لاڑکانہ شہر میں تبدیلیاں آخری حصہ
ہر روز دوسری سیاسی جماعت سے پی پی پی میں شامل ہو رہے ہیں مگر اس میں عوام شامل نہیں ہیں
شہر میں ایک اور اہم اور بڑی تبدیلی یہ بھی رونما ہوئی ہے کہ لوگ ایک نئی سیاسی قیادت کی طرف دیکھ رہے ہیں، کیونکہ پی پی پی اپنے وعدے پورے کرنے میں ناکام رہی ہے، اب تک نوجوان سرکاری نوکریوں کے پیچھے دھکے کھا کھا کر اپنی عمر بڑھا چکے ہیں۔
دیکھنے میں بظاہر یہ ہے کہ ہر روز دوسری سیاسی جماعت سے پی پی پی میں شامل ہو رہے ہیں مگر اس میں عوام شامل نہیں ہیں۔ وہاں پر کافی اچھے لوگوں سے لے کر عام آدمی سے بات ہوئی، جنھوں نے یہ کہا کہ کوئی دوسری قیادت ایسی نہیں ہے جو انھیں ان کی منزل کی طرف لے جائے، اس لیے مجبوراً وہ اس پارٹی کو قبول کر رہے ہیں مگر دل سے نہیں، کیونکہ نثار کھوڑو، ایاز سومرو اور دوسرے عوام کی طرف کوئی توجہ نہیں دے رہے ہیں اور صرف بیانات اور میڈیا پر بولتے ہیں۔
شہر کے Living معیار میں بڑی حد تک اضافہ ہوا ہے۔ نئی نئی کالونیاں بن چکی ہیں اور پلاٹ کی قیمت آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں۔ پرانے گھروں کی قیمت 500 گنا سے ایک ہزار گنا بڑھ گئی ہیں۔ خاص طور پر پرانے رہنے والے لوگ اب بھی کرائے کے مکان میں رہ رہے ہیں، جب کہ نئے گاؤں سے آنے والے لوگوں کے پاس بڑا پیسہ اور جائیداد آگئی ہے، سوائے چند غریبوں کے، ہر دوسرے آدمی کے پاس موٹر سائیکل ہے۔
ایک زمانہ تھا بھٹو نے لاڑکانہ شہر میں ایک سندھ اسمال انڈسٹریز قائم کروائی تھی جو اب نہ ہونے کے برابر ہے، جس سے لوگ فائدہ نہیں اٹھاسکے۔ پھر اب ایک اعلان ہوا ہے کہ انڈسٹریل زون بنایا جائے گا جس پر کام شاید شروع نہیں ہوسکا ہے۔
موئن جو دڑو جس کو دیکھنے کے لیے پوری دنیا سے لوگ آتے تھے مگر وہاں پر سہولیات پوری نہ ہونے کی وجہ سے، جس میں ڈیلی فلائٹ اور فلائٹ کے اوقات شامل ہیں، وہ بھی اپنی اہمیت کھوتا جارہا ہے، وہاں پر صرف پروگرام ہوتے ہیں جس پر کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں، جس کا فائدہ اس پانچ ہزار سال پرانی تہذیب کے کھنڈرات کو بچانے میں نہیں ہوتا، بلکہ کچھ لوگوں کی جیبیں بھر جاتی ہیں۔ اب بارشیں نہیں ہوتیں، گرمی میں اضافہ ہوگیا ہے، درخت نہ ہونے کی وجہ سے مجھے فاختہ، طوطا، بلبل اور کئی پرندے نظر نہیں آئے۔ اس کے علاوہ شہر کے تھوڑا باہر کئی اقسام کے گدھ نظر آتے تھے، اب ایک بھی نہیں دیکھیں۔
میں گاؤں بھی گیا جہاں پر دعوت میں فارمی مرغی اور اس کا انڈا ملتا تھا، پوچھنے پر معلوم ہوا کہ اب دیسی مرغی کی نسل ختم ہورہی ہے۔ شہد کا تو صرف نام ہی بچا ہے، کیونکہ درخت نہ ہونے کی وجہ سے شہد کی پیداوار نہ ہونے کے برابر ہے۔ اب اگر کوئی بیچنے آتا ہے تو وہ بھی نقلی ہے، کیونکہ لوگ ملاوٹ کرنے کے ماہر ہوتے جارہے ہیں۔ اب سچائی اور محبت ڈھونڈھنے پر شاید کہیں مل جائے۔ لوگ مرغے لڑانے اور بیل گاڑی کی دوڑ کرنے والے کافی ملے، جو شرط لگاکر لاکھوں رویے کمارہے ہیں۔
اس مرتبہ امن وامان کی صورتحال کافی بہتر نظر آئی، ورنہ صرف شہر میں بلکہ کراچی سے آئے ہوئے پورے راستے میں پولیس موبائل نظر آئی۔ اب تو گاؤں اور شہر میں فرق نظر ہی نہیں آیا، اس لیے کہ دونوں جگہ موٹر گاڑیاں، موٹر سائیکل، چنگ چی، کیبل، موبائل فون، فریج، اے سی اور جھگی نما ہوٹل بھی نظر آئے۔ اب لسی کے بجائے ہر جگہ چائے مل رہی تھی۔ اب لوگوں نے لڑکیوں کو نہ صرف پڑھانا شروع کیا ہے بلکہ انھیں نوکری بھی کرواتے ہیں اور جہاں پر پہلے کام کرنا ایک گناہ تھا اب لڑکیاں وہاں بھی جاب کررہی ہیں، جس میں نرسنگ، فیملی پلاننگ، ٹی وی چینلز میں اداکاری وغیرہ شامل ہیں۔
کئی باتیں ایسی ہیں جنھیں دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے جس میں شاہ لطیف لائبریری شامل ہے، جہاں پر لوگ شام کو جاکر پڑھتے تھے، بیٹھتے تھے اور ادبی اور صحافتی حلقہ بھی۔ ایک لائبریری تانگہ اسٹینڈ کے پیچھے گلی میں تھی۔ قاضی فضل اﷲ سابق چیف منسٹر سندھ جو اب اس دنیا میں نہیں ہیں، ان کے بنگلے کے برابر آگے ایک ریلوے کراسنگ ہے، جہاں پر ایک گھنٹی لگی ہوتی تھی جو اس وقت بجتی تھی جب پھاٹک کو ریل گاڑی کے آنے سے پہلے بند کیا جاتا تھا، جب ایک چرخہ ہاتھوں سے گھمایا جاتا تھا تو پھاٹک بند ہوجاتا تھا، مگر بند ہونے کے وقت گھنٹی بجتی تھی جو شاید پانچ سے چھ بار آوازیں آتی تھیں، یہ شہریوں کے لیے ایک رومانس تھا جسے سننے کے لیے لوگ دور دور سے آتے تھے۔
اب تو لوٹے پر گانا سنانے والی بھی نہیں آتیں کیونکہ وہ پنجاب سے ہر سال سردیوں کی موسم میں آتی تھیں اور اس پھاٹک کے برابر ریلوے کی حدود میں پڑاؤ ڈالتی تھیں۔ اب پہلوانی کا رجحان بھی کم ہوگیا ہے، ورنہ میدان میں چاروں طرف سے کئی پہلوان اپنے اکھاڑے میں اٹھک بیٹھک کرتے نظر آتے تھے۔ سینما ختم ہوگئی ہیں، ورنہ فلم دیکھنے کے بعد ہوٹل اور پارک میں بیٹھ کر فلموں پر تبصرہ کیا جاتا تھا۔ لوگ والی بال، فٹ بال اور دیسی کھیل جس میں ملھ، کوڈی کوڈی، ونجھ وٹی، بلھاڑو کھیلتے تھے، شام کے وقت کام سے فرصت کے بعد پارک میں تاش کھیلی جاتی تھی اور باقی لوگ بڑے مزے کے ساتھ یہ کھیل دیکھتے تھے۔
اب تو کیرم بورڈ کا کھیل بھی ختم ہوچکا ہے۔ ریلوے اسٹیشن اور دوسری عمارتوں کو بے نظیر بھٹو کی شہادت کے دن توڑ پھوڑ کے رکھ دیا۔ ہمارے لوگ اپنا نقصان کرنا جانتے ہیں، بنانا نہیں جانتے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ یار مرنے والے تو مرگئے، اب وہ قبرستان میں جگہ کیوں گھیرے ہوئے ہیں اور انھوں نے قبریں کھود کر انھیں توڑ کر ان پر گھر بنالیے، اس کے علاوہ یہ بھی سوچ رکھتے ہیں کہ موئن جو دڑو تو ایک کھنڈر ہے اس کی کیا ضرورت ہے اسے مسمار کرو اور زرعی زمین آباد کرو۔
لاڑکانہ میں ڈپٹی کمشنر کا دفتر ایک تاریخی شاہکار ہے، ڈسٹرکٹ سیشن جج کا بنگلہ، گورنمنٹ ہائر سیکنڈری اسکول وغیرہ ہمارا تاریخی اثاثہ ہے، جس کی حفاظت کرنے سے گریز کررہے ہیں اور ہمارا سارا دھیان پیسے کمانے کی طرف لگ گیا ہے کہ ایمانداری سے، بے ایمانی سے، ہیرا پھیری سے، اغوا سے، رشوت سے، جرم کرکے مال کماؤ۔ اب یہاں یہ بھی وہ رسم و رواج نہیں رہا کہ شادیوں میں رشتے داروں کو بلاؤ، انھیں کئی دن تک مہمان رکھو، نہیں ولیمے میں دعوت دو، انھیں کھانا کھلاؤ اور ٹاٹا کرو۔
اب تو چائے بھی صرف اسے پلائی جاتی ہے جس سے کوئی مقصد ہو یا پھر جان چھڑانی ہو، کھانا کھلانا تو دور کی بات ہے۔ کئی ایسے لوگ بھی دیکھے جو مہمان کو چائے کا بھی نہیں پوچھتے ہیں۔ یہاں پر اب مکان بڑے ہوگئے ہیں اور دل چھوٹے۔ سندھ کی ثقافت، مہمان نوازی، رسم و رواج برائے نام کے رہ گئے ہیں اور ہر آدمی صرف پیسے کے پیچھے بھاگتا نظر آتا ہے اور یہ سلسلہ اب شہر اور گاؤں میں ایک جیسا ہی ہے۔