اک تماشہ ہوا‘ برا نہ ہوا

سادہ لوح عوام کو بھی بدعنوانی، نالائقی اور لوٹ مار برداشت کرنے اور صعوبتیں سہارنے اور ہضم کرنے کی عادت سی پڑگئی ہے۔


رسول احمد کلیمی January 22, 2013

اک قول ہے جو ہمارا نہیں سو یقینا کسی دانا کا ہو گا، کہ ایک مضبوط ترین زنجیر کی ساری توانائی اس کی کمزور ترین کڑی میں مستور یا محفوظ ہوتی ہے، عین اسی طرح جیسے دنیا کی انتہائی قیمتی کار کی تمام تر پائیداری کا انحصار اس نقطے پر ہوتا ہے جو اسے سڑک سے ملاتا ہے۔

اب اگر یہ واقعی اقوال صادق ہیں اور محض انگریزوں کی لفاظی نہیں تو انھیں بہت سے مواقعوں پر بنیادی مفروضے یا کلیے کے طور پر تشریح و توضیح کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، ہمارے ملک کو لیجیے، 18 کروڑ دلوں میں ولولہ اور آنکھوں میں خواب بسائے ہوئے انسانوں کا وطن، زرخیز زمینوں اور معدنی وسائل سے لبریز پانچ لاکھ مربع میل کا رقبہ، تین شاندار گرم پانیوں کی بندرگاہیں، ایک مضبوط عسکری قوت اور قابل فخر و اطمینان جوہری طاقت اور سب سے بڑھ کر لامحدود زری، صنعتی اور تجارتی پیداوار کے امکانات سے آراستہ خطہ ارض، جس میں بسنے والوں میں نصف سے زائد تعداد جوانوں کی ہے آج ایک کمزور ناتواں، معاشی بدحالی، اخلاقی پستی، علمی زبوں حالی، کرپشن کی افراط اور قتل و غارت گری و دہشت گردی کی ایک بھیانک مثال کی صورت، مہذب اقوام میں ایک بے حد پراگندہ، پسماندہ اور بعض حالات میں قابل نفریں ملک سمجھا جاتا ہے تو ہم جیسے لوگ جو ملک سے باہر مجبوراً مقیم ہیں، بڑی ذہنی تکلیف اور اذیت سے گزرتے ہیں اور بظاہر اس مضبوط اور ہر اعتبار سے مالدار ملک کا نقطہ نقاہت و خجالت کیا ہے۔

محض دو یا تین افراد کا یا ان کے خاندان اور قبیلے کا بے پایاں ذوق و شوق حکمرانی اور ہر قیمت پر حصول اقتدار، دونوں ہی خاندان دو بدترین غاصب آمروں کی حمایت، اعانت اور پھر حماقت کی بدولت اس قوم اور ملک پر بلائے بے درماں کی صورت مسلط ہو گئے ہیں۔ مسٹر ذوالفقار علی بھٹو کی پہلے تو ایوب خان نے خوب پرداخت و نگہداشت کی، بعدازاں حالات نے انھیں ایک ایسا مقبول، محبوب عوامی لیڈر بنا دیا کہ جس کی مثال نہیں ملتی۔ پھر ایک اور آمر اور غاصب جنرل ضیاء الحق نے حماقت در حماقت کا ارتکاب مکرر کر کے ذوالفقار علی بھٹو کو ایک ماڈرن قائد اعظم کے قدرے کم مقام سے اتنے غیر منطقی اور غیر منصفانہ انداز میں منصب شہادت پر فائز کیا کہ عین اسی دن سے ایک اولوالعزم اور باہمت قوم ایسی افراتفری اور ابتری کا شکار ہوئی کہ اب تک گرداب سے باہر نہ آ سکی۔

مگر سادہ لوح عوام کا کیا کہیے کہ انھیں بھی ان ستم ظریفوں کی بدعنوانی، نالائقی اور لوٹ مار برداشت کرنے اور ہر قسم کی صعوبتیں سہارنے اور ہضم کرنے کی عادت سی پڑگئی ہے۔ شومئی قسمت سے ذوالفقار علی بھٹو جیسے قائدانہ اوصاف کے مالک رہنما کی وراثت آصف علی زرداری کی سطح تک آ گئی ہے اور ضیاء الحق کے خواص خمسہ اگرچہ اب بھی شریف برادران اور ہمنوا تک محدود ہیں مگر بتدریج ترقی پذیر حماقت کی آمیزش سے ان میں نئی فریب آور کیفیت پیدا ہو گئی۔ ان دونوں نے اپنی دو دو باریوں میں کرپشن کے جو کار ہائے نمایاں سر انجام دیے ہیں اس کا احوال پرملال ریمنڈ بیکر (Raymond Baker) نے اپنی معرکۃ لآراء کتاب (Capitatism's Achilles Heel) ''سرمایہ داری کی ایکیلز کی ایڑی'' میں بالتفصیل کیا ہے۔ یہاں ایکیلز کی ایڑی کا وہی مفہوم ہے جو مضبوط زنجیر میں ایک کمزور کڑی کا ہے۔

قدیم یونان کی اساطیری روایت میں مرقوم ہے کہ جب ایکیلز بچہ تھا تو اس کی ماں نے اسے تیغ و تبر، تیرو خنجر اور مہلک ہتھیاروں سے محفوظ رکھنے کے لیے دریائے اسٹکس میں غوطہ دیا تھا مگر یہ غوطہ اس کی ایڑی کو پکڑ کر دیا گیا تھا، اس لیے اس نامور سپہ سالار کی ایڑی آب حیات میں غوطہ کھانے کے باوجود اس کے وجود کا سب سے زیادہ مہلک اور ضرر رساں حصہ رہی اور آخرکار وہ اسی ایڑی میں زہریلا تیر لگنے سے ہلاک ہوا۔ بیکر کی تشریح اور تجزیے کے مطابق یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ہماری عالی ہمتی اور اولوالعزمی سے لبریز قوم اور قدرتی وسائل سے مالا مال سرزمین کے لیے یہ دونوں اپنی سرشت میں ایکیلز کی ہلاکت خیز ایڑی کا درجہ رکھتے ہیں۔

اس کتاب کے مندرجات کو پڑھ کر بڑی خفت محسوس ہوتی ہے کہ ہم بہ تکرار کیسے '' میر کیا سادہ ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب'' کے مصداق ان کو ہی خود پر حکمرانی کے لیے منتخب کرتے رہے ہیں جو ہماری بربادی کے موجب بھی ہیں اور سبب بھی۔ ریمنڈ بیکر، فضولیات لکھنے یا بکنے کے ماہر نہیں ہیں۔ کیونکہ ان سے کچھ واجبی سی صاحب سلامت ''بروکنگس انسٹیٹیوشن'' کے توسط سے ہماری بھی رہی ہے۔ وہ ''ہارورڈ بزنس اسکول'' کے 1960 کے گریجویٹ ہیں۔ وہ ''عالمی مالیاتی نظام میں اخلاقی دیانت اور پاکیزگی'' کے موضوع پر ایک ممتاز اور مستند اسکالر کی حیثیت سے عالمی شہرت رکھتے ہیں۔ مذکورہ کتاب میں ہمارے عزیز وطن کے ان دونوں فدائے حکمرانی خاندانوں کی مالی لوٹ کھسوٹ، کرپشن، اور انتظامی بدکرداری کی ہولناک تفصیلات درج ہیں۔

بینکوں اور سرکاری اداروں اور محکموں میں بدنیتی سے کثیر تعداد میں کی گئی تقرریوں، تعیناتیوں اور تمام قواعد و ضوابط کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے دی گئی ہزار ہا ملازمتوں اور ان سے حاصل کیے گئے گھناؤنے اہداف کا احوال پر ملامت بھی بالتفصیل درج کیا گیا ہے۔ پاکستانی قوم کو دنیا کی دیگر مہذب قوموں کی طرح اپنے ان پیر تسمہ پا سیاست دانوں سے یہ مطالبہ کرنے کا حق پہنچتا ہے کہ وہ اپنی اور قوم کی سرخروئی کے لیے سسٹر ریمنڈ بیکر کو امریکی یا اپنی پسند کی کسی اور عدالت میں چیلنج کر کے دروغ گو ثابت کریں۔ وگرنہ قوم کو یہ جرأت کرنی پڑے گی کہ وہ الیکشن کمیشن سے گزارش کرے کہ ایسے بدترین جرائم کی عالمی سطح پر مستند تحریر اور تشہیر کے باوجود کیا آئین کی دیانت، امانت اور نیک چلنی سے متعلق شقوں کی موجودگی میں ان بین الاقوامی بدنامی کا طوق گلے میں لٹکائے ہوئے پیشہ ور سیاست دانوں کو عوام کی نمایندگی کا جائز حق حاصل ہے یا نہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے موجودہ حکومت کی بیزار کن کارکردگی کی روشنی میں ایسے ہی کچھ سوالات اٹھائے، جو عوام کے دلوں میں موجود تھے۔

جناب زرداری نے ہر اس جماعت کو جس نے 2008 کے الیکشن میں حصہ لیا اور کچھ یا زیادہ نشستیں حاصل کیں ان کو صوبائی اور وفاقی حکومتوں کا ماہرانہ اور شاطرانہ انداز میں حصے دار بنا کر بدعنوانی، کرپشن اور معاشی استحصال کا ایسا بھیانک رقص شروع کیا کہ عوام کی جان مال، ان کی عزت آبرو، روزی روٹی تو خیر داؤ پر لگ ہی گئی، اکثریت کی زندگی موت سے بدتر ہو گئی۔ ایسے میں ڈاکٹر طاہر القادری تو خیر پرانے سیاسی ایکٹوسٹ ہیں، کوئی اور بنام چارہ سازی اور غمگساری اس نظام حکومت اور سنگدل حکمرانوں کے خلاف صدائے احتجاج اس سے زیادہ دیوانگی سے بھی بلند کرتا تو زندگی سے تنگ آئے ہوئے لوگ اس کی آواز پر دیوانہ وار لبیک کہتے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے لانگ مارچ اس کے شرکاء کی تعداد اور اختتامی معاہدے کی تفصیلات کا تجزیہ ریاضی کی مساوات یا کلیوں کی طرح کرنے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اسلام آباد کی یخ بستہ سڑک پر محض ریاضی کے ہندسے یا کیلکولس کی علامتیں نہیں تھیں بلکہ جیتے جاگتے، بوڑھے، بچے، عورتیں، جوان حتیٰ کہ شیرخوار تھے جو گوشت پوست کے بنے ہوئے تھے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں