سمندر پار پاکستانیوں کے دُکھ
بیوی بچوں سے جدائی اور فراق کا یہ عذاب کیسا ہوتا ہے
ISLAMABAD:
اِن کا نام رانا محمد سلیم ہے۔ عمر ہوگی کوئی ساٹھ، پینسٹھ سال۔چند برس پہلے اُن سے میری پہلی ملاقات نیویارک میں ہُوئی تھی۔ شریف آدمی ہیں۔نماز روزے کے پابند۔ کئی سال تنہا ہی امریکہ ایسے مادر پدر آزاد معاشرے میں زندگی بتاتے رہے لیکن خود کو کسی اخلاقی مرض میں مبتلا نہ ہونے دیا۔ معاشی ہجرت کر کے بڑے جوکھوں سے امریکہ پہنچے تھے۔ کئی سال تو لگ گئے گرین کارڈ حاصل کرنے میں ۔ پھر امریکی پاسپورٹ کے حصول میں مزید چند برس بیت گئے۔ اِس دوران پیچھے، پاکستان میں، بال بچوں اور بیوی کی مسلسل جدائی کا عذاب بھی برداشت کرتے رہے۔
بیوی بچوں سے جدائی اور فراق کا یہ عذاب کیسا ہوتا ہے، اس کا اندازہ بس وہی لوگ لگا سکتے ہیں جو اچھے دنوں کے خواب آنکھوں میں سجائے اس نفسیاتی آزمائش سے گزرتے ہیں۔پھر بیوی بچوں کو امریکہ لانے اور انکم ٹیکس کا پیٹ بھرنے کے لیے وہ کئی سال امریکی وکیلوں کے شکنجے میں جکڑے رہے۔ خدا خدا کرکے یہ مراحل طے ہُوئے۔تب جا کر ڈیڑھ، دو عشرے کے بعد بیوی بچوں سے فراق کا یہ سلسلہ وصال میں بدل سکا۔ رانا محمد سلیم نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ بیقراری اور بے چینی کے سمندر میں ہچکولے کھاتی زندگی کو قدرے قرار آگیا تھا۔ پہلے وہ نیویارک میں کرائے کے ایک چھوٹے سے فلیٹ میں رہتے تھے لیکن اب اُنہوں نے بینک کے قرض سے اپناذاتی مکان خرید لیا تھا۔ اس مکان کی ماہوار قسطیں وہ اب بھی ادا کرتے ہیں۔ وہ خود بھی کنسٹرکشن کا چھوٹا موٹا کاروبار کرتے ہیں۔ ایک ہم زبان امریکی بھی اب اُ ن کا بزنس پارٹنر ہے۔پاکستان آئیں تو پیچھے وہی کام سنبھالتا ہے۔
گوجرانوالہ کے قریب ایک معروف قصبے میں سسرال رکھنے والے رانا محمد سلیم نے بیوی بچوں کے نیویارک آنے کے بعد سوچا تھا کہ اب اُن کی آزمائشیں ختم ہو چکی ہیں۔ شب وروز کی مزدوری اور محنت کے بعد زندگی میں سکون اور ٹھہراؤ آگیا تھا۔اللہ نے مگر اُن کے صبر کا ابھی مزید امتحان لینا تھا۔ ایک روز رانا محمد سلیم نیویارک میں اپنی کنسٹرکشن سائیٹ پر کھڑے مزدُوروں سے کام کروا کر رہے تھے کہ موبائل فون پر گھنٹی بجی۔ دوسری طرف اُن کی اہلیہ محترمہ تھیں جو گھبرائے لہجے میں اُنہیں فوری طور پر ایک مقامی اسپتال پہنچنے کا کہہ رہی تھیں۔ وہ بھاگم بھاگ اسپتال پہنچے تو غش کھاتی اہلیہ کو کوریڈور میں پایا۔ ڈاکٹر اُنہیں ایک کمرے میں لے گئے۔
رانا سلیم کے سامنے سفید بستر پر اُن کے سب سے بڑے اور جوان بیٹے کا خون سے لَت پَت، بے روح بدن پڑا تھا۔ ڈاکٹروں نے بتایا کہ بھاری موٹر سائیکل پر سوار تیز رفتار ی کرتا اُن کا بیٹا بڑی سڑک پر ایکسیڈنٹ کا شکار ہُوا ہے اور اب اِس دنیا میں نہیں رہا۔ خاموش طبع اور صابر باپ کے غم کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے جس نے کئی جوکھم کے بعد بچوں کو سات سمندر پار سے اپنے پاس بلایا تھا اور اب اچانک بڑا بیٹاہاتھ سے ایسے نکل گیا تھا جیسے بند مُٹھی سے ریت نکل جاتی ہے۔ بیٹے سے وابستہ کی گئی لاتعداد توقعات کا محل زمین بوس ہو گیا تھا۔ پردیس میں دل کو ڈھارس دینے والا بھی کوئی نہ تھا۔بکھرتے دل و دماغ کو مگر سنبھالاکہ اگر وہ مستقل بکھر جاتے تو نیا نیا امریکہ آیااُن کا سارا گھرانہ منتشر ہو کر رہ جاتا۔
کوئی اگر یہ سمجھتا ہے کہ سمندر پار بسنے والے پاکستانی رانا محمد سلیم کے دکھ اور غم اُن کے بیٹے کی رُخصتی کے ساتھ ہی ختم ہو گئے تھے تو اُسے غلط فہمی ہُوئی ہے۔ پہلے اللہ کی طرف سے ایک بڑی آزمائش کا سامنا کرنا پڑا تھا اور اب اُنہیں اپنے ہم وطنوں اور قریبی رشتہ داروںکی طرف سے دیے گئے کچوکے اور مصائب برداشت کرنا تھے۔وہ مگر نہیں جانتے تھے کہ یہ مکان اُن کے لیے وبالِ جان اور سنگین مسائل کا سامان بن جائے گا۔اِس مکان کے نزدیک ہی اُن کے ایک قریبی عزیز رہتے ہیں۔ یہ صاحب ہی مکان کی خریداری میں درمیان داری کا کردار ادا کر رہا تھا۔ رانا محمد سلیم اُس پر اس لیے بھی اندھا اعتبار اور اعتماد کرتے تھے کہ وہ جب بھی نیویارک سے لاہور آتے، یہی صاحب ہمیشہ اُن کی میزبانی کیا کرتے تھے۔ رانا صاحب نے پچاس لاکھ روپے سے زائد کی نقد رقم مالکِ مکان کو ادا کی اور حقِ ملکیت حاصل کر کے چابی اپنے پاس رکھ لی۔ اُنہیں اپنے کاروبار کے سلسلے میں جَلد ہی واپس نیویارک جانا تھا ؛چنانچہ قریبی رشتہ دار نے اُنہیں کہا: چچا جان، آپ بے فکر ہو کرامریکہ جائیں، مکان کی رجسٹری آپکو نیویارک پہنچ جائے گی۔ چند ماہ بعد مکان کی رجسٹری رانا صاحب کو نیویارک پہنچ گئی۔ وہ شانت ہو گئے۔
ابھی مگر رانا محمد سلیم کے لیے امتحان کے کئی مدارج باقی تھے۔ کسی کام کے لیے اُن کی اہلیہ محترمہ کو اچانک پاکستان آنا پڑا۔ وہ اپنے مکان پر گئیں تو اُس کی ڈیزائننگ اُنہیں پسند نہ آئی۔ اُنہوں نے اسے نسبتاً جدید شکل دینے کی ٹھانی۔ اِسی دوران اُنہیں مکان کی ملکیت کے بارے میں بھی کچھ شبہ ہُوا۔اِس کا بین السطور ذکر اُنہوں نے اپنے شوہر سے کیا تو وہ سٹپٹائے بھی اور ناراضی سے یہ بھی کہا کہ وہ اُن کے انتہائی قریبی رشتہ دار پر شک نہ کریں۔ بہرحال بیوی کا شک دُور کرنے کے لیے رانا محمد سلیم نے نیویارک میں بیٹھے بیٹھے لاہور سے اپنے مکان کی رجسٹری چیک کروائی تو یہ انکشاف اُن پر بم بن کر گرا کہ اُن کے پاس مکان کی جو رجسٹری ہے، وہ تو جعلی ہے جب کہ اصل رجسٹری اُن کے قریبی رشتہ دار کے نام ہے جن پر اُنہوں نے اعتماد کیا تھا۔ یہیں سے شدید پھڈے کا آغاز ہُوا۔ رانا صاحب کی عمر بھر کی کمائی اور بچت ڈوب رہی تھی۔
اُن کہ اہلیہ نے اپنے سابق پولیس افسر بھائی کو درمیان میں ڈالا لیکن ناکام رہیں۔ پھر سب رشتہ داروں کو بھی اکٹھا کیا، لیکن کچھ نہیں ہوا۔ رانا صاحب کی اہلیہ مایوس اور ناکام ہو کر واپس نیویارک چلی گئیں کہ سمندر پاکستانیوں کی پاکستان میں جائیدادوں اور پلاٹوں پر قبضہ کرنے والے اِسی کمزوری سے فائدہ اُٹھاتے ہیں۔ یہ سمجھ کر کہ وہ کہاں روز روز سمندر پار سے واپس پاکستان آ کر مقدمات اور تھانہ کچہری کے عذاب برداشت کر سکیں گے۔ کچھ عرصہ گزرنے کے بعد اب اس مکان کی قیمت بھی بڑھ چکی ہے۔ رانا محمد سلیم انصاف اور مکان حاصل کرنے آجکل پاکستان آئے ہُوئے ہیں۔ حکومت نے سمندر پار پاکستانیوں کے ایسے ہی جائیدادوں کے جھگڑے جَلد نمٹانے کے لیے ایک دفتر بنا رکھا ہے ۔ لیکن وہاں بھی سکوت ہے۔رانا محمد سلیم کا دل رکھنے کے لیے اسے ایک مبہم سا چیک بھی تھما دیا گیا ہے لیکن مکان نہیں دیا ہے۔ دل برداشتہ رانا صاحب نے دُکھے دل کے ساتھ مجھے یہ کتھا اِس اُمید کے ساتھ سنائی ہے کہ شائد میڈیا اُن کی کوئی مدد کر سکے۔