کنٹرول لائن پر کشیدگی اور ہمارا رد عمل
بھارتی فوج کے سربراہ نے کہا کہ وہ پاکستان کو جواب دینے کے لیے مرضی کا محاذ اور وقت کا انتخاب کریں گے۔
JHANG:
بھارتی فوج نے جارحیت کا ارتکاب کرتے ہوئے کنٹرول لائن پر منگل کو ایک اور پاکستانی فوجی کو شہید کر دیا ہے۔کنٹرول لائن پر ایک عرصے کے بعد کشیدگی کا آغاز بھارت کے ان الزامات کے بعد ہوا کہ اس کے چند فوجیوں کو اغوا کر کے ان کا سر قلم کر دیا گیا ہے۔پاکستان نے فوری طور پر اس الزام کی صحت سے انکار کیا اور بھارت کو پیش کش کی کہ وہ اس سانحے کی تفتیش اقوام متحدہ کے ذریعے کرا لے۔ کشیدگی کے خاتمے کے لیے فلیگ میٹنگ بھی منعقد ہوئی اور پاکستان کے ڈی جی ملٹری آپریشنز نے بھی اپنے بھارتی ہم منصب سے ہاٹ لائن پر بات چیت کی۔
یہ امر کسی تعجب کا باعث نہیں کہ بھارت نے نہ تو فلیگ میٹنگ میں قیام امن پر آمادگی کا اظہار کیا اور نہ یو این او سے تحقیقات کی تجویز کو قبول کیا۔اس کے برعکس سب سے پہلے بھارتی فضائیہ کے سربراہ نے دھمکی دی کہ پاکستان کو مسکت جواب دیا جائے گا، پھربھارتی فوج کے سربراہ نے کہا کہ وہ پاکستان کو جواب دینے کے لیے مرضی کا محاذ اور وقت کا انتخاب کریں گے۔ بھارتی وزیر اعظم اور وزیر خارجہ بھی پیچھے نہ رہے، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ساتھ معمول کے تعلقات برقرار رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔وزیر اعظم نے یہ دھمکی جاری کرنے کے لیے حکمران جماعت کانگریس کے سالانہ اجلاس کا انتخاب کیا۔
ان پے در پے دھمکیوں کے بعد کنٹرول لائن پر کشیدگی انتہا کو پہنچ گئی اور ایک ایسا علاقہ جہاں فائر بندی پرموثر طور پر عمل ہو رہا تھا، ایک بار پھر گھن گرج سے لرز اٹھا ۔ قیام پاکستان کے بعد سے کنٹرول لائن پر فائرنگ کبھی ختم ہونے میں نہ آتی تھی تاہم پاکستان کے وزیر اعظم ظفراللہ جمالی نے سن دو ہزار تین میں اعلان کیا کہ ہم یک طرفہ طور پر سیز فائر کر رہے ہیں ، بھارت نے بھی جواب میں سیز فائر کو قبول کر لیا مگر برسوں بعد اس سال کے آغاز میں آٹھ جنوری کو بھارت نے الزام عائد کیا کہ اس کے دو فوجیوں کو اغوا کر کے ہلاک کیا گیا ہے جن میں سے ایک کی لاش مسخ شدہ ہے۔
پاکستان کے آئی ایس پی آر کی طرف سے فوری طور پر کہا گیا کہ بھارت کا یہ الزام مضحکہ خیز ہے، ڈی جی ایم او نے بھی بھارت سے ہاٹ لائن پر اس الزام کی تردید کی اور کسی بھی سطح کی تحقیقات کی پیش کش کر دی لیکن بھارت نے تحقیقات کے لیے آمادگی کا اظہار نہیں کیا۔کنٹرول لائن پر مبینہ طور پر اپنے دو فوجیوں کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے بھارت اب تک چھ پاکستانی فوجیوں کو شہید کر چکا ہے اور یہ سلسلہ کہیں رکتا نظر نہیں آتا۔ اس کشیدگی کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان ویزا کے اجرا میں نرمی کا معاہدہ کھٹائی کا شکار ہو گیا ہے۔وزیر داخلہ رحمن ملک نے گزشتہ روز کہا تھا کہ بھارت کو ان جھڑپوں کی آڑ میں تعلقات معمول پر لانے کے عمل میں رکاوٹ نہیں کھڑی کرنی چاہیے ۔مگر بھارت کے رویے میں کسی لچک کے آثار نظر نہیں آتے۔
منگل کو ایک اور پاکستانی فوجی کی شہادت سے خدشہ پید اہوتا ہے کہ کہیں کنٹرول لائن پر بھڑکنے والی چنگاریاں برصغیر کے خرمن امن کو خاکستر کر کے نہ رکھ دیں۔ یہ امر اور بھی افسوسناک ہے کہ پاکستان میں ایک بے حسی کا عالم ہے جب کہ بھارتی میڈیا اور اس کے رد عمل میں بھارتی حکومت کی طرف سے پاکستان کے خلاف آگ اگلی جا رہی ہے۔پاکستان میں یہ عرصہ لانگ مارچ کی بحثوں کی نذر ہو گیا۔سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف تلواریں نیام سے نکالتے نظر آئے، جو بھی صف بندی ہوئی، وہ الیکشن کے سلسلے میں تھی جن کے انعقاد کے لیے ابھی کوئی تاریخ بھی نہیں دی گئی ، ملکی سلامتی کو لاحق خطرات پر نہ میڈیا میں کوئی بحث ہوئی، نہ ہمارے سیاستدانوں کو بھارتی جارحیت کی مذمت کی تو فیق ہو سکی۔
اس صورت حال کا ادراک اسی ہفتے پریس کونسل آف انٹرنیشنل کی معمول کی ایک میٹنگ میں ہوا جس کے مہمان خصوصی جناب اکرم شہیدی تھے۔ وہ سابق وزیر اعظم گیلانی کے میڈیا ایڈوائزر تھے، واشنگٹن کے پاکستانی سفارتخانے میں پریس منسٹر کے فرائض بھی انجام دیتے رہے اور حکومت پاکستان کے سیکریٹری اطلاعات کے منصب پر بھی فائز رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی میڈیا پاکستان کے خلاف الزامات کی بوچھاڑ کر رہا ہے اور بھارتی حکومت کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف سخت رد عمل کا اظہار کرے مگر بدقسمتی سے قومی سلامتی کا مسئلہ پاکستانی میڈیا کی توجہ کا باعث نہیں بن سکا۔
اس میٹنگ کے شرکا کی طرف سے یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ بالفرض اگرپاکستانی میڈیا میں اس معاملے کو اٹھایا بھی جاتا ہے تو کیا پتہ کہ بھارتی الزامات ہی کو نہ اچھالنا شروع کر دیا جائے، یہ ہمارا پریس ہی تھا جس نے ممبئی سانحے پر بھارتی پراپیگنڈے کونشر کیا اور اس کے مطابق اجمل قصاب کے گائوں پہنچ کر اس کے آبائی گھر پر کیمرے مرکوز کر دیے گئے، پاکستانی میڈیا نے یہ کہانیاں بھی گھڑیں کہ اس گائوں میں ہمارے خفیہ اداروں کے اہل کار ان کے راستے میں رکاوٹ بنے۔یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ انیس سو اکہتر کے سانحے پر ہمارے میڈیا نے بھارتی الزامات کی گرادن ہی کی ہے اور پاک فوج کو مطعون کرنے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔
پاکستان کی سول سوسائٹی کا بھی خیال ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی تحریک میں بھارت حق بجانب تھا۔آج چار عشرے گزرنے کے بعد بنگلہ دیش میں جنگی جرائم کے مقدمے چلائے جا رہے ہیں اور لوگوں کو پاک فوج کاساتھ دینے پر پھانسی کی سزا سنائی جا رہی ہے مگر پاکستان میں سول سوسائٹی یا میڈیا کی طرف سے بنگلہ دیش کی مذمت میں ایک آواز بھی نہیں اٹھی۔پی سی سی ا ٓئی اے کی اس میٹنگ میں اس خدشے کا اظہار کیا گیا کہ خدا نخواستہ اگر مستقبل میں پاک بھارت جنگ چھڑی تو کہیں ہمارا میڈیا بھارتی فوج کی طرف سے جنگ کی کوریج کرتا دکھائی نہ دے۔پاکستان میں فوج اور سول سوسائٹی کے درمیان اعتماد کے اس فقدان کا فائدہ دشمن کو ملے گا۔ ساری دنیا میں قومی سلامتی پر اس کی فوج کا نقطہ نظر قبول کیا جاتا ہے جب کہ ہمارے ہاں یہ کہنا فیشن بن گیا ہے کہ فارن پالیسی کی تشکیل پر دفتر خارجہ کے بجائے جی ایچ کیو، کو اجارہ داری حاصل ہے۔وار آن ٹیرر میں ہمارے میڈیا کے بڑے حصے کی ہمدردیاں دہشت گردوں کے ساتھ ہیں اور ان کے ترجمان کے بیانات کو بڑے تفاخر کے ساتھ میڈیا میں اچھالا جاتا ہے۔
میں یہاں ان رٹ پیٹیشنوں کی بات نہیں کرتا جو خفیہ اداروں کے خلاف دائر کی گئی ہیں ، لا پتہ افراد کے سلسلے میں ہمارے میڈیا نے اپنے فوجی اداروں کے خلاف پالیسی اپنا رکھی ہے اور اسے کلمہ حق قرار دیا جاتا ہے اور دلیری اور جرات کی علامت سمجھا جاتا ہے۔اس طرز عمل کی وجوہات آسانی سے سمجھ میں آتی ہیں۔ ایک تو طویل عرصے تک فوج نے حکومت پر قبضہ جمائے رکھا۔ دوسرے غیر ملکی طاقتوں کی کوشش ہے کہ پاک فوج کو کمزور کیا جائے، اسے عوام سے دور کر دیا جائے تا کہ یہ فوج عالمی دبائو کا مقابلہ کرنے کی سکت کھو بیٹھے۔میں ان سطور میں بار بار اس نکتے پر زور دے رہا ہوں کہ ماضی میں فوج نے کیا کیا، یہ رفت گزشت والا قصہ ہے، دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کیا فوج اب بھی عوام کے حق حکمرانی میں کوئی رکاوٹ ڈال رہی ہے، اگر جواب نفی میں ہے تو پھر اس فوج پر اس قدر بد اعتمادی کیوں اور اسے رگڑا لگانے کا اس قدر شوق فضول کیوں! ہم اپنی بقا اور سلامتی کے مسئلے پر بے حس کیوں واقع ہوئے ہیں!!
بھارتی فوج نے جارحیت کا ارتکاب کرتے ہوئے کنٹرول لائن پر منگل کو ایک اور پاکستانی فوجی کو شہید کر دیا ہے۔کنٹرول لائن پر ایک عرصے کے بعد کشیدگی کا آغاز بھارت کے ان الزامات کے بعد ہوا کہ اس کے چند فوجیوں کو اغوا کر کے ان کا سر قلم کر دیا گیا ہے۔پاکستان نے فوری طور پر اس الزام کی صحت سے انکار کیا اور بھارت کو پیش کش کی کہ وہ اس سانحے کی تفتیش اقوام متحدہ کے ذریعے کرا لے۔ کشیدگی کے خاتمے کے لیے فلیگ میٹنگ بھی منعقد ہوئی اور پاکستان کے ڈی جی ملٹری آپریشنز نے بھی اپنے بھارتی ہم منصب سے ہاٹ لائن پر بات چیت کی۔
یہ امر کسی تعجب کا باعث نہیں کہ بھارت نے نہ تو فلیگ میٹنگ میں قیام امن پر آمادگی کا اظہار کیا اور نہ یو این او سے تحقیقات کی تجویز کو قبول کیا۔اس کے برعکس سب سے پہلے بھارتی فضائیہ کے سربراہ نے دھمکی دی کہ پاکستان کو مسکت جواب دیا جائے گا، پھربھارتی فوج کے سربراہ نے کہا کہ وہ پاکستان کو جواب دینے کے لیے مرضی کا محاذ اور وقت کا انتخاب کریں گے۔ بھارتی وزیر اعظم اور وزیر خارجہ بھی پیچھے نہ رہے، ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے ساتھ معمول کے تعلقات برقرار رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔وزیر اعظم نے یہ دھمکی جاری کرنے کے لیے حکمران جماعت کانگریس کے سالانہ اجلاس کا انتخاب کیا۔
ان پے در پے دھمکیوں کے بعد کنٹرول لائن پر کشیدگی انتہا کو پہنچ گئی اور ایک ایسا علاقہ جہاں فائر بندی پرموثر طور پر عمل ہو رہا تھا، ایک بار پھر گھن گرج سے لرز اٹھا ۔ قیام پاکستان کے بعد سے کنٹرول لائن پر فائرنگ کبھی ختم ہونے میں نہ آتی تھی تاہم پاکستان کے وزیر اعظم ظفراللہ جمالی نے سن دو ہزار تین میں اعلان کیا کہ ہم یک طرفہ طور پر سیز فائر کر رہے ہیں ، بھارت نے بھی جواب میں سیز فائر کو قبول کر لیا مگر برسوں بعد اس سال کے آغاز میں آٹھ جنوری کو بھارت نے الزام عائد کیا کہ اس کے دو فوجیوں کو اغوا کر کے ہلاک کیا گیا ہے جن میں سے ایک کی لاش مسخ شدہ ہے۔
پاکستان کے آئی ایس پی آر کی طرف سے فوری طور پر کہا گیا کہ بھارت کا یہ الزام مضحکہ خیز ہے، ڈی جی ایم او نے بھی بھارت سے ہاٹ لائن پر اس الزام کی تردید کی اور کسی بھی سطح کی تحقیقات کی پیش کش کر دی لیکن بھارت نے تحقیقات کے لیے آمادگی کا اظہار نہیں کیا۔کنٹرول لائن پر مبینہ طور پر اپنے دو فوجیوں کی ہلاکت کا بدلہ لینے کے لیے بھارت اب تک چھ پاکستانی فوجیوں کو شہید کر چکا ہے اور یہ سلسلہ کہیں رکتا نظر نہیں آتا۔ اس کشیدگی کی وجہ سے دونوں ملکوں کے درمیان ویزا کے اجرا میں نرمی کا معاہدہ کھٹائی کا شکار ہو گیا ہے۔وزیر داخلہ رحمن ملک نے گزشتہ روز کہا تھا کہ بھارت کو ان جھڑپوں کی آڑ میں تعلقات معمول پر لانے کے عمل میں رکاوٹ نہیں کھڑی کرنی چاہیے ۔مگر بھارت کے رویے میں کسی لچک کے آثار نظر نہیں آتے۔
منگل کو ایک اور پاکستانی فوجی کی شہادت سے خدشہ پید اہوتا ہے کہ کہیں کنٹرول لائن پر بھڑکنے والی چنگاریاں برصغیر کے خرمن امن کو خاکستر کر کے نہ رکھ دیں۔ یہ امر اور بھی افسوسناک ہے کہ پاکستان میں ایک بے حسی کا عالم ہے جب کہ بھارتی میڈیا اور اس کے رد عمل میں بھارتی حکومت کی طرف سے پاکستان کے خلاف آگ اگلی جا رہی ہے۔پاکستان میں یہ عرصہ لانگ مارچ کی بحثوں کی نذر ہو گیا۔سیاستدان ایک دوسرے کے خلاف تلواریں نیام سے نکالتے نظر آئے، جو بھی صف بندی ہوئی، وہ الیکشن کے سلسلے میں تھی جن کے انعقاد کے لیے ابھی کوئی تاریخ بھی نہیں دی گئی ، ملکی سلامتی کو لاحق خطرات پر نہ میڈیا میں کوئی بحث ہوئی، نہ ہمارے سیاستدانوں کو بھارتی جارحیت کی مذمت کی تو فیق ہو سکی۔
اس صورت حال کا ادراک اسی ہفتے پریس کونسل آف انٹرنیشنل کی معمول کی ایک میٹنگ میں ہوا جس کے مہمان خصوصی جناب اکرم شہیدی تھے۔ وہ سابق وزیر اعظم گیلانی کے میڈیا ایڈوائزر تھے، واشنگٹن کے پاکستانی سفارتخانے میں پریس منسٹر کے فرائض بھی انجام دیتے رہے اور حکومت پاکستان کے سیکریٹری اطلاعات کے منصب پر بھی فائز رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارتی میڈیا پاکستان کے خلاف الزامات کی بوچھاڑ کر رہا ہے اور بھارتی حکومت کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ پاکستان کے خلاف سخت رد عمل کا اظہار کرے مگر بدقسمتی سے قومی سلامتی کا مسئلہ پاکستانی میڈیا کی توجہ کا باعث نہیں بن سکا۔
اس میٹنگ کے شرکا کی طرف سے یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ بالفرض اگرپاکستانی میڈیا میں اس معاملے کو اٹھایا بھی جاتا ہے تو کیا پتہ کہ بھارتی الزامات ہی کو نہ اچھالنا شروع کر دیا جائے، یہ ہمارا پریس ہی تھا جس نے ممبئی سانحے پر بھارتی پراپیگنڈے کونشر کیا اور اس کے مطابق اجمل قصاب کے گائوں پہنچ کر اس کے آبائی گھر پر کیمرے مرکوز کر دیے گئے، پاکستانی میڈیا نے یہ کہانیاں بھی گھڑیں کہ اس گائوں میں ہمارے خفیہ اداروں کے اہل کار ان کے راستے میں رکاوٹ بنے۔یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ انیس سو اکہتر کے سانحے پر ہمارے میڈیا نے بھارتی الزامات کی گرادن ہی کی ہے اور پاک فوج کو مطعون کرنے کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔
پاکستان کی سول سوسائٹی کا بھی خیال ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی تحریک میں بھارت حق بجانب تھا۔آج چار عشرے گزرنے کے بعد بنگلہ دیش میں جنگی جرائم کے مقدمے چلائے جا رہے ہیں اور لوگوں کو پاک فوج کاساتھ دینے پر پھانسی کی سزا سنائی جا رہی ہے مگر پاکستان میں سول سوسائٹی یا میڈیا کی طرف سے بنگلہ دیش کی مذمت میں ایک آواز بھی نہیں اٹھی۔پی سی سی ا ٓئی اے کی اس میٹنگ میں اس خدشے کا اظہار کیا گیا کہ خدا نخواستہ اگر مستقبل میں پاک بھارت جنگ چھڑی تو کہیں ہمارا میڈیا بھارتی فوج کی طرف سے جنگ کی کوریج کرتا دکھائی نہ دے۔پاکستان میں فوج اور سول سوسائٹی کے درمیان اعتماد کے اس فقدان کا فائدہ دشمن کو ملے گا۔ ساری دنیا میں قومی سلامتی پر اس کی فوج کا نقطہ نظر قبول کیا جاتا ہے جب کہ ہمارے ہاں یہ کہنا فیشن بن گیا ہے کہ فارن پالیسی کی تشکیل پر دفتر خارجہ کے بجائے جی ایچ کیو، کو اجارہ داری حاصل ہے۔وار آن ٹیرر میں ہمارے میڈیا کے بڑے حصے کی ہمدردیاں دہشت گردوں کے ساتھ ہیں اور ان کے ترجمان کے بیانات کو بڑے تفاخر کے ساتھ میڈیا میں اچھالا جاتا ہے۔
میں یہاں ان رٹ پیٹیشنوں کی بات نہیں کرتا جو خفیہ اداروں کے خلاف دائر کی گئی ہیں ، لا پتہ افراد کے سلسلے میں ہمارے میڈیا نے اپنے فوجی اداروں کے خلاف پالیسی اپنا رکھی ہے اور اسے کلمہ حق قرار دیا جاتا ہے اور دلیری اور جرات کی علامت سمجھا جاتا ہے۔اس طرز عمل کی وجوہات آسانی سے سمجھ میں آتی ہیں۔ ایک تو طویل عرصے تک فوج نے حکومت پر قبضہ جمائے رکھا۔ دوسرے غیر ملکی طاقتوں کی کوشش ہے کہ پاک فوج کو کمزور کیا جائے، اسے عوام سے دور کر دیا جائے تا کہ یہ فوج عالمی دبائو کا مقابلہ کرنے کی سکت کھو بیٹھے۔میں ان سطور میں بار بار اس نکتے پر زور دے رہا ہوں کہ ماضی میں فوج نے کیا کیا، یہ رفت گزشت والا قصہ ہے، دیکھنے کی بات یہ ہے کہ کیا فوج اب بھی عوام کے حق حکمرانی میں کوئی رکاوٹ ڈال رہی ہے، اگر جواب نفی میں ہے تو پھر اس فوج پر اس قدر بد اعتمادی کیوں اور اسے رگڑا لگانے کا اس قدر شوق فضول کیوں! ہم اپنی بقا اور سلامتی کے مسئلے پر بے حس کیوں واقع ہوئے ہیں!!