عظیم الشان اجتماع

جمعیت علمائے ہند چونکہ آل انڈیا مسلم لیگ کے تقسیم ہند کے فارمولے سے اتفاق نہیں کر رہی تھی

S_afarooqi@yahoo.com

برصغیر کے فرنگی حکمرانوں نے چونکہ اقتدار پر قبضہ مسلمان حکمرانوں کو اپنی شاطرانہ چالوں سے شکست دے کر حاصل کیا تھا لہٰذا ان کی اولین کوشش تھی کہ کسی طرح انھیں ان کے دینی اور ثقافتی ورثے سے محروم کیا جائے اور اپنے مغربی کلچر کے رنگ میں رنگ دیا جائے۔ لارڈ میکالے کی تعلیمی پالیسی کا بنیادی ہدف اور مقصد یہی تھا۔

اکابرین دین نے انگریزوں کی اس مکروہ چال کو بھانپ لیا اور اسے ناکام بنانے کے لیے 1866 میں دارالعلوم دیوبندکا آغاز کیا اور اس کے بعد 2 نومبر1919 کو دارالخلافہ دہلی میں جمعیت علمائے ہند کے نام سے ایک عظیم الشان سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی۔ شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسنؒ کو اس جماعت کا پہلا صدر منتخب کیا۔ یہ جماعت انگریز سامراج سے مسلسل برسر پیکار رہی حتیٰ کہ برصغیر کی تقسیم کی گھڑی آگئی۔

جمعیت علمائے ہند چونکہ آل انڈیا مسلم لیگ کے تقسیم ہند کے فارمولے سے اتفاق نہیں کر رہی تھی اس وجہ سے حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی نے 1945 میں جمعیت علمائے اسلام قائم کی جو برٹش سامراج سے آزادی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے ایک الگ آزاد وطن حاصل کرنے کی جدوجہد کر رہی تھی۔ اس وقت سے آج تک یہ جماعت ملکی سیاست میں ایک اہم کردار ادا کرنے والی نمایاں سیاسی جماعت ہے۔ یہ اسی سلسلے کی کڑی ہے جس کا مبارک آغاز حضرت مجدد الف ثانیؒ کی تاریخ ساز کوششوں سے ہوا تھا اور جس نے حضرت شاہ ولی اللہؒ کے نظریات اور افکار سے توانائی حاصل کی تھی۔

اس کی سرپرستی کرنے والوں کی فہرست میں شاہ عبدالعزیز، مولانا قاسم نانوتویؒ اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہویؒ کے علاوہ سید احمد شہیدؒ اور حاجی امداد اللہ مکیؒ جیسے عظیم المرتبت اکابرین کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔ اس کے پیغام کو حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسنؒ کے عظیم رفقائے کار اور نام ور شاگردوں بشمول شاہ عبدالرحیمؒ، مفتی کفایت اللہؒ، علامہ انور شاہ کشمیریؒ ، حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ اور حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ جیسے بلند پایہ اکابرین نے برصغیر پاک و ہند کے علاوہ دنیا کے کونے کونے میں پھیلایا اور عام کیا۔

جمعیت العلمائے اسلام پاکستان کے گزشتہ دنوں پشاور کے پاس نوشہرہ کے علاقے اضاخیل میں اپنے صد سالہ تاسیسی اجتماع کا انتہائی شان دار اور پروقار انعقاد کیا۔ جمعیت علمائے اسلام پاکستان قیام پاکستان سے لے کر آج تک وطن کی دینی اور سیاسی قیادت کے میدان میں اپنا کردار بڑھ چڑھ کر ادا کر رہی ہے ۔ پاکستان کے مقتدر حلقوں میں اسلام اور شریعت کے خلاف کسی بھی قسم کی قانون سازی کی کوشش کے ہر موقعے پر یہ کامیابی سے بھرپور مزاحمت کرتی ہے اور ایسی ہر حرکت کو ناکام اور پسپا کردیتی ہے۔

جمعیت کے فقید المثال صد سالہ اجتماع میں امام کعبہ الشیخ صالح محمد ابراہیم الطالب کی شرکت نے اس کی رونق اور اہمیت کو دوبالا کردیا۔ ان کی شرکت اس جماعت کی حیثیت پر مہر تصدیق تھی۔ اپنے تاریخ ساز خطاب میں انھوں نے اتحاد ملت کی اہمیت کو اجاگرکرتے ہوئے فرمایا کہ دنیا بھر کے تمام مسلمان فرد واحد کی طرح ہیں۔ امام کعبہ نے تلقین کی کہ مسلمان فروعی اختلاف سے گریزکریں۔ انھوں نے کہا کہ اسلام امن و محبت کا دین ہے اور پوری انسانیت کی فلاح و بہبود اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے میں مضمر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ علما کرام تعلیمات دین کے امین ہیں۔ مسلمان اللہ تعالیٰ کی بہترین امت ہیں۔ انھیں چاہیے کہ تمام اختلافات سے بالاتر ہوکر آپس میں متحد ہوجائیں۔ اسوۂ حسنہ اور قرآنی تعلیمات پر عمل کرنے میں ہی تمام مسلمانوں کی نجات ہے بقول اقبال:


ربط ملت سے ہے قائم فرد تنہا کچھ نہیں
موج ہے دریا میں اور بیرونِ دریا کچھ نہیں

بدقسمتی سے اس وقت ملت اسلامیہ کا شیرازہ بکھرا ہوا ہے اور پوری امت باہمی اختلافات اور انتشار کا شکار ہے۔ دشمنان دین اس صورتحال سے بھرپور فائدہ اٹھانے کی کوشش میں ہیں اور ان اختلافات کو طرح طرح سے ہوا دے رہے ہیں۔ ان کی کوشش ہے کہ Divide And Rule کی پرانی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے بھائی کو بھائی سے لڑا دیا جائے تاکہ امت مسلمہ کو کمزور سے کمزور تر کرکے اس پر غلبہ حاصل کرلیا جائے۔ مشرق وسطیٰ کو حالیہ صورتحال باطل کی ان چالوں کی غمازی کر رہی ہے۔ خود وطن عزیز میں قومیتوں کے نام پر لوگوں کو بہکایا اور ورغلایا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ فرقہ واریت کے شعلوں کو بھی مختلف انداز میں بھڑکانے کی مذموم کوششیں کی جا رہی ہیں۔

اس مجموعی صورتحال کا تقاضا ہے کہ نہ صرف اہل وطن بلکہ تمام مسلمانان عالم اپنے فروعی اختلافات کو بالائے طاق رکھ دیں اور اپنی صفوں میں مکمل اتحاد و اتفاق پیدا کریں۔ یعنی:
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے

نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاکِ کاشغر

اللہ تعالیٰ نے دنیا کے مختلف اسلامی ممالک کو طرح طرح کی نعمتوں سے مالا مال کر رکھا ہے۔ کہیں معدنیات کے ذخائر دفن ہیں تو کہیں تیل کے چشمے ابل رہے ہیں۔ اس کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی مہربانی سے ان ملکوں میں افرادی قوت کی بھی فراوانی ہے جس میں پاکستان سر فہرست ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ پاکستان دنیائے اسلام کا قلعہ اور واحد ایٹمی قوت ہے جو ملت اسلامیہ کے لیے بڑی تقویت کا باعث ہے۔ بلاشبہ اگر دنیا کے تمام اسلامی ممالک اپنے ذاتی مفادات سے بلند تر ہوکر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں تو دنیا کی بڑی سے بڑی قوت کی بھی یہ مجال نہیں کہ ان کے سامنے ٹھہر سکے۔

امام کعبہ نے اپنے جامع خطاب میں انھی باتوں کی جانب اشارہ کیا اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک جھنڈے تلے جمع ہونے کا پرخلوص پیغام دیا۔قصہ کوتاہ جمعیت کے اس عظیم الشان اجتماع میں پچاس سے زیادہ اسلامی ممالک کے وفود نے شرکت کی جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ دنیائے اسلام میں بیداری کی ایک لہر اٹھ چکی ہے جوکہ ایک خوش آیند پیش رفت ہے۔ وقت اور حالات کا تقاضا یہی ہے کہ اجتماع کے بنیادی پیغام اخوت کو عام کیا جائے اور اس کے پرچار کے لیے تمام ممکنہ ذرایع بروئے کار لائے جائیں۔ اس سلسلے میں دنیا کے تمام اسلامی ممالک میں تعینات ہمارے سفارت کاروں پر خصوصی ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ دوسری جانب ہمارے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو بھی اپنا کردار بخوبی ادا کرنا چاہیے۔
Load Next Story