شادی سے قبل تھیلیسیمیا ٹیسٹ کیلئے قانون سازی کی جائے
حکومتی و سماجی شخصیات کی ’’تھیلیسیمیا کے عالمی دن‘‘ کے حوالے سے منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں گفتگو
KARACHI:
تھیلیسیمیا ایک موروثی مرض ہے جو والدین سے بچوں میں جینز کے ذریعے منتقل ہوتا ہے۔
اس بیماری کی دو اقسام، تھیلیسیمیا مائنر اور تھیلیسیمیا میجر ہیں۔ اگر دونوں والدین کی خراب جینز بچے میں منتقل ہوجائیں تو پیدا ہونے والا بچہ تھیلیسیمیا میجر ہوتا ہے لیکن اگر ایک خراب جین بچے میں منتقل ہو تو وہ تھیلیسیمیا مائنر ہوگا جسے کیریئر کہا جاتا ہے۔ اگرایک کیرئیرمرد کسی کیریئر خاتون سے شادی کرے تو اس صورت میںبچے کا تھیلیسیمیا میجر ہونے کا امکان 25فیصد ہے جبکہ 50فیصد امکان ہے کہ وہ تھیلیسیمیا مائنر کا مریض ہو۔
اس وقت پاکستان میں تقریباََ ایک کروڑ افراد تھیلیسیمیا مائنر ہیں جبکہ ایک لاکھ کے قریب تھیلیسیمیا میجر کے مریض ہیں جبکہ ہر سال ہزاروں بچے اس مرض کا شکار ہورہے ہیں۔ اس بیماری کے خاتمے کے لیے سرکاری و فلاحی ادارے کام کررہے ہیں تاہم اس میں سب سے اہم لوگوں کو آگاہی دینا ہے کہ دو تھیلیسیمیا مائنر آپس میں شادی نہ کریں۔ ''تھیلیسیمیا کے عالمی دن'' کے موقع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومتی و سماجی شخصیات نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذرقارئین ہے۔
خواجہ عمران نذیر ( وزیر صحت پنجاب)
تھیلیسیمیا کے مریضوں کی بنیادی ضرورت خون ہے اور حکومت انہیں صاف اور صحت مند خون کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے اقدامات کررہی ہے۔ صوبے بھر میں بلڈ بینک بنائے جارہے ہیں تاکہ خون کی ضرورت پوری کرنے کے ساتھ ساتھ ناقص اور گندے خون کے انتقال کو روکا جاسکے ۔ اس حوالے سے طیب اردوگان ٹرسٹ اور انڈس ہسپتال کے ساتھ گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ پنجاب کی موجودگی میں معاہدہ پر دستخط کیے گئے ہیں جس سے معاملات میں بہتری آئے گی۔
ماضی میں پنجاب بلڈ لائن کا منصوبہ شروع کیا گیا تھا جس میں بلڈ سیمپلنگ کی گئی مگر بعدازاں عام انتخابات کی وجہ سے اس پر مزید کام نہیں ہوسکا۔ اب وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے اس پروگرام کو دوبارہ شروع کرنے کی ہدایات جاری کردی گئی ہیں، جس کے بعد علاقائی سطح پر بلڈ بینک قائم کیے جائیں گے۔
اس میں بلڈ ڈونرز کی رجسٹریشن کی جائے گی، ان کے خون کی سکریننگ ہوگی اور اس طرح بیماریوں والا خون کسی بھی مریض کو منتقل نہیں ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف علاقوں میں قائم تمام نجی بلڈ بینکوں کی رجسٹریشن کی جائے گی، ان کے معیار اور کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا، بلڈ ٹیسٹ کیے جائیں گے جبکہ غیر قانونی بلد بینکس فوری طور پر ختم کردیئے جائیں گے۔
تھیلیسیمیا ایک ایسا مرض ہے جس میں احتیاط انتہائی اہم ہے، اگر احتیاطی تدابیر اپنا لی جائیں تو نئے مریضوں کی پیدائش روکی جاسکتی ہے اور اس طرح ہم بہت جلد اس مرض کا خاتمہ کرسکتے ہیں تاہم جو مریض ابھی موجود ہیں انہیں علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہے اور اسی لیے ہی ''پنجاب تھیلیسیمیا پروگرام'' شروع کیا گیا جو اس وقت صرف صوبہ پنجاب میں چل رہا ہے جبکہ دیگر صوبوں میںا س مرض کے حوالے سے کوئی پروگرام نہیں ہے اور وہاں سے مریض علاج کے لیے پنجاب آتے ہیں۔
مریضوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ہمارا محکمہ ''تھیلیسیمیا پریوینشن پروگرام'' کو سالانہ ایک کروڑ روپیہ گرانٹ دیتا ہے، اس رقم میں بتدریج اضافہ کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ ہم ہیلتھ کیئر کمیشن اور بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی کے درمیان اس مرض کے حوالے سے ''پل'' کا کردار ادا کررہے ہیں تاکہ ممکنہ رکاوٹوں کو دور کیا جاسکے اور اس حوالے سے ہنگامی بنیادوں پر کام ہوسکے۔
ڈاکٹر یاسمین راشد (سیکرٹری جنرل تھیلیسیمیا فیڈریشن آف پاکستان)
تھیلیسیمیاایک عام موروثی مرض ہے اور 60فیصد لوگ اس کے کیرئیر ہیں۔ کیرئیر شخص کو تھیلیسیمیا مائنر کہتے ہیں جس میں خراب ''جین'' موجود ہوتی ہے، اگر دو مائنر کی آپس میں شادی ہوجائے تو تھیلیسیمیا میجر بچے کی پیدائش کا 25فیصد امکان ہوتا ہے۔ تھیلیسیمیا میجر کے مریض کے خون کے سرخ خلیے ٹوٹ جاتے ہیں، وہ خون کی کمی کا شکار ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے اسے ہر ماہ خون کی ضرورت پیش آتی ہے۔
خون کے مسلسل انتقال سے جسم میں فولاد کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور اگر یہ مقدار 1000ملی گرام سے زیادہ ہوجائے تو نقصاندہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے دل، پٹھوں و دیگر اعضاء کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں لہٰذا فولاد کے اخراج کیلئے ٹیکے یا ادویات دی جاتی ہیں اور یہ دونوں طریقہ علاج مہنگے ہیں۔ ایک مریض کے علاج پر اوسط 35سے 40 ہزار روپے ماہانہ خرچ آتا ہے جو غریب کی پہنچ سے باہر ہے۔ اس وقت پاکستان میں ایک لاکھ سے زائد تھیلیسیمیا میجر موجود ہیں، ہمارے پاس 30ہزار مریضوں کا ریکارڈ موجود ہے جبکہ دیہی علاقوں کے مریضوں کے حوالے سے صحیح اعدادو شمار موجود نہیں ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اس حوالے سے کیا کرنا چاہیے؟ میرے نزدیک اس مرض پر قابو پانے کیلئے احتیاطی تدابیر انتہائی ضروری ہیں اور اس کے لیے شادی سے پہلے اس مرض کی تشخیص ہونی چاہیے۔ 94ء میں پہلی مرتبہ میں نے دوران حمل بچے کا تھیلیسیمیا ٹیسٹ کیا۔ یہ ٹیسٹ حمل کے تیسرے ماہ کیا جاتا ہے اور اگر بچہ تھیلیسیمیا میجر کا مریض ہو تو اس صورت میں حمل ضائع کروانے کا فیصلہ والدین نے کرنا ہوتا ہے۔ اس ٹیسٹ کی سہولت سرکاری ہسپتالوں میں موجود ہے۔
''پنجاب تھیلیسیمیا پریونشن پروگرام'' ایشیا کا سب سے بڑا منصوبہ ہے، موجودہ حکومت اس پر کام کررہی ہے جو خوش آئند بات ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے اسے اپنایا ہے تاہم اس کا کریڈٹ چودھری پرویز الٰہی کو بھی جانا چاہیے کیونکہ یہ ان کے دور میں شروع ہوا۔ اس پروگرام کے تحت سر گنگارام ہسپتال میں تھیلیسیمیا کے حوالے سے تمام سہولیات موجود ہیں، یہاں فری سکریننگ کی جاتی ہے اور اس کے علاوہ تھیلیسیمیا میجر کے شکار بچوں کے خاندانوں کی ٹارگٹ سکریننگ بھی کی جارہی ہے۔ ان کی کاؤنسلنگ بھی کی جاتی ہے کہ دو تھیلیسیمیا کیریئر آپس میں شادی نہ کریں لیکن اگر مجبوری ہے تو پھر دوران حمل ٹیسٹ ضرور کرائیں تاکہ تھیلیسیمیا میجر بچے کی پیدائش کو روکا جاسکے۔
تھیلیسیمیا کے حوالے سے لاہور، روالپنڈی، ملتان اور بہاولپور میں ہیڈ کوارٹر قائم کیے گئے ہیں جہاں اس مرض کے حوالے سے تمام سہولیات موجود ہیں۔ پنجاب تھیلیسیمیا پریوینشن پروگرام بہترین ہے میرے نزدیک دیگر صوبوں کو بھی اس پروگرام کو چلانا چاہیے۔ خیبر پختونخوا میں اس حوالے سے ''پی سی ون'' تیار ہوچکا ہے، آئندہ مالی بجٹ میں یہ پروگرام شامل ہوگا۔
شادی سے قبل تھیلیسیمیا ٹیسٹ لازمی قرار دینے کا بل زیر غور ہے مگر ہم چاہتے ہیں کہ جب تک اس کے مفت ٹیسٹ کی سہولت تحصیل ہیڈ کوارٹر تک نہ پہنچ جائے تب تک یہ بل پاس نہ کیا جائے، بصورت دیگر غریب آدمی پر بوجھ بڑھ جائے گا۔ پنجاب میں تھیلیسیمیا کے حوالے سے جس طرح کام ہورہا ہے، اگر اسی طریقے سے آگے بھی ہوتا رہا تو آئندہ 10 برسوں میں کافی حد تک اس مرض پر قابو پالیا جائے گا۔
ڈاکٹر یاسمین احسان (کوآرڈی نیٹرپنجاب تھیلیسیمیا پریوینشن پروگرام)
تھیلیسیمیا ایک موروثی بیماری ہے جو والدین سے جینز کے ذریعے بچوں میں منتقل ہوتی ہے۔ یہ بیماری مریض سے انتقال خون، ہوا، پانی، جسمانی یا جنسی تعلق سے منتقل نہیں ہوسکتی۔ تھیلیسیمیا والدین سے ناقص جینز کی منتقلی سے لاحق ہوتا ہے، اگر بچے میں ماں اور باپ دونوں سے ناقص جین منتقل ہو تو وہ تھیلیسیمیا میجر کا مریض ہوگا ۔ اس بیماری میں بچے کے خون کے سرخ خلیات کی نشو نما ٹھیک طریقے سے نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہ خون کی کمی کا شکار ہوجاتا ہے۔ پھر اسے مرض کی نوعیت کے مطابق ایک ماہ بعد یا ایک ماہ میں 2سے 4مرتبہ خون کی ضرورت پڑتی ہے۔
خون لگنے سے اس کے جسم میں فولاد کی زیادتی ہوجاتی ہے جس سے دل ، جگر، پٹھے و دیگر اعضاء کی بیماریاں پیدا ہوجاتی ہیں اخراج فولاد کے لیے انہیں ٹیکے و ادویات دی جاتی ہیں۔ اس مرض میں مبتلا بچے جسمانی اور ذہنی طور پر نارمل ہوتے ہیں لہٰذا اگر انہیں علاج کی تمام سہولیات دی جائیں تو وہ نارمل زندگی گزار سکتے ہیں۔ ہمارے ملک میں علاج معالجے کی سہولیات بہت کم ہیں ۔ ایک تھیلیسیمیا میجر کے مریض کے علاج پر سالانہ 3 لاکھ روپے خرچ آتا ہے، ملک میں اس وقت 60ہزار تھیلیسیمیا کے مریض موجود ہیں جبکہ ہر سال 6ہزار تھیلیسیمیا کا شکار بچے پیدا ہوتے ہیں لہٰذا اگر صحت کا پورا بجٹ بھی ان پر خرچ کردیا جائے تب بھی علاج ممکن نہیں۔
پنجاب میں تھیلیسیمیا پری وینشن پروگرام شروع کیا گیا جس کے تحت ٹارگٹ سکریننگ کی جارہی ہے اور اب تک ہم ایک لاکھ سے زائد کی سکریننگ کرچکے ہیں۔ تھیلیسیمیا کا کیریئر ریٹ 54 فیصد ہے۔ پاکستان میں سوا کروڑ افراد اس کے کیریئر ہیں۔ اس مرض کا بہتر علاج احتیاط ہے، شادی سے پہلے تھیلیسیمیا ٹیسٹ کروانا چاہیے اور دو تھیلیسیمیا کیرئر کو آپس میں شادی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اس سے بچے کا تھیلیسیمیا میجر ہونے کا 25فیصد امکان موجود ہے۔
دوران حمل بچے کاتھیلیسیمیا ٹیسٹ ممکن ہے جس سے قبل از پیدائش بچے میں اس مرض کے بارے میں تشخیص ہوجاتی ہے ۔ یہ ٹیسٹ 10سے 12ہفتے کے حمل پر کیا جاسکتا ہے۔ یہ رپورٹ 99.5فیصد درست ہوتی ہے، اگر رپورٹ میں ثابت ہو کہ بچے کو تھیلیسیمیا میجر ہے تو والدین کی باہم رضا مندی سے حمل ضائع کرایا جاسکتا ہے۔ یہ سہولت پاکستان میں 1994ء میں متعارف کرائی گئی۔ اس کے حوالے سے علماء سے فتویٰ بھی لیا گیا کہ اگر شدید جینیاتی بیماری کی تشخیص ہوجائے تو 120دن سے پہلے حمل ضائع کرایا جاسکتا ہے۔ یہ طریقہ علاج دیگر اسلامی ممالک میں بھی موجود ہے۔
پنجاب میں تھیلیسیمیا کے مریض بچوں کے پورے خاندان کا بلڈ ٹیسٹ اور ان کی کاؤنسلنگ کی جارہی ہے، ہماری ٹیم ان کے گھر جاکر خون کے نمونے حاصل کرتی ہے اور گھر پہ ہی رپورٹ فراہم کی جاتی ہے اور یہ تمام سہولیات مفت فراہم کی جارہی ہیں۔ ایسا کرنے سے 30سے 35فیصد کیریئر ہمیں مل جاتے ہیں۔
پنجاب کے 36 اضلاع میں ہماری فیلڈ ٹیمیں موجود ہیں، لاہور، راولپنڈی، ملتان اور بہاولپور میں ریجنل سینٹرزقائم ہیں جہاں تمام سہولیات میسر ہیں۔ 4ڈویژن میں میں ریجنل سینٹرز موجود ہیں جبکہ اب باقی کے پانچ ڈویژنز میں بھی تھیلیسیمیا ریجنل سینٹرز قائم کیے جائیں گے، اس کے علاوہ سینٹر آف ایکسی لینس قائم کرنے کی تجویز بھی زیر غور ہے جہاں ایک ہی چھت کے نیچے تھیلیسیمیا کے مریضوں کے لیے ہر طرح کی سہولیات دستیاب ہونگی۔
بلڈ بینک، سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ، آرتھوپیڈک، جنرل فزیشن وتمام متعلقہ ڈیپارٹمنٹ اس سینٹر میں قائم کیے جائیں گے۔ تھیلیسیمیا کے حوالے سے ڈاکٹروں کی ٹریننگ کے ساتھ ساتھ ڈگری پروگرام بھی شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس سے اس مرض کے حوالے سے کام میں مزید بہتری آئے گی۔ پنجاب میں شادی سے قبل تھیلیسمیا ٹیسٹ لازمی قرار دینے کے حوالے سے بل لانے کی تجوزی بھی زیر غور ہے۔ اس حوالے سے ایران کی طرز پر شادی سے پہلے لڑکے کا تھیلیسیمیا ٹیسٹ لازمی قرار دینے کا بل تیار کرکے محکمہ صحت کو بھجوادیا گیا ہے جسے بہت جلد اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔
اگر لڑکا تھیلیسیمیا مائنر ہوگا تو صرف اسی صورت میں ہی لڑکی کا ٹیسٹ کیا جائے گا بصورت دیگر لڑکی کا ٹیسٹ نہیں ہوگا۔ شادی سے قبل تھیلیسیمیا ٹیسٹ لازمی قرار دینے کا بل سندھ اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں سے منظور ہوچکا ہے مگروہاں کی حکومتیں اپنے لوگوں کو سہولیات نہیں دے سکیں، پنجاب حکومت چاہتی ہے کہ بل پاس ہونے سے قبل بی ایچ یو کی سطح پر ہماری ٹیمیں موجود ہوں جو خون کے نمونے اکٹھے کرکے ریجنل سینٹرز تک پہنچائیں تاکہ لوگوں کو ان کی دہلیز پر سہولیات فراہم کی جاسکیں۔
انجینئرغلام دستگیر (بانی جہاد فار زیرہ تھیلیسیمیا پاکستان)
ہر سال تھیلیسیمیا کے مریضوں کے علاج پر اربوں روپے سالانہ خرچ کیے جاتے ہیں جو خزانے پر اضافی بوجھ ہے کیونکہ اس مرض کا علاج ممکن نہیں ہے لہٰذا اس مرض کی روک تھام پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے رضا کار طلباء نے اپنی مدد آپ کے تحت ملک میں دیوار آگاہی کا سلسلہ شروع کیا ہے جس سے لوگوں کو آگاہی مل رہی ہے۔
ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ ہر تعلیمی ادارے میں تھیلیسیمیا کے حوالے سے کم از کم ایک دیوار آگاہی لازمی قائم کرے تاکہ طلباء کو آگاہی دی جاسکے جو گھر جاکر اپنے والدین اور اردگرد موجود لوگوں کو اس مرض کے حوالے سے آگاہی دے سکیں۔اس کے علاوہ ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ اگر حکومت صحیح معنوں میں اس مرض کا خاتمہ چاہتی ہے تو پھرڈینگی کی طرز پر ہنگامی اقدامات اٹھاتے ہوئے اس مرض کی روک تھا م کے لیے کام کیا جائے اور اس بیماری کو نصاب میں شامل کیا جائے۔
شادی سے قبل تھیلیسیمیا ٹیسٹ لازمی قرار دیا جائے اور دو تھیلیسیمیا مائنر کو شادی سے روکنے کے لیے قانون سازی کی جائے۔ ہمارے ملک کے کئی حصوں میں تھیلیسیمیا سینٹر ہی نہیں ہیں اور لوگوں کو طویل سفر کرکے اپنے قریبی سینٹر جانا پڑتا ہے لہٰذا اگر حکومت اس حوالے سے آسانی پیدا کردے اور ہر ڈسٹرکٹ کی سطح پر کم از کم ایک تھیلیسیمیا سینٹر قائم کردے تومریضوں کے ساتھ ساتھ خون کا عطیہ دینے والے رضاکاروں کے لیے بھی سہولت ہوگی جس سے اس کارِ خیر میں مزید بہتری آسکتی ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک عملی اقدامات نہیں کیے جائیں گے اور لوگوں کو سہولیات نہیں دی جائیں گی تب تک خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔
ہماری تنظیم کوئی این جی او نہیں ہے، ہم طالبعلم مل کر اس مرض میں مبتلا لوگوں کی خون و دیگر ضروریات پوری کرتے ہیں ، پرتگال کی ایک بڑی یونیورسٹی نے حال ہی میں ہماری کاوشوں کو سراہا ہے اور اب ہمارے طلباء رضاکار بیرون ملک بھی اس حوالے سے آگاہی دے رہے ہیں جس سے دنیا میں پاکستان کی طرف سے مثبت پیغام جارہا ہے۔ ہمارے علاوہ ملک میں لاکھوں رضاکار مختلف فلاحی کام کررہے ہیں، حکومت کو ان کی سرپرستی کرنی چاہیے اور نوجوان نسل کو مثبت اقدامات کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔
ہماری تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی نوجوان نسل نے کسی کام کا بیڑہ اٹھایا ہے تو اسے ضرور پار لگایا ہے لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ نوجوان نسل کے جذبے سے فائدہ اٹھائے ۔ پاکستان میں 46فاؤنڈیشنز ہیں جو تھیلیسیمیا انٹرنیشنل فیڈریشن کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ انہیں کون مانیٹر کررہا ہے اور ان فیڈریشنز نے کیا کام کیا؟
حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی فاؤنڈیشن نے پاکستان میں تھیلیسیمیا کے حوالے سے ریسرچ پیپر نہیں لکھا اور نہ ہی کوئی فیڈریشن عالمی معیار کے مطابق مریضوں کو سہولیات فراہم کررہی ہے۔ 2013ء میں ہائر ایجوکیشن کی جانب سے یونیورسٹیوں کو خط لکھا گیا کہ تھیلیسیمیا کا عالمی دن لازمی منایا جائے لیکن اس کے بعد سے کچھ نہیں ہوا۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو گریجوایشن کی ڈگری کے لیے تھیلیسیمیا ٹیسٹ لازمی قرار دینا چاہیے۔
تھیلیسیمیا ایک موروثی مرض ہے جو والدین سے بچوں میں جینز کے ذریعے منتقل ہوتا ہے۔
اس بیماری کی دو اقسام، تھیلیسیمیا مائنر اور تھیلیسیمیا میجر ہیں۔ اگر دونوں والدین کی خراب جینز بچے میں منتقل ہوجائیں تو پیدا ہونے والا بچہ تھیلیسیمیا میجر ہوتا ہے لیکن اگر ایک خراب جین بچے میں منتقل ہو تو وہ تھیلیسیمیا مائنر ہوگا جسے کیریئر کہا جاتا ہے۔ اگرایک کیرئیرمرد کسی کیریئر خاتون سے شادی کرے تو اس صورت میںبچے کا تھیلیسیمیا میجر ہونے کا امکان 25فیصد ہے جبکہ 50فیصد امکان ہے کہ وہ تھیلیسیمیا مائنر کا مریض ہو۔
اس وقت پاکستان میں تقریباََ ایک کروڑ افراد تھیلیسیمیا مائنر ہیں جبکہ ایک لاکھ کے قریب تھیلیسیمیا میجر کے مریض ہیں جبکہ ہر سال ہزاروں بچے اس مرض کا شکار ہورہے ہیں۔ اس بیماری کے خاتمے کے لیے سرکاری و فلاحی ادارے کام کررہے ہیں تاہم اس میں سب سے اہم لوگوں کو آگاہی دینا ہے کہ دو تھیلیسیمیا مائنر آپس میں شادی نہ کریں۔ ''تھیلیسیمیا کے عالمی دن'' کے موقع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومتی و سماجی شخصیات نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذرقارئین ہے۔
خواجہ عمران نذیر ( وزیر صحت پنجاب)
تھیلیسیمیا کے مریضوں کی بنیادی ضرورت خون ہے اور حکومت انہیں صاف اور صحت مند خون کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے اقدامات کررہی ہے۔ صوبے بھر میں بلڈ بینک بنائے جارہے ہیں تاکہ خون کی ضرورت پوری کرنے کے ساتھ ساتھ ناقص اور گندے خون کے انتقال کو روکا جاسکے ۔ اس حوالے سے طیب اردوگان ٹرسٹ اور انڈس ہسپتال کے ساتھ گزشتہ دنوں وزیراعلیٰ پنجاب کی موجودگی میں معاہدہ پر دستخط کیے گئے ہیں جس سے معاملات میں بہتری آئے گی۔
ماضی میں پنجاب بلڈ لائن کا منصوبہ شروع کیا گیا تھا جس میں بلڈ سیمپلنگ کی گئی مگر بعدازاں عام انتخابات کی وجہ سے اس پر مزید کام نہیں ہوسکا۔ اب وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے اس پروگرام کو دوبارہ شروع کرنے کی ہدایات جاری کردی گئی ہیں، جس کے بعد علاقائی سطح پر بلڈ بینک قائم کیے جائیں گے۔
اس میں بلڈ ڈونرز کی رجسٹریشن کی جائے گی، ان کے خون کی سکریننگ ہوگی اور اس طرح بیماریوں والا خون کسی بھی مریض کو منتقل نہیں ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ مختلف علاقوں میں قائم تمام نجی بلڈ بینکوں کی رجسٹریشن کی جائے گی، ان کے معیار اور کارکردگی کا جائزہ لیا جائے گا، بلڈ ٹیسٹ کیے جائیں گے جبکہ غیر قانونی بلد بینکس فوری طور پر ختم کردیئے جائیں گے۔
تھیلیسیمیا ایک ایسا مرض ہے جس میں احتیاط انتہائی اہم ہے، اگر احتیاطی تدابیر اپنا لی جائیں تو نئے مریضوں کی پیدائش روکی جاسکتی ہے اور اس طرح ہم بہت جلد اس مرض کا خاتمہ کرسکتے ہیں تاہم جو مریض ابھی موجود ہیں انہیں علاج معالجے کی سہولیات فراہم کرنا حکومت کی اولین ترجیح ہے اور اسی لیے ہی ''پنجاب تھیلیسیمیا پروگرام'' شروع کیا گیا جو اس وقت صرف صوبہ پنجاب میں چل رہا ہے جبکہ دیگر صوبوں میںا س مرض کے حوالے سے کوئی پروگرام نہیں ہے اور وہاں سے مریض علاج کے لیے پنجاب آتے ہیں۔
مریضوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے ہمارا محکمہ ''تھیلیسیمیا پریوینشن پروگرام'' کو سالانہ ایک کروڑ روپیہ گرانٹ دیتا ہے، اس رقم میں بتدریج اضافہ کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ ہم ہیلتھ کیئر کمیشن اور بلڈ ٹرانسفیوژن اتھارٹی کے درمیان اس مرض کے حوالے سے ''پل'' کا کردار ادا کررہے ہیں تاکہ ممکنہ رکاوٹوں کو دور کیا جاسکے اور اس حوالے سے ہنگامی بنیادوں پر کام ہوسکے۔
ڈاکٹر یاسمین راشد (سیکرٹری جنرل تھیلیسیمیا فیڈریشن آف پاکستان)
تھیلیسیمیاایک عام موروثی مرض ہے اور 60فیصد لوگ اس کے کیرئیر ہیں۔ کیرئیر شخص کو تھیلیسیمیا مائنر کہتے ہیں جس میں خراب ''جین'' موجود ہوتی ہے، اگر دو مائنر کی آپس میں شادی ہوجائے تو تھیلیسیمیا میجر بچے کی پیدائش کا 25فیصد امکان ہوتا ہے۔ تھیلیسیمیا میجر کے مریض کے خون کے سرخ خلیے ٹوٹ جاتے ہیں، وہ خون کی کمی کا شکار ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے اسے ہر ماہ خون کی ضرورت پیش آتی ہے۔
خون کے مسلسل انتقال سے جسم میں فولاد کی مقدار بڑھ جاتی ہے اور اگر یہ مقدار 1000ملی گرام سے زیادہ ہوجائے تو نقصاندہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے دل، پٹھوں و دیگر اعضاء کی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں لہٰذا فولاد کے اخراج کیلئے ٹیکے یا ادویات دی جاتی ہیں اور یہ دونوں طریقہ علاج مہنگے ہیں۔ ایک مریض کے علاج پر اوسط 35سے 40 ہزار روپے ماہانہ خرچ آتا ہے جو غریب کی پہنچ سے باہر ہے۔ اس وقت پاکستان میں ایک لاکھ سے زائد تھیلیسیمیا میجر موجود ہیں، ہمارے پاس 30ہزار مریضوں کا ریکارڈ موجود ہے جبکہ دیہی علاقوں کے مریضوں کے حوالے سے صحیح اعدادو شمار موجود نہیں ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اس حوالے سے کیا کرنا چاہیے؟ میرے نزدیک اس مرض پر قابو پانے کیلئے احتیاطی تدابیر انتہائی ضروری ہیں اور اس کے لیے شادی سے پہلے اس مرض کی تشخیص ہونی چاہیے۔ 94ء میں پہلی مرتبہ میں نے دوران حمل بچے کا تھیلیسیمیا ٹیسٹ کیا۔ یہ ٹیسٹ حمل کے تیسرے ماہ کیا جاتا ہے اور اگر بچہ تھیلیسیمیا میجر کا مریض ہو تو اس صورت میں حمل ضائع کروانے کا فیصلہ والدین نے کرنا ہوتا ہے۔ اس ٹیسٹ کی سہولت سرکاری ہسپتالوں میں موجود ہے۔
''پنجاب تھیلیسیمیا پریونشن پروگرام'' ایشیا کا سب سے بڑا منصوبہ ہے، موجودہ حکومت اس پر کام کررہی ہے جو خوش آئند بات ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب نے اسے اپنایا ہے تاہم اس کا کریڈٹ چودھری پرویز الٰہی کو بھی جانا چاہیے کیونکہ یہ ان کے دور میں شروع ہوا۔ اس پروگرام کے تحت سر گنگارام ہسپتال میں تھیلیسیمیا کے حوالے سے تمام سہولیات موجود ہیں، یہاں فری سکریننگ کی جاتی ہے اور اس کے علاوہ تھیلیسیمیا میجر کے شکار بچوں کے خاندانوں کی ٹارگٹ سکریننگ بھی کی جارہی ہے۔ ان کی کاؤنسلنگ بھی کی جاتی ہے کہ دو تھیلیسیمیا کیریئر آپس میں شادی نہ کریں لیکن اگر مجبوری ہے تو پھر دوران حمل ٹیسٹ ضرور کرائیں تاکہ تھیلیسیمیا میجر بچے کی پیدائش کو روکا جاسکے۔
تھیلیسیمیا کے حوالے سے لاہور، روالپنڈی، ملتان اور بہاولپور میں ہیڈ کوارٹر قائم کیے گئے ہیں جہاں اس مرض کے حوالے سے تمام سہولیات موجود ہیں۔ پنجاب تھیلیسیمیا پریوینشن پروگرام بہترین ہے میرے نزدیک دیگر صوبوں کو بھی اس پروگرام کو چلانا چاہیے۔ خیبر پختونخوا میں اس حوالے سے ''پی سی ون'' تیار ہوچکا ہے، آئندہ مالی بجٹ میں یہ پروگرام شامل ہوگا۔
شادی سے قبل تھیلیسیمیا ٹیسٹ لازمی قرار دینے کا بل زیر غور ہے مگر ہم چاہتے ہیں کہ جب تک اس کے مفت ٹیسٹ کی سہولت تحصیل ہیڈ کوارٹر تک نہ پہنچ جائے تب تک یہ بل پاس نہ کیا جائے، بصورت دیگر غریب آدمی پر بوجھ بڑھ جائے گا۔ پنجاب میں تھیلیسیمیا کے حوالے سے جس طرح کام ہورہا ہے، اگر اسی طریقے سے آگے بھی ہوتا رہا تو آئندہ 10 برسوں میں کافی حد تک اس مرض پر قابو پالیا جائے گا۔
ڈاکٹر یاسمین احسان (کوآرڈی نیٹرپنجاب تھیلیسیمیا پریوینشن پروگرام)
تھیلیسیمیا ایک موروثی بیماری ہے جو والدین سے جینز کے ذریعے بچوں میں منتقل ہوتی ہے۔ یہ بیماری مریض سے انتقال خون، ہوا، پانی، جسمانی یا جنسی تعلق سے منتقل نہیں ہوسکتی۔ تھیلیسیمیا والدین سے ناقص جینز کی منتقلی سے لاحق ہوتا ہے، اگر بچے میں ماں اور باپ دونوں سے ناقص جین منتقل ہو تو وہ تھیلیسیمیا میجر کا مریض ہوگا ۔ اس بیماری میں بچے کے خون کے سرخ خلیات کی نشو نما ٹھیک طریقے سے نہیں ہوتی جس کی وجہ سے وہ خون کی کمی کا شکار ہوجاتا ہے۔ پھر اسے مرض کی نوعیت کے مطابق ایک ماہ بعد یا ایک ماہ میں 2سے 4مرتبہ خون کی ضرورت پڑتی ہے۔
خون لگنے سے اس کے جسم میں فولاد کی زیادتی ہوجاتی ہے جس سے دل ، جگر، پٹھے و دیگر اعضاء کی بیماریاں پیدا ہوجاتی ہیں اخراج فولاد کے لیے انہیں ٹیکے و ادویات دی جاتی ہیں۔ اس مرض میں مبتلا بچے جسمانی اور ذہنی طور پر نارمل ہوتے ہیں لہٰذا اگر انہیں علاج کی تمام سہولیات دی جائیں تو وہ نارمل زندگی گزار سکتے ہیں۔ ہمارے ملک میں علاج معالجے کی سہولیات بہت کم ہیں ۔ ایک تھیلیسیمیا میجر کے مریض کے علاج پر سالانہ 3 لاکھ روپے خرچ آتا ہے، ملک میں اس وقت 60ہزار تھیلیسیمیا کے مریض موجود ہیں جبکہ ہر سال 6ہزار تھیلیسیمیا کا شکار بچے پیدا ہوتے ہیں لہٰذا اگر صحت کا پورا بجٹ بھی ان پر خرچ کردیا جائے تب بھی علاج ممکن نہیں۔
پنجاب میں تھیلیسیمیا پری وینشن پروگرام شروع کیا گیا جس کے تحت ٹارگٹ سکریننگ کی جارہی ہے اور اب تک ہم ایک لاکھ سے زائد کی سکریننگ کرچکے ہیں۔ تھیلیسیمیا کا کیریئر ریٹ 54 فیصد ہے۔ پاکستان میں سوا کروڑ افراد اس کے کیریئر ہیں۔ اس مرض کا بہتر علاج احتیاط ہے، شادی سے پہلے تھیلیسیمیا ٹیسٹ کروانا چاہیے اور دو تھیلیسیمیا کیرئر کو آپس میں شادی نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اس سے بچے کا تھیلیسیمیا میجر ہونے کا 25فیصد امکان موجود ہے۔
دوران حمل بچے کاتھیلیسیمیا ٹیسٹ ممکن ہے جس سے قبل از پیدائش بچے میں اس مرض کے بارے میں تشخیص ہوجاتی ہے ۔ یہ ٹیسٹ 10سے 12ہفتے کے حمل پر کیا جاسکتا ہے۔ یہ رپورٹ 99.5فیصد درست ہوتی ہے، اگر رپورٹ میں ثابت ہو کہ بچے کو تھیلیسیمیا میجر ہے تو والدین کی باہم رضا مندی سے حمل ضائع کرایا جاسکتا ہے۔ یہ سہولت پاکستان میں 1994ء میں متعارف کرائی گئی۔ اس کے حوالے سے علماء سے فتویٰ بھی لیا گیا کہ اگر شدید جینیاتی بیماری کی تشخیص ہوجائے تو 120دن سے پہلے حمل ضائع کرایا جاسکتا ہے۔ یہ طریقہ علاج دیگر اسلامی ممالک میں بھی موجود ہے۔
پنجاب میں تھیلیسیمیا کے مریض بچوں کے پورے خاندان کا بلڈ ٹیسٹ اور ان کی کاؤنسلنگ کی جارہی ہے، ہماری ٹیم ان کے گھر جاکر خون کے نمونے حاصل کرتی ہے اور گھر پہ ہی رپورٹ فراہم کی جاتی ہے اور یہ تمام سہولیات مفت فراہم کی جارہی ہیں۔ ایسا کرنے سے 30سے 35فیصد کیریئر ہمیں مل جاتے ہیں۔
پنجاب کے 36 اضلاع میں ہماری فیلڈ ٹیمیں موجود ہیں، لاہور، راولپنڈی، ملتان اور بہاولپور میں ریجنل سینٹرزقائم ہیں جہاں تمام سہولیات میسر ہیں۔ 4ڈویژن میں میں ریجنل سینٹرز موجود ہیں جبکہ اب باقی کے پانچ ڈویژنز میں بھی تھیلیسیمیا ریجنل سینٹرز قائم کیے جائیں گے، اس کے علاوہ سینٹر آف ایکسی لینس قائم کرنے کی تجویز بھی زیر غور ہے جہاں ایک ہی چھت کے نیچے تھیلیسیمیا کے مریضوں کے لیے ہر طرح کی سہولیات دستیاب ہونگی۔
بلڈ بینک، سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ، آرتھوپیڈک، جنرل فزیشن وتمام متعلقہ ڈیپارٹمنٹ اس سینٹر میں قائم کیے جائیں گے۔ تھیلیسیمیا کے حوالے سے ڈاکٹروں کی ٹریننگ کے ساتھ ساتھ ڈگری پروگرام بھی شروع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں جس سے اس مرض کے حوالے سے کام میں مزید بہتری آئے گی۔ پنجاب میں شادی سے قبل تھیلیسمیا ٹیسٹ لازمی قرار دینے کے حوالے سے بل لانے کی تجوزی بھی زیر غور ہے۔ اس حوالے سے ایران کی طرز پر شادی سے پہلے لڑکے کا تھیلیسیمیا ٹیسٹ لازمی قرار دینے کا بل تیار کرکے محکمہ صحت کو بھجوادیا گیا ہے جسے بہت جلد اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔
اگر لڑکا تھیلیسیمیا مائنر ہوگا تو صرف اسی صورت میں ہی لڑکی کا ٹیسٹ کیا جائے گا بصورت دیگر لڑکی کا ٹیسٹ نہیں ہوگا۔ شادی سے قبل تھیلیسیمیا ٹیسٹ لازمی قرار دینے کا بل سندھ اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں سے منظور ہوچکا ہے مگروہاں کی حکومتیں اپنے لوگوں کو سہولیات نہیں دے سکیں، پنجاب حکومت چاہتی ہے کہ بل پاس ہونے سے قبل بی ایچ یو کی سطح پر ہماری ٹیمیں موجود ہوں جو خون کے نمونے اکٹھے کرکے ریجنل سینٹرز تک پہنچائیں تاکہ لوگوں کو ان کی دہلیز پر سہولیات فراہم کی جاسکیں۔
انجینئرغلام دستگیر (بانی جہاد فار زیرہ تھیلیسیمیا پاکستان)
ہر سال تھیلیسیمیا کے مریضوں کے علاج پر اربوں روپے سالانہ خرچ کیے جاتے ہیں جو خزانے پر اضافی بوجھ ہے کیونکہ اس مرض کا علاج ممکن نہیں ہے لہٰذا اس مرض کی روک تھام پر خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلے میں ہمارے رضا کار طلباء نے اپنی مدد آپ کے تحت ملک میں دیوار آگاہی کا سلسلہ شروع کیا ہے جس سے لوگوں کو آگاہی مل رہی ہے۔
ہمارا حکومت سے مطالبہ ہے کہ ہر تعلیمی ادارے میں تھیلیسیمیا کے حوالے سے کم از کم ایک دیوار آگاہی لازمی قائم کرے تاکہ طلباء کو آگاہی دی جاسکے جو گھر جاکر اپنے والدین اور اردگرد موجود لوگوں کو اس مرض کے حوالے سے آگاہی دے سکیں۔اس کے علاوہ ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ اگر حکومت صحیح معنوں میں اس مرض کا خاتمہ چاہتی ہے تو پھرڈینگی کی طرز پر ہنگامی اقدامات اٹھاتے ہوئے اس مرض کی روک تھا م کے لیے کام کیا جائے اور اس بیماری کو نصاب میں شامل کیا جائے۔
شادی سے قبل تھیلیسیمیا ٹیسٹ لازمی قرار دیا جائے اور دو تھیلیسیمیا مائنر کو شادی سے روکنے کے لیے قانون سازی کی جائے۔ ہمارے ملک کے کئی حصوں میں تھیلیسیمیا سینٹر ہی نہیں ہیں اور لوگوں کو طویل سفر کرکے اپنے قریبی سینٹر جانا پڑتا ہے لہٰذا اگر حکومت اس حوالے سے آسانی پیدا کردے اور ہر ڈسٹرکٹ کی سطح پر کم از کم ایک تھیلیسیمیا سینٹر قائم کردے تومریضوں کے ساتھ ساتھ خون کا عطیہ دینے والے رضاکاروں کے لیے بھی سہولت ہوگی جس سے اس کارِ خیر میں مزید بہتری آسکتی ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک عملی اقدامات نہیں کیے جائیں گے اور لوگوں کو سہولیات نہیں دی جائیں گی تب تک خاطر خواہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے۔
ہماری تنظیم کوئی این جی او نہیں ہے، ہم طالبعلم مل کر اس مرض میں مبتلا لوگوں کی خون و دیگر ضروریات پوری کرتے ہیں ، پرتگال کی ایک بڑی یونیورسٹی نے حال ہی میں ہماری کاوشوں کو سراہا ہے اور اب ہمارے طلباء رضاکار بیرون ملک بھی اس حوالے سے آگاہی دے رہے ہیں جس سے دنیا میں پاکستان کی طرف سے مثبت پیغام جارہا ہے۔ ہمارے علاوہ ملک میں لاکھوں رضاکار مختلف فلاحی کام کررہے ہیں، حکومت کو ان کی سرپرستی کرنی چاہیے اور نوجوان نسل کو مثبت اقدامات کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔
ہماری تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی نوجوان نسل نے کسی کام کا بیڑہ اٹھایا ہے تو اسے ضرور پار لگایا ہے لہٰذا حکومت کو چاہیے کہ نوجوان نسل کے جذبے سے فائدہ اٹھائے ۔ پاکستان میں 46فاؤنڈیشنز ہیں جو تھیلیسیمیا انٹرنیشنل فیڈریشن کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں، دیکھنا یہ ہے کہ انہیں کون مانیٹر کررہا ہے اور ان فیڈریشنز نے کیا کام کیا؟
حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی فاؤنڈیشن نے پاکستان میں تھیلیسیمیا کے حوالے سے ریسرچ پیپر نہیں لکھا اور نہ ہی کوئی فیڈریشن عالمی معیار کے مطابق مریضوں کو سہولیات فراہم کررہی ہے۔ 2013ء میں ہائر ایجوکیشن کی جانب سے یونیورسٹیوں کو خط لکھا گیا کہ تھیلیسیمیا کا عالمی دن لازمی منایا جائے لیکن اس کے بعد سے کچھ نہیں ہوا۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کو گریجوایشن کی ڈگری کے لیے تھیلیسیمیا ٹیسٹ لازمی قرار دینا چاہیے۔