جمہوریت کا ماتم اور پاکستان

پاکستان کو درپیش سنگین مسائل کے حل کے لیے نبرد آزما ریاست بلاشبہ جنگی صورتحال سے دوچار ہے



پاکستان کو درپیش سنگین مسائل کے حل کے لیے نبرد آزما ریاست بلاشبہ جنگی صورتحال سے دوچار ہے۔ کیونکہ یہ مملکت خداداد اپنے قیام کے پہلے دن سے جارحیت اور تاریخی استبدادی قوتوں کی گہری سازشوں میں گھری ہوئی رہتی آئی ہے۔ وہیں اسے میر جعفر ومیر صادق کے ڈی این ایز کی باقیات کے ارتقائی مراحل کے تاریخی اظہار سے بھی خطرات لاحق رہتے آئے ہیں۔

ان تمام تر سازشوں کی سب سے چھوٹی اور ناقابل تردید مثالیں کلبھوشن یادیو اور ''بھیانک لیکس'' کی شکل میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ ہمارا مقتدر طبقہ ریاست کے مقدس منصبوں پر براجمان ہونے کے باجود قومی مفاد و موقف کے بجائے اپنے ذاتی وکاروباری تعلقات نبھانے میں ہمارے نظریاتی تشخص اور اس کی بنیادوں کو ہلانے سمیت ریاستی قوانین کی دھجیاں بکھیرنے میں مصروف دکھائی دیتا ہے جو کہ ریاست کو نقصان رسانی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ ان کی اسی روش کی بنا پر تمام سول ریاستی ادارے غیر فعال وغیر موثر بن کر رہ گئے ہیں۔

کل جو تحصیلدار ریاست کی جانب سے اپنی تحصیل کا مختار کل ہوا کرتا تھا، آج وہی تحصیلدار کسی سیاسی جماعت کے سرگرم کارکن کی طرح اپنے علاقے کے ڈپٹی کمشنر کے حکم پر اراکین اسمبلی اور چیئرمینز کے فوٹوز سے سجے پینافلیکس لگاتے ہوئے دیکھے جانے لگے ہیں۔ تحصیلدار پر امن و امان کا قیام، ریاست کی جانب سے فراہم کیے جانے والے عوامی خدماتی کاموں کی نگرانی کی ذمے داریاں بھی عائد ہوا کرتی تھیں۔ ریاست کی آمدنی اور واجبات کی وصولی جیسے اہم اور اساسی اہمیت کے حامل کام بھی ان کے فرائض منصبی میں شامل ہوا کرتے تھے۔ جن کی ادائیگی کے لیے ان کو عدالتی اختیارات بھی حاصل تھے۔

ایک عرصے تک قومی دنوں یعنی جشن آزادی، یوم پاکستان یا پھر یوم دفاع کے مواقع پر منتخب بچوں کا تحصیلدار سے استقبالی مصافحہ کرنا بچوں کے والدین کے لیے باعث افتخار جانا جاتا تھا۔ اور ان پرہجوم پروگراموں میں تحصیلدار کی جانب سے کسی سے مسکرا کر بات کرنے کو محفل کا ایک اعزاز سمجھا جاتا تھا۔

اگر کسی ریاستی عملدار کی غفلت یا علاقائی بااثر شخصیات کی زیادتی کی شکایت تحصیلدار کے سامنے کی جاتی تو مزید احکامات تک قصوروار کے پسینے خشک نہیں ہوپاتے تھے۔ لیکن حیرت انگیز طور پر ملک میں سول ریاستی مشنری جمہوریت کے زیر سایہ ہونے کے سبب اب صرف ''ریاستی خزانوں کے جمہوری اجرا'' اور برتھ سرٹیفکیٹ پر اٹیسٹ کرنے تک محدود نظر آنے لگی ہے۔

اگر کسی کو کوئی اعتراض ہو تو وہ اپنی علاقائی حالت زار کی بہتری کے لیے سرکاری بجٹ کے استعمال اور معروضی نتائج کو بھی ملاحظہ فرمائے کہ ان سترہ برسوں میں اتنا کثیر سرمایہ آخر اس کے علاقے میں کہاں خرچ ہوا؟ کیونکہ اس سے آپ ریاستی رٹ کے مظاہرے دیکھ سکتے ہیں کہ جن مظاہروں کا تسلسل پاکستان میں جمہوری آمر جنرل محمد ایوب خان کے بلدیاتی انتخابات تک بالکل واضح طور پر نظر آجاتا ہے۔ لیکن اس کے بعد ریاست کی جانب سے تحصیل سطح پر مقرر کردہ ریاست کے اس عملدار سمیت تمام ریاستی عملداروں کی حیثیت بتدریج اور مرحلہ وار کمزور ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔ جس سے معاشرے پر ریاستی گرفت میں پیدا ہوجانے والی لغزش کو دیکھا اور جانچا جاسکتا ہے۔

کل جس پولیس کا ایک اہلکار تگڑے اور پہلوانوں کے پورے گاؤں کو گرفتار کرکے تھانے لے آتا تھا آج وہی پولیس کسی ''چھوٹو'' کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہوئے نظر آچکی ہے۔ کل جن بیس گریڈ کے افسروں سے ملنے کے لیے وقت لینا پڑتا تھا آج ان ہی افسران کو ان کے دفاتر میں زدوکوب کرنے کے نظارے دکھائے جاچکے ہیں۔ اور یہ سب کچھ کسی آمر یا ڈکٹیٹر کی نگرانی میں نہیں ہوا بلکہ ایسی سرشاری جمہوریت ہی کی مرہون منت رہتی آئی ہے۔ ایسی صوررتحال میں تمام محب وطن پاکستانی سخت اضطرابی کیفیت میں مبتلا ہیں۔

دوسری جانب ہمارے ترقی پسند اور جمہوریت پسند حضرات ہمارے داخلی وعالمی مسائل و حالات کی تہہ میں جانے کے بجائے اظہار آزادی کے نام پر ریاست ہی کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے نہیں تھکتے۔ یہ حضرات ایک عرصے سے ملکی ہنگامی حالات و مسائل کا ذمے دار جمہوریت کے فقدان کو قرار دیتے آئے ہیں۔ جو ببانگ دہل بنگلہ دیش اور ہندوستان کی مثالیں دیتے ہوئے اپنی زبانیں خشک کرلیتے ہیں۔ لیکن ان کی اس نام نہاد جمہوریت وترقی پسندی میں عالمی استعمار اور پاکستان دشمن قوتوں کا کیا کردار ہے؟

عالمی استعمار کے کثیر سرمائے سے ان ممالک کو حاصل ہونے والی اس نام نہاد ترقی و روشن خیالی کے حتمی نتائج کیا بھیانک داستان بیان کرتے ہیں؟ جن کے دم قدم پر ان ممالک میں جو بھیانک معروضی حالات ہیں ان پر یہ اسی طرح لب کشائی سے گریز کرتے ہیں۔

''الحمدللہ'' یہ سب کچھ جمہوریت ہی کے طفیل ممکن ہو پایا ہے۔ کیونکہ لگ بھگ گزشتہ سترہ سال سے ملک میں جمہوریت کا دور دورا رہتا آیا ہے، جس کے حتمی نتائج کو سمجھنے کے لیے ہمیں کسی لمبی چوڑی تفصیل میں جانے کے بجائے یہ دیکھنا ہوگا کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلے شفاف انتخابات کے نتیجے میں ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ مجیب الرحمٰن جیسے کردار تاریخ میں رقم ہوئے۔ جنھوں نے اپنی اقتدار پرستی میں جو کچھ کیا، وہ بہت ہی بھیانک داستان کو تاریخ کے اوراق کی زینت بنائے ہوئے ہے۔

اسی جمہوریت کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ جس کے تسلسل میں ہم کراچی کی صورتحال کو ملاحظہ کرسکتے ہیں کہ جہاں جمہوریت کے ہاتھوں جمہوریت کی گردن پر چھرا پھیرا جارہا ہے۔ جس کے حتمی نتائج میں آج کراچی میں ڈینگی و چکن گنیا سمیت صفائی مہم جیسے عام بنیادی کام کروانا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف ٹھہرے ہیں۔ گو سترہ سال سے برسراقتدار رہنے والی جماعت سے تعلق رکھنے والے یہ اسمبلی ممبران، چیئرمینز و کونسلرز حضرات تو جمہوریت کے تمام تر پیمانوں پر کھرا اترتے ہیں۔ یعنی وہ مکمل طور پڑھے لکھے، قبائلی تسلط سے محفوظ، سیاسی شعور اور طاقت سے بھرپور بھی ہیں۔ ان کا تعلق بھی نچلے اور متوسط طبقے سے ہے، جو جمہوری روایتوں کی پاسداری میں کراچی میں گندگی کے ڈھیر بننے سے نہ بچا سکے ہیں۔

تو ذرا سوچیے ایسی جمہوریت کی برکات سے ملک کے پسماندہ علاقوں میں ریاستی گرفت اور عوام کی حالت زار کیا ہوگی؟ دوسری جانب قومی سیاسی منظرنامے پر ان سترہ سال کی جمہوریت پرستی کے نتیجے میں کیا کوئی رہنما بدعنوانی اور بے قاعدگی کی ذمے داری سے مبرا بھی قرار دیا جاسکتا ہے؟ کیا کوئی انکار کرسکتا ہے کہ کرپشن اور دہشتگردی کی تمام وارداتوں کا جب بھی ''کُھرا'' اٹھایا گیا تو ان کا اختتام کسی نہ کسی ''جمہوری اوطاق'' پر ہوتا ہوا ملتا ہے؟ پھر وہ چاہے بی ایم ڈبلیو سے لے کر لندن فلیٹس، سرے محل سے لے کر ڈاکٹر عاصم، ایان علی یا عزیربلوچ کی شکل ہی میں کیوں نہ دستیاب ہوں۔ جب کہ ان جمہوری رہنماؤں کے ٹاک شوزکے دوران ایک دوسرے کے خلاف کی جانے والی جمہوری قصیدہ خوانی کو اگر ان پر فرد جرم مانا جائے تو تمام کے تمام جمہوری رہنما کرپشن، انتشار و اقربا پروری کے سہولت کار کی حیثیت لیے ہوئے نظر آتے ہیں۔

یہ تو ظاہر سی بات ہے کہ کرپشن و اقربا پروری ریاستوں کے لیے زہر قاتل ثابت ہوتی آئی ہے۔ شاید اسی لیے پاکستان بحیثیت ایک ریاست رینجرز آپریشن، آپریشن ضرب عضب، آپریشن ردالفساد سمیت آپریشن بھیانک لیکس کے میدانوں پر نبردآزما ہے۔ بلاشبہ پاکستان میں جمہوریت کی مختصر اور جمہوری ممالک میں صدیوں پر مشتمل تاریخ کے ظاہر ہونے والے حتمی نتائج کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ جمہوریت ان مسائل کے حل میں پاکستان کی ریاست کو ذرا برابر بھی مدد فراہم نہیں کرسکتی۔

ہاں البتہ جمہوریت کا یہ ماتم جو گلی گلی اور کوچہ کوچہ لوگو ں کے ہاتھوں ریاستی رٹ کو کمزور کرتے رہنے میں سرگرداں ہے، وہ ریاست کے بردبار تشخص کو بدنام کرنے کا کام اس کے حسن کے ساتھ ادا کرتی رہے گی۔ لیکن اس کے باوجود ہماری نظریاتی تاریخ گواہ ہے کہ ان اقدامات کے حتمی نتائج بالآخر ہمارے قومی تشخص کے نکھار پر ہی اختتام پذیر ہوں گے۔ اس میں کسی قسم کی جذباتیت، جلدبازی اور شک کی نہیں بلکہ صبر اور حوصلے کی ضرورت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں