شعبۂ نرسنگ کو باوقار اور قابل احترام رُوپ دینے والی عظیم خاتون

فلورنس نائٹنگیل نے جدید نرسنگ کی بنیاد رکھنے والے فرد کی حیثیت سے عالمی شہرت حاصل کی۔

نرسنگ ایک مقدس اور حساس پیشہ ہے۔ دکھی انسانیت کی خدمت میں نرسوں کا کردار کسی بھی طرح ڈاکٹروں سے کم نہیں۔ فوٹو: نیٹ

نرسنگ ایک مقدس اور حساس پیشہ ہے۔ دکھی انسانیت کی خدمت میں نرسوں کا کردار کسی بھی طرح ڈاکٹروں سے کم نہیں۔

درحقیقت مریضوں کی صحت یابی میں نرسیں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ انھی کے ذریعے مریضوں کو ڈاکٹر کی تجویز کردہ ادویہ اور طبی امداد کی بروقت اور باقاعدگی سے فراہمی اور سائنسی بنیادوں پر ان کی دیکھ بھال ممکن ہوپاتی ہے۔ خدمت خلق کا جذبہ انھیں اس شعبے میں قدم رکھنے پر آمادہ کرتاہے۔ نرسیں بہ وقت ضرورت پیشہ ورانہ خدمت کے ذریعے مریض کی صحت یابی کے لیے حتی المقدور کوشش کرتی ہیں۔

جدید نرسنگ کے ادارے کی بنیاد فلورنس نائٹنگیلنے رکھی تھی۔ فلورنس برطانیہ میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والدین انھیں برطانیہ کے دیگر متمول خاندانوں کے بچوں کے انداز میں پروان چڑھانا چاہتے تھے لیکن فلورنس نے اپنے لیے کچھ اور ہی سوچ رکھا تھا۔ وہ بارہ برس کی عمر میں اپنے والد کے ساتھ خیراتی اسپتالوں میں مریضوں کی فلاح و بہبود کے کاموں میں حصہ لینے لگی تھیں۔ اسی عمر میں انھوں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ کوئی قابل قدر کام سرانجام دیںگی۔ انھیں کتابیں پسند تھیں اور وہ بیمار کاشت کاروں کی مدد کرکے خوش ہوا کرتی تھیں۔

نوجوانی ہی میں انھیں یقین ہوچکا تھا کہ وہ انسانوں کی خدمت کے لیے پیدا ہوئی ہیں۔ وہ اپنے فارغ وقت کا ہر لمحہ نرسنگ کے حوالے سے لکھی گئی کتابوں کے مطالعے میں گزارنے لگی تھیں جنھیں وہ اپنے گھر والوں سے چوری چھپے حاصل کیا کرتی تھیں۔ فلورنس لندن اور گرد و نواح کے علاقوں میں واقع اسپتالوں کا چکر بھی لگایا کرتی تھیں لیکن والدین نہیں چاہتے تھے کہ وہ ان غلیظ اسپتالوں میں کام کریں۔ مگر فلورنس نرسنگ کو اپنانے کا پختہ ارادہ کرچکی تھیں۔ والدین نے ان کا ارادہ بدلنے کی کئی کوششیں کیں ۔ان کی بہن پر ان کے فیصلے سے ہیسٹریا کے دورے پڑنے لگے۔ جس پر والدہ نے فلورنس کو بد اخلاق ہونے کا طعنہ تک دیا۔ لیکن وہ اپنے ارادے میں مضبوط رہیں۔

آخر کار فلورنس اپنے والد کو راضی کرنے میں کام یاب ہوگئیں کہ انھیں تعلیم حاصل کرنے کے لیے جرمنی کے کیسرورتھ اسپتال بھیج دیا جائے۔ وہ ذہین طالبہ تھیں۔گریجویشن کرنے کے بعد وہ برطانیہ واپس آگئیں اور ایک اسپتال چلانے کی ذمے داری سنبھال لی۔

جنگ کریمیا کے دوران فلورنس نے انچارج نرس کی حیثیت سے برطانوی سپاہیوں کی غیر معمولی خدمت سرانجام دی۔ وہ 21 اکتوبر 1854 کو اپنی 38 ساتھی نرسوں کے ہمراہ میدان جنگ پہنچیں۔ جنھیں انھوں نے خود نرسنگ کی تربیت دی تھی۔ یہ بحیرۂ اسود کے نزدیک برطانوی فوج کا ایک کیمپ تھا جہاں کا اسپتال بڑی بڑی مگر گندی بیرکوں میں بنا ہوا تھا۔ یہاں مریضوں کی حالت انتہائی خراب تھی۔


فلورنس اور ان کی ساتھی نرسوں نے دیکھا کہ مریضوں کی مناسب دیکھ بھال نہیں کی جارہی اور اسپتال میں دواؤں کی قلت ہونے کے علاوہ مریضوں کی غذا کی جانچ پڑتال کے لیے آلات بھی دستیاب نہیں ہیں جس کے باعث اسپتال میں فوجیوں کی شرح اموات بھی بہت بلند تھی۔ فلورنس کا خیال تھا کہ اموات کی زیادتی کی وجہ ناقص غذا اور سپاہیوں پر کام کا زیادہ دباؤ تھا۔ انھوں نے اسپتال کی صفائی ستھرائی پر توجہ دی اور ضرورت کی تمام اشیا کی فراہمی کے انتظام کو یقینی بنایا۔

فلورنس اسپتال میں مریضوں کو دیکھنے جاتیں تو ان کے ہاتھوں میں ایک لیمپ ہوتا جس کے باعث انھیں ''دی لیڈی آف دی لیمپ'' (لیمپ والی خاتون) کا خطاب ملا جو ان کی پہچان بنا۔ فلورنس نائٹنگیل نے ہزاروں جانیں بچائیں۔ لوگ اسپتال میں انھیں فرشتے کی نمائندہ کے نام سے یاد کرنے لگے تھے۔ لیکن مریضوں کی خدمت کے دوران وہ خود وہاں بیمار ہوگئیں۔ زندگی کے آخری برسوں میں وہ سفر کرنے کے قابل نہیں رہی تھیں لیکن لوگ دنیا بھر سے ان کے پاس مشورہ لینے کے لیے آیا کرتے تھے۔ جب وہ ترکی میں تھیں تو جنگ میں ان کی خدمات کے اعتراف میں فلورنس نائٹنگیل کے نام سے ایک فنڈ قائم کیا گیا تاکہ اس فنڈ سے نرسوں کو تربیت دی جاسکے۔

فلورنس نائٹنگیل نے 1959 میں ''نوٹس آف نرس'' کے عنوان سے 136 صفحات کی ایک کتاب بھی لکھی جسے نرسنگ اسکولوں میں نصاب میں شامل کیا گیا۔ ایک نرس کی حیثیت سے فلورنس کو لافانی شہرت حاصل ہوئی۔ نرسنگ کے شعبے میں اعلیٰ خدمات پر 1883ء میں فلورنس نائٹنگیل کو ملک وکٹوریہ نے ''رائل ریڈکراس'' ایوارڈ سے نوازا، جب کہ 1907ء میں وہ پہلی خاتون تھیں جنھیں ''آرڈر آف میرٹ''دیا گیا۔ انھوں نے 170برس پہلے ہی نرسوں کے حقوق کا تعین کردیا تھا اور یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ اس وقت بھی نرسوں کی اپنی نگہداشت کے وہی مسائل تھے جو آج نظر آتے ہیں۔ وہی نا مناسب حالات اور حفظان صحت کے ضابطوں کو نظر انداز کرکے صرف اور صرف کام لینے کی جبری صورت حال آج بھی دکھائی دیتی ہے۔

فلورنس نائٹنگیل نے جدید نرسنگ کی بنیاد رکھنے والے فرد کی حیثیت سے عالمی شہرت حاصل کی۔ 13 اگست 1910 ء کو 90 برس کی عمر میں فلورنس نیند کی حالت میں اپنے کمرے میں انتقال کر گئیں۔ ان کی پیدائش کے دن کے حوالے سے 12 مئی کو ہر سال نرسوں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ نرسوں کا عالمی دن منانے کے ساتھ ساتھ ان کے حقوق اور ضروری سہولیات کا بھی خیال رکھا جائے کیوں کہ یہ اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں فرض سمجھ کر اور ایثار و قربانی کے ساتھ نبھاتی ہیں۔

پاکستان میں نرسنگ کا شعبہ ایک عرصے سے ناقدری کا شکار چلا آرہاہے۔ گو کہ پاکستان میں افرادی قوت کی کمی نہیں رہی لیکن تربیت کے ضمن میں سہولتوں کا فقدان رہا ہے۔ اگر تعلیم کا معیار بہتر ہو تو یہی نرسیں زیادہ فعال ہوںگی لیکن ہمارے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ملک میں نرسنگ کے اسکول بہت کم تعداد میں ہیں اور پھر سب جگہ جدید سائنسی بنیادوں کے تحت تربیت نہیں دی جاتی۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بعض اوقات انتہائی نازک صورت حال میں نرس ہی ابتدائی طبی امداد دے کر جان بچانے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔

 
Load Next Story