سندھ میں بڑھتی بلدیاتی کشیدگی
آئین کی دفعہ 14-A کے تحت ملک میں کسی بھی صوبے نے اپنے بلدیاتی اداروں کواختیارات نہیں دیے
وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے میئرکراچی وسیم اختر کو مشورہ دیا ہے کہ وہ سندھ حکومت کے معاملات پر رائے زنی نہ کریں اور اپنے کام سے کام رکھیں۔ وزیراعلیٰ نے یہ بات میئرکراچی کے اس بیان کے جواب میں کہی جس میں میئر نے سندھ میں گڈ گورننس نہ ہونے کا ذکرکیا تھا۔ میئر کراچی اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے اپنے اختیارات کے محدود ہونے کے مسلسل بیانات دے رہے ہیں جس کے جواب میں وزیراعلیٰ نے کہاکہ ہم نے میئر کراچی کو قانون کے مطابق اختیار ات دے رکھے ہیں اور میئر اب وفاقی حکومت سے اختیارات مانگ رہے ہیں۔ ہم نے جو دینے تھے دے دیے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ آئین کی دفعہ 14-A کے تحت ملک میں کسی بھی صوبے نے اپنے بلدیاتی اداروں کواختیارات نہیں دیے اور چاروں صوبوں میں ایک جیسا بلدیاتی نظام ہے نہ منتخب بلدیاتی نمایندوں کے پاس اختیارات ہیں کیونکہ 8 سال بعد خود کو جمہوری حکومتوں نے اپنی پارٹی پالیسی کے تحت بلدیاتی انتخابات نہیں کرائے تھے بلکہ سپریم کورٹ کے حکم پرملک میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے جو صوبائی حکومتوں کی مرضی کے خلاف تھے۔ اسی لیے کسی حکومت نے اپنے بلدیاتی اداروں کو آئین کے مطابق اختیارات نہیں دیے اور نہ کوئی بھی حکومت دینا چاہتی ہے۔
بد قسمتی سے چاروں صوبوں میں بلدیاتی انتخابات جماعتی بنیاد پر ہوئے تھے جہاں برسر اقتدار سیاسی پارٹیوں نے اپنے انتخابی نشان پر اپنے امیدواروں کو حکومتی تائید اور مدد سے کامیاب کرایا تھا اور جہاں ان کی پارٹی کمزور تھی وہاں اپوزیشن کے اور آزاد امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔ وہاں غیر حکومتی بلدیاتی عہدے دار کامیاب ہوگئے تھے جو حکومتی عدم دلچسپی اور اختیارات نہ ہونے پر احتجاج کرتے آرہے ہیں مگر چاروں صوبوں میں برسر اقتدار بلدیاتی عہدے داروں نے اپنے ہونٹ سی رکھے ہیں۔ وہ اپنی حکومت سے اختیار مانگتے ہیں نہ احتجاج کرتے ہیں کیونکہ وہ اپنی پارٹی کے مطابق مجبور ہیں اور ملے ہوئے محدود اختیارات اور اندرونی طور پر ملی ہوئی اپنی حکومتی سرپرستی میں خاموشی سے کام کررہے ہیں۔
سندھ ملک کا واحد صوبہ ہے جہاں دیہی سندھ میں پیپلزپارٹی اور شہری سندھ خصوصاً کراچی اور حیدرآباد میں متحدہ نے کامیابی حاصل کی تھی جہاں انھوں نے اپنے بلدیاتی عہدے دار منتخب کرائے تھے مگر سندھ کی حکومت اور شہری سندھ کے متحدہ کے بلدیاتی عہدے داروں کے درمیان گزشتہ سات ماہ سے کشیدگی جاری ہے مگر یہ کشیدگی کراچی میں زیادہ ہے جسے عوامی سطح پر کراچی پر قبضے کی جنگ قرار دیا جارہا ہے۔
کراچی کی ضلع کونسل اور جنوبی اور ملیر کی ڈی ایم سیز کا اقتدار پیپلزپارٹی کے پاس ہے تو ضلع شرقی ،کورنگی اور وسطی کا اقتدار متحدہ کے پاس ہے جب کہ ضلع غربی سات ماہ گزر جانے کے بعد بھی سندھ حکومت کے مقرر کردہ سرکاری ایڈمنسٹریٹر ڈی ایم سی ویسٹ پر براجمان ہیں جہاں متحدہ کے چیئرمین کامیاب تو ہوگئے تھے مگر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جاری حکم امتناعی کے تحت چارج نہیں لے سکے تھے کیونکہ متحدہ کی سیاسی حریف پی ٹی آئی نے ضلع غربی سندھ میں ہوتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ذریعے متحدہ کے کامیاب چیئرمین کی حلف برداری رکوادی تھی جس کی وجہ سے ڈی ایم سی غربی اپنے منتخب بلدیاتی عہدے داروں سے محروم ہے۔
اندرون سندھ دوسرے بڑے شہر حیدرآباد کا میئر متحدہ کا اور تیسرے بڑے شہر سکھر کا میئر پیپلزپارٹی پارٹی کا ہے جب کہ شہری سندھ کے منتخب کے حلقہ اثرکے بعض میونسپل ٹاؤن اور یوسیز کے چیئرمین متحدہ کے ہیں اور سندھ کی تمام ضلع کونسلیں پیپلزپارٹی کے پاس ہیں۔ حیدرآباد کے متحدہ کے میئر اپنے کام سے کام رکھے ہوئے ہیں اور ان کی طرف سے میئر کراچی جیسے اخباری بیانات دیے جارہے ہیں نہ ان کا رویہ سندھ حکومت کے خلاف جارحانہ ہے۔
لگتا ہے کہ متحدہ نے کراچی جیسے بڑے شہر کے لیے موجودہ میئر جو جذباتی اور جلد غصے میں آجانے والے مشہور ہیں کی نامزدگی اپنے خاص سیاسی مقصد کے لیے کی تھی جو حکومت سندھ پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے جس پر سندھ کے وزیراعلیٰ اور وزیر بلدیات بھی پیچھے نہیں رہتے اور کہتے ہیں کہ میئر صوبائی معاملات پر تنقید نہ کریں اور اپنے کام سے کام رکھیں اور اختیارات کا رونا نہ روئیں وہ اختیارات کے نام پر سیاست نہ کریں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ سندھ حکومت نے اپنے سیاسی مفاد کے لیے ملک کی سب سے بڑی بلدیہ عظمیٰ کو بے اختیار کر رکھا ہے اور ضلع نظام سے قبل بھی بلدیہ عظمیٰ کے پاس جو محکمے اور میئر کراچی کے اختیارات ہوا کرتے تھے وہ متحدہ کی مخالفت میں پیپلزپارٹی کی سندھ حکومت نے چھین کر اپنے کنٹرول میں کر رکھے ہیں جہاں سندھ حکومت کے من پسند افسرتعینات کیے گئے ہیں اور یہ تقرریاں بھی رشوت پرہوتی ہیں اور سندھ حکومت ان محکموں کی مکمل سرپرستی کرتے ہوئے انھیں بلدیہ عظمیٰ کے خلاف استعمال کرکے انھیں جان بوجھ کر لڑوارہی ہے۔
حکومت سندھ نے کے ڈی اے کو بحال کرکے اسے بلدیہ عظمیٰ کے مد مقابل لاکھڑا کیا جس نے بلدیہ عظمیٰ کو سوک سینٹر سے بے دخل کرادیا اور اب بلدیہ عظمیٰ کے دفاتر انتہائی گنجان علاقے میں واقع اولڈ کے ایم سی بلڈنگ میں منتقل کرکے شہریوں کو بھی پریشان کرادیا ہے جو پہلے شہر کے وسط سوک سینٹر پر تھے جہاں لوگوں کو آنے میں آسانی تھی جو سندھ حکومت کو پسند نہیں آئی۔ سوک سینٹر کے قریب ہی واٹر اینڈ سیوریج بورڈ کے متعدد دفاتر اور سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا مرکزی دفتر بھی واقع ہے۔
متحدہ اور پیپلزپارٹی بے نظیر بھٹو کے پہلے دور اور گزشتہ پی پی پی حکومتوں میں حلیف بھی رہے ہیں اور باہمی اختلاف کے خاتمے میں آصف علی زرداری نے اہم کردار ادا کیا تھا مگر متحدہ کے رویے کے وہ بھی شاکی تھی۔ شاید یہ اسی وجہ سے وہ سندھ حکومت کو متحدہ کے ساتھ نرم رویہ رکھنے کا نہیں کہہ رہے اور میئر کراچی کی وجہ سے پی پی پی اور متحدہ میں تلخیاں بڑھ رہی ہیں۔ متحدہ کے وائٹ پیپرکا پی پی رہنماؤں نے منہ توڑ جواب دیا ہے اور متحدہ نے پھر الزام لگایا ہے کہ پی پی پی کوٹہ سسٹم کے ذریعے سندھ کو خود تقسیم کرچکی ہے۔
متحدہ نے ماضی میں جو کچھ کیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے مگر پی پی پی حکومت اب کراچی کے لیے جو کچھ کر رہی ہے وہ بھی عیاں ہے مگر سندھ حکومت متحدہ کی سزا کراچی کے شہریوں کو دے رہی ہے۔ میئر کراچی اختیارات کا شور تو کرتے آرہے ہیں اور سپریم کورٹ 8 ماہ ہوگئے ہیں جو انھیں اختیارات دلاسکتی ہے اور سندھ حکومت کو ضروری احکامات دے سکتی ہے۔ پی پی پی حکومت میئر کو بے بس کرکے کراچی میں تعمیری کام کراکر کریڈٹ خود لینا چاہتی ہے جو متحدہ کو قبول نہیں اور بڑھتی ہوئی اس بلدیاتی کشیدگی سے کراچی اور شہری متاثر ہورہے ہیں جس کی حریفوں کو پروا نہیں اور پریشان کراچی کے شہری ہیں اور متحدہ کی طرف سے سپریم کورٹ میں دی گئی درخواست کے فیصلے کے منتظر ہیں۔