جذبوں کی باتیں
ایک ملک میں نوعِ انسانی کے کئی جذبات ، احساسات اور صفات ایک ساتھ رہا کرتے تھے
عرصہ پہلے میں نے ایک کہانی پڑھی تھی،کچھ ردو بدل کے ساتھ بیان کرتا ہوں۔
ایک ملک میں نوعِ انسانی کے کئی جذبات ، احساسات اور صفات ایک ساتھ رہا کرتے تھے۔ یہ جذبات ایک دوسرے کے ساتھ باتیں بھی کرتے تھے ۔ ایک روز ''خواہش'' نے بتایا ان کے علاقے سے تھوڑی دور سمندر میں ایک سرسبز و شاداب جزیرہ ہے۔ '' جستجو'' نے کہا کہ ہم سب کو مل کر وہاں جانا چاہیے۔ ''عزم'' نے تجویز پیش کی کہ کیوں نہ اس جزیرے پر چند روز گزارے جائیں۔ سب نے عزم کی تائید کی۔ پہلے خشکی اور پھر سمندر میں کچھ سفر کے بعد وہ سب اس جزیرے پر پہنچ گئے۔ اس جزیرے پر محبت و نفرت، بہادری و بزدلی، سخاوت و بخل غرض سب جذبے اپنی اپنی فطرت کے مطابق لطف اندوز ہوتے رہے۔
ایک دن خبر ملی کہ سمندر میں بڑا طوفان آنے والا ہے۔ یہ جزیرہ پانی میں ڈوب سکتا ہے۔یہ سنتے ہی سارے جذبات اور احساسات میں کھلبلی مچ گئی۔ چھوٹی کشتیاں موجود تھیں لیکن ہر کشتی کو کافی مرمت درکار تھی۔ جذبات نے چند کشتیاں آپس میں تقسیم کرکے ان کی مرمت شروع کردی۔ جزیرے پر جانے والے ان جذبوں میں ''محبت'' بھی شامل تھی۔ محبت وہاں اپنے کاموں میں اتنی مصروف رہی کہ اسے کسی کشتی کی مرمت میں شامل ہونے کا موقع ہی نہ ملا۔ طوفان کے ابتدائی آثار نمودار ہورہے تھے۔ تیز ہوائیں چلنے لگی تھیں۔ محبت نے چاروں طرف نظر دوڑائی۔ اسے ''عجلت'' ایک کشتی میں سوار جاتی نظر آئی۔
محبت نے عجلت کو آواز دی، مجھے بھی اپنی کشتی میں بٹھا لو۔ عجلت نے محبت کی بات سنی ان سنی کردی۔ اب محبت کی نظر ایک کشتی میں سوار''دولت کی ہوس'' پر پڑی۔ محبت نے اس سے مدد چاہی۔ دولت کی ہوس نے محبت کو دھتکارتے ہوئے کہا، چلو ہٹو، میری کشتی میں سونا چاندی اور دیگر قیمتی چیزیں ہیں۔ میرے پاس تمہارے لیے کوئی جگہ نہیں۔ جزیرے پر بارش شروع ہوچکی تھی۔ محبت اپنے لیے ابھی تک کسی کشتی میں جگہ نہ پا سکی تھی۔
محبت نے دیکھا کہ ''غرور و تکبر'' ایک کشتی میں سوار ہورہے ہیں۔ محبت نے ان سے مدد چاہی، مگر تکبر نے انتہائی نخوت بھرے لہجے میں صاف انکار کر دیا۔ محبت نے ادھر ادھر نظر دوڑائی تو اسے ''غم'' کی کشتی نظر آئی۔ محبت نے غم سے مدد مانگی۔ غم نے جواب دیا۔ میں تو تنہا رہنا چاہتا ہوں۔ سامنے سے ''خوف'' کی کشتی گزر رہی تھی لیکن خوف نے بھی محبت کو اپنے پاس جگہ نہ دی۔''خوشی'' کو دیکھ کر محبت نے اپنی مدد کے لیے پکارا لیکن خوشی تو اپنے آپ میں بہت مگن تھی۔ اسے محبت کی آواز سنائی ہی نہ دی۔
تقریباً سب کشتیاں اس جزیرے سے جا چکی تھیں۔ محبت پریشان ہو رہی تھی کہ اچانک اسے آواز آئی، محبت! یہاں آؤ۔ ہمارے ساتھ چلو۔ محبت کو یہ اندازہ نہ ہوا کہ یہ کس کی آواز ہے۔ وہ کشتی میں سوار ہوگئی۔ وہ دوسری کئی کشتیوں کی نسبت ایک بڑی کشتی تھی۔ محبت نے دیکھا کہ اس کشتی کو ایک عمر رسیدہ کپتان چلا رہا ہے۔ اس کشتی میں محبت کی ملاقات ''علم''،'' حکمت''،'' حیا''،'' رحم دلی''،'' سکون''، ''اخلاص'' اور دیگر کئی اچھے جذبات، احساسات اور صفات سے ہوئی۔ طوفان شروع ہوچکا تھا۔ سمندر کی لہروں کا طلاطم بڑھتا جارہا تھا، لیکن کشتی کا کپتان بڑی مہارت سے اس کشتی کو طوفان سے نکال کر ساحل پر لے آیا۔
ساحل پر پہنچ کر محبت کو خیال آیا کہ اسے کشتی کے مالک کے بارے میں تو کچھ پتہ ہی نہ چلا۔ محبت نے ''علم'' سے یہ سوال پوچھا۔ علم نے محبت کو آگاہ کیا کہ یہ ''وقت کی ناؤ'' ہے۔ محبت نے علم سے پوچھا کہ جزیرے پر کئی جذبوں نے مجھے اپنے ساتھ بٹھانے سے انکار کردیا لیکن وقت نے خود آواز دے کر مجھے کیوں بلایا۔۔۔۔؟ یہ سوال سن کر علم کو محبت کی معصومیت پر بہت پیار آیا۔ علم نے شفقت سے محبت کو اس نکتے سے آگاہ کیا کہ محبت کی قدر وقت سے زیادہ بہتر کوئی اور نہیں جان سکتا۔ وقت کو معلوم ہے کہ طرح طرح کے خطرات میں گھری اور منفی جذبات میں پھنسی ہوئی اس دنیا کو محبت کے ذریعے ہی اچھی طرح بسایا جا سکتا ہے۔
قارئین کرام! ہم میں سے ہر ایک محبت کے بارے میں کچھ نہ کچھ ضرور جانتا ہے۔ کچھ لوگ کم جانتے ہوں گے کچھ بہت زیادہ، لیکن زیادہ تر لوگوں میں ایک خواہش مشترک ہے۔ وہ یہ کہ ان سے محبت کی جائے۔ اکثر لوگ اپنے لیے تو محبت حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن دوسروں کو محبت دینے میں وہ تنگ دل، تنگ دامن اور تنگ دست ہوجاتے ہیں۔ کئی انسان محبت کو بھی خالص نہیں رکھ پاتے۔ وہ عارضی، فانی اوربے وفا چیزوں کی محبت میں گرفتار ہوجاتے ہیں اور اس قید کو زندگی کا حاصل قرار دیتے ہیں۔
دولت کی محبت، اقتدار کی محبت، دنیا کی محبت، دولت اور اختیار دکھانے کے لیے جاہ و حشمت کا اہتمام۔ یہ سب ایک بہت بڑے قید خانے کی مختلف حبس زدہ کوٹھریاں ہیں۔ جو معاشرے محبت اور اخلاص کو اپناتے ہیں وہاں عوام فلاح پاتے ہیں۔ جن معاشروں میں حکمران اور امیر طبقات محبت اور اخلاص کو دھتکار کر دولت اور اقتدار کے قیدی بن جاتے ہیں وہاں نفسا نفسی، منافرت اور بیگانگی پھیلتی ہے۔
دولت یا اقتدار مجموعہ ضدین ہوتے ہیں۔ یعنی ان میں بیک وقت مخالف اور متضاد صفات پائی جاتی ہیں۔ انھیں قبول کرنے اور برتنے کا انداز ان کی کسی خاص صفت کو متحرک کردیتا ہے۔ حلال اور جائز ذرایع سے حصول، دولت اور اقتدار کو نعمت بنادیتا ہے ۔ حرام اور ناجائز ذرایع سے حاصل کی ہوئی دولت اور حکومت مصیبت اور عذاب بن جاتی ہے۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دولت حلال طریقوں سے کمائی گئی ہو لیکن پھر شیطان کے ورغلانے میں آکر کوئی آدمی گمراہ ہوجائے۔ حکومت، اقتدار، اختیار، انعام بھی ہیں اور آزمائش بھی۔ اللہ کی مخلوق کی محبت میں لوگوں کی خدمت اور فلاح کی نیت سے حکومت کرنا ، اللہ کو خوش کرنا اور اللہ کی مزید نعمتوں کا حق دار بنناہے۔
جو حکمران نیک نیتی اور اخلاص کے ساتھ ، اپنے عوام کے لیے محبت کے جذبوں کے ساتھ حکومت کرتے ہیں، وقت کی ناؤ بڑے سے بڑے طوفان سے بھی انھیں نکال کر باسلامت ساحل پر پہنچادیتی ہے۔
.....................
مریم اورنگزیب کی سی پی این ای آمد
وزیر مملکت برائے اطلاعات مریم اورنگزیب نے اتوار 7مئی کو سی پی این ای سیکریٹریٹ میں اخبارات و رسائل کے ایڈیٹرز سے ملاقات کی۔ پریس انفارمیشن آفیسر محمد سلیم بیگ، ڈی جی پی آئی ڈی کراچی سکندر علی شاہ بھی وزیر مملکت کے ساتھ تھے۔
مریم اورنگزیب کو مسلم لیگ ن کے لیے ایک بہت اچھا اثاثہ کہنا غلط نہ ہوگا۔ وزارت اطلاعات میں ذمے داریاں سنبھال کر وہ صرف مسلم لیگ کی حکومت کی ترجمان کا فرض ہی نہیں انجام دے رہیں بلکہ پاکستان میں میڈیا کے کئی دیرینہ حل طلب مسائل حل کرنے کے لیے بھی حتی المقدور کوششیں کررہی ہیں۔ اپنے فرائض کی بہتر طور پر انجام دہی کے لیے وہ اے پی این ایس، سی پی این ای، پی بی اے ، صحافیوں کی تنظیموں سے بھی مسلسل رابطوں میں رہتی ہیں۔
ایڈیٹرز سے اس ملاقات میں وزیر مملکت نے ڈان لیکس، پنامہ لیکس کے ساتھ ساتھ وزارت اطلاعات سے متعلقہ کئی موضوعات اور پاکستان کی پہلی فلم پالیسی پر بھی بات کی۔ سی پی این ای کے سیکریٹری جنرل اعجاز الحق، نائب صدر عامر محمود ، سینئر صحافیوں امتیاز عالم، رفیق افغان، ڈاکٹر جبار خٹک، احمد اقبال بلوچ، مشتاق احمد قریشی، یونس مہر، شیر محمد کھاوڑ، عثمان عرب ساٹی، ممتاز پھلپوٹہ اور راقم الحروف نے بھی مختلف سوالات کے ذریعہ مسلم لیگ ن کی حکومت کے نقطہ نگاہ اور وزارت اطلاعات کی سوچ سے آگاہی حاصل کرنا چاہی۔ نئے پی آئی او محمد سلیم بیگ وزارت اطلاعات کے نہایت سینئر آفیسر ہیں۔ ملک کے ہر حصے سے شایع ہونے والے کئی اخبارات و رسائل سے ذاتی طور پر واقف ہیں۔ توقع ہے کہ وزیر مملکت سلیم بیگ اور وزارت اطلاعات کے دیگر اہل اور پروفیشنل افسران کے تعاون سے ملک میں آزادیٔ اظہار اور پرنٹ میڈیا کا استحکام یقینی بنانے میں اپنا کردار احسن انداز سے ادا کریں گی۔