کالعدم تنظیموں کے دہشتگردوں کے اندرون سندھ ڈیرے ڈالنا شروع کردیے
کارروائی سے خوفزدہ ہوکرکراچی چھوڑنے کا فیصلہ منگھو پیراجلاس کے بعد کیا گیا
کالعدم تنظیموں کے دہشت گردوں نے کراچی سے کوچ کر کے اندرون سندھ کے مختلف علاقوں میں اپنے ڈیرے ڈالنا شروع کر دیے۔
احسان اللہ احسان نے اپنے انکشافات میں بتایا ہے کہ حساس اداروں کی تابڑ توڑ کارروائیوں کے بعد افغانستان سے نیٹ ورک چلانے والے پاکستانی دہشت گرد گروپ اب اپنے آپ کوغیرمحفوظ تصور کرنے لگے ہیں اور ان میں اختلافات اور ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے بداعتمادی کی ایسی فضا قائم ہو چکی ہے جس سے ان کا شیرازہ بکھرتا ہوا نظرآرہا ہے جبکہ متعدد طالبان کمانڈرز بھارتی اورافغان ایجنسیوں کے اثررسوخ سے بھی تنگ ہیں اور پاکستانی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال کرقانون کے سامنے پیش ہونے کیلیے بھی تیارہیں۔
ذرائع کے مطابق انٹیلی جنس بیور، رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پے در پے چھاپوں سے خوفزدہ ہو کر کراچی کے مختلف علاقوں بلدیہ ٹاؤن، قائم خانی کالونی، محمد خان کالونی، مواچھ گوٹھ، منگھو پیر، سہراب گوٹھ، میمن گوٹھ ، افغان کیمپ اور نیو سبزی منڈی کے علاقوں سمیت شہر کے دیگر علاقوں میں رہائش پذیر کالعدم تنظیموں کے مقامی سربراہان اوران کے کارندوں نے خوفزدہ ہو کر نقل مکانی شروع کر دی ہے۔
علاوہ ازیں دہشت گرد جو پہلے کراچی کو اپنے لیے جنت سمجھتے تھے اب اس کو انتہائی خطرناک شہر قرار دے رہے ہیں، گزشتہ کالعدم تنظیموں کے کمانڈرز کے درمیان ایک اہم اجلاس منگھو پیر میں منعقد ہوا جس میں تمام کالعدم تنظیموں کے مقامی سربراہان نے مشترکہ طور پر فیصلہ کیا کہ اب کراچی میں رہنا ان کے لیے کسی خطرے سے خالی نہیں ہے کیونکہ ان کے اپنے درمیان بھی کچھ ایسے لوگ ہیں جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران سے رابطے میں ہیں۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ کیونکہ اندرون سندھ میں رینجرز کی کارروائیاں کم ہیں لہذا اپنے ٹھکانے کچھ دنوں کے لیے کراچی سے ختم کر دیے جائیں، ذرائع نے بتایا کہ کالعدم تنظیموں کے کارندوں نے کوٹری، نواب شاہ ، ٹنڈو آدم، خیرپور، سکھر، دادو اور لاڑکانہ سمیت دیگر علاقوں میں اپنے ڈیرے بنائے ہیں۔
ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ سندھ کے مذکورہ علاقوں میں مساجد و مدارس اور ہوٹلز میں رش بڑھ گیا جبکہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان اور بعد میں جماعت الا حرار کے کمانڈر احسان اللہ احسان کچھ عرصہ قبل کراچی کے علاقے منگھو پیر میں رہائش پذیر تھا پھر وانا چلا گیا اور وانا میں کچھ عرصہ قیام کرنے کے بعد ہتھیار پھینک کر خود کو فوج کے سپرد کر دیا۔
واضح رہے کہ کہ ہتھیار ڈال کر قانون کے سامنے پیش ہونے کے سلسلے میں ایجنسیاں سابقہ منحرف طالبان رہنماؤں کی مدد سے کام کر رہی ہیں، احسان اللہ احسان کے معاملے میں بھی عصمت اللہ معاویہ نامی منحرف پنجابی طالبان کمانڈر اور پاکستان و افغانستان کے طالبان معاملات پر غیر معمولی دسترس کے حامل ایک صحافی نے ضمانتی کا کردار ادا کرتے ہوئے احسان اللہ احسان کو قومی دھارے میں لانے کی کوشش کی۔
احسان اللہ احسان نے اپنے انکشافات میں بتایا ہے کہ حساس اداروں کی تابڑ توڑ کارروائیوں کے بعد افغانستان سے نیٹ ورک چلانے والے پاکستانی دہشت گرد گروپ اب اپنے آپ کوغیرمحفوظ تصور کرنے لگے ہیں اور ان میں اختلافات اور ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے بداعتمادی کی ایسی فضا قائم ہو چکی ہے جس سے ان کا شیرازہ بکھرتا ہوا نظرآرہا ہے جبکہ متعدد طالبان کمانڈرز بھارتی اورافغان ایجنسیوں کے اثررسوخ سے بھی تنگ ہیں اور پاکستانی فوج کے سامنے ہتھیار ڈال کرقانون کے سامنے پیش ہونے کیلیے بھی تیارہیں۔
ذرائع کے مطابق انٹیلی جنس بیور، رینجرز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پے در پے چھاپوں سے خوفزدہ ہو کر کراچی کے مختلف علاقوں بلدیہ ٹاؤن، قائم خانی کالونی، محمد خان کالونی، مواچھ گوٹھ، منگھو پیر، سہراب گوٹھ، میمن گوٹھ ، افغان کیمپ اور نیو سبزی منڈی کے علاقوں سمیت شہر کے دیگر علاقوں میں رہائش پذیر کالعدم تنظیموں کے مقامی سربراہان اوران کے کارندوں نے خوفزدہ ہو کر نقل مکانی شروع کر دی ہے۔
علاوہ ازیں دہشت گرد جو پہلے کراچی کو اپنے لیے جنت سمجھتے تھے اب اس کو انتہائی خطرناک شہر قرار دے رہے ہیں، گزشتہ کالعدم تنظیموں کے کمانڈرز کے درمیان ایک اہم اجلاس منگھو پیر میں منعقد ہوا جس میں تمام کالعدم تنظیموں کے مقامی سربراہان نے مشترکہ طور پر فیصلہ کیا کہ اب کراچی میں رہنا ان کے لیے کسی خطرے سے خالی نہیں ہے کیونکہ ان کے اپنے درمیان بھی کچھ ایسے لوگ ہیں جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران سے رابطے میں ہیں۔
اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ کیونکہ اندرون سندھ میں رینجرز کی کارروائیاں کم ہیں لہذا اپنے ٹھکانے کچھ دنوں کے لیے کراچی سے ختم کر دیے جائیں، ذرائع نے بتایا کہ کالعدم تنظیموں کے کارندوں نے کوٹری، نواب شاہ ، ٹنڈو آدم، خیرپور، سکھر، دادو اور لاڑکانہ سمیت دیگر علاقوں میں اپنے ڈیرے بنائے ہیں۔
ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ سندھ کے مذکورہ علاقوں میں مساجد و مدارس اور ہوٹلز میں رش بڑھ گیا جبکہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان اور بعد میں جماعت الا حرار کے کمانڈر احسان اللہ احسان کچھ عرصہ قبل کراچی کے علاقے منگھو پیر میں رہائش پذیر تھا پھر وانا چلا گیا اور وانا میں کچھ عرصہ قیام کرنے کے بعد ہتھیار پھینک کر خود کو فوج کے سپرد کر دیا۔
واضح رہے کہ کہ ہتھیار ڈال کر قانون کے سامنے پیش ہونے کے سلسلے میں ایجنسیاں سابقہ منحرف طالبان رہنماؤں کی مدد سے کام کر رہی ہیں، احسان اللہ احسان کے معاملے میں بھی عصمت اللہ معاویہ نامی منحرف پنجابی طالبان کمانڈر اور پاکستان و افغانستان کے طالبان معاملات پر غیر معمولی دسترس کے حامل ایک صحافی نے ضمانتی کا کردار ادا کرتے ہوئے احسان اللہ احسان کو قومی دھارے میں لانے کی کوشش کی۔