عالمی استعمار کی سازشیں
’’جو قوم اپنی تاریخ فراموش کردے اس بوڑھے آدمی کی مانند ہوتی ہے، جو اپنی عینک کہیں رکھ کر بھول جائے‘‘
برطانیہ کے ایک مفکرکا قول ہے ''جو قوم اپنی تاریخ فراموش کردے اس بوڑھے آدمی کی مانند ہوتی ہے، جو اپنی عینک کہیں رکھ کر بھول جائے'' جس کی نظر بھی خاصی کمزور ہو تو وہ یکلخت و غیریقینی صورتحال اور تذبذب کا شکار ہوجاتا ہے'' حقیقت بھی یہی ہے کہ وقت کا سفر کسی کے لیے رکتا نہیں ہے جو افراد یا قومیں اپنی تاریخ سے سیکھنے کے بجائے تصوراتی دنیا میں گم رہتی ہیں۔ انھیں بالآخر تاریخ کے کوڑے دان میں ہی جگہ ملتی ہے۔
بہت سارے لوگ تاریخ کے مضمون کو انتساب، مقامات، واقعات یا اسلاف کے کارناموںکا ویرانا ہی سمجھتے ہیں۔ کچھ ہی آگاہ ہیں کہ تاریخ History یونانی زبان کے لفظ Histria سے نکلا ہے جس کے لغوی معنی حقائق کی تحقیق کے ذریعے بازیافت ہے۔ موجودہ دور میں شاید انسانی تاریخ اس مقام پر آپہنچی ہے کہ جہاں اسے دوبارہ تحریر کیے جانے کا مرحلہ درپیش ہے۔
اگر آپ غیرجانبدار ہوکر جائزہ لیں تو آپ بھی یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ آج عملی طور پر معیار، مثال، علامت اور استعارہ وہ نہیں رہا جو اب تک تاریخ کی کتابوں میں استعمال ہوتا آرہا تھا۔ ہم تاریخ کی کتابوں میں پڑھتے آئے ہیں کہ چنگیز خان کی فتوحات کے نتیجے میں تین کروڑ چالیس لاکھ افراد تہہ تیغ ہوئے تھے جب کہ ہلاکو خان کی خون آشامی نے چالیس لاکھ افراد کو موت کے گھاٹ اتارا تھا۔
امیر تیمور گورگان کی گردن پر ایک کروڑ چالیس لاکھ افرادکی ہلاکت کا بار ہے جب کہ نازی جرمنی کے ایڈولف ہٹلر پر دوکروڑ دس لاکھ کے قتل کی ذمے داری عائد کی جاتی ہے۔ اگر یہ قاتلین انسانیت جو مجموعی طور پر سات کروڑ تیس لاکھ افراد پر ظلم و بربریت کا استعارہ بنے ہوئے ہیں تو تقریباً دس کروڑ ریڈ انڈینز چھ کروڑ افراد یعنی ایک کروڑ ویت نامی، بیس لاکھ افغانی، دس لاکھ عراقیوں اور آج کل شام میں جس کی کوئی تعداد نہیں، ان قاتلوں کو کیا نام دینا چاہیے؟
ایسا لگتا ہے دنیا بھر کے دانشور مفکر اور اہل قلم اس ادھیڑ پن میں مبتلا ہیں کہ خون آشامی کے معیار کو بدلیں یا بربریت کی نئی مثالیں تحریرکریں۔ انسانی قتل کی نئی شرح لکھیں یا انسانیت کی بقا کے لیے خطرہ بن جانیوالی نام نہاد جمہوریت کی توصیف بیان کریں۔ شاید موجودہ دور کے مفکرین اس تذبذب کا شکار ہیں کہ امریکی جنگی قوت کو انسانی قتل کے استعارے کے طور پر استعمال کیا جائے یا اسے جنگل کے قانون کی طرف مراجعت کی مجبوری سمجھا جائے۔
آج انسانی ضمیر کو اس مال کا جواب نہیں ڈھونڈنا چاہیے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں دی گئی یکساں انسانی حقوق کی ضمانت کے باوجود فلسطینیوں کے انسانی حقوق، اسرائیلوں کے حقوق سے کمتر کیوں ہیں؟ مسئلہ کشمیرکوعالمی جمہوریت اصولوں کے تحت اب تک کیوں حل نہیں کیا جاسکا؟ امریکا اور یورپ حقیقت سے کسی طور انکار نہیں کرسکتے کہ انھوں نے گزشتہ سو سال کے عرصے میں تیل کی دولت سے مالا مال مسلم ممالک کو کنٹرول کرنے کی کوشش کے دوران پوری مسلم دنیا کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ شاید دانستہ طور پر طے کرلیا گیا تھا کہ مسلم ممالک کو پسماندگی سے دو چار رکھنا ہے۔
پس پردہ حقیقت تو یہی محسوس ہوتی ہے کہ دنیا بھر میں جنگ کا ماحول گرم کرکے قیمتی وسائل کی لوٹ مار پر پردہ ڈالے رہیں۔دنیا بھر میں جہاں بھی کسی قسم کی تصادم کی صورتحال موجود ہے اس کے پس پردہ اقتصادیات یا معاشیات کی پھٹوری نہیں بلکہ اصل وجہ تہذیبوں کا باہمی ٹکراؤ ہے۔ ہماری معلومات کے مطابق تہذیب سے تو مراد ہی مہذب انسانوں کا گروہ ہے۔ انسانی گروہ اسی وقت باہم دست وگریباں ہوتے ہیں جب کہ وہ تہذیب یافتہ نہیں ہوتے۔
تہذیب کا مطلب ہے کہ لوگ اپنے مسائل کا حل آپس میں پر امن طریقے سے بات چیت کے ذریعے نکالیں۔ تہذیب یافتہ لوگ سماج میں رہنے والے لوگ ایک دوسرے کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ فریب اور دکھوکے سے کسی گروہ یا قوم پر حملہ آور ہونا یا اپنے مفاد کے لیے کسی خطے میں تصادم کی صورتحال مہذب ہونے کی علامت ہو سکتی ہے۔
عالمی میڈیا کے پروپیگنڈے سے دنیا بھر میں ''تہذیبی تصادم'' کی تھیوری بطور اصطلاح زبان زد عام ہو گئی اور انسانوں کی بڑی تعداد نے اسے روشن حقیقت سمجھ کر قبول کرلیا۔یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ غریب و پسماندہ ممالک کو جب ترقی یافتہ مغربی ممالک امداد دیتے ہیں تو ان کا مقصد ان غریب ممالک پر اپنا شکنجہ سخت کرنا ہوتا ہے خاص کر امریکا جن ممالک کو مالی امداد مہیا کرتا ہے تو اس کا مطلب دنیا پر اپنا رعب اور دبدبہ قائم رکھنا ہے تاکہ دنیا اس کے قابو میں رہے۔ آج کسی ملک کو فتح کرنے کے دو ہی راستے ہیں۔ ایک اس ملک پر فوج کے ذریعے قبضہ کرنا اور دوسرا اس ملک کے مالی نظام کو قابو میں رکھنا۔
مالی طور پر قابو رکھنے کے لیے عالمی مالیاتی ادارے موجود ہیں جو سامراجی ملکوں کی سازشوں کو انجام دینے اور پروان چڑھاتے ہیں۔ یہ ادارے تیسری دنیا اور ترقی پذیر ممالک کو عجیب وغریب مشوروں سے نوازتے ہیں جس کی ایک روشن مثال پاکستان ہے جہاں عالمی مالیاتی اداروں کے مشوروں اور نا اہل لوگوں کے مسلط ہونے کی وجہ سے ملک بھر میں عوام کی اہم ترین ضرورت بجلی کا بحران جاری ہے۔ پانی پہلے ہی کم تھا کہ بجلی کے بحران نے ملکی صنعت کا پہیہ جام کردیا گھریلو صنعتوں کا کام بھی بند ہو گیا۔
بیروزگاری بڑھنے لگی تو نوجوان جرائم کی راہ پر چل نکلے ملک میں امن وامان کی حالت بد سے بد تر ہوتی چلی گئی۔ دن دہاڑے ڈاکے اور لوٹ مار سے عوام کا جینا دو بھر ہوکر رہ گیا۔ یہ بھی استعماری طاقتوں کے شرمناک کھیل کا ایک حصہ ہی ہے۔ نااہل حکمرانوں سے ملکی حالات کنٹرول نہ ہوسکے اور وہ بجائے کسی بہتر منصوبہ بندی کے بیرونی طاقتوں سے قرضوں پر قرضے لیتے چلے گئے اور پوری قوم قرضوں کی دلدل میں دھنستی چلی گئی۔ اگر غورکیا جائے تو تقریباً آدھی سے زیادہ دنیا اس وقت عالمی استعمارکی ایسی ہی سازشوں کا شکار ہے۔
ایشیا، افریقہ کے حالات امریکی سازشوں کی گواہی دے رہے ہیں۔ حالات کا بغور جائزہ لیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں تیسری عالمی جنگ جاری ہے یہ ایک خاموش لیکن نہایت ہی وحشیانہ جنگ ہے اور یہ جنگ تیسری دنیا کے ممالک کو تباہ و برباد کررہی ہے۔ اس جنگ میں فوجیوں کی جگہ بھوک و پیاس سے معصوم بچے مر رہے ہیں اور لوگ بیروزگاری کی وجہ سے بھوک و بیماری سے کراہ رہے ہیں اس جنگ میں پورے کا پورا مالی ڈھانچہ تباہ و برباد ہورہاہے۔
یہ تیسری دنیا کے ممالک کے خلاف سامراجی قوتوں کی شروع کی گئی جن ہے اور یہ جنگ غیر ملکی قرضوں کی معرفت چل رہی ہے جسکا سب سے خطرناک ہتھیار ''سود'' ہے جو ایٹم بم سے زیادہ خوفناک ہے۔ یہ سامراجی ممالک ایک طرف تو غریب ممالک کو قرضے اور امداد دے کر لوٹتے ہیں اور دوسری طرف اپنی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی معرفت اپنی تجوریاں بھرتے ہیں۔
امریکا کی ایک ٹی وی مالیاتی کمپنی کے سابق چیف ماہر معاشیات کا ایک بیان بھی قابل غور ہے، عام امریکی اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں کہ امریکی حکومت ایک شدید بحران میں داخل ہوچکی ہے غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ عام شہری سچ نہیں سننا چاہتے۔ وہ اپنی لاعلمی سے لطف اندوز ہوتے ہیں یا پھر ایسا ممکن ہے کہ جذبہ حب الوطنی کے نام پر ان کی ایسی ذہن سازی کردی گئی ہے کہ وہ تصور کرتے ہیں کہ امریکی معیشت ہمیشہ مضبوط رہے گی اور امریکا عظمت کی ان بلندیوں تک پہنچ گیا ہے جہاں سے اب زوال پذیر ہونا ناممکن نہیں۔
موجودہ امریکی مالی بحران کے نتیجے میں اجتماعی امریکی منشیات کو متاثر کرنے میں کئی عوامل ہوسکتے ہیں۔ عوام کا بیشتر طبقہ اس خوش فہمی میں ہے کہ آخر کار ''خوش فہمی'' ہی ان کا مقدر کیوں تاہم یہ صاف عیاں ہورہا ہے کہ ہم کسی خطرناک انجام تک پہنچ چکے ہیں اور شاید قیامت ٹوٹنے والی ہے۔
بہت سارے لوگ تاریخ کے مضمون کو انتساب، مقامات، واقعات یا اسلاف کے کارناموںکا ویرانا ہی سمجھتے ہیں۔ کچھ ہی آگاہ ہیں کہ تاریخ History یونانی زبان کے لفظ Histria سے نکلا ہے جس کے لغوی معنی حقائق کی تحقیق کے ذریعے بازیافت ہے۔ موجودہ دور میں شاید انسانی تاریخ اس مقام پر آپہنچی ہے کہ جہاں اسے دوبارہ تحریر کیے جانے کا مرحلہ درپیش ہے۔
اگر آپ غیرجانبدار ہوکر جائزہ لیں تو آپ بھی یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ آج عملی طور پر معیار، مثال، علامت اور استعارہ وہ نہیں رہا جو اب تک تاریخ کی کتابوں میں استعمال ہوتا آرہا تھا۔ ہم تاریخ کی کتابوں میں پڑھتے آئے ہیں کہ چنگیز خان کی فتوحات کے نتیجے میں تین کروڑ چالیس لاکھ افراد تہہ تیغ ہوئے تھے جب کہ ہلاکو خان کی خون آشامی نے چالیس لاکھ افراد کو موت کے گھاٹ اتارا تھا۔
امیر تیمور گورگان کی گردن پر ایک کروڑ چالیس لاکھ افرادکی ہلاکت کا بار ہے جب کہ نازی جرمنی کے ایڈولف ہٹلر پر دوکروڑ دس لاکھ کے قتل کی ذمے داری عائد کی جاتی ہے۔ اگر یہ قاتلین انسانیت جو مجموعی طور پر سات کروڑ تیس لاکھ افراد پر ظلم و بربریت کا استعارہ بنے ہوئے ہیں تو تقریباً دس کروڑ ریڈ انڈینز چھ کروڑ افراد یعنی ایک کروڑ ویت نامی، بیس لاکھ افغانی، دس لاکھ عراقیوں اور آج کل شام میں جس کی کوئی تعداد نہیں، ان قاتلوں کو کیا نام دینا چاہیے؟
ایسا لگتا ہے دنیا بھر کے دانشور مفکر اور اہل قلم اس ادھیڑ پن میں مبتلا ہیں کہ خون آشامی کے معیار کو بدلیں یا بربریت کی نئی مثالیں تحریرکریں۔ انسانی قتل کی نئی شرح لکھیں یا انسانیت کی بقا کے لیے خطرہ بن جانیوالی نام نہاد جمہوریت کی توصیف بیان کریں۔ شاید موجودہ دور کے مفکرین اس تذبذب کا شکار ہیں کہ امریکی جنگی قوت کو انسانی قتل کے استعارے کے طور پر استعمال کیا جائے یا اسے جنگل کے قانون کی طرف مراجعت کی مجبوری سمجھا جائے۔
آج انسانی ضمیر کو اس مال کا جواب نہیں ڈھونڈنا چاہیے کہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں دی گئی یکساں انسانی حقوق کی ضمانت کے باوجود فلسطینیوں کے انسانی حقوق، اسرائیلوں کے حقوق سے کمتر کیوں ہیں؟ مسئلہ کشمیرکوعالمی جمہوریت اصولوں کے تحت اب تک کیوں حل نہیں کیا جاسکا؟ امریکا اور یورپ حقیقت سے کسی طور انکار نہیں کرسکتے کہ انھوں نے گزشتہ سو سال کے عرصے میں تیل کی دولت سے مالا مال مسلم ممالک کو کنٹرول کرنے کی کوشش کے دوران پوری مسلم دنیا کو برباد کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ شاید دانستہ طور پر طے کرلیا گیا تھا کہ مسلم ممالک کو پسماندگی سے دو چار رکھنا ہے۔
پس پردہ حقیقت تو یہی محسوس ہوتی ہے کہ دنیا بھر میں جنگ کا ماحول گرم کرکے قیمتی وسائل کی لوٹ مار پر پردہ ڈالے رہیں۔دنیا بھر میں جہاں بھی کسی قسم کی تصادم کی صورتحال موجود ہے اس کے پس پردہ اقتصادیات یا معاشیات کی پھٹوری نہیں بلکہ اصل وجہ تہذیبوں کا باہمی ٹکراؤ ہے۔ ہماری معلومات کے مطابق تہذیب سے تو مراد ہی مہذب انسانوں کا گروہ ہے۔ انسانی گروہ اسی وقت باہم دست وگریباں ہوتے ہیں جب کہ وہ تہذیب یافتہ نہیں ہوتے۔
تہذیب کا مطلب ہے کہ لوگ اپنے مسائل کا حل آپس میں پر امن طریقے سے بات چیت کے ذریعے نکالیں۔ تہذیب یافتہ لوگ سماج میں رہنے والے لوگ ایک دوسرے کو نقصان نہیں پہنچاتے۔ فریب اور دکھوکے سے کسی گروہ یا قوم پر حملہ آور ہونا یا اپنے مفاد کے لیے کسی خطے میں تصادم کی صورتحال مہذب ہونے کی علامت ہو سکتی ہے۔
عالمی میڈیا کے پروپیگنڈے سے دنیا بھر میں ''تہذیبی تصادم'' کی تھیوری بطور اصطلاح زبان زد عام ہو گئی اور انسانوں کی بڑی تعداد نے اسے روشن حقیقت سمجھ کر قبول کرلیا۔یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ غریب و پسماندہ ممالک کو جب ترقی یافتہ مغربی ممالک امداد دیتے ہیں تو ان کا مقصد ان غریب ممالک پر اپنا شکنجہ سخت کرنا ہوتا ہے خاص کر امریکا جن ممالک کو مالی امداد مہیا کرتا ہے تو اس کا مطلب دنیا پر اپنا رعب اور دبدبہ قائم رکھنا ہے تاکہ دنیا اس کے قابو میں رہے۔ آج کسی ملک کو فتح کرنے کے دو ہی راستے ہیں۔ ایک اس ملک پر فوج کے ذریعے قبضہ کرنا اور دوسرا اس ملک کے مالی نظام کو قابو میں رکھنا۔
مالی طور پر قابو رکھنے کے لیے عالمی مالیاتی ادارے موجود ہیں جو سامراجی ملکوں کی سازشوں کو انجام دینے اور پروان چڑھاتے ہیں۔ یہ ادارے تیسری دنیا اور ترقی پذیر ممالک کو عجیب وغریب مشوروں سے نوازتے ہیں جس کی ایک روشن مثال پاکستان ہے جہاں عالمی مالیاتی اداروں کے مشوروں اور نا اہل لوگوں کے مسلط ہونے کی وجہ سے ملک بھر میں عوام کی اہم ترین ضرورت بجلی کا بحران جاری ہے۔ پانی پہلے ہی کم تھا کہ بجلی کے بحران نے ملکی صنعت کا پہیہ جام کردیا گھریلو صنعتوں کا کام بھی بند ہو گیا۔
بیروزگاری بڑھنے لگی تو نوجوان جرائم کی راہ پر چل نکلے ملک میں امن وامان کی حالت بد سے بد تر ہوتی چلی گئی۔ دن دہاڑے ڈاکے اور لوٹ مار سے عوام کا جینا دو بھر ہوکر رہ گیا۔ یہ بھی استعماری طاقتوں کے شرمناک کھیل کا ایک حصہ ہی ہے۔ نااہل حکمرانوں سے ملکی حالات کنٹرول نہ ہوسکے اور وہ بجائے کسی بہتر منصوبہ بندی کے بیرونی طاقتوں سے قرضوں پر قرضے لیتے چلے گئے اور پوری قوم قرضوں کی دلدل میں دھنستی چلی گئی۔ اگر غورکیا جائے تو تقریباً آدھی سے زیادہ دنیا اس وقت عالمی استعمارکی ایسی ہی سازشوں کا شکار ہے۔
ایشیا، افریقہ کے حالات امریکی سازشوں کی گواہی دے رہے ہیں۔ حالات کا بغور جائزہ لیا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں تیسری عالمی جنگ جاری ہے یہ ایک خاموش لیکن نہایت ہی وحشیانہ جنگ ہے اور یہ جنگ تیسری دنیا کے ممالک کو تباہ و برباد کررہی ہے۔ اس جنگ میں فوجیوں کی جگہ بھوک و پیاس سے معصوم بچے مر رہے ہیں اور لوگ بیروزگاری کی وجہ سے بھوک و بیماری سے کراہ رہے ہیں اس جنگ میں پورے کا پورا مالی ڈھانچہ تباہ و برباد ہورہاہے۔
یہ تیسری دنیا کے ممالک کے خلاف سامراجی قوتوں کی شروع کی گئی جن ہے اور یہ جنگ غیر ملکی قرضوں کی معرفت چل رہی ہے جسکا سب سے خطرناک ہتھیار ''سود'' ہے جو ایٹم بم سے زیادہ خوفناک ہے۔ یہ سامراجی ممالک ایک طرف تو غریب ممالک کو قرضے اور امداد دے کر لوٹتے ہیں اور دوسری طرف اپنی ملٹی نیشنل کمپنیوں کی معرفت اپنی تجوریاں بھرتے ہیں۔
امریکا کی ایک ٹی وی مالیاتی کمپنی کے سابق چیف ماہر معاشیات کا ایک بیان بھی قابل غور ہے، عام امریکی اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں کہ امریکی حکومت ایک شدید بحران میں داخل ہوچکی ہے غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ عام شہری سچ نہیں سننا چاہتے۔ وہ اپنی لاعلمی سے لطف اندوز ہوتے ہیں یا پھر ایسا ممکن ہے کہ جذبہ حب الوطنی کے نام پر ان کی ایسی ذہن سازی کردی گئی ہے کہ وہ تصور کرتے ہیں کہ امریکی معیشت ہمیشہ مضبوط رہے گی اور امریکا عظمت کی ان بلندیوں تک پہنچ گیا ہے جہاں سے اب زوال پذیر ہونا ناممکن نہیں۔
موجودہ امریکی مالی بحران کے نتیجے میں اجتماعی امریکی منشیات کو متاثر کرنے میں کئی عوامل ہوسکتے ہیں۔ عوام کا بیشتر طبقہ اس خوش فہمی میں ہے کہ آخر کار ''خوش فہمی'' ہی ان کا مقدر کیوں تاہم یہ صاف عیاں ہورہا ہے کہ ہم کسی خطرناک انجام تک پہنچ چکے ہیں اور شاید قیامت ٹوٹنے والی ہے۔