اُستاد رئیس خان ستار اُن کے ہاتھوں میں بجنے کے بجائے گانے لگتی تھی

پاکستان اوربھارت سمیت دنیا کے بیشترممالک سے لوگ ان کی وفات پرگہرے رنج کا اظہار کررہے ہیں۔

پاکستان اوربھارت سمیت دنیا کے بیشترممالک سے لوگ ان کی وفات پرگہرے رنج کا اظہار کررہے ہیں۔فوٹو : فائل

برصغیرپاک وہند میں کلاسیکی موسیقی اورستارجیسے مشکل ساز پرراج کرنے والے معروف ستارنوازاُستاد رئیس خاں طویل علالت کے بعد 78 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ انہیں کراچی کے مقامی قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ مرحوم گزشتہ کچھ عرصہ سے علیل تھے۔

استاد رئیس خاں کی وفات کی خبرسوشل میڈیا کے ذریعے دنیا بھرمیں جنگل کی آگ کی طرح پھیلی ۔ دنیا بھر میں اُن کے لاکھوں چاہنے والوں نے ان کی وفات کوفن موسیقی کا ناقابل تلافی نقصان قرار دیا۔ خاص طورپرپڑوسی ملک بھارت کی عظیم گلوکارہ لتا منگیشکرنے سماجی رابطوں کی ایک ویب سائٹ پرانہیں 'ستارکے جادوگر' کے خطاب سے نوازا۔ اسی طرح پاکستان اوربھارت سمیت دنیا کے بیشترممالک سے لوگ ان کی وفات پرگہرے رنج کا اظہار کررہے ہیں۔

بھارت کے شہر اندورمیں 1939ء میں کلاسیکی موسیقی کے ایک معتبرگھرانے ''میوات'' میں پیدا ہونے والے استاد رئیس خاں نے موسیقی کی ابتدائی تعلیم اپنے نانا استاد عنایت علی خاں سے حاصل کی۔ مغلوں کے دورسے قائم میواتی گھرانے سے تعلق رکھنے والے استاد رئیس خاں کوصرف 15 برس کی عمر' استاد ' کا خطاب ملا اور 1955 میں انھوں نے انٹرنیشنل یوتھ فیسٹیول میں انڈیا کی 16 برس کی عمرمیں نمائندگی بھی کی۔ جو اس دورے میں جانے والے گائیکوں اورسازندوں کے مقابلے میں سب سے کم عمرتھے۔ ان کے فن کے چرچے پورے بھارت میں ہورہے تھے۔

ایسے میں بھارتی فلم انڈسٹری کے معروف موسیقاروں نے ان کی خدمات حاصل کیں اوراس دور کے عظیم گلوکارمحمد رفیع، لتامنگیشکراورآشا بھوسلے کیلئے ریکارڈ کئے جانے والوں گیتوں میں ان سے ستاربجوایا۔ ستارسے سچے سروں کی تانیں جونہی ان عظیم گلوکاروں کے کانوں تک پہنچیں تووہ بھی استاد رئیس خاں کے گرویدہ ہوگئے۔ بس یوں کہئے کہ استاد رئیس خاں نے ستارجیسے ساز کواپنی کڑی محنت اورلگن سے 'انمول ' بنایا۔ وہ جب ستاربجاتے توبڑے بڑے گائیک یہ کہتے کہ'' استاد رئیس خاں کا ستاربجتا نہیں بلکہ گاتا ہے '' ۔ یعنی انہوں نے ستار کی آواز میں گلے کی صفت پیدا کردتی تھی۔ اس سے پہلے یہ بات کسی بھی ستارنواز کیلئے نہیں کہی گئی۔

یہی نہیں استاد رئیس خاں کویہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے تین طبلہ نوازوں کے ساتھ مل کر 18 گھنٹے لگاتارستار بجایا اور یہ ایک ایسا ریکارڈ ہے، جوشایدہی کوئی توڑ سکے۔ یہ ان کی ریاضت اورفن موسیقی سے محبت ہی تھی کہ انہوں نے اپنی زندگی کے آخری ایام تک بھی ستارنوازی جاری رکھی ، بلکہ اس فن کی جانب اپنے ایک بیٹے فرحان کولے کرآئے۔

اگرہم بات کریں استاد رئیس خاں کی نجی زندگی کی توانہوں نے چارشادیاں کیں، جن میں سے ان کے چاربیٹے سہیل خاں، سیزان خاں، فرحان خاں اورحضورحسین خاں ہیں۔ انہوں نے 70ء کی دہائی کے آخرمیں پاکستان کی معروف گلوکارہ بلقیس خانم کے ساتھ شادی کر لی، جوان کی چوتھی اورآخری شادی رہی۔ پھر80ء کی دہائی میں وہ پاکستان منتقل ہو گئے جہاں انھوں نے کراچی میں سکونت اختیارکی۔

استاد رئیس خاں جب پاکستان آئے تواکثرلوگ یہ سوچتے تھے کہ 'خاں صاحب' زیادہ عرصہ قیام نہیں کریں گے اورواپس بھارت چلے جائیں گے لیکن کراچی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ 'کراچی زندہ ہونے کا احساس دلاتا ہے' ۔ پھرانہیں پاکستان میں اتنا پیارملا کہ انہوں نے کبھی دوبارہ بھارت جانے کا نہیں سوچا اوراپنی زندگی کی آخری سانسیں پاک سرزمین پرہی پوری کیں۔


استادرئیس خاں کی وفات پر''ایکسپریس''سے گفتگوکرتے ہوئے بھارت کے معروف کلاسیکل گھرانے ''کیرانا'' کے استاد مشکورعلی خاں نے کہا کہ استاد رئیس خاں میرے بہت قریب تھے۔ وہ جب بھی کولکتہ آتے تومیرے گھرہی قیام کرتے۔ اس دوران موسیقی کے موضوع پرطویل گفتگو اور ہنسی مذاق چلتا رہتا۔ان کے انتقال سے بہت دلی تکلیف پہنچی ہے۔ کیونکہ وہ میرے بہت قریب تھے اوربہت ہی بڑے فنکاربھی تھے۔ ان کا نعم البدل کوئی دوسرا نہیں۔ وہ جب ستاربجاتے تویوں محسوس ہوتا کہ ستاربول رہا ہے۔ میری دعا ہے کہ اللہ پاک ان کوجنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دیں۔

معروف گلوکارسجاد علی نے دبئی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ اتفاق ہی ہے کہ مجھے استادرئیس خاں کے ساتھ کام کرنے کا موقع تونہیں ملا، لیکن ان کے فن سے بخوبی واقف ہوں۔ بہت ہی کمال کے فنکار تھے۔ ان کی گفتگوبہت ہی دلچسپ اورنوجوانوں کیلئے اس میں کوئی نہ کوئی پیغام ہوتا تھا۔ وہ گفتگوکے دوران لفظوں کا استعمال کچھ اس خوبصورتی سے کرتے کہ ان کی نفاست دکھائی دیتی۔ بلاشبہ وہ بہت بڑے فنکارتھے۔

دنیا بھرمیں لوگ انہیں بطورستارنواز ہی جانتے ہیں ، مگروہ خوبصورت آواز کے بھی مالک تھے اوروہ جب گاتے توسچے سُروں کی مالا بن کرسامنے آجاتی۔ میں سمجھتاہوں کہ استاد رئیس خاں کے انتقال سے میوزک کی دنیا کا بہت بڑا نقصان ہوا ہے۔ ان کا فن ہمیشہ ہمارے دلوں میں زندہ رہے گا۔

بھارت کے معروف غزل گائیک ہری ہرن نے کہا کہ استادرئیس خاں نے ستارنوازی کے شعبے میں جومقام حاصل کیا ، وہ کم ہی لوگوںکو نصیب ہوتا ہے۔ استاد رئیس خاں اورشہنائی کے راجا استاد بسم اللہ خاں کی 'جگل بندی' پروگراموںکو چارچاند لگاتی تھی۔ میں سمجھتاہوںکہ اس حوالے سے ہم بہت خوش نصیب ہیں کہ ہمیں ان عظیم فنکاروںکوسننے کا موقع ملا۔ استادرئیس خاں جیسے نایاب لوگ توصدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ میری نیک تمنائیں ان کی فیملی کے ساتھ ہیں۔

پاکستان کے معروف موسیقارمحسن رضا نے کہا ہے کہ استاد رئیس خاں کی شخصیت نے ہمیشہ ہی مجھے بہت متاثرکیا۔ وہ کلاسیکی موسیقی پرعبوررکھتے تھے۔ وہ جتنے اچھے ستارنواز تھے اتنے ہی اچھے گائیک بھی تھے۔ میں نے ان کوبہت قریب سے جانا ہے ۔ وہ فنکاروں کے قدردان اورموسیقی کے فروغ کیلئے ہروقت کوشاں رہنے والی شخصیت تھے۔

معروف گلوکارنعمان جاوید نے کہا کہ میں ان خوش نصیب لوگوں میں سے ایک ہوں جنہیں استاد رئیس خاں کی شاگردی میں رہنے کا موقع ملا۔ یہ زیادہ پرانی نہیں بلکہ کچھ عرصہ پہلے کی ہی بات ہے کہ جب میں نے ان کے شاگرد بننے کی رسم کی تقریب لاہورمیں منعقد کی۔ ان کا لباس، انداز اورگفتگوکسی بھی شخص کواپنا دیوانہ بنا دیتی۔ میں بھی انہی دیوانوں میں سے ایک ہوں۔ اس مختصرعرصہ میں مجھے جب بھی استاد رئیس خاں سے ملاقات کا موقع ملا توانہوں نے بڑی شفقت کے ساتھ مجھے موسیقی کی باریکیوں سے آگاہ کیا۔

استاد رئیس خاں موسیقی اوران کی فیملی کا بہت بڑا نقصان ہے لیکن جونقصان مجھے ہوا ہے، اس کوشاید کبھی بھی لفظوں میں بیان نہیں کرسکتا۔ بس اتنا کہنا چاہوں گا کہ ان کے ساتھ بیتائے لمحے تمام عمر میرے ساتھ رہیں گے اورمیں ان کی کمی کوہمیشہ شدت کے ساتھ محسوس کرونگا۔ میری دعا ہے کہ اللہ پاک ان کی درجات بلند فرمائیں اوران کوجنت الفردوس میں اعلیٰ مقام دیں۔ آمین
Load Next Story