پاک بھارت آبی تنازعات پر مذاکرات

دریاؤں کے کنارے بسنے والے صدیوں پرانے شہروں میں زیر زمین پانی کی سطح تشویشناک حد تک گرتی چلی جا رہی ہے۔

وولر بیراج کے ذریعے پاکستان کے حصے کا 3 لاکھ ایکڑ فٹ پانی رک جائے گا۔ فوٹو: فائل

اس ماہ کے اواخر میں وفاقی سیکریٹری پانی و بجلی نرگس سیٹھی کی سربراہی میں وولر بیراج پر سیکریٹری سطح کے مذاکرات کا پندرھواں رائونڈ ہو گا۔ بھارت کی طرف سے ان کے سیکریٹری آبی وسائل وجے سنگھ کی قیادت میں دس رکنی بھارتی وفد 26 جنوری کو لاہور سے ہوتا ہوا اسلام آباد پہنچے گا۔جہاں مذاکرات کا آغاز ہوگا۔ایک اندازے کے مطابق وولر بیراج کے ذریعے پاکستان کے حصے کا 3 لاکھ ایکڑ فٹ پانی رک جائے گا۔ دونوں ملکوں کے درمیان اس معاملے پر تنازعہ 1987 سے چل رہا ہے۔

35 سال سے چلنے والے اس تنازعے کا اگر ابھی تک کوئی حل نہیں نکل سکا تو یہ بات ظاہر ہے کہ اس معاملے میں بھارت بالادست ہے جو اپنے قریبی پڑوسی کو کوئی جائز رعایت دینے پر بھی آمادہ نہیں جس سے اس خدشہ کو تقویت ملتی ہے کہ بھارت روایتی بنیا پالیسی یعنی ''منہ میں رام رام بغل میں چھری'' کے مصداق پاکستان کے آبی وسائل کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت روک کر یہاں قحط کے آثار پیدا کرنا چاہتا ہے۔ سندھ طاس کے معاہدے کے تحت اس مملکت خداداد کے اولین ڈکٹیٹر ایوب خان نے بھارتی وزیراعظم جواہر لال نہرو کی باتوں میں آکر تین دریا بھارت کے حوالے کر دیے اور بھارت کی طرف سے مستقبل کے لیے کیے کیے وعدوں پر اعتبار کر لیا ۔

لیکن وقت گزرنے کے ساتھ اس کا جو منفی نتیجہ نکل رہا ہے اس سے پوری قوم میں تشویش کی لہر دوڑ رہی ہے کہ آبپاشی کے لیے مناسب مقدار میں پانی نہ ہونے پر وطن عزیز خشک سالی کا شکار بنتا جا رہا ہے اور اپنے جو دریا بھارت کو دانکر دیے گئے تھے، ان دریائوں کے کنارے بسنے والے صدیوں پرانے شہروں میں زیر زمین پانی کی سطح تشویشناک حد تک گرتی چلی جا رہی ہے۔ لیکن اس ساری صورتحال کا ایک اور پہلو بھی ہے جس کی ذمے داری خود ہم پر عاید ہوتی ہے اور وہ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ خود ہم نے اپنی سرزمین پر آنے والے پانی کے طوفانوں کو آبی ذخائر میں منقلب کرنے کا کام کس حد تک سنجیدگی سے انجام دیا ہے؟

بھارت کو اگر ہم اپنے حصے کا پانی روکنے کا ذمے دار ٹھہراتے ہیں تو ہم یہ کیوں نہیں دیکھتے کہ اس نے سندھ طاس کے معاہدے کے بعد سے اپنے علاقے میں کتنی بڑی تعداد میں ڈیم اور بیراج بنا لیے ہیں مگر ہماری سوئی کئی عشروں سے صرف کالا باغ ڈیم پر ہی اٹکی ہوئی ہے۔ اس ڈیم پر تنازعہ ناقابل حل تھا تو پھر فوری طور پر کوئی دوسرا منصوبہ شروع کیا جانا چاہیے تھا جو اب تک مکمل ہوچکا ہوتا لیکن افسوس ایسا نہیں ہوسکا۔بہرحال بھارت کی زیادتی اور بددیانتی اپنی جگہ رہی ، ہمیں اپنے رویے پر بھی غور کرنا چاہیے۔


ادھر بھارتی وزیر خارجہ سلمان خورشید نے دہلی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ دو ریاستوں میں بعض اوقات ناخوشگوار واقعات کا پیش آنا خارج از امکان نہیں مگر ان واقعات کا بہانہ بنا کر دو طرفہ تعلقات کے دروازے بند کرنے کی کوشش کو کسی صورت دانشمندانہ نہیں کہا جا سکتا۔ سلمان خورشید نے کہا کہ دونوں ملکوں میں امن کا عمل آگے بڑھے گا، پاکستانی ہاکی ٹیم کو واپس بھجوانے کے فیصلے کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ بھارتی حکومت کا نہیں بلکہ منتظمین نے اپنے طور پر ایسا کیا ہے تاہم میڈیا نے اس معاملے کو بہت زیادہ اٹھا لیا ہے۔ ادھر امیر جماعۃ الدعوۃ پروفیسر حافظ محمد سعید نے کہا ہے کہ امریکا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مخلص ہے تو بھارتی وزیر داخلہ کے اعتراف کے بعدانڈیا میں ہندو انتہاپسند تنظیموں کے ٹریننگ سینٹرز پر بھی ڈرون حملے کرے۔پاکستان سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس کا معاملہ سلامتی کونسل میں لے کر جائے اور مجرموں کی حوالگی کا مطالبہ کرے۔

بلاشبہ بھارتی وزیر داخلہ کی طرف سے مکہ مسجد ،مالیگائوں اور سمجھوتہ ایکسپریس سانحہ میں ہندو دہشت گرد تنظیموں میں ملوث ہونے کا اعتراف بہت بڑا بریک تھرو ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات انتہائی پیچیدہ نوعیت کے ہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان تنازعہ کشمیر کئی جنگوں کا سبب بن چکا ہے۔ اب آبی تنازعہ بھی شدت اختیار کر رہا ہے۔ بھارت میں سخت گیر لابی اتنی طاقت ور ہے کہ جب بھی دونوں ملکوں کے درمیان قریبی تعلقات کے حوالے سے کوئی معاہدہ ہوتا ہے یا ہونے کے قریب ہوتا ہے تو کوئی نہ کوئی شرارت ہو جاتی ہے۔ حال ہی میں کنٹرول لائن پر جو واقعات ہوئے ہیں انھیں اسی تناظر میں دیکھا جانا چاہیے۔ یہ امر خوش آیند ہے کہ دونوں ملکوں کی قیادت تمام تر مشکلات کے باوجود باہمی تعلقات خوشگوار بنانے کے لیے کوششیں کر رہے ہیں۔

آبی تنازعات پر مستقبل قریب میں جو مذاکرات ہونے جا رہے ہیں' وہ بھی اسی جذبے کے تحت ہونے چاہئیں۔ دونوں ملکوں کی قیادت کو یہ حقیقت سامنے رکھنی چاہیے کہ جب تک تنازعات موجود ہیں' ان کی آڑ میں انتہا پسند عناصر اپنا کھیل کھیلتے رہیں گے۔ دونوں ملکوں کی قیادت کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ وہ جلد از جلد تنازعات کے خاتمے کی راہ ہموار کریں۔ کشمیر کا تنازعہ تو خاصا پیچیدہ ہے لیکن سرکریک اور سیاچن جیسے معاملات کو فوری حل کیا جانا چاہیے۔ یہ امر افسوسناک ہے کہ سرکریک اور سیاچن جیسے نسبتاً قابل حل ایشوز کو بھی طے نہیں کیا جا سکا۔ دونوں ملکوں میں ایسے عناصر موجود ہیں جو یہ نہیں چاہتے کہ تنازعات ختم ہوں لیکن بھارتی وزیر داخلہ کے اعتراف کے بعد یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ بھارت میں انتہا پسند عناصر زیادہ طاقتور ہیں جو عناصر اپنے ہی ملک میں دہشت گردی کے مرتکب ہوں اور ان کا مقصد صرف یہ ہو کہ بھارتی حکومت دبائو میں آ کر پاکستان کے ساتھ تعلقات قائم نہ کرے تو ان عناصر کی بے رحمی کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ بھارتی قیادت کو ایسے عناصر کی سرکوبی کرنی چاہیے۔

ان کی سرکوبی کا بہترین طریقہ باہمی تنازعات کو ختم کرنے کا ہے۔ اس کا آغاز سرکریک اور سیاچن سے بآسانی کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح آبی تنازعے کے معاملے میں بھی خاطر خواہ پیش رفت ہونی چاہیے۔ آبی تنازعہ کے حل کے سلسلے میں بھارت کو اپنے رویے میں لچک لانی چاہیے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارت جو ڈیم اور بیراج تعمیر کر رہا ہے' ان کی وجہ سے پاکستان میں خشک سالی بڑھتی جا رہی ہے۔ پاکستان کے لیے یہ صورت حال انتہائی گمبھیر ہے' تاریخ میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ آبی تنازعات پر قوموں کے درمیان جنگیں ہوتی رہی ہیں۔ پاکستان اور بھارت کو ان تاریخی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے مذاکرات کرنے چاہئیں' اگر بھارت لچک کا مظاہرہ کرے تو آبی تنازعات پر ہونے والے مذاکرات کامیابی سے ہمکنار ہو سکتے ہیں۔ یوں پاکستان اور بھارت کے درمیان خوشگوار تعلقات کے نئے دور کا آغاز ہو سکتا ہے۔
Load Next Story