے دار ہوگا، اسی کے تحت اس کو فیصلوں کا مکمل اختیار بھی ہونا چاہیے۔ کیونکہ جب آپ کسی کو باختیار بنائیں گے تو تب ہی اس کا احتساب بھی ہوسکے گا، اختیارات کو دیئے بغیر محض صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن کو الزام دینا بھی مناسب نہیں ہوگا۔
پنجاب میں اس وقت صوبائی ہائر ایجوکیشن کے سربراہ ڈاکٹر نظام الدین ہیں۔ اس سے قبل وہ گجرات یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے ہیں اور ان ہی کے دور میں اس یونیورسٹی کا معیار بھی اجاگر ہوا اور ادارے کی ساکھ بھی ۔ ڈاکٹر نظام بنیادی طور پر نہ صرف تعلیم کی بڑی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں بلکہ ایک پروفیشنل مزاج کے ساتھ دنیا میں ہونے والی اعلی تعلیم کے میدان میں تبدیلوں پر بھی ان کی گہری نظر ہے۔پنجاب ایک بڑا صوبہ ہے اور اس کو عملی طور پر دیگر صوبوں کے لیے اعلی تعلیم کے میدان میں مثال بننا چاہیے۔
پنجاب میں یقینی طور پر دیگر صوبوں کے مقابلہ میں اچھے کام ہوئے ہیں، لیکن ابھی بھی وفاق اور صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن سمیت صوبائی حکومتوں کی عدم ترجیحات کے باعث صوبائی کمیشن کے سربراہ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں، اس میں وہ خود کو بے بس سمجھتے ہیں۔اصولی طور پر صوبائی سطح پر بین الصوبائی فورم بنیں تاکہ صوبے ایک دوسرے کے اچھے تجربات سے فائدہ اٹھا کر سیکھ سکیں، پنجاب کے سربرا ہ کو اس میں لیڈ لینی چاہیے۔
اگرچہ لاہور ہائی کورٹ نے صوبوں کو ہائر ایجوکیشن میں بااختیار بنادیا ہے،لیکن یہ مسئلہ محض قانونی جنگ تک محدود رکھ کر کامیاب نہیں ہوسکے گا۔ اس کے تعلیم سے وابستہ افراد، سیاسی جماعتوں، میڈیا اور سول سوسائٹی کے محاذ پر ایک بڑی سیاسی جنگ اعلی تعلیم کے حق میں لڑنی ہوگی۔ تعلیم کے بجٹ میں اضافہ، سیاسی ترجیحات، سیاسی مداخلتیں، وائس چانسلرز کی میرٹ پر تقرریوں سمیت جامعات میں محض ڈگری دینے کے رجحانات کے مقابلے میں تعلیم اور تحقیق کے میدان میں بڑے بڑے اقدامات کرنے ہونگے۔
اگر واقعی پاکستان میں 18 ویں ترمیم کو سیاسی بالادستی اور اپنی قومی ترجیحات کا حصہ بنا کر ایک مضبوط سیاسی کمٹمنٹ کے ساتھ آگے بڑھایا جاتا تو صورتحال آج سے کافی بہتر ہوتی۔ہم نے آئینی ترمیم کی مدد سے اختیارات کی تقسیم کا فارمولہ تو طے کرلیا،لیکن سیاسی محاذ پر اپنی کمزور کمٹمنٹ اور ذاتی مفادات پر مبنی سیاست کے باعث اس اہم امر پر سنجیدگی سے عمل نہیں کیا۔ اب بھی یہاں ایسے لوگ موجود ہیں جو صوبائی خود مختاری کے برعکس وفاق کو مضبوط بنا کر صوبوں کو سیاسی، انتظامی اور مالی طور پر مفلوج کرکے مضبوط مرکزیت کا ایجنڈا رکھتے ہیں جو عدم مرکزیت کے اصولوں کے برعکس ہے۔
اسی 18ویں ترمیم کی بنیاد پر ایک مسئلہ وفاق اور صوبوں کے درمیان قائم ہائر ایجوکیشن کمیشن پر بداعتمادی کا ہے۔ وفاق سمجھتا ہے کہ صوبوں کو زیادہ خود مختار اور بااختیار بنانے سے ان کی مرکزیت یا طاقت کا عمل کمزور ہوتا ہے۔ ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ صوبوں کی صلاحیت کمزور ہے اور وہ زیادہ خود مختاری سے اپنا فعال کردار ادا نہیں کرسکیں گے۔جب کہ اس صوبائی خود مختاری میں دو اہم رکاوٹیں ہیں۔ اول وفاقی حکومت اور وفاقی ہائر ایجوکیشن کمیشن اور دوئم صوبائی حکومتیں جو اپنے صوبوں میں قائم ہائر ایجوکیشن کمیشن کو مضبوط بنانے کے بجائے خود کو مضبوط کرنے کا ایجنڈا رکھتی ہیں۔
18ویں آئینی ترمیم 2010ء کے تحت کنکرنٹ لسٹ کا خاتمہ کرتے ہوئے تعلیم بشمول اعلی تعلیم کو دوبارہ صوبوں کے حوالے کردیا گیا۔ جب کہ اعلی تعلیم میں معیارات اور تحقیق کو فیڈرل لیجسلیٹولسٹ ٹو یعنی وفاقی مقننہ کی فہرست دوئم کے تحت وفاق اور صوبائی حکومتوں کے دائرہ اختیار میں دے دیا گیا ہے۔ لیکن سات سال گزرنے کے باوجود ان آئینی دفعات پر عملدرآمد نہیں ہوسکا۔ 2016ء میں ہائر ایجوکیشن کے معاملے پر بالخصوص وائس چانسلرز کی تقرری کے طریقہ کار پر لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر ہوئی جس پر اب تفصیلی فیصلہ بھی آگیا ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں قائم عدالتی بینچ کا یہ تاریخی فیصلہ وفاق اور صوبوں کے درمیان تعلیمی امور پر ابہام کا خاتمہ اور اختیارات کی سرد جنگ کے خاتمہ کا بھی باعث بنے گا۔عدالت کے اس فیصلہ کے تحت اس بنیادی نکتہ کو تسلیم کیا گیا ہے کہ تعلیم صوبائی معاملہ ہے اور وائس چانسلرز کی تقرری کا اختیار صوبے کے پاس ہے۔ وفاق اور ہائر ایجوکیشن کمیشن اس میںمداخلت کا کوئی قانونی جواز اور حق نہیں رکھتا۔
فیصلے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وفاقی ہائر ایجوکشن کمیشن کو آرٹیکل 154کے تحت مشترکہ مفادات کونسل کے کنٹرول میں دے دیا گیا ہے۔اب صوبوں میں اگر وفاقی کمیشن نے مداخلت کرنی ہے تو اسے اب مشترکہ مفادات کو نسل کو بائی پاس نہیں کرنا ہوگا، بلکہ اپنی تمام تر پالیسی کی حتمی منظوری اسی فورم سے لینی ہوگی۔ جب تک یہ کونسل کسی بھی پالیسی کی منظوری نہیں دے گی اس وقت تک وفاقی ایچ ائی سی کے پاس کوئی حق نہیں کہ وہ صوبوں کی پالیسی میں مداخلت کرے۔اس فیصلہ کے تحت وفاقی کمیشن مشترکہ مفادات کونسل کے تابع ہوگئی ہے۔
پاکستان میں اس وقت 183جامعات ہیں جو منظور شدہ ہیں جن میں سے 163جامعات صوبائی حکومتوں کے دائرہ اختیار میں ہیں۔ اب عدالتی فیصلہ کے تحت مشترکہ مفادات کونسل کو احکامات جاری کیے گئے ہیںکہ وہ چھ ماہ کے دوران ایچ ای سی کے وضع کردہ تمام تمام معیارات کا جائزہ لے اور قانونی طور پر وہی معیارات قابل عمل ہونگے جن کی منظوری مشترکہ مفادات کونسل دے گی۔ آئین کی شق 142 سی کے تحت صوبائی اسمبلیوں کو اختیارات حاصل ہیں وہ کسی بھی معاملے پر قانون سازی کر سکتی ہیں، جن کا تعلق وفاقی مقننہ کی فہرست سے نہ ہو۔
دراصل بنیادی طور پر مضبوط صوبے مضبوط وفاق اور مضبوط وفاق مضبوط صوبوں کی علامت ہوتے ہیں۔ لیکن پاکستان کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں اختیارات کی تقسیم میں جاری جنگ کے باعث ہم نے قومی اداروں کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔ پرائمری اور ہائر ایجوکیشن کمیشن یا تعلیمی اداروں سمیت وفاق اور صوبوں کے درمیان جاری جنگ اور عدم ترجیحات کے باعث متاثر ہوئے ہیں۔اس وقت ہماری اعلی تعلیم کی حالت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ پہلے الزام طلبہ تنظیموں پر تھا کہ وہ تعلیم کی بدحالی کے ذمہ دا ر ہیں۔
اب اعلی تعلیم سیاسی مداخلت، آپس کی چپقلش، اختیارات کی جنگ اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے باعث سب کے سامنے تماشہ بنی ہوئی ہے۔مسئلہ یہ نہیں کہ ہمارے پاس اعلی تعلیم یعنی یونیورسٹیوں کو چلانے والے اعلی دماغ یا پروفیشنل لوگ نہیں ہیں۔ بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ سیاسی مداخلتوں اقربا پروری، ذاتی پسند و ناپسند اور ذاتی مفادات کے لیے ہم اچھے، پڑھے لکھے، میرٹ کی بالادستی کے قائل لوگوں کو اس لیے سامنے نہیں لانا چاہتے ،کیونکہ ان کی موجودگی میں وفاقی یا صوبائی حکومتیں اور اہل سیاست کیسے اپنے ذاتی ایجنڈے کو تقویت دے کر ان اداروں میں اپنی بالادستی قائم رکھ سکیں گے۔
آج بھی آگر وفاق صوبوں کو اور صوبہ تعلیمی اداروں کے سربراہان کو خود مختاری، اختیارات، وسائل اور آزادانہ بنیادوں پر کام کرنے دیا جائے تو ان ہی جامعات کو دنیا کی بہترین جامعات بنایا جا سکتا ہے ۔اگر ہم یہ طے کرلیںکہ وفاق اور صوبائی حکومتوں نے صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن کو زیادہ خود مختاراور بااختیار بنا کر ان پر نگرانی کے عمل کو مضبوط کرنا ہے تو مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔اسی طرح وائس چانسلرز کی تقرری میں بھی جو سرچ کمیٹیاں تشکیل دی جائیں اس میں سابق تعلیم کے اعلی ترین ماہرین کی شمولیت ہو تو اور سیاسی مداخلت نہ ہو تو اچھے چانسلرز مل سکتے ہیں۔
مضبوط صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن ہی بنیادی طور پر صوبوں میں موجود جامعات کی اعلی یا بری کارکردگی کا اصل ذمے دار ہوگا، اسی کے تحت اس کو فیصلوں کا مکمل اختیار بھی ہونا چاہیے۔ کیونکہ جب آپ کسی کو باختیار بنائیں گے تو تب ہی اس کا احتساب بھی ہوسکے گا، اختیارات کو دیئے بغیر محض صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن کو الزام دینا بھی مناسب نہیں ہوگا۔
پنجاب میں اس وقت صوبائی ہائر ایجوکیشن کے سربراہ ڈاکٹر نظام الدین ہیں۔ اس سے قبل وہ گجرات یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے ہیں اور ان ہی کے دور میں اس یونیورسٹی کا معیار بھی اجاگر ہوا اور ادارے کی ساکھ بھی ۔ ڈاکٹر نظام بنیادی طور پر نہ صرف تعلیم کی بڑی سمجھ بوجھ رکھتے ہیں بلکہ ایک پروفیشنل مزاج کے ساتھ دنیا میں ہونے والی اعلی تعلیم کے میدان میں تبدیلوں پر بھی ان کی گہری نظر ہے۔پنجاب ایک بڑا صوبہ ہے اور اس کو عملی طور پر دیگر صوبوں کے لیے اعلی تعلیم کے میدان میں مثال بننا چاہیے۔
پنجاب میں یقینی طور پر دیگر صوبوں کے مقابلہ میں اچھے کام ہوئے ہیں، لیکن ابھی بھی وفاق اور صوبائی ہائر ایجوکیشن کمیشن سمیت صوبائی حکومتوں کی عدم ترجیحات کے باعث صوبائی کمیشن کے سربراہ جو کچھ کرنا چاہتے ہیں، اس میں وہ خود کو بے بس سمجھتے ہیں۔اصولی طور پر صوبائی سطح پر بین الصوبائی فورم بنیں تاکہ صوبے ایک دوسرے کے اچھے تجربات سے فائدہ اٹھا کر سیکھ سکیں، پنجاب کے سربرا ہ کو اس میں لیڈ لینی چاہیے۔
اگرچہ لاہور ہائی کورٹ نے صوبوں کو ہائر ایجوکیشن میں بااختیار بنادیا ہے،لیکن یہ مسئلہ محض قانونی جنگ تک محدود رکھ کر کامیاب نہیں ہوسکے گا۔ اس کے تعلیم سے وابستہ افراد، سیاسی جماعتوں، میڈیا اور سول سوسائٹی کے محاذ پر ایک بڑی سیاسی جنگ اعلی تعلیم کے حق میں لڑنی ہوگی۔ تعلیم کے بجٹ میں اضافہ، سیاسی ترجیحات، سیاسی مداخلتیں، وائس چانسلرز کی میرٹ پر تقرریوں سمیت جامعات میں محض ڈگری دینے کے رجحانات کے مقابلے میں تعلیم اور تحقیق کے میدان میں بڑے بڑے اقدامات کرنے ہونگے۔