محنت کش عوام اور غیر جمہوری قوتیں آخری قسط
پاکستان کے ترقی پسند انقلابی ساتھی عوام کے اس پیچیدہ شعور میں اضافہ کرنے کی جدوجہد کریں
کرپشن کے خاتمے، غیر جانبدار الیکشن کمیشن، غیر جانبدار درمیانہ مدت کی حکومت بنانے اور عوام کو مہنگائی، بیروزگاری سے نجات دلانے کے خوشنما نعروں اور مطالبوں کے ساتھ مظاہروں اور دھرنوں کا دور شروع ہو گیا ہے، الیکشن کمیشن اور درمیانی مدت کی غیر جانبدار حکومتیں بنانے کے لیے فوجی سربراہ اور چیف جسٹس کی مرضی اور منظوری کی شرائط پیش کی جا رہی ہیں۔
اپنے مطالبات یا عوام کے مطالبات کے حق میں مظاہرے کرنا، دھرنے دیکر بیٹھ جانا ہر کسی کا حق ہے، مگر دہشت گردوں کی گرفتاری میں ناکامی پر بلوچستان کی صوبائی حکومت ختم کرنا یا کوئٹہ شہر کو فوج کے کنٹرول میں دینے کے ہزارہ برادری کے مطالبات غیر جمہوری ہیں، ایم کیو ایم کا حکومتی اتحادی ہونے کے باوجود ان غیر جمہوری مطالبات کی حمایت میں سندھ بھر میں مظاہروں اور دھرنوں کے ذریعے سندھ حکومت کو بے اثر بنا کر ختم کرنے یا اپنے ناجائز مطالبات منوانے کی کوششیں کرنا بلیک میلنگ ہے، بلوچستان اور سندھ سے عبوری غیر جانبدار حکومتیں اسمبلی کے اندر موجودہ اکثریتی پارٹیوں کی مرضی سے بنانے کا حق چھین کر مرکز کو یہ حق دینے کی یہ غیر جمہوری کوششیں تھیں۔
بلوچستان کی کمزور، کرپٹ اور بے اثر حکومت کو توڑ کر گورنر راج قائم کرنے میں غیر جمہوری قوتیں کامیاب ہو گئیں اس کے بعد طاہر القادری نے لانگ مارچ اور دھرنا 14جنوری 2013 کی رات سے ہزاروں عورتوں، مردوں اور بچوں کے ساتھ اسلام آباد کے ڈی چو ک پر اپنے غیر آئینی اور غیر قانونی مطالبات کو منوانے کے لیے دھرنا دیا اسمبلی میں موجود حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی رائے سے قائم ہونے والے الیکشن کمیشن کا خاتمہ نئے الیکشن کمیشن کا تقرر، درمیانہ مدت کی حکومت فوجی نوکر شاہی اور عدلیہ کی رضامندی سے قائم کرنے کے غیر قانونی اور غیر اصولی مطالبات منوانے کے لیے اس دھرنے میں اتنا ساز و سامان پچاس ہزار لوگوں کے کھانے، پینے، بستر، فطری، ضروریات خیموں کی بستیاں بنانے کا بندوبست، طاہر القادر ی کی بلٹ پروف شاندار کنٹینر، ہزاروں لوگوں کی آمد و رفت کے ٹرانسپورٹ کا خرچ کروڑوں نہیں اربوں روپوں کا کھیل تھا، کہیں ایسا تو نہیں کہ منہاج القران این جی او کو عالمی بڑے ڈونر مل گئے تھے یا اپنے اور دیگر اداروں کا خفیہ فنڈ اپنی ہی حکومت کے خلاف حرکت میں آ گیا، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ کرپشن ہے لیکن چار سال پرانے کیس میں پاکستان کے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کے وارنٹ گرفتاری اس وقت اور اس موقعے پر جاری ہوتے ہیں جب طاہر القادری کے دھرنے سے لوگ مایوس ہو کر واپس جانے لگتے ہیں ان سب خفیہ اور کھلی کارروائیوں کے باوجود آج طاہر القادری کے ساتھ صرف اس کی اپنی تنظیم اور ڈونر ہیں۔ زیادہ تر سادہ لوگ وہ ہیں جو اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں اس لیے طاہر القادری کے کسی حد تک جذباتی نعروں کے ذریعے ان کے ساتھ آ گئے ہیں ۔
موجودہ دور میں امریکا اس کے اتحادی نیٹو ممالک اور ان کی افواج کسی بھی ملک میں بغیر جواز اور عوام کی نمائشی حمایت کے بغیر فوج کشی یا قبضہ زیادہ عرصہ برقرار نہیں رہ سکتا۔ یہ بات امریکا کے اتحادی پاکستان کی فوجی، سویلین نوکر شاہی اس کے اتحادی، مذہبی بنیاد پرست، لسانی اور قومی تنگ نظر اچھی طرح جانتے ہیں اس لیے وہ عوامی حمایت، میڈیا کی مدد اور عدلیہ کے تعاون سے ان کے مفادات کی اصلی مخالف عوام کی ووٹوں سے منتخب ہونے کی طاقت رکھنے والی سیاسی پارٹیوں کی اسمبلیوں میں فیصلہ کن حیثیت کی موجودگی کو ختم یا کم کرنا چاہتی ہیں، یہ ہے پاکستان کی فوجی نوکر شاہی اور اس کی ڈاکٹرین کا مطلب تو پھر طاہر القادری کا غیر مسلح دھرنا کسی اور دھرنے کا خاص طور پر انتخابی نتائج کو نہ ماننے والے اس بڑے مسلح اور غیر مسلح دھرنے کی مشق نظر آتا ہے۔
اب تک تو ملک کی باقی ساری سیاسی قوتیں ڈاکٹر طاہر القادری کے جائز مطالبات کی حمایت کرنے کے ساتھ ان کے غیر جمہوری غیر آئینی مطالبات کے خلاف حکومت کے ساتھ کھڑی ہیں۔ آج میڈیا بھی واضح طور پر تقسیم نظر آتا ہے اور اعلیٰ عدالتوں کو طاقت دینے والی وکلا ء تحریک اب عدلیہ کے غیر جمہوری قوتوں کے طرف جھکائو کی بھر پور مذمت کر رہی ہے، حزب اختلاف کی ساری جماعتیں حکومت پر تنقید کرتے ہوئے طاہر القادری اور ان کی پشت پناہی کرنے والی غیر جمہوری قوتوں کی واضع مخالفت کر رہی ہیں۔
فوجی آمریت اور ان کی مذہبی بنیاد پرست قوتیں کمزور ہو رہی ہیں۔ ترقی پسند سامراج مخالف، جاگیر دار، سرمایہ داری نظام کی مخالف ہندوستان، افغانستان، ایران اور سارے پڑوسی ممالک کے ساتھ دوستانہ تعلقات اور عالمی امن کی حامی سیاسی قوتیں متحد ہو رہی ہیں جس سے یہ اُمید پیدا ہو گئی ہے کہ اب پاکستان میں سویلین سیاسی قوتیں مضبوط ہو کر جمہوریت کے قیام کا عمل بے شمار مشکلات اور پیچیدگیوں کے ساتھ آگے بڑھائیں گی۔ محنت کش عوام، محکوم قوموں اور نظر انداز سماجی گروہوں کی عورتوں، مردوں، نوجوانوں اور غیر مسلموں کا اپنے مسائل کا علم موجودہ سرمایہ دارنہ نظام، جاگیردارنہ نظام، امریکی سامراج اور پاکستان کی فوجی سولین نوکر شاہی اس کے اتحادی مذہبی اور غیر مذہبی دہشت گردوں کے مفادات کا ہر قسم کی فوجی اور غیر فوجی مسلح دہشت گردوں کی یرغمالی حیثیت سے نکلنے کا شعور اور احساس بڑھ گیا ہے اب ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کے ترقی پسند انقلابی ساتھی عوام کے اس پیچیدہ شعور میں اضافہ کرنے کی جدوجہد کریں جس کے ذریعے محنت کش عوام، محکوم قومیں اور نظر انداز سماجی گروہوں کو اپنے علاقوں میں فوجی اور سویلین نوکر شاہی اور سامراجی مفادات کے لیے عوام کو یرغمال بنانے والوں کو اپنے علاقوں میں انقلابی طریقوں کے ذریعے ہر محاذ پر شکستیں دیں، انتخابی میدان میں بھی فتح حاصل کر کے اپنی عوامی حمایت کو ثابت کریں مگر اس کے لیے انتخابی نظام کو صاف شفاف، غیر جانبدار بنانے کے ساتھ ایسا بھی بنایا جائے کہ غریب محنت کش بغیر سرمائے کے انتخابی عمل میں حصہ لے سکے، خود کو منتخب کروا سکے اپنی حکومت بنانے کا اپنا حق قائم کر سکیں اپنے لیے حکومتیں منتخب کرنا اور ان کو ہٹانے کا حق صرف عوام کو حاصل ہونا چاہیے۔