کس سے منصفی چاہیں
بھارت کا نام اور واویلا بے سبب نہیں ہے
KARACHI:
اخبار آپ کو صرف خبریں ہی فراہم نہیں کرتا بلکہ خبروں سے متعلق افراد اور مقامات یا واقعات کا ایک ریکارڈ ہے کیونکہ خبریں تو ''فوری خبر'' کے تحت اسی وقت لوگوں تک پہنچ جاتی ہیں اور دوسرے دن اخبار میں وہ خبر ایک یاددہانی، یادداشت یا ریکارڈ کے طور پر رہ جاتی ہے۔
ابھی تک کوئی ایسا طریقہ ایجاد نہیں ہوا کہ خبر فوراً چھپ کر قارئین تک پہنچ جائے کیونکہ یہ ناممکن ہی رہے گا الیکٹرانک خبروں کی ترسیل کے طریقے نے جسے الیکٹرانک میڈیا کہا جاتا ہے اس کام کو دشوار کردیا ہے اور یہ دشوار ہی رہے گا بلکہ اب تو روایتی کالم بھی کچھ اثر نہیں رکھتے کیونکہ روزانہ شام کو ''کالموں کی دکان'' ہر چینل پر کھل جاتی ہے اور بحث مباحثے سے وہ تمام نتائج اخذ کرلیے جاتے ہیں جوکہ ایک آرٹیکل یا کالم کا آخری پیراگراف ہوتا ہے عام طور پر۔
مگر کچھ خبریں ایسی ہوتی ہیں کہ جن کی اہمیت اور جن کا Repeat کبھی ختم نہیں ہوتا اور جب بھی ان پر بات کی جائے وہ اس وقت بھی اتنی ہی اہم ہوتی ہیں۔ کشمیر ہر وقت اہم ہے، اس کی تاریخ اہم ہے، اس کے حالات کی تبدیلی اور دیگر عوام سب اہم ہیں، یہ کوئی ICU کا مریض نہیں ہے بلکہ یہ پاکستان کا جگر ہے اور اپنے جگر سے کون بے خبر رہ سکتا ہے۔ ایک حصہ تندرست اور ایک حصہ بیمار ہو تو فکر تو ہوگی جو پاکستانیوں کو ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں کو شاید اتنی نہ ہو۔
بھارت کا نام اور واویلا بے سبب نہیں ہے، مشرق وسطیٰ فلسطین کی وجہ سے آج اس حال کو پہنچا ہے تفصیل اس اجمال کی عرض یوں نہیں کی جاسکتی کہ اس میں بھی سیاست کے نادیدہ مکروہ ہاتھ موجود ہیں اور بدقسمتی سے وہ بھی مسلمانوں کے ہی ہاتھ ہیں، غیروں سے شکوہ تو الگ ہے سعودی عرب کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ اگر اس مسئلے پر جنگ ہوئی تو وہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہوگا۔
اس سے زیادہ افسوسناک صورتحال کیا ہوگی اور ایسی ہی خبریں یاد رہتی ہیں اور اس سے قوموں کے یا کم ازکم حکمرانوں کے کردار کا اندازہ ہوتا ہے۔ عرب اسرائیل جنگ میں مسلمانوں کے کردار کو بھلایا نہیں جاسکتا جو انھوں نے مسلمانوں کے خلاف انجام دیا تھا جس میں ہمارے حکمران بھی شامل ہیں۔ یہ اور اس قسم کی خبریں یاد رہتی ہیں۔ مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں مسلمان ملکوں کی سرد مہری بھی ایک ایسی خبر ہے کہ جو یاد رکھی جاتی ہے اور افسوس یہ ہوتا ہے کہ وہ ظالم اور مظلوم کو، حملہ آور اور تحفظ کرنے والوں کو ایک سمجھتے ہیں اور انھیں معاملات بیٹھ کر حل کرنے کا مشورہ دیتے ہیں جو ایک آسان بات نہیں نظر آتی ہے۔
جس طرح بھارت نے پاکستان کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنوایا اس پر دنیا کو کوئی تشویش ہو یا نہ ہو ہمارے اپنے حکمرانوں کو اس پر کوئی دکھ نہیں ہے۔ پاکستانی جنرل کی ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہتھیار ڈالنے کی تصویر بنگلہ دیشی وزیر اعظم نے مودی کو پیش کی اور اس نے برملا کہا کہ ہم نے مداخلت کرکے بنگلہ دیش بنوایا۔ یہ بھی ایک خبر ہے جو عوام کے دل و جگر چھلنی کر گئی اور ہمیشہ یاد رہے گی مگر ہمارے حکمرانوں کو اس کی کوئی فکر نہ تھی نہ ہے لگتا ہے کہ ایک خاص سوچ جو ذوالفقار علی بھٹو نے پیدا کی اس پر حکمران خوش بلکہ مطمئن ہیں ''ادھر تم ادھر ہم'' یہ بھی ایک خبر تھی جو ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔
پاکستان کے دریاؤں کا پانی روکنے کا بھارت کے وزیراعظم کا اعلان بھی ایک خبر ہے جو ہمیں یاد رہے گی اور یاد رہنی چاہیے کہ یہ پاکستان کی زندگی کا سوال ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا حکمرانوں کو پاکستان کی زندگی سے کچھ دلچسپی ہے یا نہیں؟ وہ مودی کی نواسی کی رسم مہندی میں شرکت کو ایک اعزاز سمجھ رہے ہیں۔ جب کہ وہ اقوام متحدہ میں آپ کو دہشت گرد کہہ رہا ہے آپ اس کی سرحدی دہشت گردی برداشت کر رہے ہیں اور خود کو دہشت گرد کہلوا کر وفد بھارت بھیج رہے ہیں۔ کرکٹ سے سارک کانفرنس تک میں ہر جگہ آپ کو شرمندہ کر رہا ہے علاقے کے ملک اس کا ساتھ دے رہے ہیں اور آپ کی سفارت کاری اسلام آباد تک محدود ہے۔
علاقے کے جن ملکوں کی آپ نے مشکل وقت میں مدد کی، دہشت گردی سے نمٹنے میں ان کا ساتھ دیا وہ بھارت کے ساتھ کھڑے ہیں اور آپ پاکستان میں ''مودی ازم'' کے پرچارک ہیں۔
2016 کے سال کا آخری دن تھا جب اخبار دیکھا تو بے حد افسوس اور دکھ ہوا اور سب کو ہوا ہوگاجنھوں نے پاکستان کی محبت کو دل میں جگہ دے رکھی ہے۔ ایک صفحے پر مظفر آباد آزاد کشمیر کا منظر ہے جہاں پاکستان کے وزیر اعظم اس بس کو ملاحظہ کررہے ہیں جس پر بھارت نے حملہ کیا اور پاکستان کے لوگ یا آزاد کشمیر کے لوگ شہید ہوئے اور اسی اخبار میں خبر ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم نے بھارت کی وزیر خارجہ کی صحت سے متعلق خط لکھا ہے جس طرح یوسف گیلانی دورہ روس میں پریشان ہوئے تھے تو ایک کالم نگار نے اس کا ذکر کیا۔
یہ اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات ہے کہ پاکستان کاوزیر اعظم بھارت کی وزیر خارجہ کی صحت کے بارے میں فکر مند ہے۔ یہ وہی خاتون ہیں کہ جنھوں نے اقوام متحدہ کے روسٹرم سے بلوچستان کے بارے میں زہر اگلا تھا اور جن کے گردے کام نہیں کر رہے تھے تو پاکستان سے بھی لوگوں نے گردہ عطیہ کرنے کو کہا تھا۔ وزیر اعظم پاکستان نے اقوام متحدہ میں اس بیان کی مذمت بھی نہیں کی بلکہ انھی خاتون کی صحت کی فکر لاحق ہے پاکستان کو۔
پاکستان کے دریاؤں کا پانی بتدریج بھارت کم کرتا جا رہا ہے، ان پر مزید ڈیم بنانے کا ارادہ ہے تاکہ پاکستان تک کم سے کم پانی پہنچے اور بھارت سرسبز رہے پاکستان قحط زدہ ہوجائے اور یہ ممکن ہے دعا کا مرحلہ بعد میں آتا ہے پہلے دوا کرنی چاہیے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں ایک خودغرض ٹولے کی حکومت ہے جس نے خود بھی ملک کو لوٹا ہے اور ملک کے دشمنوں کو بھی دعوت دے رکھی ہے کہ وہ جو چاہیںپاکستان کے ساتھ کریں ان کے لب خاموش رہیں گے۔
ملک میں اس قبیل کے لوگ موجود ہیں جن کا دین ایمان کیا ہے سب جانتے ہیں اور یہ سب حکومت کو بہتر سے بہتر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا مطمع نظر سندھ کو پس پشت ڈالنا ہے تاکہ یہاں کی حکمراں جماعت سندھ کو اپنے مقاصد کے تحت استعمال کرے اور عام لوگوں تک کوئی چیز نہ پہنچے۔
حکمرانوں کی نظر میں ویسے تو عام لوگوں کی کوئی حیثیت ہے ہی نہیں مگر خاص طور پر سندھ کو اس نے نظرانداز کر رکھا ہے تاکہ میثاق جمہوریت پر من مانا فائدہ دونوں پارٹیاں اٹھاسکیں۔ بڑے صوبے سے چھوٹے صوبوں کے عوام کو امید ہوتی ہے کہ وہ ان کی آواز سنیں گے حکمراں ہیں مگر وہ تو حکمرانوں کی ہی آواز سن رہے ہیں ان کی نظر میں سندھ کے عوام ان کی ذمے داری نہیں ہیں بے شک وہ پاکستان کے حکمران ہیں مگر اس کے لیے وہ صوبائی معاملات کو الگ کرکے زرداری گروپ کے ہاتھ میں دے چکے ہیں کہ جو چاہے کرو۔ سی پیک کی وجہ سے بلوچستان اہم ہوگیا مگر اس کا حال بھی تو کوئی اچھا نہیں ہونے والا ، سب کچھ مرکز ہی لے جائے گا اور وہ دیکھتے رہ جائیں گے ماضی کی طرح۔ اب پاکستان میں سائز اور آبادی سے قطع نظر برابری کے اصول کے علاوہ کوئی طریقہ کار نہیں ہے کہ ملک اور صوبے آرام سے رہ سکیں اور عوام کو وہ فوائد ملیں جو ان کا حق ہیں یہ ہونا ہے اور ہوکر رہے گا۔ آج نہیں تو کل یہ ضرور ہوگا۔
اخبار آپ کو صرف خبریں ہی فراہم نہیں کرتا بلکہ خبروں سے متعلق افراد اور مقامات یا واقعات کا ایک ریکارڈ ہے کیونکہ خبریں تو ''فوری خبر'' کے تحت اسی وقت لوگوں تک پہنچ جاتی ہیں اور دوسرے دن اخبار میں وہ خبر ایک یاددہانی، یادداشت یا ریکارڈ کے طور پر رہ جاتی ہے۔
ابھی تک کوئی ایسا طریقہ ایجاد نہیں ہوا کہ خبر فوراً چھپ کر قارئین تک پہنچ جائے کیونکہ یہ ناممکن ہی رہے گا الیکٹرانک خبروں کی ترسیل کے طریقے نے جسے الیکٹرانک میڈیا کہا جاتا ہے اس کام کو دشوار کردیا ہے اور یہ دشوار ہی رہے گا بلکہ اب تو روایتی کالم بھی کچھ اثر نہیں رکھتے کیونکہ روزانہ شام کو ''کالموں کی دکان'' ہر چینل پر کھل جاتی ہے اور بحث مباحثے سے وہ تمام نتائج اخذ کرلیے جاتے ہیں جوکہ ایک آرٹیکل یا کالم کا آخری پیراگراف ہوتا ہے عام طور پر۔
مگر کچھ خبریں ایسی ہوتی ہیں کہ جن کی اہمیت اور جن کا Repeat کبھی ختم نہیں ہوتا اور جب بھی ان پر بات کی جائے وہ اس وقت بھی اتنی ہی اہم ہوتی ہیں۔ کشمیر ہر وقت اہم ہے، اس کی تاریخ اہم ہے، اس کے حالات کی تبدیلی اور دیگر عوام سب اہم ہیں، یہ کوئی ICU کا مریض نہیں ہے بلکہ یہ پاکستان کا جگر ہے اور اپنے جگر سے کون بے خبر رہ سکتا ہے۔ ایک حصہ تندرست اور ایک حصہ بیمار ہو تو فکر تو ہوگی جو پاکستانیوں کو ہے۔ پاکستان کے حکمرانوں کو شاید اتنی نہ ہو۔
بھارت کا نام اور واویلا بے سبب نہیں ہے، مشرق وسطیٰ فلسطین کی وجہ سے آج اس حال کو پہنچا ہے تفصیل اس اجمال کی عرض یوں نہیں کی جاسکتی کہ اس میں بھی سیاست کے نادیدہ مکروہ ہاتھ موجود ہیں اور بدقسمتی سے وہ بھی مسلمانوں کے ہی ہاتھ ہیں، غیروں سے شکوہ تو الگ ہے سعودی عرب کا یہ بیان ریکارڈ پر ہے کہ اگر اس مسئلے پر جنگ ہوئی تو وہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہوگا۔
اس سے زیادہ افسوسناک صورتحال کیا ہوگی اور ایسی ہی خبریں یاد رہتی ہیں اور اس سے قوموں کے یا کم ازکم حکمرانوں کے کردار کا اندازہ ہوتا ہے۔ عرب اسرائیل جنگ میں مسلمانوں کے کردار کو بھلایا نہیں جاسکتا جو انھوں نے مسلمانوں کے خلاف انجام دیا تھا جس میں ہمارے حکمران بھی شامل ہیں۔ یہ اور اس قسم کی خبریں یاد رہتی ہیں۔ مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں مسلمان ملکوں کی سرد مہری بھی ایک ایسی خبر ہے کہ جو یاد رکھی جاتی ہے اور افسوس یہ ہوتا ہے کہ وہ ظالم اور مظلوم کو، حملہ آور اور تحفظ کرنے والوں کو ایک سمجھتے ہیں اور انھیں معاملات بیٹھ کر حل کرنے کا مشورہ دیتے ہیں جو ایک آسان بات نہیں نظر آتی ہے۔
جس طرح بھارت نے پاکستان کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنوایا اس پر دنیا کو کوئی تشویش ہو یا نہ ہو ہمارے اپنے حکمرانوں کو اس پر کوئی دکھ نہیں ہے۔ پاکستانی جنرل کی ڈھاکہ کے پلٹن میدان میں ہتھیار ڈالنے کی تصویر بنگلہ دیشی وزیر اعظم نے مودی کو پیش کی اور اس نے برملا کہا کہ ہم نے مداخلت کرکے بنگلہ دیش بنوایا۔ یہ بھی ایک خبر ہے جو عوام کے دل و جگر چھلنی کر گئی اور ہمیشہ یاد رہے گی مگر ہمارے حکمرانوں کو اس کی کوئی فکر نہ تھی نہ ہے لگتا ہے کہ ایک خاص سوچ جو ذوالفقار علی بھٹو نے پیدا کی اس پر حکمران خوش بلکہ مطمئن ہیں ''ادھر تم ادھر ہم'' یہ بھی ایک خبر تھی جو ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔
پاکستان کے دریاؤں کا پانی روکنے کا بھارت کے وزیراعظم کا اعلان بھی ایک خبر ہے جو ہمیں یاد رہے گی اور یاد رہنی چاہیے کہ یہ پاکستان کی زندگی کا سوال ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا حکمرانوں کو پاکستان کی زندگی سے کچھ دلچسپی ہے یا نہیں؟ وہ مودی کی نواسی کی رسم مہندی میں شرکت کو ایک اعزاز سمجھ رہے ہیں۔ جب کہ وہ اقوام متحدہ میں آپ کو دہشت گرد کہہ رہا ہے آپ اس کی سرحدی دہشت گردی برداشت کر رہے ہیں اور خود کو دہشت گرد کہلوا کر وفد بھارت بھیج رہے ہیں۔ کرکٹ سے سارک کانفرنس تک میں ہر جگہ آپ کو شرمندہ کر رہا ہے علاقے کے ملک اس کا ساتھ دے رہے ہیں اور آپ کی سفارت کاری اسلام آباد تک محدود ہے۔
علاقے کے جن ملکوں کی آپ نے مشکل وقت میں مدد کی، دہشت گردی سے نمٹنے میں ان کا ساتھ دیا وہ بھارت کے ساتھ کھڑے ہیں اور آپ پاکستان میں ''مودی ازم'' کے پرچارک ہیں۔
2016 کے سال کا آخری دن تھا جب اخبار دیکھا تو بے حد افسوس اور دکھ ہوا اور سب کو ہوا ہوگاجنھوں نے پاکستان کی محبت کو دل میں جگہ دے رکھی ہے۔ ایک صفحے پر مظفر آباد آزاد کشمیر کا منظر ہے جہاں پاکستان کے وزیر اعظم اس بس کو ملاحظہ کررہے ہیں جس پر بھارت نے حملہ کیا اور پاکستان کے لوگ یا آزاد کشمیر کے لوگ شہید ہوئے اور اسی اخبار میں خبر ہے کہ پاکستان کے وزیر اعظم نے بھارت کی وزیر خارجہ کی صحت سے متعلق خط لکھا ہے جس طرح یوسف گیلانی دورہ روس میں پریشان ہوئے تھے تو ایک کالم نگار نے اس کا ذکر کیا۔
یہ اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات ہے کہ پاکستان کاوزیر اعظم بھارت کی وزیر خارجہ کی صحت کے بارے میں فکر مند ہے۔ یہ وہی خاتون ہیں کہ جنھوں نے اقوام متحدہ کے روسٹرم سے بلوچستان کے بارے میں زہر اگلا تھا اور جن کے گردے کام نہیں کر رہے تھے تو پاکستان سے بھی لوگوں نے گردہ عطیہ کرنے کو کہا تھا۔ وزیر اعظم پاکستان نے اقوام متحدہ میں اس بیان کی مذمت بھی نہیں کی بلکہ انھی خاتون کی صحت کی فکر لاحق ہے پاکستان کو۔
پاکستان کے دریاؤں کا پانی بتدریج بھارت کم کرتا جا رہا ہے، ان پر مزید ڈیم بنانے کا ارادہ ہے تاکہ پاکستان تک کم سے کم پانی پہنچے اور بھارت سرسبز رہے پاکستان قحط زدہ ہوجائے اور یہ ممکن ہے دعا کا مرحلہ بعد میں آتا ہے پہلے دوا کرنی چاہیے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں ایک خودغرض ٹولے کی حکومت ہے جس نے خود بھی ملک کو لوٹا ہے اور ملک کے دشمنوں کو بھی دعوت دے رکھی ہے کہ وہ جو چاہیںپاکستان کے ساتھ کریں ان کے لب خاموش رہیں گے۔
ملک میں اس قبیل کے لوگ موجود ہیں جن کا دین ایمان کیا ہے سب جانتے ہیں اور یہ سب حکومت کو بہتر سے بہتر اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا مطمع نظر سندھ کو پس پشت ڈالنا ہے تاکہ یہاں کی حکمراں جماعت سندھ کو اپنے مقاصد کے تحت استعمال کرے اور عام لوگوں تک کوئی چیز نہ پہنچے۔
حکمرانوں کی نظر میں ویسے تو عام لوگوں کی کوئی حیثیت ہے ہی نہیں مگر خاص طور پر سندھ کو اس نے نظرانداز کر رکھا ہے تاکہ میثاق جمہوریت پر من مانا فائدہ دونوں پارٹیاں اٹھاسکیں۔ بڑے صوبے سے چھوٹے صوبوں کے عوام کو امید ہوتی ہے کہ وہ ان کی آواز سنیں گے حکمراں ہیں مگر وہ تو حکمرانوں کی ہی آواز سن رہے ہیں ان کی نظر میں سندھ کے عوام ان کی ذمے داری نہیں ہیں بے شک وہ پاکستان کے حکمران ہیں مگر اس کے لیے وہ صوبائی معاملات کو الگ کرکے زرداری گروپ کے ہاتھ میں دے چکے ہیں کہ جو چاہے کرو۔ سی پیک کی وجہ سے بلوچستان اہم ہوگیا مگر اس کا حال بھی تو کوئی اچھا نہیں ہونے والا ، سب کچھ مرکز ہی لے جائے گا اور وہ دیکھتے رہ جائیں گے ماضی کی طرح۔ اب پاکستان میں سائز اور آبادی سے قطع نظر برابری کے اصول کے علاوہ کوئی طریقہ کار نہیں ہے کہ ملک اور صوبے آرام سے رہ سکیں اور عوام کو وہ فوائد ملیں جو ان کا حق ہیں یہ ہونا ہے اور ہوکر رہے گا۔ آج نہیں تو کل یہ ضرور ہوگا۔