ناقابلِ فراموش تقریب کی روح پرور تقریر
مالکِ کائنات کا ایک اور فیصلہ ہے کہ روزِ محشر ہر شخص کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا
چند روز قبل اپنی مادرِ علمی کیڈٹ کالج حسن ابدال کے پرنسپل میجر جنرل (ر) نجیب طارق کا فون آیا کہنے لگے'' آپکو علم ہوگا کہ کالج کا ایک ہونہار فرزند کیپٹن اسفندیار بخاری بڈھ بیر میں شہید ہوگیا تھا۔کالج ہی کے ایک استاد ظہیر قندیل نے شہید کی زندگی اور کارناموں پر ایک کتاب مرتّب کی ہے اس سلسلے میں کالج میں ایک تقریب منعقد کی جارہی ہے جس میں شہید کے والدین بھی شریک ہونگے۔ ہم چاہتے ہیں آپ بھی اس میں شرکت کریں اور اظہارِ خیال بھی کریں''۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ چیف آف نیول اسٹاف ایڈمرل ذکاء اﷲ (جو اسی کالج کے فارغ التحصیل ہیں) بھی آئیں گے۔ دعوت کئی لحاظ سے پرکشش تھی مادرِ علمی کی زیارت ، شہیدِ وطن کی تقریب میں شرکت کا اعزاز اور شہید کے والدین سے ملاقات ، میں نے فوراً حامی بھر لی۔ تقریب سے پہلے پرنسپل آفس میں ایڈمرل ذکاء اﷲ صاحب سے ملاقات ہوئی۔ وہ صحیح معنوں میں ایک باصلاحیّت اور پروفیشنل امیرالبحرہیں، ہمیشہ کیطرح بڑی عزّت اور تپاک سے ملے۔
ستمبر2015 میں جب دہشت گردوں نے پشاور کے قریب ایئرفورس کالونی بڈھ بیر پر حملہ کیا تو اُسوقت نوجوان کیپٹن اسفندیار بریگیڈ ہیڈکواٹرز میں جی تھری تھا اس لیے اس کی براہِ راست ذمّہ داری نہیں بنتی تھی مگر وہ بہادر اور جری نوجوان حملے کی خبر سنتے ہی موقعہ پر پہنچا اورمادرِ وطن کے دشمنوں کو کیفرِ کردار تک پہنچاتے ہوئے شہادت کے مرتبے پر فائز ہوا۔
کالج ہال میں منعقد ہونے والی اس روح پرور تقریب میں راقم نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ "بلاشبہ اسفند یار ایک outstandingآرمی آفیسر تھا (اس نے PMA سےSword of honour بھی حاصل کی تھی) اس کے سینئرز سمجھتے تھی کہ وہ یقینی طور پر جرنیل بنے گا، مگر ربّ ِ ذوالجلال نے اسے جرنیلوں سے بہت بلند مقام عطا کر دیا ہے۔ اُسے انسانوں کے اس گروہ میں شامل کرلیا جو اﷲ سبحانہ تعالے ٰ کو بہت پسند ہے۔ ربّ ِ ذوالجلال کاmost favourite group۔۔ یعنی قافلہء شہداء۔۔ خدائی پروٹوکول میں جنکا مقام نبیوں کے بعد سب سے بلند ہے اور جنکے لیے خدا نے اپنے اٹل قوانین تک بدل دیے ہیں۔ قدرت کا ایک اٹل قانون اور فیصلہ ہے کہ کلُّ نفسُ ذائقۃُ الموت۔ ہر شخص موت سے ہمکنار ہوگا مگر شہید نہیں۔ شہید زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ اور اپنے رب کی طرف سے انھیں رزق مہیّا کیا جاتا ہے اور کیا جاتا رہیے گا''۔
مالکِ کائنات کا ایک اور فیصلہ ہے کہ روزِ محشر ہر شخص کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا، اور یہ حساب اتنا کڑا ہوگا کہ اﷲکے پیغمبر بھی عمر بھر گڑگڑا کر اپنی مغفرت کی دعائیں کرتے رہتے تھے۔ مگر اس حساب اور احتساب سے بھی ایک گروہ کو مستثنیٰ قرار دے دیا گیا اور وہ بھی قافلۂ شہداء ہے جنکا کوئی حساب نہیں ہوگا۔ سو یہ وہ مقام ہے جسکے حصول کے لیے نبی کریمؐکے قریب ترین ساتھی اور بڑے بڑے اولیا اﷲدعائیں اور تمنّائیںکرتے رہے ۔ بلاشبہ شہیدِ وطن نے جان کی قربانی دیکر اپنے والدین، اساتذہ، اپنے کالج اور تمام ابدالینزکا سر اُونچا کر دیا ہے۔ ایڈمرل صاحب نے بھی اسفند یار شہید کی قربانی کو بھرپور انداز میںخراجِ عقیدت پیش کیا۔
تقریب میں ایئرفورس اور آرمی کے افسران نے شہید کی خوبیوں، فرض شناسی، پیشہ ورانہ لگن اور بہادری کے قصّے سنائے مگر جس تقریر نے سب کا دل موہ لیا وہ جواں سال شہید کی والدہ محترمہ عظمیٰ بخاری صاحبہ کی تھی۔ تمام سامعین کی طرح میرابھی یہی خیال تھا کہ جوان بیٹے کی جدائی کے صدمے سے چُور، ماں کے لیے بیٹے کے متعلّق بات کرنا مشکل ہوگا جوان بیٹے کا ذکر آتا ہے تو ماں کے منہ سے الفاظ نہیں نکلتے ،آنکھوں نے آنسو نکلتے ہیں، جوان بیٹے کی جدائی پر ماں کے گہرے دکھ اور درد سے میں بخوبی آشنا ہوں، ابھی چند مہینے پہلے ہم خو د ایک قیامت خیز حادثے سے دوچار ہوئے ہیں میری ہمشیرہ کا جواںسال ، خوبرو، باکردار، انتہائی مقبول اور سول سروس کا روشن ستارہ اُسامہ احمد (ڈپٹی کمشنر چترال) ایک فضائی حادثے میں اپنی اہلیہ اور بچی سمیت شہید ہوگیا۔ایسے حادثوں سے پورے گھرانے پر قیامت ٹوٹ پڑتی ہے، ماں کے سر پر پہاڑ آگرتا ہے۔
یہ حادثے اتنے شدید ہوتے ہیں کہ بعض اوقات مائیں دماغی توازن کھو بیٹھتی ہیں۔ اس لیے میں سوچ رہا تھا کہ والدہ کے لیے اپنے جواں سال بیٹے کے بارے میں اظہارِ خیال بہت مشکل ہوگا کبھی آواز بھرّا جائے گی، کبھی الفاظ زبان سے پھسل جائینگے اور کبھی الفاظ کی جگہ آنسو نکلیں گے اور وہ بات نامکمّل چھوڑ کر اپنی نشست پر واپس آجائینگی۔ مگر جب والدہ ٔ شہید نے پورے اعتماد کے ساتھ انتہائی جچے تلے الفاظ میں بات شروع کی تو مجھے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ ایک عجیب منظر تھا۔ نوجوان طلباء، اساتذہ اور مہمانوں کی سامنے اسٹیج پر شہید کی تعلیم یافتہ اور باحجاب والدہ بڑی روانی سے اظہارِ خیال کررہی تھیں وہ اپنے دکھ کا نہیں اپنی خوش بختی کا ذکر کررہی تھیں، وہ اپنے خالق اور مالک کا شکر ادا کررہی تھیں کہ ''اُس نے مجھے شہید کی ماں ہونے کا اعزاز بخش دیا ہے''۔ وہ بار بار اپنے اﷲکی رحمتوں کا ذکر کرتی رہیں۔ اپنے نبی ﷺ کے احسانات کے تذکرے کرتی رہیں۔
بلاشبہ ماں کو اپنے قابلِ رشک بیٹے کے کاموں اور کارناموں پر فخر تھا مگر سب سے زیادہ فخر اس بات پر تھا کہ خالقِ کائنات نے اس کے بیٹے کو اپنے مقربّین میں شامل کرلیا ہے۔ ایک حیرت انگیز آواز تھی جو کبھی قرآنی آیات سنارہی تھی اور کبھی احادیثِ رسولِ مقبولﷺ۔ شہید کی والدہ ایک طرف والدین کی ذمّہ داریوں کی نشاندہی کررہی تھیں اور دوسری طرف نوجوانوں کو ان کے فرائض کے بارے میں educateکررہی تھیں۔ یوں لگتا تھا کوئی جنتّ کی مخلوق آسمانوں سے اُتر آئی ہے جو سامعین سے مخاطب ہے۔ مقررّہ کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ سیدھے دل میں اُتر رہے تھے اور پھر وطنِ عزیز کے لیے جان دینے والے شہید کی ماں کی آواز گونجی ''پاکستان جس مقصد کے لیے بنایا گیا تھا ہم اس مقصد سے منحرف ہوگئے ہیں، جس پاکستان کے قیام کے لیے میرے خاندان کے درجنوں افراد قربان ہوئے اور جس پاکستان کے تخفّظ کے لیے میرے جوان بیٹے نے جان دی ہے وہ اس لیے بنا تھا کہ وہاں اﷲ اوراس کے رسولﷺ کا بتایا ہوا دستور العمل نافذ ہو۔
پاکستان بناتے وقت پورے برِّصغیر کے مسلمانوں کی ایک آواز تھی پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الاﷲ آئیں آج پھر ُاسی عہد کو دھرائیں '' پاکباز خاتون کی آواز گونجی ۔پاکستان کا مطلب کیا؟ توسامعین نے بلند آواز سے جواب دیا لاالَہ الاَ ﷲ سب سے بلند آواز پاک بحریہ کے سربراہ کی تھی۔ یوں لگ رہاتھا ہم تحریکِ پاکستان کا حصہ ہیں اور بابائے قوم ؒ کے کسی جلسے میں شریک ہیں، جہاں سب لوگ پاکستان بنانے کے جذبے ولوے سے سرشار ہیں۔ عظمیٰ بہن کا شکریہ کہ انھوں نے ہم سب کو بھولی ہوئی آواز یاد کرادی اور گم کردہ راہ دکھادی ۔
میں ہال سے اُٹھا تو سوچنے لگاکہ کہاں سے ملا ہے اس خاتون کو یہ حوصلہ ؟ کہاں سے ملی ہے یہ توانائی اور یہ بصیرت؟۔ پہاڑ جیسا حوصلہ رکھنے والے اس کے شوہر ڈاکٹر فیاض بخاری نے میرے چہرے پر لکھا سوال پڑھ کر جواب دیا "اُسی سرچشمے سے ۔۔جو ہدایت بھی ہے اور شفاء بھی۔۔سچائی بھی ہے اور توانائی بھی"۔ بلاشبہ خالقِ ارض و سماء ہی صبر اور حوصلے دیتا ہے اور وہی رہنمائی اور توانائی عطا کرتا ہے۔۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ خالق و مالک شہیدوں کی ماؤں کو کسی خاص مٹی سے تخلیق کرتا ہے اور وہ رونے دھونے کے لیے نہیں حوصلے بڑھانے کے لیے پیدا کی جاتی ہیں، قابلِ احترام بہن عظمیٰ گیلانی اگر ملک کے نوجوان ملٹری افسروں اور باجی جبین (اسامہ شہید کی والدہ) سول افسروں سے ہمکلام ہوا کریں تو ان میں جذبے اور ولولے پیدا کرسکتی ہیں اور انھیں کھوئی ہوئی منزل کا پتہ دے سکتی ہیں۔
واپس آکر دوستوں کی ایک محفل میں روداد سنائی تو ایک دین بیزار لبرل نے ناک منہ چڑا کر کہا ، محترمہ کو کالجوں میں خطبے دینے کا کیا حق ہے؟ محفل کے دوسرے تمام شرکاء نے بیک زبان کہا ''وطن پر اپنے جگر گوشے قربان کرنے والی ماؤں کو حق نہیں ہے تو کیا ملک کو لوٹنے والوں اور باہر سے وصولے ہوئے پیسے اور بوتلوں کے عوض ملک کے وجود کے بارے میں ذہنی انتشارپیدا کرنے والوں کو ہی یہ حق حاصل کہ ٹی وی پر آکر جو منہ میں آئے بولتے جائیں؟''۔
ڈاکٹر فیاض صاحب ہوں یاڈاکٹر فیض صاحب ، بہن عظمیٰ بخاری ہوں یا باجی جبین چیمہ۔۔۔ ایسے ہی پاکیزہ کردار والدین کے ہاں اسفندیار اور اسامہ احمد جیسے قابلِ رشک بیٹے پیدا ہوتے ہیں، ایسے ہی قابلِ فخر والدین اپنی پرورش اورتربیّت سے قوم کے لیے خادم، محافظ اور شہید تیار کرتے ہیں۔ اﷲتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ شہداء کے والدین پر اپنی خصوصی رحمتیں نازل فرمائیں، ان کی زندگی کے سفر کو آسان بنادیں ان کے زخموں کو مندمل کردیں اور انھیں صبر، سکون اور راحت نصیب فرمائیں۔
نوٹ:مشرقی پاکستان میں ہمارے بھائیوں ، بہنوں اور بیٹیوں پر بیتی ہوئی قیامت اور ان کے ساتھ پیش آنے والے روح فرسا واقعات (جو قطب الدین عزیز صاحب نے بڑی محنت اور تحقیق کے بعد مرتّب کیے ہیں ) آیندہ تحریر کروںگا۔
ستمبر2015 میں جب دہشت گردوں نے پشاور کے قریب ایئرفورس کالونی بڈھ بیر پر حملہ کیا تو اُسوقت نوجوان کیپٹن اسفندیار بریگیڈ ہیڈکواٹرز میں جی تھری تھا اس لیے اس کی براہِ راست ذمّہ داری نہیں بنتی تھی مگر وہ بہادر اور جری نوجوان حملے کی خبر سنتے ہی موقعہ پر پہنچا اورمادرِ وطن کے دشمنوں کو کیفرِ کردار تک پہنچاتے ہوئے شہادت کے مرتبے پر فائز ہوا۔
کالج ہال میں منعقد ہونے والی اس روح پرور تقریب میں راقم نے اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ "بلاشبہ اسفند یار ایک outstandingآرمی آفیسر تھا (اس نے PMA سےSword of honour بھی حاصل کی تھی) اس کے سینئرز سمجھتے تھی کہ وہ یقینی طور پر جرنیل بنے گا، مگر ربّ ِ ذوالجلال نے اسے جرنیلوں سے بہت بلند مقام عطا کر دیا ہے۔ اُسے انسانوں کے اس گروہ میں شامل کرلیا جو اﷲ سبحانہ تعالے ٰ کو بہت پسند ہے۔ ربّ ِ ذوالجلال کاmost favourite group۔۔ یعنی قافلہء شہداء۔۔ خدائی پروٹوکول میں جنکا مقام نبیوں کے بعد سب سے بلند ہے اور جنکے لیے خدا نے اپنے اٹل قوانین تک بدل دیے ہیں۔ قدرت کا ایک اٹل قانون اور فیصلہ ہے کہ کلُّ نفسُ ذائقۃُ الموت۔ ہر شخص موت سے ہمکنار ہوگا مگر شہید نہیں۔ شہید زندہ ہیں اور ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ اور اپنے رب کی طرف سے انھیں رزق مہیّا کیا جاتا ہے اور کیا جاتا رہیے گا''۔
مالکِ کائنات کا ایک اور فیصلہ ہے کہ روزِ محشر ہر شخص کو اپنے اعمال کا حساب دینا ہوگا، اور یہ حساب اتنا کڑا ہوگا کہ اﷲکے پیغمبر بھی عمر بھر گڑگڑا کر اپنی مغفرت کی دعائیں کرتے رہتے تھے۔ مگر اس حساب اور احتساب سے بھی ایک گروہ کو مستثنیٰ قرار دے دیا گیا اور وہ بھی قافلۂ شہداء ہے جنکا کوئی حساب نہیں ہوگا۔ سو یہ وہ مقام ہے جسکے حصول کے لیے نبی کریمؐکے قریب ترین ساتھی اور بڑے بڑے اولیا اﷲدعائیں اور تمنّائیںکرتے رہے ۔ بلاشبہ شہیدِ وطن نے جان کی قربانی دیکر اپنے والدین، اساتذہ، اپنے کالج اور تمام ابدالینزکا سر اُونچا کر دیا ہے۔ ایڈمرل صاحب نے بھی اسفند یار شہید کی قربانی کو بھرپور انداز میںخراجِ عقیدت پیش کیا۔
تقریب میں ایئرفورس اور آرمی کے افسران نے شہید کی خوبیوں، فرض شناسی، پیشہ ورانہ لگن اور بہادری کے قصّے سنائے مگر جس تقریر نے سب کا دل موہ لیا وہ جواں سال شہید کی والدہ محترمہ عظمیٰ بخاری صاحبہ کی تھی۔ تمام سامعین کی طرح میرابھی یہی خیال تھا کہ جوان بیٹے کی جدائی کے صدمے سے چُور، ماں کے لیے بیٹے کے متعلّق بات کرنا مشکل ہوگا جوان بیٹے کا ذکر آتا ہے تو ماں کے منہ سے الفاظ نہیں نکلتے ،آنکھوں نے آنسو نکلتے ہیں، جوان بیٹے کی جدائی پر ماں کے گہرے دکھ اور درد سے میں بخوبی آشنا ہوں، ابھی چند مہینے پہلے ہم خو د ایک قیامت خیز حادثے سے دوچار ہوئے ہیں میری ہمشیرہ کا جواںسال ، خوبرو، باکردار، انتہائی مقبول اور سول سروس کا روشن ستارہ اُسامہ احمد (ڈپٹی کمشنر چترال) ایک فضائی حادثے میں اپنی اہلیہ اور بچی سمیت شہید ہوگیا۔ایسے حادثوں سے پورے گھرانے پر قیامت ٹوٹ پڑتی ہے، ماں کے سر پر پہاڑ آگرتا ہے۔
یہ حادثے اتنے شدید ہوتے ہیں کہ بعض اوقات مائیں دماغی توازن کھو بیٹھتی ہیں۔ اس لیے میں سوچ رہا تھا کہ والدہ کے لیے اپنے جواں سال بیٹے کے بارے میں اظہارِ خیال بہت مشکل ہوگا کبھی آواز بھرّا جائے گی، کبھی الفاظ زبان سے پھسل جائینگے اور کبھی الفاظ کی جگہ آنسو نکلیں گے اور وہ بات نامکمّل چھوڑ کر اپنی نشست پر واپس آجائینگی۔ مگر جب والدہ ٔ شہید نے پورے اعتماد کے ساتھ انتہائی جچے تلے الفاظ میں بات شروع کی تو مجھے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ ایک عجیب منظر تھا۔ نوجوان طلباء، اساتذہ اور مہمانوں کی سامنے اسٹیج پر شہید کی تعلیم یافتہ اور باحجاب والدہ بڑی روانی سے اظہارِ خیال کررہی تھیں وہ اپنے دکھ کا نہیں اپنی خوش بختی کا ذکر کررہی تھیں، وہ اپنے خالق اور مالک کا شکر ادا کررہی تھیں کہ ''اُس نے مجھے شہید کی ماں ہونے کا اعزاز بخش دیا ہے''۔ وہ بار بار اپنے اﷲکی رحمتوں کا ذکر کرتی رہیں۔ اپنے نبی ﷺ کے احسانات کے تذکرے کرتی رہیں۔
بلاشبہ ماں کو اپنے قابلِ رشک بیٹے کے کاموں اور کارناموں پر فخر تھا مگر سب سے زیادہ فخر اس بات پر تھا کہ خالقِ کائنات نے اس کے بیٹے کو اپنے مقربّین میں شامل کرلیا ہے۔ ایک حیرت انگیز آواز تھی جو کبھی قرآنی آیات سنارہی تھی اور کبھی احادیثِ رسولِ مقبولﷺ۔ شہید کی والدہ ایک طرف والدین کی ذمّہ داریوں کی نشاندہی کررہی تھیں اور دوسری طرف نوجوانوں کو ان کے فرائض کے بارے میں educateکررہی تھیں۔ یوں لگتا تھا کوئی جنتّ کی مخلوق آسمانوں سے اُتر آئی ہے جو سامعین سے مخاطب ہے۔ مقررّہ کے منہ سے نکلے ہوئے الفاظ سیدھے دل میں اُتر رہے تھے اور پھر وطنِ عزیز کے لیے جان دینے والے شہید کی ماں کی آواز گونجی ''پاکستان جس مقصد کے لیے بنایا گیا تھا ہم اس مقصد سے منحرف ہوگئے ہیں، جس پاکستان کے قیام کے لیے میرے خاندان کے درجنوں افراد قربان ہوئے اور جس پاکستان کے تخفّظ کے لیے میرے جوان بیٹے نے جان دی ہے وہ اس لیے بنا تھا کہ وہاں اﷲ اوراس کے رسولﷺ کا بتایا ہوا دستور العمل نافذ ہو۔
پاکستان بناتے وقت پورے برِّصغیر کے مسلمانوں کی ایک آواز تھی پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الاﷲ آئیں آج پھر ُاسی عہد کو دھرائیں '' پاکباز خاتون کی آواز گونجی ۔پاکستان کا مطلب کیا؟ توسامعین نے بلند آواز سے جواب دیا لاالَہ الاَ ﷲ سب سے بلند آواز پاک بحریہ کے سربراہ کی تھی۔ یوں لگ رہاتھا ہم تحریکِ پاکستان کا حصہ ہیں اور بابائے قوم ؒ کے کسی جلسے میں شریک ہیں، جہاں سب لوگ پاکستان بنانے کے جذبے ولوے سے سرشار ہیں۔ عظمیٰ بہن کا شکریہ کہ انھوں نے ہم سب کو بھولی ہوئی آواز یاد کرادی اور گم کردہ راہ دکھادی ۔
میں ہال سے اُٹھا تو سوچنے لگاکہ کہاں سے ملا ہے اس خاتون کو یہ حوصلہ ؟ کہاں سے ملی ہے یہ توانائی اور یہ بصیرت؟۔ پہاڑ جیسا حوصلہ رکھنے والے اس کے شوہر ڈاکٹر فیاض بخاری نے میرے چہرے پر لکھا سوال پڑھ کر جواب دیا "اُسی سرچشمے سے ۔۔جو ہدایت بھی ہے اور شفاء بھی۔۔سچائی بھی ہے اور توانائی بھی"۔ بلاشبہ خالقِ ارض و سماء ہی صبر اور حوصلے دیتا ہے اور وہی رہنمائی اور توانائی عطا کرتا ہے۔۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ خالق و مالک شہیدوں کی ماؤں کو کسی خاص مٹی سے تخلیق کرتا ہے اور وہ رونے دھونے کے لیے نہیں حوصلے بڑھانے کے لیے پیدا کی جاتی ہیں، قابلِ احترام بہن عظمیٰ گیلانی اگر ملک کے نوجوان ملٹری افسروں اور باجی جبین (اسامہ شہید کی والدہ) سول افسروں سے ہمکلام ہوا کریں تو ان میں جذبے اور ولولے پیدا کرسکتی ہیں اور انھیں کھوئی ہوئی منزل کا پتہ دے سکتی ہیں۔
واپس آکر دوستوں کی ایک محفل میں روداد سنائی تو ایک دین بیزار لبرل نے ناک منہ چڑا کر کہا ، محترمہ کو کالجوں میں خطبے دینے کا کیا حق ہے؟ محفل کے دوسرے تمام شرکاء نے بیک زبان کہا ''وطن پر اپنے جگر گوشے قربان کرنے والی ماؤں کو حق نہیں ہے تو کیا ملک کو لوٹنے والوں اور باہر سے وصولے ہوئے پیسے اور بوتلوں کے عوض ملک کے وجود کے بارے میں ذہنی انتشارپیدا کرنے والوں کو ہی یہ حق حاصل کہ ٹی وی پر آکر جو منہ میں آئے بولتے جائیں؟''۔
ڈاکٹر فیاض صاحب ہوں یاڈاکٹر فیض صاحب ، بہن عظمیٰ بخاری ہوں یا باجی جبین چیمہ۔۔۔ ایسے ہی پاکیزہ کردار والدین کے ہاں اسفندیار اور اسامہ احمد جیسے قابلِ رشک بیٹے پیدا ہوتے ہیں، ایسے ہی قابلِ فخر والدین اپنی پرورش اورتربیّت سے قوم کے لیے خادم، محافظ اور شہید تیار کرتے ہیں۔ اﷲتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ شہداء کے والدین پر اپنی خصوصی رحمتیں نازل فرمائیں، ان کی زندگی کے سفر کو آسان بنادیں ان کے زخموں کو مندمل کردیں اور انھیں صبر، سکون اور راحت نصیب فرمائیں۔
نوٹ:مشرقی پاکستان میں ہمارے بھائیوں ، بہنوں اور بیٹیوں پر بیتی ہوئی قیامت اور ان کے ساتھ پیش آنے والے روح فرسا واقعات (جو قطب الدین عزیز صاحب نے بڑی محنت اور تحقیق کے بعد مرتّب کیے ہیں ) آیندہ تحریر کروںگا۔